المورد کا ’منزلۃ بین المنزلتین‘:
معتزلہ
کی روحوں سے معذرت کے ساتھ!
حامد
کمال الدین
’ڈیناسار‘ کی طرح وہ مخلوق بھی
جسے آپ ’’کافر‘‘ کہتے تھے دنیا میں اب کہیں نہیں پائی جاتی! ’’کفار‘‘ کے دنیا سے اٹھ جانے کا یہ
واقعہ سوا ہزار سال پہلے پیش آیا بلکہ سوا ہزار سے بھی زائد عرصہ پیشتر، مگر اسکا
انکشاف آج جاکر ہوا؛ کیونکہ اس سے پہلے دنیا میں المورد نہیں پایا جاتا تھا!
ہماری یہ تحریر بنیادی طور پر
برادرم زاہد صدیق مغل کو سیکنڈ کرنے کےلیے ہے۔ دیکھئے فیس بک پر ان کی یہ تین
تحریریں:
https://www.facebook.com/zahid.mughal.5895/posts/544678765625536
https://www.facebook.com/zahid.mughal.5895/posts/545231245570288
https://www.facebook.com/zahid.mughal.5895/posts/545710042189075
المورد کی بابت ہم نے بھی سن
یہی رکھا تھا۔ مذکورہ بالا تحریریں پڑھ کر ہم نے مزید پتہ
کیا، واقعتاً المورد کا یہی موقف بنتا ہے: دنیا میں ’’کافر‘‘ نام کی مخلوق صدیوں
پہلے ناپید ہوچکی؛ اب دنیا میں جتنے بھی انسان بستے ہیں خواہ وہ یہودی ہو، عیسائی
ہو، ہندو ہو، دہریہ atheist ہو، شیطان پرست ہو devil worshiper ہو، ’’کافر‘‘ نہیں کہلا سکتا۔
اس کی دلیل؟
ظاہر ہے قرآن!
قرآن تو یہ کہیں نہیں کہتا۔ کیا
پوری امت قرآن نہیں پڑھتی؟ پوری امت کو آج تک کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی۔
نہیں، المورد کا فہمِ قرآن۔
قرآن کو دراصل کچھ ’فارمولے‘
لگتے ہیں جو المورد وغیرہ سے ہی ملتے ہیں، اس سے پہلے یہ کہیں دستیاب نہیں تھے (اگر کہیں تھے
تو براہِ کرم ضرور ہمیں ان کی نشاندہی کرکے دیجئے)۔ المورد کی ہٹی سے یہ فارمولے خریدیے، قرآن کو
لگائیے، آپ خود دیکھیں گے یہی جواب آتا ہے: کوئی جیسے مرضی خدا کا انکار کرے،
رسولؐ کا انکار کرے، آخرت کا انکار کرے، خدا اور رسولؐ کو گالی کیوں نہ دے لے، زور
لگالے، کافر نہیں کہلا سکتا؛ کافر نام کی جنس ہی جب دنیا سے اٹھ چکی، کوئی یہودی،
عیسائی، مجوسی، ہندو، سکھ یا دہریہ اب کافر ٹھہرایا ہی کیسے جا سکتا ہے؟! اور واضح
رہے، یہ بات قرآن سے ثابت ہے (بشرطیکہ آپ
وہ فارمولے لگانا نہ بھول گئے ہوں ورنہ قرآن میں یہ بات کہیں نظر نہ آئے گی، ہاں
وہ فارمولے لگا لیں تو قرآن کے تقریباً ہر صفحے پر یہی بات ملے گی)!
نیز عقل بھی یہی کہتی ہے!
عقل بھی ویسے تو یہ بات نہیں
کہتی اور نہ آج تک یہ کہنے پر آمادہ ہوئی ہے، حالانکہ یہ پورے تسلسل کے ساتھ دنیا
میں پائی گئی ہے (ڈیناسارس کی طرح ناپید نہیں رہی تھی کہ آج یک لخت کسی ’جوراسک
پارک‘ سے نکل آئی ہو!)، آج تک کسی نے اِس عقل بی کے منہ سے نہیں سنا کہ کوئی شخص قرآن اور محمدﷺ کو جیسے مرضی جھٹلا لے کافر نہیں
کہلا سکتا۔ پوری امت کی عقل یہ بات ماننے پر آج بھی تیار نہیں۔
نہیں، عقل کےلیے بھی دراصل کچھ
’فارمولے‘ ہیں امت وہ فارمولے لگائے تو عقل بھی ’قطعی طور پر‘ یہی کہے گی جو ’بڑی
دیر سے‘ المورد کہہ رہا ہے!
اور ’’عقل‘‘ کےلیے یہ فارمولے کہاں
سے ملتے ہیں؟
آپ کے خیال میں کہاں سے مل سکتے
ہیں؟!
علامات الساعۃ!
’’وذٰلک عند ذھاب العلم‘‘!
فِتَنٌ تجعلُ الحلیمَ حیران!
