قارئین کے سوالات
کچھ ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ کے حوالے
سے
اپریل 2013 کے ایقاظ میں شائع ہونے والے ہمارے مضمون
’’درمیانی مرحلےکے بعض احکام‘‘ (جوکہ ڈیموکریسی کے موضوع پر اس شمارہ کا کوئی واحد
مضمون نہیں تھا!) پر اٹھنے والے کچھ
اشکالات کے حوالے سے یہاں ہم چند گزارشات رکھنا چاہیں گے:
حقیقت یہ ہے کہ... ہمارا یہ مضمون اُن حضرات کےلیے تو تھا
ہی نہیں (اور نہ ہوسکتا ہے) جو ڈیموکریسی کے شرک پر ہماری اُس پوری کیمپین کو توجہ
دینے پر تیار نہیں جو ہم نے اس موقع پر یہاں توحید کی آگہی پھیلانے کے لیے لانچ
کررکھی رہی ہے، اور جس پر ہمارا لٹریچر ہمارے کسی قاری سے مخفی نہیں، بےلحاظ اس سے
کہ ڈیموکریسی پر ہماری اس کیمپین کو درخورِ اعتناء نہ جاننے والے اور خاص اپنے
’مطلب‘ کی بات نکالنے والے یہ حضرات جمہوریت کے حامی طبقے سے ہوں یا جمہوریت
کے مخالف طبقے سے۔
نہ ہی ہمارا یہ مضمون اُن حضرات کےلیے ہے (اور نہ ہوسکتا
ہے) جو ڈیموکریسی کی بیخ کنی کے موضوع پر ہماری اُس ساری تحریری محنت کے علی الرغم
جو ہم پورے تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں، ہمارے اِسی ایک مضمون کو پڑھ کر یہ رائے
اختیار کرنے چل دیں گے کہ یہاں ہم جمہوریت کے داعی بننے چلے ہیں! جن حضرات کی قوتِ
استنباط بس اسی حد تک ہے اُن کے ’اشکالات‘ کا جواب دینا یقیناً ہمارے بس میں نہیں
ہے۔ یہ حضرات ہمیں جس انداز میں موضوع بنانا چاہیں شوق سے بنائیں۔
ایک بات ہم اپنے اسی مضمون میں کہہ آئے ہیں:
ہاں
وہ حضرات جو سمجھتے ہیں کہ وہ اِن موضوعات کے تمام یا بیشتر جوانب کا احاطہ کرچکے
ہیں وہ اپنا موقف اختیار کرنے میں یا ہمیں غلط ٹھہرانےمیں پوری طرح آزاد ہیں۔
ہم
سمجھتے ہیں ہمارے قارئین کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ان موضوعات میں مطلوبہ پختگی
کی جستجو میں ہی ایقاظ کو توجہ دیتا ہے۔ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے یہی قارئین
ہیں اور انہی کی ضرورت ہماری نظر میں سب سے بڑھ کر مقدم۔
تاہم وہ احباب جو اس موضوع پر ہماری تحریری محنت کو جو
ہم نے اس پورے شمارے میں آپ کے سامنے رکھی ہے، توجہ دیتے ہیں اور اس مسئلہ کی
اساس کو وہیں سے سمجھتے ہیں، ان کے فائدے کےلیے ہم اپنے اُس مضمون کے حوالے سے چند
گزارشات رکھیں گے:
الف:
مضمون میں ہم واضح کرچکے کہ نظامِ رائج کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کے حوالے
سے ہمارا مرجع وہ علماء نہیں رہیں گے جو ان دو مصائب میں ملوث ہیں:
1.
