معاشرتی فرنٹ کی تحریکوں
خصوصاً جماعتِ اسلامی کی خدمت میں
|
الاخوان المسلمون اور جماعتِ اسلامی وغیرہ کو –
مغربی صنف بندی کی رُو سے اور اُنکے سدھائے ہوئے ہمارے ہونہار طوطوں کے یہاں–
’بنیادپرست‘ جماعتوں کے طور پر تو بہرحال پکارا جاتا ہے۔ بلاشبہ مسلم دنیا میں
اسلام کا احیائی عمل بہت بڑی حد تک ان دو تحریکوں کا ہی مرہونِ منت ہے۔ ’’جہادی‘‘ جماعتوں کا فنامنا سامنے
آنے سے پہلے ’شدت پسندی‘ کی سب سے بڑی مثال عالم اسلام کی یہی دو جماعتیں تھیں۔ اب
البتہ کہیں کہیں ان کے لیے ’ماڈریٹ‘ کا لفظ بھی چلتا ہے؛ اخوان کےلیے زیادہ اور
جماعت کےلیے کم یا شاید نہ ہونے کے برابر۔ اگرچہ قبول اُن کے ہاں کوئی بھی نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہےاور نہ ان شاء
اللہ ہماری اِن جماعتوں کا یہ دردِسر ہے۔ جب تک مسلمان ہیں اُن
کے ہاں قبول نہیں۔ ہاں جس دن
خدانخواستہ مسلمان ہی نہ رہنے کا فیصلہ کرلیں ، جیساکہ مسلم ممالک کی اکثر قیادتیں
یہ فیصلہ کیے بیٹھی ہیں اور مغربی معیاروں پر ’زیادہ سے زیادہ‘ بلکہ اپنے بھائی
بندوں سے بڑھ کر قبول ہونے کی تگ و دو میں ہیں ، اُس دن اس بات کا ’امکان‘ ضرور
ہے۔ پھر بھی خدا کے ہاں سبھی بیک وقت قبول ہوسکتے ہیں البتہ ادھر ایک وقت میں ایک
ہی کی باری آتی ہے... جبکہ ’امیدواروں‘ کی فہرست طویل ہے!
ہردو جماعت کی
اسلام اور امت کے ساتھ وفاداری ہر شبہے سے بالاتر ہے۔ یہ جماعتیں اقتدار میں ہوں
تو بھی ہم ان پر یہ شبہ نہ کریں۔ البتہ اسلام اور مغرب کی جنگ کے اِس دور میں،
جہاں ہمارے ضمیر فروش سونے میں تول دیے جاتے ہیں، ان جماعتوں کے لیے اقتدار کے
دروازے نہ کھلنا، یا کھل کر بند ہوجانا، یہ معلوم کروانے کا ایک قوی قرینہ ہےکہ بیوپاری کو یہاں سے اپنی مرضی کی چیز ملنے کی
آس نہیں۔
تاہم اصل مسئلہ اِس جنگ میں پورا اترنے کا ہے جو استعمار اور استشراق نے ہم پر
مسلط کررکھی ہے۔یہ بیک وقت ٹینکوں ، طیاروں اور ڈرونوں کی جنگ بھی ہے اور افکار،
خیالات اور اصطلاحات کی جنگ بھی؛ جبکہ جنگ کی یہ ہردو صورت ایک دوسری سے بڑھ کر
بےرحم ہے۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ہماری دینی جماعتوں میں سے کون اِس جنگ میں دشمن
کا طرفدار ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ تاریخ کی اِس بھیانک ترین جنگ میں خود ہمارا
علَم ہماری کس کس جماعت نے اٹھا رکھا ہے اور وہ دشمن پر کہاں کہاں سے ضرب لگارہی
ہے۔دیکھنے میں آرہا ہے کہ عسکری میدان میں ہماری کارکردگی اِس شدید بےسروسامانی کے باوجود بری نہیں، جس کی
گواہی ایک دنیا دے رہی ہے۔ البتہ نظریات اور اصطلاحات کی جنگ میں ہم بری
طرح مار کھا رہے ہیں، باوجود اسکے کہ جنگ کا یہ میدان سب سے بڑھ کر ہم امتِ قرآن
ہی کے جیتنے کا تھا! معلوم ہوتا ہے ہماری جہادی جماعتیں جن کو ’’تیر وتفنگ‘‘ کے
میدان میں دشمن کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے تھے بےیارومددگار ہونے کے باوجود اور اس عظیم عالمی پراپیگنڈہ کے علی الرغم خاصی
اچھی جارہی ہیں۔ البتہ ہماری وہ جماعتیں
جن کو ’’معاشرے‘‘ کے فرنٹ پر لڑنا تھا ان کی کارکردگی تو ہمارے سامنے ہے ہی، محسوس
یہ ہوتا ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں ہی نہیں ہیں!