’’کفار‘‘ سے متعلقہ یہ سب
احکامِ شریعت ختم... چیپٹر کلوز؛ یہ
المورد، طاہر القادری اور اقوامِ متحدہ کا دور ہے!
المورد نے آکر... اتنا ہی نہیں
کہ ’’کفار‘‘ نام کی سپیشی specie دنیا سے ختم کرادی ہے اور اس سے متعلقہ احکامِ
شریعت بھی ظاہر ہے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے معطل ٹھہرادیے ہیں؛ اور ان کو
اعزاز و اکرام کے ساتھ دنیا سے ’رخصت‘ کرادیا ہے... بلکہ ’’کفار‘‘ کی جگہ ایک نئی
سپیشی ایجاد بھی کردی ہے: ’’غیرمسلم‘‘!
’’غیرمسلم‘‘ کی شرعی اصطلاح کوئی شخص ہمیں پورے قرآن سے
نکال کر دکھا دے۔ ذخیرۂ حدیث سے نکال کر دکھا دے (اگرچہ حدیث کی ’حیثیت‘ نہیں کہ
وہ کسی ’’عقیدے‘‘ یا ’’حکمِ شرعی‘‘کا اثبات کرسکے، یہ ’حیثیت‘ کسی اور ہی کی
ہے!)۔ ’غیرمسلم‘ کی یہ باقاعدہ ایک ’شرعی‘ کیٹگری اگر پورے قرآن میں کہیں ہے ہی نہیں تو یہ
کہاں سے نکل آئی؟
آپ کے خیال میں کہاں سے نکل
سکتی ہے؟!
اس سے پہلے معتزلہ نے اتنا سا
تیر مارا تھا کہ ’’منزلۃ بین المنزلتین‘‘
(معتزلہ کے اصولِ خمسہ میں سے ایک اصول) کی اصطلاح وضع کی اور اس پر امت نے ان کے ڈھیروں
لتے لیے کہ یہ تم کہاں سے نکال لائے؟ اِس
پر ہم ذرا آگے چل کر بات کرتے ہیں۔
دراصل ہمارے یہ اصحاب جس چیز کو
’عقل‘ کہتے ہیں وہ موسمی وباؤں سے متاثر اور سلف کے دستور سے متنفر کوئی نحیف و
لاغر ذہنی عمل ہے؛ لہٰذا وقت کی فکری و تہذیبی وباؤں کو لازماً
ان کے اندر بولنا ہے؛ ورنہ یہ ’عقل‘ لگے گی ہی نہیں ’اسلاف کی تقلید‘ نظر آئے گی! یا پھر ’عقل‘ وہ الاسٹک ہے جس کو ’زمانے کے
رجحانات‘ جیسے جیسے اور جس جس طرف کو کھینچتے چلے جائیں یہ لاشعوری طور پر اور بلا
چوں و چرا اُسی طرف کو کھچتی چلی جائے؛ نہیں کچھے گی اور کسی ’پیچھے سے چلے آتے‘ دستور پر ہی ضد اور ’ہٹ
دھرمی‘ اختیار کرے گی تو محسوس ہوگا یہ تو عقل ہی نہیں ہے! آپ اِس (دستورِ سلف سے
آزاد) عقل کی آوارگی خود دیکھ لیں؛ بےشک یہ اپنا نام ہمیشہ عقل رکھے گی بلکہ اپنے
مخالف موقف رکھنے والے کو ’عقل‘ سے بےدخل بھی کر ڈالے گی، لیکن زمانے کے سب مؤثرات
کا اثر لےگی اور اسی کے دیے ہوئے سانچوں میں ڈھلتی چلی جائے گی البتہ نام اس کا
برابر ’عقل‘ ہی رہے گا! ہاں یہ ماننا
ہوگا، اپنے زمانے کے رجحانات کو ’اکاموڈیٹ‘ کرنے کےلیے دلیلیں اور فارمولے اس کے پاس
کبھی کم نہ ہوں گے؛ اور ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد، ہر
زمانے کے مدعیانِ عقل کچھ ایسے ’یونیورسل‘ حقائق کی جانب ’قطعی وحتمی‘ راہنمائی
پائیں گے کہ دستورِ سلف پر چلنے والے تو ایک طرف، خود پچھلے زمانے کے مدعیانِ عقل بھی ہونق نظر آئیں گے! صاف محسوس
ہوگا، کہ پچھلے زمانوں کے مدعیانِ عقل کی عقل بھی گھاس ہی کھاتی رہی ہے (کیونکہ
پچھلے زمانے میں گھاس ہی ہوتی تھی عقل کی اصل غذا تو حفظانِ صحت کے اصولوں کے
مطابق پائی ہی اِس زمانے میں گئی ہے!)۔ پس
یہ ’یونیورسل‘ عقلیات ہر تھوڑے تھوڑے زمانے بعد خود پرستارانِ عقل ہی کے اوپر ایک
بالکل نیا ظہور کرتے ہیں؛ ہر زمانے کے ’قطعی‘ و ’یونیورسل‘ عقلیات تھوڑی دیر
بعد ’’عقل‘‘ کا مذاق نظر آئیں گے اور بےپروائی کے ساتھ کباڑ
کی نذر کردیے جائیں گے؛ ’موسمی اثرات‘ ان کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں اور وہ
پرانے (آؤٹ ڈیٹڈ) تڑےمڑے ’یونیورسل‘ حقائق کچھ نئے (اپ ڈیٹ) ’یونیورسل‘ حقائق کے
ساتھ ’ری پلیس‘ ہوجاتے ہیں؛ مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور عقل و بےعقلی
کی یہ ’یونیورسل‘ کشمکش اُسی اخلاص اور اُسی زعم اور پندار کے ساتھ
جاری رہتی ہے اور عالم اسلام مسلسل اِس ’فکری‘ اکھاڑپچھاڑ کا میدان بنا رہتا ہے!
’عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے‘!
ہمارے پاس اس کےلیے البتہ جو صحیح لفظ ہے وہ ’’عقل‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ نہیں ’’اھواء‘‘
ہے۔ ’’اھواء‘‘ ہے ہی کتاب، سنت اور دستورِ سلف سے اِعراض کا نام۔ یہ (اھواء)
بےشمار رنگ بدلتی ہیں اور آئے روز کسی نئے روپ میں ہمیں دعوتِ گمراہی دینے آ کھڑی
ہوتی ہیں؛ ہواؤں کی طرح کبھی ان کا رخ ایک طرف کو ہوتا ہے تو کبھی اس کے بالکل مخالف
سمت۔ یہ جدھر کو بھی چلیں، ہلکی پھلکی چیزوں کو مسلسل اپنے ساتھ اڑانے کی کوشش
کرتی ہیں ورنہ ’جمود‘ کا طعنہ دیتی ہیں؛ جو ان ہلکی پھلکی اشیاء کےاٹھانے کا نہیں
ہوتا! مگر ہمارے ہاں اس کےلیے ایک ہی دائمی ’ریفرنس‘ اور ایک ہی ثابت ’ڈسکرپشن‘
رہتا ہے: ’’اھواء‘‘۔ یہ البتہ فی الواقع یونیورسل ہے؛ ہم ہزار سال پہلے بھی اپنے
خطبوں میں یہی پڑھتے تھے اور اگر دنیا کو باقی رہنا نصیب ہوا تو ہزار سال بعد بھی
ان شاء اللہ العزیز یہی پڑھ رہے ہوں گے: اَمَّا
بَعدُ؛ فإنَّ کلَّ مُحۡدَثَۃٍ بِدۡعَۃ، وکلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وکلَّ ضَلالۃٍ
فی النَّار۔
المورد کا منزلۃ
بین المنزلتین... معتزلہ
کی روحوں سے معذرت کے ساتھ!
معتزلہ (نام نہاد) عقل اور خرد کے اوجِ کمال پر تھے۔ کم ہی
وہ اِس سلسلہ میں کسی کو خاطر میں لاتے ہوں گے۔ مگر اِس ’عقل‘ ہی کا کیا کیجئے جو
زمانے کی فضاؤں کا ساتھ دینے کےلیے ہمیشہ بےچین رہتی ہے بلکہ پروردہ ہی ’’زمانے کی
فضاؤں‘‘ کی ہے! (اگرچہ اخلاص کے ساتھ دعویٰ آفاقیت universality کا رکھتی ہے!)۔ معتزلہ کا
وہ دور جہاں معاشرہ تاحال ایک صالح معاشرہ ہے۔ پھر بصرہ کی سرزمین حق پرستی کے نام
پر خوارج کی شدت پسندی کا ایک گہرا اثر لے چکی ہے۔ ’’نیکی‘‘ کا غلبہ اذہان پر سر
چڑھ کر بول رہا ہے (معتزلہ کی خوش قسمتی کہ وہ
استعمار کے آنے سے پہلے پائے گئے؛ ورنہ ہم ’عقلِ عام‘ کے جوہر کسی اور ہی طرف کو
نکلتے دیکھتے!)۔ یہاں سے؛ معتزلہ روئےزمین پر پائے جانے والے انسانوں کے لیے ایک
نئی کیٹگری وضع کرتے ہیں: منزلۃ بین المنزلتین۔ لیکن آپ حیران رہ جاتے ہیں معتزلہ کے اِس منزلۃ
بین المنزلتین کا مطلب کیا ہے!
