عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2013-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار.. اور امت کا طائفہ منصورہ
:عنوان

دنیا کو آسمانی حوالوں سے پاک کرنا اصل منصوبہ ہے۔ یہاں؛ آخرت ہاتھ سے دینا ضروری ہے البتہ دنیا پانے کی ضمانت آپ کو کوئی نہیں دے سکتا! ’بھروسے‘ کے سوا چارہ نہیں خدا پر کرلیں یا ابلیس پر!۔

. اصولعقيدہ . اداریہ :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار..  اور

امت کا طائفہ منصورہ


حالات کو سرسری انداز میں پڑھنا... واقعات میں ہی اٹک کر رہ جانا اور ان کے پیچھے متحرک عوامل  کو نظرانداز کرجانا... خلقت کا عام  شیوہ ہے۔ البتہ تعجب ہوتا ہے جب قوم کے سمجھدار بھی اشیاء کو دیکھنے اور دکھانے کےلیے ویسی ہی سطحی نظر اختیار کریں۔

بڑی ہی حیرت ہوتی رہی ہے اس لایعنی ’سنسنی‘ پر جو پاکستانی انتخابات کے حوالے سے ماحول پر چھائی رہی ہے اور بہت سوں کو ’دل تھام لینے‘ پر مجبور کردیتی رہی ہے! ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر.. قوم کی ’قسمت جاگ اٹھنے‘ کی امید ! اسلام پسندوں کے روٹھے نصیب پر ’زودپشیماں‘ ہونے کا شبہ! ’گنتی‘ کے بازار میں ’’تول‘‘ اور ’’ترازو‘‘ کی رِیت ہوجانے کی آس!  شیر کو  تیسری باری، بلا پھر کسی وقت، تیر واپس، اور فائل کلوز۔ ہاں مگر زندہ باد مردہ باد، گویا واقعتاً کچھ ہونے جارہا ہے! وعدے، شکوے، طعنے، دکھڑے، حسرتیں جن کا کل تعلق پیٹ اور جسم سے اور یہیں دفن ہو جانے والی دنیا سے ہے۔ ارمانوں کی انتہا کیا ہے؟ ’قوم کا اصل مسئلہ‘ اور باربار آنے والی ’لب پہ تمنا‘ کیا ہے؟ وہی روٹی۔ بجلی۔ آٹا۔ تنخواہیں۔ وافر رزق۔ دودھ اور شہد کی بہتی نہریں، اسی دنیا میں، اِنہی کفر اور اِعراض کی شرطوں پر اور اِسی شریعت سے منہ موڑ رکھنے کی قیمت پر..! مِمّا تُنبتُ الأرض منْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا![1] بڑا ہی تعجب ہوتا رہا ہے ستر سال سے دہرائے جانے والے اِس منظر میں کھُبے ہوئے خردمندوں پر، جو اُن خطیر واقعات کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت نہیں پاتے جو ایک عرصے سے افق پر دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔

دنیا سے قرآن کی حکمرانی غائب، اور دنیا کو امن اور آشتی کا گہوارہ بنادینے کی فرحت افزا نویدیں... ایک سے ایک بڑھ کر عزم... اور ایک کے بعد ایک لیڈر!

آسمانی شرائع سے خالی اور سنسان کردی گئی دنیا کو ’’ترقی و خوشحالی‘‘ کی منزلیں سر کرانے کے دجالی مژدے... اور ان کو ممکن بنانے کےلیے سرگرم دیوہیکل پراجیکٹ اور کوہ قامت این جی اوز!