’’ڈیموکریسی‘‘ نام کی آفت کو ’اسلامی‘ کہنا،
یا اسلام میں اس کو درآمد کرنا، یا پہلے سے اسلام میں ’ڈیموکریسی‘ پائے جانے کا
انکشاف کرنے ، یا جمہوریت میں ’اسلام‘ کی نشاندہی کرنے کا منہج اختیار کرنا۔
درحقیقت یہ مغرب کے ساتھ ری کونسائل ہے اور دو ملتوں کا فرق مٹانے کی ایک اندوہناک
کوشش، جوکہ ہرہر پہلو سے رد ہونی چاہئے۔
2. ڈیموکریسی
کی امپورٹ پر مبنی نظاموں کو، جوکہ کئی ایک مسلم ملکوں میں ’ڈسپلے‘ کیے گئے
ہیں ’اسلامی‘ یا ’اسلام سے ہم آہنگ‘ ماننا، اہل اسلام سے ان نظاموں کےلیے
وفاداریاں حاصل کرتے پھرنا اور شرک سے ان کی نسبت کرنے کو ’انتہاپسندی‘ قرار دینا۔
یہ دو آفتیں ہمارے
نزدیک، (درحقیقت ہمارے معتمد علماء کے نزدیک) ’’اختلافِ سائغ‘‘ میں نہیں آتیں
(یعنی وہ اختلاف نہیں جس کےلیے گنجائش تسلیم کی جائے)۔ یہ ایک بنیادی اور اصولی
اختلاف ہے نہ کہ کوئی جزوی اختلاف یا فرعی اختلاف۔
ظاہر
ہے اس مسئلہ میں ہمارامرجع وہ علماء رہیں گے جو ان دو مصائب میں گرفتار نہیں ہیں۔
یہی وہ علماء ہیں جن کا وصف مضمون میں ہم نے یوں بیان کیا:
’’ایسے اصحابِ علم اور
اصحابِ نظر جو مسائل کو اُن کی سب قدیم وجدید جہتوں سے جاننے والے ہوں، تقویٰ،
خداخوفی، پرہیزگاری، صاف گوئی، حق پرستی، حرمتِ علم کا پاس اور سلاطین سے استغناء
رکھنے میں ایک معلوم شہرت رکھتے ہوں اور امت کا درد رکھنے میں بھی قابل لحاظ حد تک
معروف ہوں۔ وقت کے باطل نظاموں کے ساتھ ان کی جنگ اور خدا کے دشمنوں کے ساتھ ان کی
محاذآرائی زبان زدِعام ہو۔‘‘
ب:
پھر ایسے جمہوریت بیزار علماء (جو ہمارا مرجع رہیں گے) کی
بابت ہم عرض
کرچکے کہ:
·
ایسے علماء نے وقت کے ان جدید مسائل
پر یا تو اتفاق کررکھا ہوگا، اس صورت میں ان کے اتفاق کی پابندی ہونی چاہئے۔
·
یا ان میں اختلاف ہوگا، ایسی صورت
میں انکے اختلاف کو معتبر جاننا چاہیے۔ (اختلاف کو معتبر جاننے کا مطلب یہ ہے کہ
آدمی ان میں سے کسی ایک رائے کا قائل ہونے کے باوجود اسکے مخالف رائے کو ’گمراہی‘،
’جہالت‘، ’ظلم‘ یا ’انحراف‘ قرار نہیں دےگا، بلکہ اُس رائے پر چلنے والے کو اپنا
بھائی اور اپنا حلیف سمجھےگا اور اس اختلافِ رائے کے باوجود امت کی شیرازہ بندی
میں بلاتردد اُس کا ساتھ دےگا اور کفر کے خلاف اپنی اور اُس کی جنگ میں اس کو
تعاون دے گا اور اس سے تعاون لےگا)
اس
کے بعد ہم نے بطورِ مثال جن چند علماء کا ذکر کیا (کہ جن کو ہم اس موضوع پر مرجع
کے طور پر لےسکتے ہیں)، آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ان میں ہم نے مودودی صاحب جیسی
شخصیت تک کو شامل نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ مودودی صاحب ان مفکرین میں آتے ہیں جو
جمہوریت کو اسلامائز کرنے کے عمل میں شریک رہے ہیں اور اس حوالہ سے اسلامی
پیراڈائم کا خالص پن برقرار نہیں رکھ سکے۔ ظاہر ہے قرضاوی ایسے نام بھی یہاں نہیں
آسکتے جوکہ مغرب کے ساتھ فکری وعقائدی ری کونسائل کی ایک وسیع تاریخ رکھتے ہیں۔
غرض ہم نے اس موضوع پر اپنا علمی مرجع اگر کسی عالم
کو مانا ہے تو وہ عالم اسلام کے صرف وہ اہل علم واہل فکر ہیں جنہوں نے ان مغربی