اِس نئی کیٹگری کے تحت معتزلہ کا کہنا یہ تھا کہ: ملت اسلام کےوہ لوگ جو کبیرہ
گناہوں پر کھلا اصرار کرتے ہیں (چونکہ رسول اللہﷺ کے دور میں تو ایسے لوگ موجود ہی
نہ تھے، اور جوکہ امت میں بالکل ایک نیا فنامنا ہیں، لہٰذا) نہ تو ان کو ہم مومن
شمار کر سکتے ہیں؛ کیونکہ کبائر پر اصرار ایمان کے سراسر منافی ہے، اور نہ البتہ
محض کبیرہ گناہوں کی بنا پر ان کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ منزلۃ بین المنزلتین ہوئے، یعنی دونوں اسٹیجوں کے بیچ میں کوئی
اسٹیج۔ اِسی کے
ساتھ معتزلہ کے (اصولِ خمسہ میں سے)
ایک دوسرے اصول کو شامل کرلیں (إنفاذ الوعید، جس کا مطلب ہے کہ امت کے گناہگار جو کبائر پر اصرار کرتے
ہیں مخلّد فی النار ہوں گے، یعنی دوزخ میں ہمیشگی کی سزا بھگتیں گے) تو کوئی شک
نہیں رہتا کہ معتزلہ کی عقل غیرتِ دینی سے لبریز ہے، اس کے باوجود امت نے ان کو
بہکا ہوا ایک فرقہ ہی قرار دیا؛ کیونکہ دین میں ہر نئی چیز گمراہی ہے۔
یہ ہے ’’دین‘‘ پر ’’عقل‘‘
کا گہرا غور وخوض... فرق یہ ہے کہ
معاشرہ صالح رویوں پر قائم ہے (معتزلہ کا دور)۔
پھر... کچھ صدیاں گزرتی ہیں۔
مسلم بلاد مغلوب اور مسلم عقول مفتوح ہوجاتی ہیں۔ یہ ’تیزی کے ساتھ ایک ہوتی‘ دنیا
’ملتِ اقوام‘ میں ڈھلنے لگتی ہے۔ ملتوں کا فرق ملیامیٹ ہوچکا
ہوتا ہے۔ (’’دین‘‘ بنی آدم کے مابین خط کھینچنے کی بنیاد ہی نہیں رہتا؛ بلکہ
’’دین‘‘ کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کو باقاعدہ ’آؤٹ لا‘ outlaw
کردیا جاتا ہے؛ وقت کی زبان میں
گویا اب یہ ’جاہلیت‘ ہے؛ اور ملکوں کے ملک اس پر دستخط کرڈالتے ہیں)! دارالاسلام
اپنی تاریخی حالت اور حیثیت سے محروم کیا چکا ہے۔ ’’سیکولرزم‘‘ وقت کا دین ہے۔
’’اینلائٹنمنٹ‘‘ سر چڑھ کر بول رہی ہے۔
’جدید تقاضے‘ اور اس کے میڈیائی
لاؤڈسپیکر ’’امامِ وقت‘‘ کے ظہور کےلیے دہائی دینے لگتے ہیں۔ امت کی سب ’فرسودہ عقول‘ اُنہی پرانے سانچوں
میں کَسی ہوئی جوکہ سراسر ’’تقلید‘‘ ہیں، مصیبت نظر آنے لگتی ہیں؛ بلکہ ان کے باعث
’جدید انسان‘ کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ’نئے اجتہاد‘ کےلیے زمانہ کب سے بےقابو ہو رہا
ہے۔ بےشمار بند کسی ’شرعی فتویٰ‘ اور کسی ’جدید اسلامی تحقیق‘
سے پہلے ہی ٹوٹ چکے ہیں؛ بلکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ہر ’نقش کہن‘ مٹ نہیں چکا تو
زیرآب آچکا ہے۔ امت کو اپنی زندگی کا وہ فتنہ درپیش ہے جو اس سے پہلے اِس کی پوری
تاریخ میں نہیں پایا گیا۔ وہ ’فتویٰ‘ جس کا زمانہ عرصہ سے ’منتظر‘ ہے کیوں آخر
اتنی دیر لگا رہا ہے؟! تب... زیادہ عرصہ نہیں گزرتا (صرف ایک صدی لگتی
ہے!) کہ ’قرآن وسنت پر گہرا غوروخوض‘ کرنے والی عقل خاموشی توڑ ڈالتی ہے:
وہی ’’منزلۃ بین المنزلتین‘‘ ایک بالکل صحیح اصول
ہے۔ لیکن معتزلہ کی عقل باوجود ایسا کمال کردینے کے کہ دین میں ایک ایسی اعلیٰ چیز
ایجاد کرڈالی، اس ’واضح‘ معاملہ میں نجانے کہاں چلی گئی تھی جو ایسے اعلیٰ اصول کو
’’ملت اسلام پر سختی‘‘ کے پیراڈائم میں فٹ کرڈالا؛ حالانکہ اس کا درست محل کوئی