کاروبارِ حیات سے ’’خدا‘‘ کی بےدخلی.. اور اس کی جگہ پر انسانی ’ترقی وکمال‘ کا ظہور؛ اپنے بڑے بھائی (یورپ) کے نقشے پر... ’اِس بار‘ اچھی خاصی ممکن شکل میں، خاص طور پر روٹی کی فروانی کے معاملے میں...! ’’روٹی‘‘ جوکہ معاشروں میں آسمانی شرائع کو فارغ خطی دینے کا ابلیسی تدارک ہے اور دراصل خدا کی جانب سے ڈھیل اور دھکا ملنے کی ایک اندوہناک صورت، اور جوکہ یہاں پر آج تک ایک ’مستحکم حکومت‘ کی ضرورتمند رہی ہے؛ کیا معلوم اِس بار قوم کی قسمت جاگ اٹھے!

جس دنیا کو غربت، افلاس، بھوک اور کشت و خون سے نجات دلانے کی کوششیں اور دعوے ہورہے ہیں، بیک وقت، اُسی دنیا کو قرآنی شریعت کی عملداری سے پاک کردینے کے منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں! بلکہ یہ دو الگ الگ منصوبے نہیں ایک ہی منصوبہ ہے: ایک ایسی دنیا کی تخلیق جس میں بھوک اور افلاس کو باقی رہنے دیا جائےگا اور نہ آسمانی حوالوں کو۔ دونوں ’پسماندگی‘ کا شاخسانہ ہیں جس کے خاتمے کا وقت آچکا! اور اگر – ہزار کوشش اور منصوبہ بندی کے باوجود –  غربت، افلاس، بھوک اور کشت و خون نہ ختم کرایا جاسکے (یا  اس کوشش کے دوران اور بڑھ جائے!!!) تو بھی ’غربت‘ اور ’پسماندگی‘ مٹانے کے شور میں ’’آسمانی حوالوں‘‘ کا خاتمہ تو بہرحال کرڈالا جائے۔ ’بھوک‘ سے پاک دنیا تخلیق ہوسکے یا نہ، ’’آسمانی حوالوں‘‘ سے پاک دنیا کا وجود بہرصورت یقینی بنایا  جائے۔ انسان کہیں پر بھوکا، ننگا اور مفلوک الحال ہو تو بھی خدائی کے منصب پر فائز ضرور ہو؛ مستقل بالذات، آسمان سے بےنیاز! جو اپنے فیصلے زمین پر آپ کرے اور آسمان والے کو ایسی ہر قسم کی زحمت سے سبکدوش کردے۔

دنیا کو آسمانی حوالوں سے پاک کرنا اصل منصوبہ ہے۔ روٹی ’پیکیج‘ کا حصہ ہے...پھر بھی اِس کی کوشش کی جائےگی یقین دہانی ممکن نہیں! آخرت ہاتھ سے دینا ضروری ہے البتہ دنیا پانے کی ضمانت آپ کو کوئی نہیں دے سکتا! ’بھروسے‘ کے سوا چارہ نہیں خدا پر کرلیں یا ابلیس پر!