اقتدار میں آنے کے بعد اخوان کا حماس کی پشت پر کھڑا ہونا ایک نہایت عظیم
کارنامہ ہے؛ جس پر وہ قابل تحسین ہیں، اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ قوی امکان ہے اقتدار کے بغیر بھی حماس کی نصرت
اور اعانت ہوتی رہی ہو۔ تاہم اخوان اور جماعت کاجو قدکاٹھ ہے، اس لحاظ سے ان کے
عمل وکارکردگی کی جانچ محض کسی عسکری عمل کی پشت پناہی کے حوالے سے نہیں ہوسکتی۔
اخوان اور جماعت دراصل ’’معاشرے کی جماعتیں‘‘ ہیں، ان کی کارکردگی کو جانچنے کےلیے
ہمیں سیاسی ومعاشرتی ونظریاتی حوالے ہی درکار ہیں۔ سیاست میں اخوان الیکشن جیت کر
دکھا چکے اور اب وہاں کی فوجی جنتا کے سامنے صبر واستقامت کی دیوار بن کر قربانیوں
اور عزیمتوں کی کچھ نئی داستانیں بھی رقم کرچکے۔ اللہ ان کو مزید صبر وحوصلہ عطا
فرمائے اور دشمن کے مقابلے پر ان کو نصرت و سرخروئی سے نوازے۔ معاشرتی ونظریاتی
حوالے رہ جاتے ہیں، تاہم ایک دوردراز کا خطہ ہونے کے ناطے فی الحال ہم اخوان کو
اپنی گزارشات کا موضوع نہیں بنائیں گے۔
ایک ٹھیٹ اندازِفکر باقی نہ رہ سکنے کے حوالے سے الاخوان المسلمون پر اپنے کچھ
ملاحظات ہم اس سے پہلے بیان کرچکے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال جماعتِ اسلامی (جوکہ ہمیں
برصغیر کی جماعتوں میں عزیزترین ہے) اور اِس صنف کی کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ہے۔
یہاں مغرب اور اس کے ادارۂ استشراق کے ساتھ (نظریات کے میدان میں) کوئی دھواں
دھار جنگ تو اب سرے سے نہیں پائی جاتی۔ اُدھر سے بمباری خوب ہورہی ہے، بلکہ ہمارا
سب کچھ تہس نہس کردیا گیا ہے۔ البتہ اِدھر توپیں پوری طرح خاموش ہیں، بلکہ معلوم
یہ ہوتا ہے کہ اپنی توپیں جو کبھی خوب گرجتی تھیں اور فکرِ مغرب کے شبستانوں کو
خاکستر کر جایا کرتی تھیں اب بڑی دیر سے کہیں غلاف چڑھا کر سنبھال دی گئی ہیں،
ہمارے اِس عالمی معرکے میں ان کو جنبش تک نہیں؛ اور میدان خالی پا کر اُن کے پیادے
(زنادقہ) غول در غول ہمارے صحن میں اتر آئے ہیں۔
ہماری جانب سے نظریاتی گولہ باری تھم چکی ہونا تقریباً ایک کھلی حقیقت ہے
باوجود اسکے کہ اس کے محرکات اور دواعی فی الوقت آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اب تو
یوں لگتا ہے، ہماری اِس جنگ میں فی الوقت صرف ہمارا عسکری وِنگ متحرک ہے۔ سماجی
اور نظریاتی محاذ اچھی خاصی حد تک سرد ہے۔
حالانکہ ہمارا یہ محاذ بھی خدا کے دشمنوں پر اگر اُسی طرح آتش و آہن برسا رہا ہوتا،
یعنی ہم اِن دونوں محاذوں پر بیک وقت پورا اتر رہے ہوتے، تو بارانِ نصرت کی ہوائیں شاید بڑی دیر پہلےہمارے گھر
(عالم اسلام) کا رخ کرچکی ہوتیں۔
نظریاتی جنگ کے محاذ پر یہ خاموشی جو رفتہ رفتہ پسپائی کی صورت دھار چکی، ہماری نظر میں بلاوجہ
نہیں ہے۔ اسکے اسباب اِدھر اُدھر تلاش کرنا فضول ہے۔ وہ نظریاتی اپروچ جو مغرب کی
چند امتیازی اشیاء کے ساتھ ’بیج کی راہ نکالنے‘ اور ہر دو ملت کا ’ری کونسائل‘
کروانے کے حوالے سے اختیار کی گئی تھی، اور جس کو ہم ’’پیراڈائم کا نقب‘‘ کہتے ہیں
وہ اپنی نہاد میں عین اِسی چیز پر منتج ہونے والی تھی۔ اپنی اُس مضبوط پوزیشن سے
جو دینِ مغرب کے مقابل اختیار کی گئی تھوڑا سا سرک لینا آپکے خیال میں کوئی ایسا
نقصان دہ نہیں تھا لیکن اس کے نتیجے میں چند
عشروں کے اندر اندر آپ اپنی نظریاتی جنگ
کا یہ میدان دشمن کےلیے تقریباً خالی کرچکے ہیں۔ اور چونکہ آپکی اٹھان ہوئی
ہی ایک ’’نظریاتی طوفانی ریلے‘‘ کے انداز
میں تھی لہٰذا بعد کی کوئی پوزیشن آپکی اِس ابتدائی اٹھان پر فٹ آنے والی نہ تھی۔
(اخوان کا معاملہ ابھی پھر مختلف ہے جس کے مؤسس حسن البنا وہ نظریاتی گہرائی نہ
رکھتے تھے جو جماعتِ اسلامی کے مؤسس سید مودودی نے اپنے اِس قافلے کی بنیادوں میں
ڈالی تھی۔ چنانچہ اخوان کو ابتدا میں ’’نظریے‘‘ کی بجائے ’’عمل‘‘، ’’روحانیت‘‘،
’’فدائیت‘‘ اور ’’صحبت و اشتراکِ عمل‘‘ کی غذائیں زیادہ ملی تھیں، ’’نظریہ‘‘ کی
غذا تو بعد ازاں مودودی سے استفادہ اور اسکے بھی خاصی دیر بعد سید قطب کی فکری
محنت سے ’’شامل‘‘ کی گئی۔ جبکہ جماعت کا خمیر خالصتاً ’’نظریے‘‘ سے اٹھایا گیا
تھا)۔
یہاں ایک بار پھر ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ سیاست وغیرہ میں ’’دستیاب مواقع‘‘
سے اِن جماعتوں (اخوان و جماعت وغیرہ) کا
فائدہ اٹھانا ہماری نظر میں اصولاً غلط نہیں ہے بشرطیکہ ایک ٹھیٹ پیراڈائم خود اِن
جماعتوں کے اپنے کارکنان کے ہاں باقی رہے اور ان کے وجود سے پھوٹ پھوٹ کر نشر ہو،
نیز مصالح و مفاسد کا ایک شرعی موازنہ اوراسلامی ضوابط کی پابندی برقرار رہے۔ بلکہ