’اور‘ تھا۔ منزلۃ
بین المنزلتین کا یہ زریں اصول
درحقیقت دورِ صحابہؓ کے گزر جانے کے بعد ’’ملتِ کفر و الحاد پر نرمی‘‘ کے پیراڈائم
میں فٹ ہونے کےلیے تھا؛ قرآنی اشارے سب کے سب اِسی طرف کو تھے نجانے معتزلہ کو
کیوں وہ الٹے سمجھ آئے، سوفیصد الٹ! لیکن اس میں معتزلہ کا قصور نہیں۔ محنت وہ
کہیں زیادہ کرتے تھے۔ اخلاص ان میں کہیں زیادہ تھا (ان کے اصولِ خمسہ کو دیکھ
لیجئے؛ نیکی اور اخلاص ان کے انگ انگ سے ٹپکتا ہے)۔ ’تقلیدی رویے‘ اُن میں نام کو
نہیں تھے۔ لغت اور ادبِ جاہلی پر کمال نظر رکھتے تھے۔ بلا کے ذہین تھے۔ یہاں تک کہ
منزلۃ بین المنزلتین ایسا زریں اصول ایجاد کرڈالا۔ پھر بھی معتزلہ نے
اپنے اِس منزلۃ بین المنزلتین ایسی اعلیٰ چیز سے کفار کو فائدہ پہنچانے کی
بجائے مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچانے کی ٹھانی! آخر وجہ کیا ہے؟ تخریب کاری!؟ معتزلہ کی اصل درماندگی بس اِسی قدر تھی کہ اِس
’ارتقاء‘ کےلیے جس ’اینلائٹنمنٹ‘ کی ضرورت تھی اس کا امت میں اس سے پہلے کوئی
انتظام نہ تھا (انتظام ہو کیسے سکتا تھا جو سب کا سب غیروں نے آکر کرنا ہو!)۔ کہیں
چند سال اِن یونیورسٹیوں میں پڑھ لیے ہوتے تو پھر دیکھتے قرآن کے یہ سب ’سامنے کے
مطالب‘ کس آسانی کے ساتھ امڈے چلے آتے ہیں!
کہیں استشراقی اداروں نے یہاں کے اِشراقی عمل کو اُسی وقت ’انسپائر‘ کردیا
ہوتا تو امت کی بہت ساری صدیاں بچ جاتیں؛ قرآن کی یہ بالکل ’سامنے کی بات‘ جو
’ادنیٰ غور وفکر سے سامنے آجاتی ہے‘ بڑی صدیاں پہلے عالم اسلام کے بچے بچے کی زبان
پر ہوتی اور آج دنیا میں ’’کافر‘‘ اور ’’کافر ملتوں‘‘ کا تصور تک باقی نہ ہوتا؛ سب
ایک ہی جل تھل ہوتا اور ’’ملتِ اقوام‘‘ خود قرآن کے حوالوں سے وجود میں آتی! تصور
تو کریں ایک ایسی سامنے کی چیز امت کو صدیوں نظر نہیں آتی؛ آخر کوئی تومسئلہ ہے!
مسئلہ لامحالہ امت کی ’’عقول‘‘ کے ساتھ تھا؛ ورنہ
’’قرآن‘‘ کی دلالت اور ’’عقل‘‘ کی گواہی تو کل
بھی واضح تھی، آج بھی واضح ہے اور آئندہ بھی اتنی ہی واضح رہے گی! یونیورسل
حقیقتیں بھلا کب ’زمان و مکان‘ یا ’درون و بیرون کے عوامل‘ کی
پابند ہوتی ہیں!
اِس اصولی اشتراک کے باوجود...
(’’منزلۃ بین المنزلتین‘‘ والے اِس
موضوع پر) المورد اپنے پیش رَو معتزلہ سے دو ہاتھ نہیں شاید چار ہاتھ آگے ہے: معتزلہ
نے اپنے اِس باطل اصول کا اطلاق کرتے ہوئے دین میں صرف ایک نئی کیٹگری ’’وضع‘‘ کر
ڈالی تھی؛ کسی موجود کیٹگری کو
’’کالعدم‘‘ ٹھہرانے کی ہمت نہیں کی تھی؛ پھر بھی معتزلہ نے اس پر امت سے
اتنا کچھ سنا؛ یہاں تک کہ ’معتزلی‘ اسلامی تاریخ میں آج تک ایک قسم کی گالی ہے۔
البتہ المورد نے بھی اِسی باطل اصول کا اطلاق کرتے ہوئے ایک نئی کیٹگری تو اُسی
طرح ’’وضع‘‘ کی؛ مگر اس سے بڑھ کر جو کام کیا اور جس سے شاید معتزلہ کے بھی پر جلتے اور ان کی اپنی دینی حمیت
ہی اس سے اِباء کرتی وہ یہ کہ... المورد نے
اصطلاحاتِ دین میں موجود ایک کیٹگری کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ’’کالعدم‘‘ کرڈالا؛
جس پر امت خاموش ہے!