درآمدات کو کسی بھی پہلو سے کبھی بھی سندِ اعتبار نہیں دی؛ جنہوں نے ڈیموکریسی کو
کسی بھی حوالے سے ’اسلامی‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔
حضرات اگر آپ ہمارے ان مذکورہ
بالا مقدمات سے ہی متفق نہیں ہیں تو آپکے ساتھ گفت و شنید کسی اور موقع پر ہوسکتی
ہے۔ البتہ اگر ان مقدمات سے متفق ہیں تو ہمارے اور آپکے مابین اس کے بعد اگر کوئی
اختلافِ رائے باقی رہ جاتا ہے تو وہ نہایت محدود ہے (الا یہ کہ آپ کسی موقع پر یہ
دیکھیں کہ ہم نے علماء کی آراء سامنے لانے میں کہیں غلط بیانی سے کام لیا ہے)۔
ہمارے
علمی مراجع (علمائے توحید جو مغربی درآمدات کے ساتھ ری کونسائل کو یکسر رد کرتے
ہیں) ان نظاموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ظاہر ہے ایک رائے پر نہیں۔ پس اس باب میں ہم اگر ان
اہل علم کی آراء میں سے کوئی ایک رائے پیش کرتے ہیں تو یہ کوئی ’’انکشاف‘‘ نہیں
ہوگا کہ آپ ہماری اختیارکردہ اس رائے کے خلاف والی کسی رائے پر مشتمل فتویٰ پیش
کردیں گے!!! بھائی ہم تو خود کہتے ہیں کہ یہاں ایک تعددِ آراء پایا جاتا ہے۔
اس میں اگر آپ ہماری رائے پر نہیں ہیں تو ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ اُس دوسری
رائے کا پرچار کرتے ہیں اور اُس پر کوئی فتویٰ لےکر آنا چاہتے ہیں تو اس میں حرج
کی کیا بات ہے۔ ایسا علمی اور فقہی اختلاف ہمیشہ سے ہی اہل سنت کے ہاں باقی رہا
ہے۔ اس ایک مسئلہ میں کوئی اختلاف ہوجائے گا تو بھی کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
پس اس دائرے کے اندر اندر... جہاں ہم اپنی کوئی رائے
رکھتے ہیں وہاں آپ بھی اپنی رائے رکھئے اور اسے کھل کر بیان کیجئے۔
البتہ
اگر آپ اپنی اُس رائے کو ’اہل توحید کی متفق علیہ رائے‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں
اور اس وجہ سے آپ ہمارے اس کے مخالف رائے پیش کرنے پر برہم ہیں تو یہاں ہم آپ کی
اس خواہش کو پورا کرنے سے معذرت کریں گے۔ پس آپ اس کو علمائے توحید کی آراء میں سے ایک رائے کے طور پر جتنا مرضی پیش کریں، اس میں مسئلہ نہیں، لیکن اسے علمائے توحید کی متفقہ رائے کے طور پر پیش کریں گے تو یہ غلط ہوگا۔
ہمیں معلوم ہے ایقاظ اس حوالے سے خاصا گردن زدنی قرار
دیا جانے والا ہے کہ وہ اُس وسعت کو جو علمائے توحید کے ہاں اختیار کی جاتی ہے کیوں
یہاں نوجوانوں کے سامنے لےآتا ہے؟ (اور گویا اس نے یہ وسعت خود اپنے پاس سے پیدا
کرلی ہے!) ایقاظ نوجوانوں پر یہ بات کیوں کھولتا ہے کہ ایک مسئلہ پر ہمارے ان
بھائیوں کی رائے سے ہٹ کر بھی علمائے توحید کے ہاں کوئی رائے پائی جاتی ہے؟
مسئلہ تو صرف اتنا ہے۔ آپ اس کو
علمائے توحید کی آراء میں سے ’’ایک رائے‘‘ کے طور پر پیش کریں، مسئلہ ہی کوئی
نہیں۔ آپ جانتے ہیں ہم بھی اسے ’’آراء میں سے ایک رائے‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
گڑبڑ صرف وہاں ہوتی ہے جب آپ ایک رائے کو ’’اہل توحید کی واحد رائے‘‘ کے طور پر
پیش کرتے ہیں۔ یہ ظلم شاید ایقاظ نہ ہونے دے۔ اور یہی شاید اسکا جرم ہے!
