رســـــــــــــــــــــالة
اصولِ سنت
از امام احمد بن حنبل
اردو استفاده: حامد كمال الدين
امام
احمد کا یہ ایک نہایت مختصر رسالہ ’’اصولِ سنت‘‘ پر پائے جانے والے متون میں سے
اہم متن ہے۔ اِس رسالہ کی شرح پر مشتمل ویڈیو لیکچر کی سی ڈی مطبوعاتِ ایقاظ سے
طلب کی جاسکتی ہے۔
رســـــالــة: أصــــــــــــول
الســـــــــنة
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
’’اصول سنت‘‘ ہمارے ہاں یہ ہیں کہ:
1.
وہ چیز جس پر اصحابؓ رسول اللہؐ تھے، اس سے چمٹ کر رہنا۔
2.
اُن کی اقتداء کرنا۔
3.
اور نئی ایجادات کو ترک کر رکھنا۔
4.
کیونکہ ہر نئی اپج (بدعت) ضلالت ہے۔
5.
کلامی بحثوں کو چھوڑنا
6.
اہل اھواء کی ہم نشینی کو ترک کر
رکھنا۔
7.
دین کے اندر دلیل بازی اور جدال اور
کلام کو ترک کر کے رکھنا ‘‘۔
سنت قرآن کی تفسیر کرتی ہے۔ سنت دراصل دلائلِ قرآن
ہے۔ سنت میں کوئی قیاس نہیں ہے۔ سنت کےلیے مثالیں ہرگز نہ بنائی جائیں گی۔ نہ سنت
محض عقول سے معلوم کی جائے گی۔ اور نہ اھواء سے۔ سنت محض اتباع ہے، اور اھواء سے
دستکش ہوجانا ہے۔
سنت جوکہ لازم ہے، اور جس کا ایک حصہ بھی کسی نے ترک
کیا تو وہ سنت کو قبول کرنے اور اس پر ایمان رکھنے والا نہ ہوا، اور نہ وہ سنت کے
’’اہل‘‘ میں رہا... یہ اشیاء ہیں:
1.
ایمان لانا تقدیر پر، اچھی اور بری،
اس میں وارد احادیث کو سچ ماننا اور ان پر ایمان رکھنا۔ نہ اس پر یہ کہے کہ کیوں، اور
نہ یہ کہے کہ کیسے۔ بس سچ مانتے جانا ہے اور ایمان رکھتے جانا ہے۔ جس کو حدیث کی
تفسیر معلوم نہ ہواور اس کی عقل اس کو نہ پہنچ پائےتو اس کو کفایت کردی گئی۔ اور
اس کےلیے وہ محکم ہے۔ بس اس کو چاہئے اس پر ایمان رکھے اور اس کو تسلیم کرےجیسے
صادقِ مصدوق کی حدیث ہوتی ہے اور جیسی احادیث تقدیر کے معاملہ میں وارد ہوئی ہیں۔
یا جیسی احادیث دیدارِ خداوندی کی بابت وارد ہیں۔
اگرچہ ان احادیث کی سماعت بھاری ہو اور سننے والا اس پر ہکا بکا محسوس کرے،
بس اس پر واجب ہے کہ وہ ان پر ایمان رکھے اور اس کا کوئی ایک حرف بھی رد نہ کر
بیٹھے۔ اس کے علاوہ احادیث بھی جو ثقہ مصادر سے مروی ہیں (ان کے ساتھ یہی معاملہ
کرے)۔
2.
جدال نہ سیکھے؛ کیونکہ تقدیر، دیدارِ
خداوندی اور قرآن (مخلوق یا غیرمخلوق) اور اس طرح کے مسائل میں کلام کرنا ہی
ناپسندیدہ اور ممنوع ہے۔ ایسا کرنے والا شخص اگرچہ وہ اپنے کلامی عمل سے
سنت کو پا بھی لے اہل سنت نہیں ہوتا یہاں تک کہ جدال ہی کو ترک نہ کردے اور آثار
کے ساتھ سیدھا سیدھا ایمان نہ لے آئے۔
3.
قرآن کو اللہ کا کلام ماننا ہے اور
مخلوق نہیں کہنا: یہ کہنے میں ہرگز نہ جھجکے کہ قرآن اللہ کی مخلوق نہیں ہے۔
کیونکہ اللہ رب العزت کا بولنا اللہ رب العزت سے الگ نہیں ہے؛ اور اس کی کوئی چیز
مخلوق نہیں ہے۔ خبردار جس آدمی نے اس باب میں کوئی نئی بات گھڑ لی ہے اس کے ساتھ
مناظرے میں ہرگز نہ پڑنا۔ جو شخص یہاں ’لفظ‘ وغیرہ کی بحثیں چھیڑے، یا اس معاملہ
میں توقف کرے اور کہے مجھے نہیں معلوم کہ مخلوق ہے یا نہیں مخلوق ہے، بس یہ کلام
اللہ ہے، تو ایسا شخص بدعتی ہے، یہ بھی اُسی جیسا ہے جو کہتا ہے قرآن مخلوق ہے۔
قرآن صرف اور صرف کلام اللہ ہے، مخلوق نہیں ہے۔
4.