اور پھر جرأت صرف اِسی قدر
تھوڑی ہے کہ دین میں ’’کفار‘‘ سے متعلقہ ہزارہا احکام آئندہ کیلئے ختم
کرڈالے... بلکہ یہ فیصلہ پوری جرأت اور بےپروائی کے ساتھ سوا ہزار سال کی پس نگرانہ
زَد retrospective effect کے ساتھ صادر فرمایا (ساریاً
بأثر رجعی)؛ یعنی... امت کی پچھلی سوا ہزار سال کی اسلامی فتوحات،
کارروائیاں، چڑھائیاں، شہادتیں، غنائم، خراج، فیصلے، معاہدے، حقوق، واجبات،
اقدامات، توسیعات، ’’کفار‘‘ کے ساتھ معاملے، سب اِس (المورد کے ’قانون اتمامِ حجت‘
مجریہ سَن اُنیس سو کچھ) کی زد میں آئیں گے۔ ہزاروں جہادی مہمات
جو اسلامی تاریخ میں ہوئیں باطل ٹھہریں گی۔ یہاں؛ ہزاروں لاکھوں نہیں شاید کروڑہا
خونوں کا حساب اِس امت کے ہاتھوں پر تلاش کرنا ہوگا خصوصاً اِس کے ائمہ و
فقہاء کے ہاتھوں پر؛ کوئی ایک تو اِس پر بولتا! ہزاروں لاکھوں ’غیرمسلموں‘ کا خون
ہوجانے کا مسئلہ، ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی شہادتوں کا مسئلہ دین میں اس قدر مخفی
ہو؛ جبکہ قرآن، عقل اور عربیِ مبین اپنی ’واضح‘ دلالتوں کے ساتھ چیخ چیخ کر
اور اِن فقہاء کا دامن پکڑ پکڑ کو اِن کو
روک رہی ہو! کوئی ایک دو دن نہیں ساڑھے تیرہ سو سال ’خون‘ ہوتا رہا! کوئی ایک خطہ
نہیں اکٹھے تین براعظم جو ’’کافر‘‘ سے چھین کر مسلم قلمرو میں شامل کیے گئے اور جس
کے بعد یہاں کی اقوام مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آج تک اُن کو دعا دیتی ہیں!
دنیا میں پھیلی ہوئی یہ ہزارہا مساجد، یہ فلک شگاف مینار اور یہاں صبح شام گونجتی
یہ اذانیں، یہ تکبیریں اور سینے پر ٹھنڈ
ڈالتے یہ نمازیوں کے ٹھٹھ جتنے بھی اچھے ہوں، ان کو دیکھ دیکھ کر آدمی کا کتنے ہی
سیر خون بڑھتا ہو اور آدمی اس پر اپنے آپکو مسلم فاتحین اور مجاہدین کا کتنا ہی
احسان مند محسوس کرتا ہو... یہ سب اسلامی آثار و توسیعات،
ہمارے قرآن کی واضح دلالتوں سے روگردانی کربیٹھنے کا نتیجہ ہے!!!!! کم از کم بھی
یہ کہنا ہوگا کہ اسلام کا یہ چہاردانگ غلبہ، جس کے نتیجے میں خود ہم تک یہ قرآن
پہنچا، یہ ہمارے فاتحین کے قرآنی مطالب سے ناواقف رہنے کے نتیجے میں ہوا!
یہ ہماری تاریخی غلطی تھی؛ کم از کم بھی اس سے توبہ کرنا تو ضرور ہی بنتا ہے!
اجتماعی توبہ! یہ صاف ظلم تھا جو ہمارے فقہاء سے سرزد ہوا اور مسلسل ہوتا رہا! (دل
پر ہاتھ رکھ کر
کہئے... تحریک ’’استشراق‘‘ orientalist
movement کو ہمارے یہاں سے اِس سے بڑھ کر کس چیز کی طلب ہوسکتی ہے جو تحریکِ ’’اشراق‘‘ اس کو عالم اسلام سے رضاکارانہ لےکر دے رہی ہے؟)
شکر کیجئے اور خدا کی حکمتوں کی
داد دیجئے جو المورد کے پھیلائے ہوئے یہ ’قرآنی معارف‘ اُسی وقت عام نہ ہوگئے؛ ورنہ
یہ ’جہالت‘ امت سے عین شروع ہی میں ’رفع‘ کردی جاتی تو آپ دیکھتے اِس جہان کا کیا
نقشہ ہوتا ہے! اُس صورت میں کیا شک ہے، المورد کے ریسرچ فیلو آج قرآن کی بجائے کسی
سنسکریتی ’صحیفے‘ پر اپنا زورِ ذہانت آزما
رہے ہوتے! یہاں ہر طرف مسجدوں کی بجائے آپ کو مندر ملتے! بڑا مشکل ہے جو یہ دین تب
’بنی اسماعیل‘ کی اذانوں، مسجدوں اور نمازوں کا تحفظ کرلینے ہی میں کامیاب رہتا؛
کیونکہ جزیرۂ عرب بھی کافروں کی دستبرد سے محفوظ رہا تو اس لیے کہ مسلم ترکوں،
ہندیوں، بربروں اور افریقیوں نے بڑی صدیوں تک مشرقِ بعید سے لے کر ماوراء النہر،
افریقہ اور یورپ تک اسلام کے چراغ بجھانے کی حسرتیں پالنے والوں کی نیندیں حرام
کیے رکھی تھیں! کاش ’بنی اسماعیل بنی اسماعیل‘ گردان کرنے والوں کو کوئی بتا دے کہ ایک عالمی شریعت
کی دشمنیاں عالمی ہوتی ہیں اور ان کو نبھانے کےلیے جہاد
کرنے والی ایک ’’عالمی امت‘‘ ہر وقت درکار
رہتی ہے! ورنہ یہی گل کھلتے ہیں جو آج کھل رہے ہیں: امت کی عقول تک اپنے پاس
نہیں رہتیں؛ سب کچھ اُچک لیا جاتا ہے۔ دماغوں تک کو امپورٹ کیے ہوئے ’انجیکشن‘ لگتے ہیں... اور امت سیاسی، معاشی،
فکری، سماجی ہر ہر پہلو سے ’’اُن‘‘ کی باربرداری پر آمادہ ہوتی چلی جاتی
ہے! اور تو اور، ہمارا خالص ’مذہبی‘ ’’تفسیری‘‘ عمل بیٹھے بٹھائے ’انسپائر‘ ہونے لگتا ہے!