حضرات آپ ایک کام کیجئے۔ ایقاظ یہاں جن آراء کو پیش
کرتا ہے آپ انکی بابت صرف یہ دعویٰ فرمادیجئے کہ یہ آراء علمائے توحید میں سے کسی
کی اختیارکردہ نہیں!
اپنی ’چنانچہ اگرچہ‘ لگانے سے پہلے۔۔۔ ہمارے کسی ایک
جملے کی نشاندہی براہِ کرم ضرور کردیجئے
جس میں آپ کے خیال میں ہم نے:
1. علماء کی رائے کو غلط نقل کیا ہے، یا
2. علماء کی رائے کو صحیح طرح سمجھے بغیر بیان
کردیا ہے، یا
3. علماء کی بات سے غلط مطلب کشید کرلیا ہے،
یا
4. علماء کی بیان کردہ کسی بات کو اُس کی حد
سے بڑھا دیا ہے۔
البتہ شرط یہ ہے کہ ان چار حوالوں سے آپ پہلے ہمارے
کسی جملے کی نشاندہی کریں نہ کہ اپنے کشیدکردہ مطلب سے ہی گفتگو کا آغاز
فرمائیں۔
*****
یہاں
مجھے ایک مماثلت یاد آرہی ہے۔ یہاں کے ایک سرگرم اہل حدیث داعی جو ہمیشہ امام احمد
بن حنبل کا یہ قول اپنے خطبوں میں نقل
کرتے ہیں کہ إن لم یکونوا أصحاب
الحدیث فلا أدری من ھم؟
(یہ طائفہ منصورہ اگر اصحاب الحدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ پھر وہ کون ہیں)...
ایک مجلس میں ہمارے ساتھ بیٹھے جب یہ ’ناقابل یقین‘ خبر سنی کہ امام احمد ایسے ’’اصحاب
الحدیث‘‘ جہری نماز میں فاتحہ خلف الامام کے قائل نہیں، نیز ابن تیمیہ بھی اسکے
قائل نہیں، نیز اس دور کے ایک عظیم اہل حدیث نام البانی بھی اسکے قائل نہیں، تو
ہمیں فرمانے لگے: بھائی جو تم کہتے ہو ٹھیک ہوگا، مگر پاکستان میں یہ بات بیان نہ
کرنا کہ امام احمد، ابن تیمیہ اور البانی جہری میں فاتحہ خلف الامام کے قائل نہیں،
یہاں ہم نے بڑی محنت کی ہے لوگ یہ سن کر کنفیوز ہوجائیں گے!!
حضرات
تسلی رکھیے، ہم علمائے توحید کے اقوال میں سے بھی کوئی شاذ قسم کا قول آپکے سامنے
نہیں رکھ رہے (یعنی کوئی ایسا قول جو کوئی موحد عالم ہی کہہ تو بیٹھا ہو مگر وہ
کوئی ہزار میں سے ایک عالم ہو، باقی سب علماء اس قول کے غلط اور قابل ترک ہونے پر
متفق ہوں)!... خاطر جمع رکھیے، یہاں ہم نے جو فقہی آراء پیش کی ہیں علمائے توحید
کے حوالے سے ان کی بابت یہ کم از کم کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہور کی رائے ہے۔