روزِ قیامت دیدارِ خداوندی پر ایمان۔
جیساکہ نبیﷺ سے صحیح احادیث کے اندر وارد ہوا۔ اور یہ کہ نبیﷺ نے اپنے پروردگار کو
دیکھا ہے، اور یہ بات رسول اللہﷺ سے صحیح طور پر ماثور ہے، جس کے راوی عبد اللہ
ابن عباسؓ ہیں۔ یہ حدیث ہمارے ہاں رسول اللہﷺ سے جیسے آئی ویسے ہی اپنے ظاہر پر لی
جائےگی اور اس میں کلام کرنا بدعت۔ بس یہ جیسے آئی ویسے ہی اس کے ظاہر پر ایمان رکھا
جائے گا اور اس کے معاملہ میں مناظرہ بازی نہ ہوگی۔
5.
قیامت کے روز میزان لگنے پر ایمان۔
جیسے نصوص میں وارد ہوا۔ مثلاً حدیث: يُوزن العَبْد يَوْم الْقِيَامَة فَلَا يزن جنَاح بعوضة ’’بندہ روزِ قیامت تولا جائے گا اور اس کا مچھر
کے پر برابر بھی وزن نہ نکلے گا‘‘۔بندوں کے اعمال تولے جائیں گے جیساکہ آثار میں
وارد ہو۔ اس پر ایمان رکھنا اور اسکی تصدیق کرنا، جو شخص ان آثار کو رد کرے اس سے
رخ پھیر لینا۔ اسکے ساتھ بحث سے دور رہنا۔
6.
نیز یہ کہ بندے روزِ قیامت اللہ
تعالیٰ سے ہم کلام ہوں گے ان کے اور اس کے مابین کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ اس کی تصدیق
کرنا۔
7.
حوض کے ساتھ ایمان۔ اور یہ کہ قیامت
کے روز رسول اللہﷺ کا حوض ہوگا، آپؐ کی امت اس پر پانی پینے آئے گی۔ اس کی چوڑائی
ایک مہینہ مسافت جتنی ہے۔ اس کے آبخورے آسمان کے ستاروں جتنے ہیں، جیسا کہ اس پر
صحیح اخبار متعدد طرق سے وارد ہوئی ہیں۔
8.
نیز عذابِ قبر۔ اور یہ کہ اِس امت کا
اس کی قبروں کے اندر امتحان ہوتا ہے اور ایمان اور اسلام کی بابت سوال ہوتے ہیں
اور یہ پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون اور تیرا نبی کون ہے۔ اس کے پاس منکر اور
نکیر آتے ہیں، جس انداز میں خدا کی مشیئت ہوتی ہے۔ اس پر ایمان رکھنا اور اس کو سچ
ماننا۔
9.
نبیﷺ کی شفاعت پر ایمان۔ اور یہ کہ
ایسے ایسے لوگ دوزخ سے نکل آئیں گے جو جل جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے، تب ان کی
بابت حکم دیا جائے گا کہ انہیں جنت کے دھانے پر ایک ندی میں نہلایا جائے، جیسا کہ
آثار میں آیا ہے۔ یہ ہوگا جس طرح اور جس انداز میں خدا کی مشیئت ہوگی۔ اس پر ایمان
رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا۔
10.
اس چیز کے ساتھ ایمان رکھنا کہ مسیح
دجال نکلنے والا ہے۔ اس کی آنکھوں کے مابین لکھا ہوگا: کافر۔ اس معاملہ میں وارد
احادیث کو ماننا اور یہ ایمان رکھنا کہ یہ ہوکر رہنے والا ہے۔
11.
اور یہ کہ عیسی بن مریمؑ نازل ہونے
والے ہیں اور دجال کو لد کے مقام پر قتل کریں گے۔
12.
اور یہ کہ ایمان قول اور عمل ہر دو کا
نام ہے جو بڑھتا اور گھٹتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أكمل الْمُؤمنِينَ إِيمَانًا أحْسنهم خلقا
’’مومنوں میں کامل تر ایمان والا وہ ہے جو کامل تر اخلاق والا ہے‘‘۔
13.