ایک ٹھیٹ عقیدہ کے ہوتے ہوئے ان کا سیاست میں پیش قدمی کرنا، ہماری نظر میں، اُس
ہدف کے حصول میں ممد ہوگا جسے ہم نے ان دو نقاط میں ملخص کیا ہے، اور جوکہ ہمارے
(عالم اسلام کے) اِس بحران کے اصل پائیدار حل کی جانب ایک درست ترین پیش قدمی ہے:
1. مغرب کی فکری مصنوعات(خصوصاً مغربی مصنوعات کی ’اسلامیائی‘
گئی صورتوں) کا قلع قمع اور اس کے مقابلے پر خالص اسلامی پیراڈائم کا احیاء۔ اِسی
کو ہم ’’استشراق کے ساتھ جنگ‘‘ کا نام دیتے ہیں اور جوکہ ایک وسیع البنیاد معرکہ
ہے اور جس کے لیے ایک شدید درجے کا نظریاتی رسوخ اور ایک فکری استقامت درکار ہے۔
اِسی سے متصل، استعمار کے ساتھ ہماری وہ جنگ ہے جس کا کلائمکس اِس وقت ہمیں
افغانستان اور فلسطین کے اندر درپیش ہے اور جس کے جیتنے یا ہارنے کی صورت میں شاید
پورے عالم اسلام کی صورت اور ہیئت تبدیل ہوکر رہ جانے والی ہے اور یہاں پر ہمارا یا پھر عالمی
استعمار کا بہت کچھ تہ و بالا ہوجانے والا ہے۔
2. معاشرے کی سرزمین پر (نہ کہ محض اقتدار پر) اسلامی قوتوں کا
ایک معتدبہٖ حد تک قبضہ، جس پر ہم متعدد
بار گفتگو کرچکے ہیں۔
اب جب ہم فی الوقت
کےلیے اپنے اصل ہدف اور اصل ترجیحات کا تعین کرچکے... تو حق یہ ہے کہ نہ تو جماعتِ
اسلامی کا پاکستان کے انتخابات میں (حسبِ معمول) بری کارکردگی دکھانا کوئی ایسی
پریشان کن بات رہ جاتی ہے اور نہ الاخوان المسلمون کا (خلافِ معمول) انتخابات جیت
کر حکومت کھودینا کوئی ایسی تشویشناک چیز۔البتہ ہمارا تجزیہ ہے کہ الاخوان اور جماعت دن بہ دن
اُس نقطے سے قریب تر ہورہی ہیں جہاں اِن کو مغربی مصنوعات کو اسلامیانے کے حوالے
سے اپنے اختیار کردہ منہج پر ایک نظرثانی کرنی ہے اور ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ کے حوالے
سے (نہ کہ ’’منہج انقلاب‘‘ کے حوالے سے)[1]
– ترجیحاً – اُس پرانے نقطے پر واپس جانا
ہے جہاں سے ان کے تحریکی سفر کا آغاز ہوا تھا۔ اخوان کا، مغرب اور اُس کے کاسہ لیس
لبرلز کو آئینہ دکھانے کےلیے ’جمہوریت‘ کا حوالہ دینا کچھ ایسا تشویش ناک نہیں۔
سیاست کے اِس عمل میں حصہ لینا ہے تو لفظِ جمہوریت کا ایسا (الزامی) استعمال
یقیناً باعثِ قدح نہیں۔ خود جمہوری عمل ہی کا ایسا استعمال ہماری نظر میں مضرت
رساں نہیں، کم از کم بھی یہ کہ علمائے توحید کے ہاں یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے،
یعنی اِس معاملہ میں تعددِآراء کی گنجائش ہے، لہٰذا کوئی اگر یہ رائے اختیار کرتا
ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ اُس کے ساتھ ایک فقہی اختلاف رکھ سکتے ہیں جوکہ کوئی ایسی
پریشان کن بات نہیں۔ اصل باعثِ تشویش مسئلہ ’’ڈیموکریسی‘‘ اور اس کے مشتقات کو
خود اپنے فکری پیراڈائم کے اندر جگہ دینا اور اپنے نظریات کی دنیا میں اس کو قبول کرنا ہے، جس
پر پیچھے ہم گفتگو کرآئے ہیں۔ البتہ اب، اِن واقعات کے رونما ہونے کے بعد جو مصر
میں ہوئے اور ہورہے ہیں اور جوکہ خدانخواستہ طول بھی کھینچ سکتے ہیں...، خود
الاخوان کے نوجوانوں کا اِس جمہوریت بی پر کس قدر اعتماد رہ جائے گا؟ اصل
امیدافزا سوال یہ ہے۔ وہ سب کھیلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد جو پاکستانی
سیاست میں کھیلی جارہی ہیں اور جوکہ خدانخواستہ بڑے عشروں تک جاری رہ سکتی ہیں اور
جس کے نتیجے میں یہاں کی وہی تلچھٹ بدل بدل کر اوپر آتی رہے گی... یہ سب کچھ
دیکھتے چلے جانے کے بعد خود جماعتِ اسلامی کے نوجوانوں کی اِس محترمہ جمہوریت
سے نظریاتی وابستگی کس قدر باقی رہے گی؟
اصل حوصلہ افزا سوال اللہ کے فضل سے یہ ہے۔ اِس جمہوری کاٹھ کباڑ کو (فی الوقت)
استعمال کی چیز کے طور پر لینا تو (بشرطیکہ اِس کے واقعتاً کہیں پر کام دینے کا
امکان ہو) ہمارے نزدیک کوئی ایسا پریشان
کن مسئلہ ہی نہیں ہے، جیساکہ ہم اپنے مضمون ’’درمیانی مرحلہ کے بعض احکام‘‘ میں
اِس پر کچھ گفتگو کرآئے، البتہ اس کو سر آنکھوں پر بٹھانے کی چیز ماننا، اِس کے
’تقدس‘ کی مالا جپنا،
اور اس کی ’مرجعیت‘ پر یقین رکھنا، اس کی اپنی کسی ’حیثیت‘ کو تسلیم کرنا اور اِس
کو اپنے فکری پیراڈائم میں باقاعدہ جگہ دیے رکھنا اب اخوان یا جماعتِ اسلامی کے نوجوان
کےلیے کہاں تک ممکن رہے گا؟ اور جبکہ صورتحال یہ ہو (جیساکہ پیچھے ہم اِس جانب
اشارہ کرآئے) کہ جب سے ہمارے عالمی جہاد
کا فنامنا جوان ہونے لگا ہے، یہاں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور
اخوان اور جماعت کے نوجوانوں کی دنیا میں ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ آپ سے آپ اچھی خاصی