*****
قرآن اور محمدﷺ کے ساتھ کفر
کرنے والے کو ’’کافر‘‘ کیوں نہیں کہا جاسکتا؟
محسوس ہوتا ہے، المورد کفر کی
ایک خاص صورت ہی کوسامنے لاتا ہے اور پھر یہ باور کراتے ہوئے کہ کفر اُسی ایک خاص
صورت کے اندر محصور ہے، کفر کی باقی تمام صورتوں کو غیر متصور ٹھہرادیتا ہے!
گویا قرآن اور محمدﷺ کا کافر
ہونے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ سیدھا سیدھا قرآن اور محمدﷺ کا انکار ہی
کرے! تکذیب ہی کرے! اور وہ بھی نبی اور صحابہؓ کے روبرو آکر ہی کرے! اور جب اس نے
’’ایسا‘‘ انکار اور تکذیب نہیں کیا، حتیٰ کہ انکار اور تکذیب کی ’’ضرورت‘‘ ہی
محسوس نہیں کی... تو المورد کے نزدیک یہاں ’’کفر‘‘ ہو کیسے گیا؟!
وہی ’ضمیروں‘ کا چکر... جو اِنکے سوا آج تك کسی کو سمجھ نہیں آئیں، مگر ہیں وہ ’قطعی‘!
جہاں تک علمائے عقیدہ کا تعلق
ہے تو انہوں نے قرآن اور محمدﷺ کے ساتھ کفر ہوجانے کی ایک ہی صورت بیان نہیں کی۔
کفر کی متعدد صورتیں ہیں۔ کفرِ جحود، کفرِ تکذیب۔ کفرِ استکبار۔ کفرِ شک۔ کفرِ
نفاق۔ کفرِ اعراض۔ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی صاف ٹھکرانا یا انکار کرنا تو دور کی بات
کوئی قرآن اور محمدﷺ کے حق ہونے پر شک بھی رکھتا ہے تو وہ کافر ہے۔ قرآن اور محمدﷺ سے اعراض کرلینا ہی کفر ہے اور جوکہ کفر کی سب سے عام صورت ہے۔ اِعراض:
یعنی قرآن اور محمدﷺ کو کوئی توجہ ہی نہ دینا۔
اِس شخص کا قرآن اور محمدﷺ کو کوئی توجہ نہ دینا بذاتِ خود کفر ہے۔ ’’ٹھکرانے‘‘ اور ’’جھٹلانے‘‘ کی نوبت نہیں بھی
آتی تو وہ کافر ہے۔
علمائے
عقیدہ ’’کفر‘‘ کی یہ سب اقسام اِسی لیے بیان کرتے ہیں، ان کا لب لباب خودبخود یہ
بنتا ہے کہ قرآن اور محمدﷺ پر ’’ایمان نہ لانا‘‘، خواہ اِس ’’ایمان نہ لانے‘‘ کی کوئی صورت ہو، بجائے
خود کفر ہے۔ دیکھئے امام ابن قیم نصوصِ شریعت اور دستورِ فقہاء کی روشنی میں
’’کفرِاَکبر‘‘ کی ممکنہ صورتیں اختصار کے ساتھ کیونکر بیان کرتے ہیں (کتاب مدارج السالکین شرح منازل السائرین ج 1 ص 347 ط
دارالکتاب العربی، یہ عبارت اس لنک پر
ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=138&idto=138&bk_no=119&ID=127)
یہاں امام ابن قیم ’’کفرِ
اعراض‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وأما كفر الإعراض فأن يعرض بسمعه وقلبه عن
الرسول ، لا يصدقه ولا يكذبه ، ولا يواليه ولا يعاديه ، ولا يصغي إلى ما جاء به البتة
’’رہا کفرِ اعراض تو وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کان بھی رسول کی
جانب سے پھیر لے اور اپنے دل کی توجہ بھی؛ نہ وہ رسول کی تکذیب کرے اور نہ تصدیق۔
نہ وہ رسول کا ساتھی ہے اور نہ رسول کا دشمن۔ یہ رسول کی بات پر کان دھرنے کےلیے
ہی تیار نہیں‘‘۔