نماز کا تارک کافر ہے۔ اعمال میں کوئی
چیز ایسی نہیں کہ جس کا ترک کفر ہو، سوائے نماز کے۔ جو شخص نماز چھوڑ دے وہ کافر
ہے، خدا نے اس کا قتل حلال کیا ہے۔
14.
اس امت میں برگزیدہ ترین، اس کے نبیؐ
کے بعد ابو بکرؓ صدیق ہیں۔ پھر عمر بن خطاب۔ پھر عثمان بن عفان۔ ان تینوں کو ہم
مقدم کریں گے جیسے اصحابِ رسول اللہؐ نے ان کو مقدم رکھا اور اس میں کوئی اختلاف
نہ کیا۔ پھر ان تینوں کے بعد پانچ اصحابِ شوریٰ: علی بن ابی طالبؓ، زبیر بن
العوامؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، اور طلحہ بن عبید اللہ۔ یہ سب خلافت کے اہل ہیں اور سب امام ہیں۔ ہم
عبد اللہ بن عمرؓ والی حدیث پر ہیں، فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کی زندگی میں اور آپؐ
کے سب اصحاب کی موجودگی میں یوں گِنا کرتے تھے: ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان، اور
اس کے بعد ہم خاموش ہوجاتے۔ پھر اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین میں سے اہل بدر۔ پھر
انصار میں سے اہل بدر، پھر اصحابِ رسول اللہؐ اپنی اپنی ہجرت اور سبقت کے ترتیب
سے۔ پھر ان صحابہؓ کے بعد افضل ترین وہ پوری نسل ہے جس میں رسول اللہﷺ کی بعثت
ہوئی خواہ ان میں سے کسی نے رسول اللہﷺ کی صحبت ایک برس کےلیے پائی یا ایک مہینہ
یا ایک دن یا ایک گھڑی کےلیے، جس کو بھی آپﷺ کا دیدار نصیب ہوا اس کو اپنی صحبت کے بقدر آپؐ کا صحابی ہونے کا
شرف حاصل ہے۔ ان میں سے ہر کسی کو آپ کا ساتھ دینے میں جتنی سبقت حاصل ہوئی، جتنا
کسی نے آپﷺ کو سنا، جتنا آپﷺ کا دیدار پایا اتنا ہی وہ دوسروں کی نسبت افضل ہے۔
رسول اللہﷺ کی سب سے کم صحبت پانے والا شخص بھی اُس زمانے کے لوگوں سے بہتر ہے جو
نبیﷺ کو دیکھ نہیں پائے۔ یہ بعد کے لوگ اگر اپنے سب اعمال کے ساتھ بھی خدا سے ملیں
تو وہ لوگ جو آپﷺ کی صحبت اور دیدار سے فیضیاب ہوئے اور آپﷺ سے براہِ راست سنا ان
تابعین سے افضل ہیں اگرچہ یہ خیر کے سب اعمال کیوں نہ کرلیں۔
15.
سمع و طاعت ائمہ اور امیرالمؤمنین
کےلیے، خواہ وہ نیکوکار ہوں یا بدکار۔ نیز جو خلافت کا منصب سنبھالے، لوگ اس پر
جمع ہوں اور راضی ہوں۔ نیز جو ان پر تلوار کے زور پر غالب آجائے یہاں تک خلیفہ بن
جائے اور امیرالمؤمنین کہلانے لگے۔
16.
کفار پر چڑھائی، امام کی سرکردگی میں،
قیامت تک باقی ہے، خواہ امام نیک ہو یا بدعمل۔ یہ فرض نہیں چھوڑا جائے گا۔اموالِ
فےء کی تقسیم، حدود قائم کرنا ائمہ کی جانب لوٹایا جائے گا، کسی کو حق نہیں کہ ان
پر طعن کرے یا ان کے ساتھ اس پر منازعت کرے۔
17.
اموالِ زکاۃ امراء کو دینا جائز اور
نافذ ہوگا۔ جو ان کو ادا کرے گا اس کا ذمہ ادا ہوجائے گا، امیر خواہ نیک ہو یا
بدعمل۔ نمازِ جمعہ اس کے پیچھے یا اس کے مقرر کردہ شخص کے پیچھے جائز ہے۔ باقی ہے۔
مکمل ہے۔ دو رکعتیں۔ جو ان کو دہرائے گا وہ مبتدع ، آثار کا تارک اور سنت کا مخالف
ہے، وہ جمعہ کی فضیلت سے کچھ حصہ نہیں پانے والا اگر وہ امراء کے پیچھے نماز ادا
کرنے کا قائل نہیں خواہ امراء نیک ہوں یا بد۔ سنت یہی ہے کہ ان کے ساتھ دو رکعتیں
ادا کرو اور دین میں ان کو مکمل جانو، اس پر تمہارے سینے میں خلجان نہ آنا چاہئے۔
18.