سرایت کرچکا ہے۔ اور اب یہ عالمی و مقامی حالات ہیں جو اِس ذہنی تبدیلی کے عمل کو
کچھ اور ہی تیز کردینے والے ہیں۔ کیا یہ صورتحال مغربی اشیاء کے ’اسلامی‘ ملغوبوں
کے حق میں انتہائی تشویشناک نہیں؟
ہم اپنی آنکھوں ملاحظہ کرچکے ہیں کہ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی وغیرہ میں
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اگر کسی چیز سے متاثر ہے تو وہ ہمارا عالمی جہادی عمل
ہے۔ ’’عبداللہ عزام کا قافلہ‘‘ ان کے یہاں آج سب سے بڑھ کر کشش رکھتا ہے۔ اِن
تنظیموں کی ایک اچھی خاصی تعداد جہادی جماعتوں کو جائن تک کرچکی ہے؛ جس نے جائن
نہیں کیا وہ بھی ’’جہادی فکر‘‘ سے متاثر ضرور ہے۔
شاید یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہو کہ چونکہ اِن تنظیموں میں پائے جانے والے
اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ’’معاشرے کے لوگوں‘‘ پر مشتمل ہے اور
بوجوہ عسکری ضرورتوں پر بہت زیادہ فٹ آنے والی نہیں، اس لیے جہادی جماعتوں کو جائن
کرلینے کی صورت میں یہ اپنے آپ کو بڑی حد تک معطل دیکھتی ہے[2] اور یہ وہ
واحد بڑی وجہ ہے جو یہ نوجوان ان جماعتوں میں چلے جانے سے رکے ہوئے ہیں، تاہم اگر
’’جہادی‘‘ پیراڈائم کی حامل جماعتوں کے پاس یہاں ’’معاشرتی عمل‘‘[3] کا کوئی
میدان ہوتا تو شاید ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اُس کا حصہ بنتی، کیونکہ اپنے
حالیہ سیٹ اپ میں وہ معاملے کو کسی سمت بڑھتا نہیں دیکھ رہی جبکہ ’’جہادی‘‘
جماعتوں کے پیراڈائم میں وہ اچھی خاصی قوت اور فاعلیت دیکھ رہی ہے۔
کیوں نہ ایسا
ہوجائے کہ جماعتِ اسلامی، جوکہ معاشرے کی سرزمین پر باطل کو پچھاڑنے
اور مسلم نوجوانوں کو معاشرتی پیشقدمی کروانے کےلیے بہترین اور مثالی ترین فورَم ہوسکتا ہے، خود جہادی جماعتوں
ہی سے (ذہنی طور پر) وابستہ یا متاثر اُن طبقوں کی سرگرمی کےلیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرے جو
یہاں معاشرتی عمل کے ذریعے باطل کے ساتھ پنجہ آزمائی میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
جس کےلیے، ہماری نظر میں، کچھ شرط نہیں ہے سوائے اِس ایک بات کے کہ جماعت اپنے نظریاتی پیراڈائم سے مغربی اشیاء کے
اسلامی ملغوبوں کو نکال باہر کرے۔ جیساکہ ہم اپنے مضمون ’’درمیانی
مرحلہ کے بعض احکام‘‘ میں عرض کرچکے، مغربی اشیاء کے ساتھ (مصالح اور مفاسد کے
موازنہ کی بنیاد پر) ڈیل کرنا تو مسئلہ نہیں (تاآنکہ خدا عالم اسلام میں ہمیں ایک
پائیدار صورتحال نصیب فرمائے اور ہم اِن جاہلی اشیاء کے ساتھ ڈیل کرنے تک سے
مستغنی ہوجائیں)، البتہ اِن اشیاء کو ’اسلامی‘ جوڑ لگانے بیٹھ جانا، ان اشیاء کو
خود اپنے نظریات کے احاطے ہی میں جگہ دے ڈالنا اور ان کو اسلام سے ’ہم آہنگ‘ کرنا
درحقیقت ایک بڑی آفت ہے[4]اور
جوکہ یہاں ایک ٹھیٹ اسلامی تبدیلی کے ریشنال ہی
کو فوت کردیتی اور خود اپنا ہی راستہ اپنے اوپر بند کرلیتی ہے، علاوہ اس اہم تر
بات کے کہ یہ چیز خدا کو ہی ناراض کردینے کا موجب ہے۔
پس ان جاہلی اشیاء کے ساتھ معاملہ کرنا تو قابلِ فہم ہےمگر ان جاہلی اشیاء کو
اسلام کے ٹانکے لگانا خود اپنے ہی کیس کو
ختم کرلینے کے مترادف ہے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں اب
مزید عشرے نہیں لگانے چاہئیں۔ جاہلی اشیاء (مانند ڈیموکریسی، کونسٹی
ٹیوشن، پارلیمنٹ، لیجس لیشن، نیشن سٹیٹ، بیسک رائٹس... روٹی، ترقی اور آسائشاتِ
دنیا کے نعرے، جوکہ یہاں فی نفسہٖ مطلوب بلکہ معبود ہوتے ہیں، وغیرہ) کو اسلام کے ٹانکے لگا کر ہمارا
اسلامی کیس فوت ہوسکتا نہیں ہوچکا ہے۔
اخوان نے اس کا اندازہ کرلیا ہے، اس لیے پورے انتخابی ایجنڈے میں انہوں نے
’’اسلام‘‘ کو سرے سے باہر رکھا ہے۔ حتى کہ
پارٹی کا نام ’’اسلام‘‘ سے ہٹ کر رکھا۔ کوئی سرکاری قدغن نہ ہوتی تو بھی وہ ایسا
ہی کرتے۔ کیونکہ اِس میدان میں آگے بڑھنے کا صاف صاف یہی تقاضا ہے۔ اور یہاں؛
بلاشبہ ان کو کامیابی بھی ملی ہے۔ اِس کھیل میں ’’اسلام‘‘ ایک کیس کے طور پر پیش
کیا ہی نہیں جاسکتا۔ خود جماعت کے حلقوں میں بڑے عرصے سے اب یہی لےدے ہو رہی ہے کہ
’’اسلامی انقلاب‘‘ کا بوجھ کب تک اٹھا کر پھرا جائے؛ کیوں نہ ’’انصاف و ترقی
پارٹی‘‘ کے ساتھ ملتےجلتے کسی نام کے ساتھ ہی اب اِس کوچے میں آنا جانا شروع کیا
جائے۔ ایسی تبدیلی ظاہر ہے صرف نام کی حد
تک نہیں ہوسکتی پورا ایک ڈسکورس بھی بدلنا پڑےگا اور بالکل ایک نئے گیٹ اپ کے ساتھ
میدان میں اترنا پڑے گا۔ نام یا گیٹ اپ بدلنا یا مزید کچھ ایسے اقدامات کرنا جو
اِن جاہلی اشیاء کے ساتھ معاملہ کرنے کا تقاضا ہوں خود ہماری نظر میں قابل اعتراض
