قربانی اور حج کی عقلی توجیہات اورملحدوں کی چال بازیاں۔
ابو زید
کوئی ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصے سے اس بات پر سوال اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ قربانی اور حج جیسی عبادات کی رسومات کیوں ادا کی جائے؟ آخر معاشرے کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جو پیسہ اس میں خرچ ہوتا ہے اس کو کیوں نہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنے میں لگایا جائے۔ وغیر وغیرہ۔
آج کل بھی اسی طرح سوالات بہت زوروں پر اُٹھائے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان سوالات پر کا جواب دیا جائے یا ان سوالات کی صحت ہی پر غیر کیا جائے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوال کرنے والا کسی ذہن سے سوال کر رہا ہے۔ سوال کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں گویا وہ دین کو تو مانتے ہیں لیکن باوجود کوشش کے دین کے ان احکامات کی حکمت سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ لیکن بحث کو ذرا سا آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بندہ صاف صاف خدا کا انکاری ہے یا اسلام کو خدا کے طرف سے نازل کردہ دین کے طور پر نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بندہ مسلم ہی نہیں ہے!!
اگر کوئی یہ کہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دین کے کسی حکم کی حکمت سمجھنے کے لئے سوال پوچھنےوالے کا کیا عقیدہ ہے تو یہ بات غلط ہے۔نفع اور نقصان کے احساس کا تعلق ہماری عقل کے ساتھ ساتھ ہمارے عقیدے سے بھی ہے۔ ملحدوں کے نزدیک نفع اور نقصان کے احساس میں لذت اور سرمایہ بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آخرت کا فائدہ،آخرت کے لئے دنیاکی لذتوں کو قربان کرنا نہ ان کی سمجھ میں آئے گا اور نہ وہ اس کو بطور فائدہ کے تسلیم کریں گے۔
حج اور قربانی کے فوائد کی تعبیرآخرت کے اجر اور خدا کے رضاکے علاوہ نفسیاتی اور عمرانیاتی لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے۔ عبادات کے مناسک انسانی فکرکی یکسوئی اور کسی عقیدے کو انسان کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے زبردست مؤثر ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔ اس کے لئے علم نفسیات سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذاہب کی تاریخ کی گواہی بہت کافی ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قربانی اور حج جیسا عمل کیسے اس کی روحانی اور فکری کیفیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مشرق تا مغرب تک پھیلی ہوئی امت کی شیرازہ بندی میں حج ، قربانی اور رمضان نے جوکردار ادا کیا ہے اس کے لئے ہمیں سوشیالوجی کا کوئی چیپٹر پڑھنے ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی تاریخ اور حال کا ذرا سا بھی ادراک ہے اس کو اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو اس گلوب میں پھیلی ہوئی مختلف زبان رنگ اور شکل صورت والی امت کو ایک امت بنا کر رکھا ہوا ہے۔
لیکن انہیں کیسا سمجھایا جائے جو اول تو اُمت نام کے کسی وجود کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اور زبانی نہ سہی دل سے مان بھی رہے ہیں تو پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اُمت کے اندر جتنا زیادہ ہوسکےاتنا زیادہ انتشار پھیلا یا جائے۔
قصہ مختصر یہ کہ حج اور قربانی ہم اللہ کی رضا اور اس کے انعامات حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔تو پہلے بتایا جائے کہ پوچھنا والا اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں۔
مزید یہ کہ ان عبادات کے ذریعے ہمارے اندر ہمارا ایمان مزید راسخ ہوتا ہے اور یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جس کے نزدیک ایمان کا راسخ ہونا اور اس پر ثابت قدمی کوئی معانی رکھتے ہیں۔
پھر یہ کہ ان عبادات کے ذریعہ مشرق تا مغرب پوری امت کو اللہ تعالی جوڑ رکھا ہے جوکہ اس اُمت مسلمہ کے سیاسی زوال کے بدترین دور کے باوجود اس اُمت کا ایک شاندار وجود دنیا کے سامنے لے آتا ہے۔ یہ بات انہیں کے لئے بامعنی ہے جن کے نزدیک "اُمّت" ، اس کی اجتماعیت اور اس کی اجتماعی شان قابل فخر بات ہو۔
اور ویسے بھی حج اور قربانی کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملاحدہ اس امت کی شان و شوکت اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر اپنے دل میں خوب کڑھتے ہیں۔
الغرض
وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو الله کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں۔ سورہ آل عمران۔