لہٰذا...  سیلزمین شپ زور ’روٹی‘ پر رکھے گی اور سب رونے ’روٹی‘ کے رُلائے گی، سب دکھڑے ’روٹی‘ کے سنائے گی، مگر کل توجہ انسان کو ’’خدا‘‘ بنانے پر مرکوز رکھے گی؛ ایک مستقل بالذات درندہ جو پڑھ لکھ کر پہلے سے زیادہ خطرناک اور مغرور ہوگیا ہے... اور جو ’’خدا‘‘ کو اپنی دنیا سے باہر یا،  اگر وہ یہاں رہنے پر مصر ہی ہے تو، عبادت خانوں میں قید کردینےکی مار پر ہے اور کچھ صدیوں کی محنت کے بعد زمین میں اچھی خاصی پیش قدمی کر آیا ہے؛ ایک گلوبل نمرود؛ ایک ملٹی نیشنل قارون؛ جس کی جکڑ میں دین، اخلاق اور اعلیٰ قدروں کا پنپنا تو خیر بھول ہی جائیں، معیشت، تعلیم اور صحت تک کی سانس گھٹ جاتی ہے اور جس کی گرفت میں آنے کے بعد انسان کے بنیادی ترین رشتوں کے گلے پر چھری پھرجاتی ہے؛ اور جہاں انسانیت کےلیے چیخنے چلانے تک کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ یہ چھری اس کے گلے پر ’’انسان‘‘ اور اس کے ’’حقوق‘‘ کا نام پڑھ کر ہی پھیری جاتی ہے۔ یہ منصوبہ، جو درحقیقت ’’ہوس اور سرمائے کی عبادت‘‘ ہے اور زمین پر انسان کے ’’قیوم  self-subsisting   اور خودکفیل self-sufficient اور خودمختار  independent   ہونے‘‘ کا اعلان ہے  (اور جس میں بالآخر انسان نے ہی انسان کی خوراک بننا اور بقائے اصلح survival of the fittest والے اُس قدیمی جنگل کے قانون نے ہی جیت کر دکھانا ہوتا ہے، لہٰذا کمزوروں کے حصے میں یہاں کراہنے اور مرگِ مفاجات پانے کے سوا کچھ نہیں آتا، اور جوکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ایک اندھے کو بھی نظر آسکتی ہے)... اِس ’ہوس پرست انسان‘ (سرمایہ دار درندے) کو آزاد کرنے کا یہ منصوبہ جو ’انسانیت‘ (humanism) کے نام پر چلایا گیا، اب حیرت انگیز رفتار کے ساتھ آپ کے یہاں چوکڑیاں بھر نے لگا ہے۔ سب راستے اب اسی ’روم‘ کو جاتے ہیں؛ خواہ کسی شیر کی راہ سے جائیں یا اس کےلیے کسی چیتے یا بھیڑیے کا دامن تھام لیں یا کسی عمامہ بردار کے پیروکار ہوجائیں۔ سب اسی کی خدمت پر مامور... یا ’موقع‘ کے متلاشی۔

کون ہے یہاں جو اس نظام سے کفر کرتا ہو؟  جو محض نظریاتی حد تک ہی انسانی خدائی کے اِس عالمی دجالی انتظام کے ساتھ برسرجنگ ہو؟ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ عالمی ساہوکاری نظام ہر ہر ملک میں دستیاب ’’گنجائش‘‘ کو بہترین انداز میں کام میں لاتے ہوئے، وہاں کےلیے ایک مقامی روپ دھارتا ہے[2]، اور پھر اپنے ’’مکمل ظہور‘‘ کےلیے وہاں پر مسلسل جگہ بناتا چلاجاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اپنے اِس عمل میں پیش قدمی کرتا ہے ویسے ویسے آپ اُس کے آگے پسپائی اختیار کرتے اور اپنی اکثر اشیاء سے دستبردار ہوتے چلے جاتے ہیں، کم از کم بھی یہ کہ اپنی ان اشیاء کو اُسی کے پیراڈائم میں رکھ کر دیکھنے دکھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے وجود تک کو اسی کے تناظر میں اور اُسی کے دیے ہوئے حوالوں سے پڑھنے اور پڑھانے لگتے ہیں... اور آخر اُسی کے گرداب میں گم ہو جاتے ہیں۔

بےشمار قومیں اب تک اس عفریت کی خوراک بن چکی ہیں البتہ ایک بھاری بھرکم نوالہ جو اس کے حلق میں پھنس چکا ہے اور جوکہ اس سے نگلا جارہا ہے اور نہ وہ اسے اگلنے کےلیے تیار ہے، اور جس کا نام ’’عالمِ اسلام‘‘ ہے، اور جوکہ  اپنے کچھ ’سرپھروں‘ کے دم سے اس عفریت کی باچھیں چیرنے اور اسکے حلق میں ڈائنامائٹ کے چھوٹےچھوٹے نشتر لگانے کا سبب بن رہا ہے... اس کےلیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کے سیانے یہ نشاندہی کرنے لگے کہ اس عفریت کی موت شاید اِسی ’’عالم اسلام‘‘ والے لقمے کو نگلنے کی کوشش کے دوران ہونے والی ہےجس پر اُسکی رال تو بہت بہی ہےاور جس میں لذت کا سامان بھی اُس کےلیے بےحد زیادہ ہے یہاں تک کہ اِسکو ہڑپ کرنے میں اُسے مدد دینے والے نام نہاد اسلامی دانشوروں کی اِک فوج ظفرموج پائی جاتی ہے... پھر بھی اِس اشتہاانگیز لقمے کے اندر کچھ ایسے نوکیلے کانٹے رکھ دیے گئے ہیں  جن کو یہاں کی قدیمی اصطلاح میں ’’طائفہ منصورہ‘‘[3] کہا جاتا ہے اور جن کے باعث اِس کو نگلنے کی کوشش اُس کے گلے کی پھانس بن گئی ہے یہاں تک کہ اُس کی اجل کا سامان بنتی نظر آ رہی ہے۔