نہیں بشرطیکہ آپ کا نوجوان ایک ٹھیٹ پیراڈائم کا حامل ہو، اسلام اور جاہلیت کے اس
فرق سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اس کا معتقد اور داعی اور شعوری و وجدانی طور پر اس
کشمکش کا حصہ ہو، دو ملتوں کی اِس مخاصمت اور مفاصلت پر گہرا یقین رکھنے والا
ہو... غرض اسلام اور جاہلیت کے ان سب ملغوبوں کی نفی کرنے والا ہو جن کو آپ کے
یہاں پچھلے کئی عشروں سے چلایا جارہا ہے۔ بلکہ اسلام اور جاہلیت کی یہ جنگ ہی،
جوکہ آپ کے نوجوان کو خود آپ کے اِس ’اسلامی معاشرے‘ میں قدم قدم پر درپیش ہے، اس
کے تصورِ عمل کی تشکیل کررہی ہو۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اِس مضمون کے اندر خاصے
شروع میں بیان کرآئے ہیں اور جوکہ یہاں آگے بڑھنے کےلیے ہماری نظر میں نہایت مطلوب
اور آپ کی بنیادی ضرورت ہے، یعنی: ایک ٹھیٹ
اسلامی پیراڈائم جو آپ کو محمد بن عبدالوہاب اور سید قطب سے ملتا ہے، تاہم ’’پیش
قدمی‘‘ کے طریقِ کار کے حوالے سے ’منہجِ انقلاب‘ اختیار کرنے کی بجائے ’’دستیاب
مواقع‘‘ اختیار کرنا۔ یہاں؛ بیک وقت آپ کے آگے بڑھنے کے راستے بھی کھلے
رہتے ہیں (جبکہ ’منہجِ انقلاب‘ آپ کے آگے بڑھنے کے بہت سے راستے بند کرکے رکھتا
ہے) البتہ آپ کے محرکاتِ عمل motives اور
اہداف objectives
بھی سلامت اور کسی اصل پر
قائم رہتے ہیں اور وہ سمت بھی برقرار رہتی ہے جو آپ کے کسی ’تدبیری عمل‘ سے دراصل
آپ کا مقصود ہونا چاہئے؛ اور جس کے دم سے ایک تدبیر محض ’تدبیر‘ ہی رہتی ہے
باقاعدہ ’’منہج‘‘ نہیں بن جاتی! اور جوکہ پیراڈائم (عقیدہ) پر ڈھیروں محنت نہ ہو تو
یقیناً بن جاتی ہے۔
پس ایک تبدیلی تو
جماعت کے یہاں بڑی حد تک due ہے۔ صرف ہم نہیں کہہ رہے، جماعت کے اندر اِس پر
زور و شور سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ جماعت بڑی دیر سے ایک مفرقِ طرق cross-roads پر کھڑی ہے۔ اسی لیے آگے بڑھنے کا عمل بھی خاصی
دیر سے موقوف ہے۔ یہ صورتحال زیادہ عرصہ جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ سامنے راستے ایک
نہیں کئی ہیں اور بڑی بڑی مختلف سمت کو لےجانے والے ہیں۔ البتہ کچھ نہ کچھ فیصلہ
کرنا ٹھہر گیا ہے، چاہے اِس سمت کو جائیں یا اُس سمت کو۔ جہاں کھڑے ہیں البتہ وہاں
کھڑے نہیں رہ سکتے؛ کیونکہ یہاں ’’کھڑا‘‘ ہی ہوا جاسکتا ہے ’’چلنا‘‘ ہے تو اب
لامحالہ کوئی سمت لینا ہوگی۔ وہ سمت جو پچاس کی دہائی میں لی گئی جتنا کام دے سکتی
تھی دے چکی اور جہاں آپ کو پہنچانا تھا وہاں پہنچا چکی۔ ایک کراس روڈز البتہ پھر آچکا اور ایک فیصلہ آپ کو پھر لینا ہے۔
پچاس کی دہائی میں ’’پیراڈائم‘‘ کی قربانی دی گئی اور ’کچھ‘ راستہ کھل گیا، لیکن
جہاں پہنچے وہ آپ نے دیکھ لیا۔ اب آپ کے ’عملیت پسند‘ حضرات زور لگا رہے ہیں کہ
’انقلاب‘ کی قربانی بھی دے دی جائے اور ’اسلامی‘ نام، پہچان اور حوالوں ہی سے
آزادی پائی جائے تاکہ راستہ ’کچھ‘ اور کھلے۔ یقیناً اس سے راستہ ’کچھ‘ نہیں
’’خاصا‘‘ کھل جائے گا بلکہ شاید اتنا کھل جائے کہ سب سمتیں ایک ہوجائیں اور آئندہ ہمیشہ کےلیے آپ کو مزید کسی ’فیصلے‘
سے بےنیاز کردے۔ یہ پانی کا ایک بند ٹوٹنے سے مشابہ صورتحال ہوسکتی ہے جس کے بعد
’سمت کا تعین‘ تقریباً ایک غیرمتعلقہ سوال بن جاتا ہے۔ آپ کے قابو میں کچھ ہے تو
وہ ’بند‘ ہے، البتہ جب وہ توڑ دیاجائے تو پھر ’پانی‘ اپنا راستہ خود بناتا ہے!
جبکہ ہمارے خیال کے مطابق آپ کو یہاں ایک ’’دھارا‘‘تشکیل دینا ہے!!!
معاملہ ایک گہرے
غوروخوض کا ضروتمند ہے جوکہ یقیناً آپ کررہے ہونگے۔
یعنی تبدیلی تو کچھ نہ کچھ ہونی ہے۔ ہم کچھ نہ بھی کہیں تو ہونی ہے۔ پس ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے تحت...
ہماری تجویز جماعت کےلیے یہ ہوگی کہ وہ غلطی جو پچاس کے عشرے میں کی گئی اُس کی
تصحیح آج کرلی جائے:
ý
’’پیراڈائم ‘‘کو واپس اُس نقطے پر لےجایا جائے جہاں سے تیس کی دہائی میں آغاز کرایا گیا اور
اس پر جماعت کے ایک ایک فرد کو – ازسرنو –
ڈھیروں محنت کرائی جائے اور قیادتوں تک میں ’’فکری وعلمی رسوخ‘‘ کو خصوصی
بنیاد بناتے ہوئے ایک نظرثانی ہو، بلکہ ہم کہیں گے ایک باقاعدہ ’’تشکیلِ نو‘‘ ہو۔
تیس اور چالیس کے بعد والی تبدیلیوں کے
حوالے سے سید مودودی کی بجائے سید قطب کی عقائدی اپروچ اختیار کی
جائے۔ مغرب کی جن جن برآمدات کو ’کلمہ
پڑھا لینے‘ کے بعد اپنے ’اسلامی‘ حرم میں داخل کیا گیا تھا نکال باہر کیا جائے اور
تصورِ دین کے حوالے سے (خصوصاً سماجی مذاہب کے معاملہ میں) اپنے نوجوان کو ازسرنو