یہ ہے کفرِ اعراض۔
’’کفرِ اعراض‘‘ کو کفر کی سب سے
عمومی صورت قرار دینے کے حوالے سے... اِسی مقام پر ابن القیم کہتے ہیں کہ : یہ جو
کفرِ شک ہے، یہ بھی پایا جاسکتا ہے مگر جاری نہیں رہ سکتا الا یہ کہ اس کے ساتھ کفرِاعراض
شامل نہ ہوجائے؛ کیونکہ اگر وہ رسول کی لائی ہوئی چیز کو کچھ ہی توجہ دے لے تو
لازم ہے کہ اس کا سب شک رفع ہوجائے اور رسول کی سچائی اس پر روزِ روشن کی طرح واضح
ہوجائے کیونکہ خدا نے اپنے رسول کو نصف النہار کے سورج ایسے دلائل دے کر جہان کے
اندر مبعوث فرمایا ہے۔
پس زیادہ خلقت کا کفر ہے ہی اس
بات میں کہ وہ محمدﷺ کو توجہ دینے پر تیار نہیں۔ یہ چیز علمائے عقیدہ کے نزدیک
بجائے خود کفر ہے؛ اور ایسا شخص قیامت تک کافر ہے۔
*****
دورِحاضر میں کئی قابل احترام
طبقے اِس معاملہ میں کچھ اشکالات رکھتے ہیں۔
المورد ان حضرات کی طرح اگر کچھ ایسی شرطیں وضع کرنے کی کوشش کرتا (مثلاً یہ
شرط کہ ہمارے کسی کو کافر کہنے کےلیے ہمیں معلوم ہونا چاہئےکہ اس کو محمدﷺ
کی رسالت کی خبر پہنچ گئی یا سمجھ آگئی ہے،وغیرہ)، تو بھی ہم اسے غلط تو کہتے مگر
اس کو کسی فکری الجھاؤ یا اشکال پر محمول کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ ’’یقین‘‘
کرلینے کے بعد کہ اس کافر کو محمدﷺ کی رسالت فرداً پہنچا دی گئی ہے، اور اس کے سب
سوالات اور اعتراضات کا جواب دے لیا گیا ہے، المورد کم از کم اُس شخص کو کافر کہنا
لازم جانتا۔ مگر ان کا تو کہنا ہے کہ آپ اس پر بیس ہزار مرتبہ کیوں نہ حجت قائم
کرلیں یہ یہودی، یا عیسائی، یا ہندو، یا دہریہ ’’اصولاً‘‘ ہی کافر نہیں ٹھہرایا
جاسکتا! یعنی دنیا میں کسی کو کافر کہنا ہی جب ’’شرعاً‘‘ موقوف ہے تو خواہ وہ کتنا
ہی بڑا اور کتنا ہی برہنہ کفر کرلے، کافر نہ کہلائے گا۔ اِس کو البتہ ہم اشکال
نہیں صاف گمراہی سمجھتے ہیں۔
اس سنگین موضوع پر طالب علم کی نظر میں علامہ انور
شاہ کشمیری کی یہ تقریر بھی موجود رہنی چاہئے:
’’اسی لیے (یعنی صریح اور مجمل علیہ
نصوص میں تاویل و تحریف کرنے والے کی تکفیر کے یقینی ہونے کی وجہ سے)ہم ہر اس شخص کو بھی کافر کہتے ہیں جو اسلام کے علاوہ کسی بھی
مذہب کے ماننے والے کو کافر نہ کہے، یا ان کو کافر کہنے میں توقف(وتردد) کرے،یا ان
کے کفر میں شک وشبہ کرے،یاان کے مذہب کو درست کہے،اگرچہ یہ شخص اپنے مسلمان ہونے
کا دعویٰ بھی کرتا ہو،اور اسلام کے علاوہ ہر مذہب کو باطل بھی کہتا ہو،تب بھی
یہ غیر مذہب کو کافر نہ کہنے والا،خود کافر ہے، اس لیے کہ یہ شخص ایک مسلّم کافر
کو کافرکہنے کی مخالفت کر کے خود اسلام کی مخالفت کرتا ہے، اور دین پر کھلا ہو طعن
اور اس کی تکذیب ہے‘‘
اکفار الملحدین ص 221 http://www.eeqaz.org/index.php/guidance/fatawa/122-nonmuslim-kafir