اور جو شخص مسلمانوں کے ائمہ میں سے
کسی امام کے خلاف خروج کرے درحالیکہ وہ اس پر جمع تھے، اور اس کی خلافت پر انہوں
نے کسی بھی طرح صاد کرلیا تھا خواہ خوشی سے خواہ مغلوب ہوکر، تو ایسے شخص نے
مسلمانوں کا نظم توڑ ڈالا، اور رسول اللہﷺ سے مروی آثار کی خلاف ورزی کی۔ پھر اگر
یہ خروج کرنے والا مر جائے تو جاہلیت کی موت مرے گا۔ سلطان کے خلاف قتال یا خروج
کرنا کسی کےلیے جائز نہیں؛ جو یہ کرے گا مبتدع ہوگا، سنت اور منہج پر نہیں
ہوگا۔ چوروں ڈاکوؤں اور خوارج کے خلاف
قتال جائز ہے جب یہ چیز کسی انسان کو پیش آجائے، اُس کی اپنی جان یا مال کے معاملہ
میں۔ تب اس کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنی جان یا مال کے تحفظ کےلیے قتال کرے اور جس
چیز کی قدرت رکھتا ہے اس سے کام لے کر اپنا تحفظ کرے۔ ہاں اگر وہ اس کو چھوڑ کر
چلے جائیں تو ان کے پیچھے جانا اور ان کی تلاش کرتے پھرنا اس کےلیے جائز نہیں۔ یہ
حق کسی کا نہیں سوائے امام کے یا مسلمانوں کے والیوں کے۔ عام آدمی کا حق ہے کہ بس
اپنے تحفظ کےلیے موقع پر کوئی اقدام کرلے۔ اس وقت بھی وہ نیت کرے گا کہ حتی
الامکان کسی کی جان نہ لے۔پھر بھی اگر اپنے تحفظ کے دوران اس کے ہاتھ سے کوئی شخص
مر جاتا ہے تو مرنے والا خدا کے ہاں مردود ہو۔ اور اگر اپنی جان یا مال کا تحفظ
کرتے ہوئے یہ مارا جاتا ہے تو امید ہے شہادت پائے گا جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔
اس باب میں جتنے آثار وارد ہوئے ہیں وہ اس کو قتال کی ہدایت کرتے ہیں نہ کہ قتل
کی، یا اُس شخص کا پیچھا کرنے کی۔ اگر یہ اُس کو گرا لے یا زخمی کرلے تو اُس کا کام
تمام نہیں کرے گا۔ اگر اُس کو قید کرلے تو اُس کو قتل نہیں کرے گا اور نہ اُس پر
حد قائم کرنے چل دے گا۔ بلکہ وہ اس کے معاملہ کو اُس شخص کے پاس لے کر جائے گا جس
کو اللہ نے والی بنایا ہے، اور وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔
19.
ہم اہل قبلہ کےلیے اس کے کیے ہوئے کسی
عمل کے باعث نہ جنت کی شہادت دیں گے اور نہ دوزخ کی۔ نیک آدمی کےلیے ہم امید رکھیں
گے گو اندیشہ اس کی بابت بھی رکھیں گے۔ بد آدمی پر ہم اندیشہ رکھیں گے گو امید اس
کی بابت بھی رکھیں گے۔ خدا کی رحمت کی امید۔ جو شخص خدا سے ایسے عمل کے ساتھ ملے
جو دوزخ کا موجب ہے، اس حالت میں کہ وہ اس سے تائب ہوگیا تھا اور اس پر مصر نہ رہا
تھا، تو ایسے شخص کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ اپنے تائب بندوں کی توبہ قبول
فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ جو شخص اللہ سے اس حالت میں ملے کہ دنیا
میں اس پر ایک گناہ کی حد قائم کردی گئی تھی تو وہ اس کے حق میں کفارہ ہوجاتا ہے،
جیسا کہ رسول اللہﷺ سے وارد حدیث میں آیا ہے۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ قابل مواخذہ گنا ہوں پر مصر تھا تائب نہ
ہوا تھا تو اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے، چاہے تو اس کو عذاب دے اور چاہے تو بخش
دے۔ جو خدا کو اس حال میں ملے کہ کافر
تھا، اس کو وہ عذاب دے گا معاف نہیں کرے گا۔
20.