ایک شدید ٹھیٹ بنیاد پر کھڑا کیا جائے۔ کفر بالطاغوت و ایمان باللہ، شرک سے
بیزاری، باطل کا قطعی انکار اور جاہلیت کے ساتھ ایک کھلی جنگ ایسی بنیادی شرعی
حقیقتیں آپ کے نوجوان کے وجود سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہی ہوں۔ اس کےلیے تعلیمِ عقیدہ کی کلاسیکل اپروچ اختیار
کرنا بھی ہماری نظر میں ضروری ہوگا اور ورثۂ سلف کی خاصی بھاری بھاری خوراکیں
دینا ہوں گی خصوصاً اپنے قائدین کو۔ (تعلیمِ عقیدہ کے حوالے سے) فی الوقت کا یہ
سرسری (لا یُسمِن ولا یُغنی من جوع) اسلوب ترک کرنا ہوگا۔ ایک ٹھیٹ
پیراڈائم اس کے بغیر تشکیل پانے والا نہیں۔
ý
’’پیراڈائم‘‘ کو
اگر واپس تیس والے نقطے پر لے جایا جاتا ہے نیز تعلیمِ عقیدہ کی ایک ٹھیٹ
(کلاسیکل) اپروچ اختیار کرلی جاتی ہے تو پھر چاہے ’’انقلابی منہج‘‘ کی قربانی دے
لی جائے۔ اور اس کی جگہ پر ’’دستیاب مواقع‘‘ کو اختیار کرنے کی اپروچ اختیار کر
لی جائے؛ اور جوکہ ترکی اور عرب ملکوں کی تحریکِ اسلامی تقریباً کرچکی ہے۔ اِس
صورت میں (اور محض اِسی صورت میں) سیاسی یا انتظامی ضرورتوں کے تحت ناموں
یا مظاہر (لیبلنگ، برانڈنگ وغیرہ) کی حد تک کیموفلاجنگ ان شاء اللہ باعثِ حرج
نہیں۔ }ترکی تجربہ کے حوالے سے ہم اپنے مشائخ کی آراء پیچھے بیان
کرآئے کہ عبداللہ گل اور طیب رجب اردگان
وغیرہ کا اپنا فکری پیراڈائم اگر ایک واضح ٹھیٹ عقیدے پر مشتمل ہو، یعنی مغربی
درآمدات یا ان کی ’اسلامیائی‘ گئی شکلوں کےلیے ان کے تصورِ دین میں ہرگز کوئی
گنجائش نہ ہو بلکہ ان بدیسی تصورات کے ساتھ ان کی عداوت ہو (اور جوکہ عبداللہ گل و
اردگان اور ان کی پارٹی کے معاملے میں خاصی حد تک محل نظر ہے، اور یہی بات اِس
معاملہ میں اصل باعثِ تشویش و باعثِ اعتراض ہوسکتی ہے) تو محض ایک تدبیر کے طور
پر ان کا وہ راستہ اپنانا جوکہ انہوں نے ترکی سیاست میں اپنا رکھا ہے باعثِ مذمت
ہرگز نہیں{۔ آدمی خود ایک محکم و راسخ عقائدی بنیاد پر کھڑا ہو، تو ملکی
سیاست یا انتظامی مشینری میں ’’دستیاب گنجائش‘‘ کے مطابق ہی اپنے آپ کو فی الحال
نمایاں کرنا اور اپنا پورا ایجنڈا سامنے لانے سے ایک عرصہ تک گریز کرنا اور
پھر جیسے جیسے گنجائش ملتی چلی جائے ویسے ویسے کھلتے چلے جانا، البتہ جتنی گنجائش
ملے اُس کو بھرپور طور پر (اور آخری حد تک
بےلحاظ ہوکر، بلکہ بوقتِ ضرورت اپنی زندگی
اور سلامتی کی قیمت پر) اسلامی ایجنڈا کے حق میں استعمال کرجانا اور باقی
کےلیے مسلسل کوشاں اور مواقع کا متلاشی رہنا... غرض عمل اور نفاذ[5] میں ’’تدریج‘‘ کا
راستہ اختیار کرنا اور سارا کچھ ایک ہی دن میں کرگزرنے کے اسلوب سے کنارہ کش رہنا
ایک صائب طریقِ کار ہے۔ اس کو اختیار کرنے
میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ جہاں مضائقہ
ہے اُس کی ہم نے نشاندہی کردی اور وہ آدمی کا اپنا ’’تصورِ دین‘‘ اور ’’حقیقتوں کے
تعین کے معاملہ میں اُس کی اختیارکردہ اپروچ‘‘ ہے جس میں جاہلیت سے یکسر مختلف طریق اختیار کرنا، مشرکین سے اپنا راستہ جدا کرنا اور دوزخی
ملتوں سے الگ تھلگ ایک طریق اختیار کرنا، اور راستوں کے اِس فرق کے مسئلے میں کوئی
جھول نہ آنے دینا ’’مسلم‘‘ ہونے کا بنیادی ترین تقاضا ہے۔ اِسی کو ہم عقیدہ بھی
کہتے ہیں۔ اِس میں کوئی ’’تدریج‘‘ نہیں۔ یہاں ’’استطاعت و عدم استطاعت‘‘ کی کوئی
بحث نہیں۔ اِس میں کوئی ڈھیل اور کوئی نرمی نہیں۔ ہاں ’’اعمال‘‘ کے اندر ’’تدریج‘‘
بھی ہے۔ ’’عدمِ استطاعت‘‘ کا اعتبار بھی۔ اور نرمی و رخصت وغیرہ ایسی اشیاء کی
گنجائش بھی۔ نیز بھول چوک اور سستی کوتاہی پر چھوٹ اور معافی کا امکان بھی
’’اعمال‘‘ میں زیادہ ہے بہ نسبت ’’اعتقاد‘‘ کے۔ پروردگار کے سامنے اعلیٰ ترین حالت
میں پیش ہونا ’’اعتقاد‘‘ کے معاملہ میں کہیں اہم تر اور نازک تر ہے بہ نسبت
’’اعمال‘‘ کے۔
ý
اِس کے علاوہ ’’تربیت‘‘ کے منہج پر نظرثانی کی جائے۔ فی
الوقت ایک تنظیمی وانقلابی قسم کی تربیتی اپروچ اختیار کی جارہی ہے۔ جبکہ
’’تربیت‘‘ کے سلسلہ میں آپ کو ایک ’’ایمانی و عقائدی‘‘ قسم کی اپروچ درکار ہے۔
یہاں؛ آپ کو کسی تصوف کی ضرورت نہیں، ’’ایمانی وعقائدی‘‘ اپروچ اختیار کی جائے جس
کی بنیاد ’’قرآن اور عبادت پر محنت‘‘ ہوگی تو تربیت کی روحانی جہتیں خودبخود
آجائیں گی۔ ’’تربیت‘‘ کے سلسلہ میں شاید آپ کو اخوان کے منہج سے بھی کچھ استفادہ
کرنا ہوگا (حسن البنا سے بہتر مربی اِس دور میں شاید ہی کوئی پایا گیا ہوگا) اور
کچھ استفادہ اِس سلسلہ میں جہادی جماعتوں کے منہج سے بھی کرنا ہوگا۔ اس کے بعد جب
آپ اپنے نوجوان کو عمل کے کارزار میں اتاریں گے تو کچھ زیادہ ٹھوس نتائج کی امید