حضرات! اصل غلامی اور فی الحقیقت ’’ہڑپ ہونا‘‘  عسکری طور پر مفتوح ہونا نہیں، کیونکہ ایسے ادوار تو آزاد اقوام پر آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اصل غلامی اور نیستی و نابودی یہ ہے کہ آپ کے قلوب اور اذہان ہی اُس کے فکری پیراڈائم کی بیڑیاں پہن لیں اور ان فکری بیڑیوں کو اپنے وجود کے حق میں زینت باور کرنے لگیں۔ ہاں یہ چیز موت سے بدتر ہے؛ کیونکہ عسکری میدان میں موت پانا شہادت ہے جس سے بڑھ کر شرف کی کوئی بات نہیں۔ البتہ فکری میدان میں موت پانا بدترین ہلاکت، جس پر آسمان روتا ہے اور نہ زمین افسوس کرتی ہے۔

اصل زندگی.. اصل حیات.. اپنے دین کی حقیقت پر اصرار کرنا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ  (الانفال: 24)

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تمہیں ایک حیات آفرین چیز کی جانب بلاتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی کے اور اس کے قلب کے مابین حائل ہوجایا کرتا ہے، اور یہ کہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔

اِس حیات سے ہی اصل اِحیاء ہے؛ اور اس سے دستبرداری اصل موت۔

آدمی حیران رہ جاتا ہے یہاں احیائے اسلام کی اُس جدوجہد پر جو پچھلی نصف صدی سےجاری ہے... ہمارا یہ  احیائی عمل اپنے سب اسلامی حوالے یہاں کی نیشن سٹیٹس (قومی ریاستوں) کے حوالوں کے اندر فٹ کرکر کے خوش ہوتا رہا... جبکہ ہماری یہ نیشن سٹیٹس اپنے سب حوالے اس عالمی ساہوکاری نظام کے حوالوں کے اندر فٹ کرکر کے مطمئن ہوتی رہیں! (ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں)۔ نتیجہ یہ کہ آج آپ (’آپ‘ سے مراد اب قومی ریاستیں نہیں؛ وہ کہانی اب بہت پرانی ہوچکی، بلکہ خود اسلامی تحریکیں) نہ چاہتے ہوئے بھی اِس عالمی ساہوکاری عمل کاحصہ ہیں؛ آپ کی تمام تر گردش آج اسی کے فلک میں ہے؛ اور اسی کو موٹا تازہ کرنے کا ذریعہ۔ آپ نیشن سٹیٹ کی ملت میں گم، اور آپکی نیشن سٹیٹ اِس عالمی ملت میں گم!

یہاں آپ پر کھلتا ہے کہ ایک ’’نظریاتی بغاوت‘‘ اِس جہانِ نو کے اندر کس قدر ناگزیر تھی؛ اور ’’زندگی‘‘ پانے کےلیے آپ کی اور آپ کے دم سے پوری انسانیت کی کتنی بڑی ضرورت۔ یہاں آپ پر عیاں ہوتا ہے... کس شدت کے ساتھ یہ ’دور اپنے براہیم کی تلاش میں‘ تھا!