رجم حق ہے، شادی شدہ زانی پر، اس وقت
جب وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے، یا اسکے خلاف شہادت مل جائے۔ رجم کی سزا خود رسول
اللہﷺ نے دی ہے، ائمۂ راشدین نے دی ہے۔
21.
جو شخص اصحابِؓ رسول اللہؐ میں سے کسی
ایک کی عیب جوئی کرے یا اس سے بغض رکھے اُس سے سرزد ہونے والی کسی بات کے باعث، یا
جو اُس کی برائیاں بیان کرے، وہ مبتدع ہے جب تک وہ اُن سب کےلیے رحمت کا سوالی نہ
ہو اور جب تک وہ سب کی بابت اپنا دل صاف نہ کرلے۔
22.
نفاق کفر ہی ہے۔ یعنی وہ کفر کرے اللہ
کے ساتھ اور اس کے ماسوا کی عبادت کرے جبکہ علانیہ وہ اسلام ظاہر کرتا ہو، جیسے وہ
منافقین جو رسول اللہﷺ کے عہد میں تھے۔ رسول اللہﷺ کا یہ فرمانا کہ ثَلَاث من كن فِيهِ فَهُوَ مُنَافِق ’’تین باتیں جس آدمی میں ہوں وہ منافق ہے‘‘ یہ
ایک چیز کی شناعت بیان کرنے کےلیے ہے۔ ہم اس کو اُسی طرح بیان کریں گے جس طرح یہ
آئی ہے، اس کو قیاس نہیں بنائیں گے۔ آپﷺ کا فرمانا: لَا
ترجعوا بعدِي كفَّارًا ضلالا يضْرب بَعْضكُم رِقَاب بعض ’’میرے بعد کفّار گمراہ نہ ہو رہنا کہ ایک دوسرے
کی گردنیں مارتے پھرو‘‘ یا مثلاً آپﷺ کا یہ فرمان : إِذا التقى المسلمان بسيفهما فالقاتل والمقتول فِي النَّار ’’جب جو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے
مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘، یا مثلاً آپﷺ کا یہ فرمان: سباب الْمُسلم فسوق وقتاله كفر ’’مسلمان کے ساتھ
گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر‘‘ یا مثلاً آپﷺ کا یہ قول: (من قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِر فقد بَاء بهَا أَحدهمَا ’’جو اپنے بھائی کو کہے اے کافر، تو ان دونوں
میں سے ایک اس کا حقدار بن کر رہے گا‘‘ یا مثلاً
آپﷺ کا یہ فرمان: كفر بِاللَّه تبرؤ من نسب وَإِن دق ’’خدا کے ساتھ کفر ہے کسی نسب سے براءت
کرنا، چاہے وہ غیرمحسوس ہی کیوں نہ ہو‘‘ یا اسی طرح کی
دیگر احادیث جو صحیح اور محفوظ ہوں، تو ہم ان کو تسلیم کریں گے اگرچہ ہم ان کی تفسیر
نہ بھی جانیں۔ ہم ان کی بابت کلام زنی نہیں
کریں گےاور نہ بحثیں کریں گے۔ ہم ان احادیث کی کچھ تفسیر نہ کریں گے سوائے وہی جو
احادیث میں آگئی۔ ان نصوص کو رد نہیں کریں گے سوائے کسی ایسی نص ہی کے ساتھ جو ان سے
بڑھ کر حق رکھتی ہو۔
23.
جنت اور دوزخ تخلیق شدہ ہیں، جیساکہ
رسول اللہﷺ سے اس طرح کی احادیث میں ملتا ہے: ’’میں جنت میں داخل ہوا تو دیکھا ایک
محل ہے۔ اور میں نے کوثر کو دیکھا۔ میں نے جنت میں جھانکا تو ان کی زیادہ تعداد
ایسی پائی۔ یا میں نے دوزخ میں جھانکا تو
اس میں یہ اور یہ دیکھا۔ پس جو یہ نظریہ رکھے کہ جنت دوزخ ابھی پیدا نہیں ہوئیں وہ
قرآن اور احادیثِ رسول اللہﷺ کو جھٹلانے والا ٹھہرتا ہے، اور میرا نہیں گمان کہ وہ
جنت اور دوزخ پر ایمان رکھتا ہے۔
24.
اور اہل قبلہ میں سے جو شخص توحید کی
حالت پر مرے، اس کا جنازہ پڑھیں گے، اس کےلیے استغفار کریں گے۔ اس کو استغفار اور
جنازہ سے کسی گناہ کے باعث محروم نہ کردیا جائے گا خواہ وہ صغیرہ ہو یا کبیرہ، اس
کا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔
امام احمد کی تالیف کا
عربی متن