رکھ سکیں گے (اور اگر ’کیموفلاج‘ کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے، جیساکہ ترکی میں ہوا، تو
اس کی مشکلات پر بھی زیادہ بہتر طور پر قابو پاسکیں گے)۔
ý
سماجی خدمت اسلامی تحریکوں کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اِس حوالے
سے ’’الخدمت‘‘ ایسے قومی سطح کے بڑے بڑے
آپریشنز کی بجائے محلہ وار neighborhood based سماجی عمل کی داغ بیل ڈالی جائے، }اِسی کو ہم گراس روٹ ورک بھی کہتے ہیں
جس کا تجربہ حماس نے فلسطین میں اور حزب اللہ(ایک رافضی تنظیم) نے لبنان میں خاصی
کامیابی کے ساتھ کیا ہے{
اور اِس راہ سے لوگوں کی روزمرہ
زندگی کا حصہ بنا جائے۔ عمل کا ایک انقلابی وتنظیمی فارمیٹ رکھنے کی
بجائے دعوتی اسلوب اختیار کیا جائے تو سماجی عمل میں اس کے نتائج کہیں زیادہ
زوردار دیکھے گئے ہیں۔معاشرے کے تھوڑے مگر موثر طبقے کو اپنی پشت پر لےآنے میں اِس
عمل کے اثرات غیرمعمولی ہیں، یہاں تک کہ تنظیمیں اِس راہ سے پورے پورے علاقے کو
اپنی مٹھی میں کرلینے کی پوزیشن میں آجاتی ہیں۔
ý امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک اسلامی شرعی فریضہ ہونے
کے ساتھ ساتھ معاشرے پر حاوی ہونے کا ایک نہایت جاندار ذریعہ ہے۔ تاہم اس کے قوی
تر نتائج بھی دعوتی اسلوب کا مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
ایک خاص علاقے کو
فوکس کرکے سماجی خدمت، عوامی تعلیم، دعوتی حلقہ جات اور امربالمعروف و نہی عن
المنکر ایسے پراجیکٹ بیک وقت چلائے جائیں تو یہ ایک موثر پیش قدمی کا باعث بنتا
ہے۔ تاہم اصل سوال یہ رہتا ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کس چیز پر کیا جارہا ہے۔
’اسلامی نظام‘ یا ’انقلاب‘ یا ’خلافت‘ یا ’اسلامی حکومت‘ وغیرہ لوگوں کو سمجھ آنے
والی چیزیں نہیں، چاہے فی الحال آپ جتنا بھی سمجھا لیں۔ البتہ بنیاد اگر ان کو ’’خدا
کے ساتھ جوڑنا‘‘، ’’عقیدہ کو خالص کرنا‘‘ ’’شرک سے بیزار کرانا‘‘، ’’گناہوں
اور بدعتوں کے خلاف سرگرم ہونا‘‘، علاقے میں کسی ’’ظلم یا کرپشن یا فسق و فجور کے
اڈوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا‘‘، ’’مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا‘‘، ’’بھوکوں کو
کھلانا، ننگوں کو پہنانا‘‘ وغیرہ ہو تو بات لوگوں کو سمجھ آتی ہے اور لوگ ایسے
نیوکلئس کے گرد اکٹھے ہوتے چلے جاتے ہیں اور تھوڑی دیر میں علاقے کے اندر
تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے ’’انقلابی‘‘ کی
نسبت ’’عقائدی‘‘ / ’’اصلاحی‘‘ / ’’دعوتی‘‘ اپروچ کا نام دیا
ہے۔
ان سب اعمال کا
محور وہی ایک ہے، جس کا ہم اچھا خاصا اعادہ کرچکے:
ý باطل، شرک، معصیت اور جاہلیت کے خلاف مسلم معاشرے کی ایک
شدیدترین مزاحمت میدان میں لےکر آنا، اور
ý معاشرے اور معاشرتی عمل پر زیادہ سے زیادہ حاوی ہونا، اور
اِس راہ سے زیادہ سے زیادہ مقاصدِ حق کا حصول یقینی بنانا۔
اِس دوران کسی
ناگہانی عمل کے نتیجے میں آپ کے ہاتھ میں اقتدار آجاتا ہے تو بھی عمل کا بنیادی
محور یہی رہے گا اور اقتدار سے عین اسی ہدف ہی کو حاصل کرنے میں مدد لی جائے گی۔
کوئی اقتدار وغیرہ ہاتھ نہیں آتا تو بھی استقامت اور دلجمعی کے ساتھ اِسی محور پر
کام جاری رکھا جائے گا۔
آپ باطل کے خلاف سرگرم اور حق کو حسب استطاعت نصرت اور تمکین دلوانے میں مصروف
ہیں تو یہاں کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ پر خدا کی جانب سے عائد اجتماعی فرائض میں
پوری ہونے سے رہ گئی ہو۔ جس قدر محنت ہونی ہے وہ اسی میدان میں ہونی ہے۔
معاشرے میں اترنا
اِس وقت (اجتماعی فرائض میں) – قتال فی
سبیل اللہ کے بعد – اہم ترین فرض ہے۔
[1] اِس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیے اِسی مضمون میں
ہماری گفتگو صفحہ 39 تا 50
[2] جبکہ
حق یہ ہے کہ خود جہادی جماعتوں میں ایک بڑی تعداد ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں
کی ہے جو بوجوہ عسکری ضرورتوں پر بہت زیاد فٹ آنے والے نہیں، بلکہ امکانی طور
پر potentially ’’معاشرتی
عمل‘‘ میں ہی کام دینے والے ہیں اور اس لحاظ سے وہ جہادی جماعتوں میں رہتے ہوئے
اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے بڑی حد تک معطل ہیں۔ اِس لحاظ سے؛ یہ ضرورت تو بہت بڑی
ہے کہ ہمارا نوجوان ان دونوں محاذوں پر بیک وقت پیش قدمی کرے: (اپنی صلاحیتوں کے
اعتبار سے) کوئی جہادی محاذ پر آگے بڑھے اور کوئی معاشرتی محاذ پر، اور کوئی ہردو
محاذ پر۔ ہمارے جہادی محاذ کی کارکردگی اللہ کا شکر ہے بری نہیں۔ اب اگر ہمارا
(ٹھیٹ پیراڈائم کا حامل) معاشرتی محاذ بھی اٹھ کھڑا ہو اور یہاں آگے بڑھنے کےلیے
اُسی جہادی جذبے سے کام لے اور اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، تو ہم
امید رکھتے ہیں کہ یہاں اللہ کے دشمنوں
(سیکولرز، لبرلز وغیرہ) کی بساط بہت جلد لپیٹی جاسکتی ہے۔ کم از کم بھی، اس عمل کو
اگلے کسی گیئر میں ڈالا جاسکتا ہے۔
[3] ’معاشرتی عمل‘ یہاں ’عسکری عمل‘ کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے۔ مراد ہے
معاشرے کے اندرونی محاذ پر ہونے والا کام مانند باطل کے ساتھ نظریاتی محاذ آرائی،
اپنے اِس نظریاتی معرکے کو یہاں کے اداروں اور سماجی شعبوں کے اندر لے کر جانااور
سیاسی ودعوتی طور پر معاشرے پہ اثرانداز ہونا۔
[4] اس کی سادہ مثال یوں سمجھئے... اگر
کسی وجہ سے آپ کو یہاں کے ايك کنونشنل بینک کے ساتھ ڈیل کرنے کی ضرورت آپڑی ہوئی
ہے تو اس معاملہ میں کسی پیچیدگی کے اندر پڑے بغیر جائیے اور اس بینک کے ساتھ ڈیل
کر آئیے۔ مثلاً وہاں پر اکاؤنٹ کھلوانا، اور اس مقصد کےلیے وہاں پر آناجانا اور
کچھ دیر کےلیے بیٹھنا، اپنی رقوم جمع کروانا، نکلوانا یا ٹرانسفر کروانا اور بین
الاقوامی تجارت کےلیے ایل سی کھلوانا، وغیرہ۔ ظاہر ہے بینک کے سودی ہونے کے باوجود
اس کے ساتھ اِس حد تک ڈیل کرنے کی آپ کو کہیں سے شرعاً گنجائش ملی تو ہی آپ نے اس
کے ساتھ اپنی اِس خاص صورتحال میں اِس حد تک ڈیل کرنا قبول کیا، ورنہ ظاہر ہے نہ
کرتے۔ یہاں تک يقيناً کوئی برائی نہیں؛ اپنی اِس ضرورت کو پورا کرنے کی اسلامی
صورت آپ کو دستیاب ہوتی تو اِس سودی بینک کے ساتھ آپ کا یہی تعامل قطعاً حرام
ٹھہرتا۔ پس جس چیز نے وقتی طور پر آپ کےلیے یہ گنجائش پیدا کروائی وہ فی الحال
اِس عمل کے لیے مختص اسلامی ادارہ کا نہ ہونا ہے؛ کیونکہ انسانی زندگی کو معطل
بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اب آپ
ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور فرمانے لگتے ہیں کہ چونکہ اس سودی بینک کے ساتھ ڈیل
کرلینے کی گنجائش مجھے شریعت سے ملی ہے (اور جوکہ یقیناً ملی ہے) اس لیے یہ سودی
بینک ہی کچھ ایسا قابل اعتراض نہیں رہ گیا ہے، خصوصاً اگر بینک نے کہیں پر ایک آدھ
لائن یہ بھی لکھ دی ہو کہ ہمارے سب معاملات شریعت کے مطابق کرلیے جائیں گے ماسوا
فلاں اور فلاں امور کے(اور اس استثناء میں اپنے اکثر معاملات پھر ذکر کردیے ہوں،
جیساکہ آپ کے دستور کے ’اسلامک پرووژنز‘ والے چیپٹر، نیز ’فیڈرل شریعت کورٹ‘ والی
دفعات نے اپنی ’’استثناؤں‘‘ کے ذریعے کیا ہوا ہے)! یوں آپ اس بینک کو ہی ’اسلام کے
ساتھ ہم آہنگ‘ ٹھہرانے چل پڑتے ہیں۔ اب جب یہ بینک ہی آپ کی نگاہ میں ناقابل
اعتراض اور ’اسلام سے ہم آہنگ‘ ہوگیا تو آپ کے مجوزہ ’’اسلامی ادارہ‘‘ کا اسقاط
بھی آپ سے آپ ہوگیا جس کا نہ ہونا اِس سودی بینک کے ساتھ وقتی طور پر ڈیل کرنے کا
سبب بنا تھا! اور یوں آپ نے اپنے اُس اسلامی ادارہ کا ریشنال آپ اپنے ہاتھ سے
دفن کردیا۔
[5] ویسے بھی اسلام کا منہج: عقیدہ میں شدت اور صلابت جبکہ اعمال میں یُسر اور
سہولت ہے۔ اسی کو حدیث میں ’’حنيفية سمحة‘‘ کہا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیے ہماری
کتاب ’’موحد تحریک‘‘ کی فصل: ’’الحنیفیۃ السمحۃ... آسانی اور رواداری پر مشتمل
ٹھیٹ موحدانہ طرزِعمل‘‘)۔ جبکہ برصغیر کے ایک
کثیر طبقے کے ہاں ہم دیکھتے ہیں معاملہ اسکے برعکس ہے: اعمال پر خصوصی زور بلکہ
بےجا شدت جبکہ عقیدہ کے معاملہ میں آخری درجے کی ڈھیل اور بوداپن بلکہ بےبنیاد،
غیرمستند اور مبتدَع امور کا پورا ایک پلندہ! اس لحاظ سے ہمیں معلوم ہے ’’الحنيفية السمحة‘‘ کی یہ اپروچ یہاں کے ایک بڑے دینی طبقے کے لیے ایک حیران
کن چیز ہوگی۔ لیکن زمانہ جس قیامت کی چال
چل گیا ہوا ہےاور ملتوں کا وہ غیرمعمولی تصادم جو ہمارے
دروازوں پر دستک دے رہا ہے (بلکہ ہمارے دروازے اکھاڑ دینے کو ہے) اور جس کو فی
الحال ’گلوبلائزیشن کی آمد‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے اور جوکہ یہاں کا سب کچھ تہ
وبالا کرجانے والا ہے جس کے بعد شاید کچھ بچے ہی نہ جس کے ’چلے جانے‘ کے اندیشے
ظاہر کیے جائیں، نیز معاشرہ کی اور بہت سی خوفناک معروضی حقیقتیں اس وقت نہایت
صریح اور بےلحاظ ہوکر یہ تقاضا کررہی ہیں کہ کسی لومۃ لائم کی پرواہ کیے بغیر ’’عقیدہ
میں شدت اور اعمال میں یُسر‘‘ کا یہ منہج ہی اپنے اِس نوجوان کو دے کر کارزارِ
عمل میں اتارا جائے، اور جوکہ نہ صرف دین، فقہ اور اسلامی تعلیم وتربیت کا ایک
عمومی منہج ہے بلکہ اِس جنگ میں پورا اترنے کےلیے بہترین اور مناسب ترین حکمتِ
عملی بھی ہے۔