’’توحید‘‘ درحقیقت آج کے اِس عالمی ساہوکاری دین سے کھلی بغاوت کردینے کا نام ہے؛ وہ عالمی ساہوکاری دین جس کا ایک بھی حوالہ اختیار کرنا مسلمان کے حق میں موت تھا، مگر اس کے یہ مستعار حوالے ہمارے یہاں دھڑادھڑ ’اسلامیائے‘ گئے اور اس کارگزاری achievement   پر خوب خوب داد سمیٹی گئی، آخر ایک دن اپنی یہ فاقہ مستی رنگ لائی؛ ہمارا سب کچھ نیلام میں گیا اور ہم ایک لایعنی وجود کی طرح اس کی ڈیکور کا ناقابل ذکر حصہ ہوگئے اور اس نقطے پر پہنچے جسے بہت دیر پہلے کسی خردمند نے ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘ سے تعبیر کیا تھا۔

’’عقیدہ‘‘ دراصل  ہم جس چیز کو کہتے ہیں –  موجودہ ملکی وعالمی تناظر میں –  وہ اس عالمی شرک کے مقابلے پر ایک ’’کھلے انکار‘‘ کا نام ہے۔ وہی کھلی دوٹوک ’’لا‘‘ جس سے ہمارا کلمۂ توحید شروع ہوتا ہے۔ یہ عالمی شرک، جسے انسان پرستی یا انسانی خدائی Humanism  کا نام دیا جاتا ہے اور جوکہ اپنا ظہور ڈیموکریسی، سیکولرزم، سرمایہ داری، آزادی، مساوات، فیمن ازم، اخلاقی قدروں کے قتل، رائے عامہ، عریانی، انارکی اور فری مارکیٹ اکانومی وغیرہ کے پورے ایک پیکیج کے ذریعے کرتا ہے، اور اس کی ایک چیز لےلینے کے بعد جلد یا بدیر آپ کو اس کی باقی چیزیں بھی لینا ہوتی ہیں؛ بلکہ اس کی ایک چیز اس کی دوسری چیز کی جگہ بنانے کےلیے ہی ہوتی ہے (’پِک اینڈ چوز کی آزادی‘ سے بڑا فریب اور اس سے بڑی سیلزمین شپ یہاں کوئی نہ ہوگی؛ جس پر حالات مسلسل گواہی دے رہے ہیں، یہاں تک کہ دل کے اندھوں بہروں کو چھوڑ کر اب یہ ہر کسی کو دکھائی اور سنائی دینے لگی ہے)... اِس عالمی دین کے آگے آپ کو ایک مکمل اِباء  an absolute defiance اختیار کرنا تھی[4] اور اِس کو مسترد کرکے اللہ واحد قہار کی خدائی اور کبریائی کا اعلان اور اس کی عبادت اور بندگی کا اقرار اور تمام جہانی معاملات کو ایک اُسی کی شریعت کی جانب لوٹانا اور اُسی کی جانب تحاکم کا دستور اختیار کرنا اور خاص اِس بنیاد پر ملتِ شرک کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والا نزاع سامنے لےکر آنا تھا۔ اسی چیز کو ہم اپنی اصطلاح میں ’’عقیدہ‘‘ کہتے ہیں (اور اسی وجہ سے ’’عقیدہ‘‘ پر اتنا زور دیتے ہیں) کیونکہ اِس سارے عمل کی روحِ رواں بس یہی ہے کہ ’’جاہلیت کے ساتھ مخاصمت‘‘ اور ’’غیراللہ کی عبادت سے بیزاری و براءت‘‘ ہمارے فکری وجود سے پھوٹ پھوٹ کر برآمد ہورہی ہو۔



[1]   ’’زمین کی پیداکردہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ)‘‘ (البقرۃ: 61) بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام سے ’مطالبات کی لسٹ‘، جب وہ ان کو خدائی مشن پر لےکر چلنا چاہ رہے تھے اور جس میں سروری اور جہانبانی خودبخود آتی ہے بشرطیکہ وہ دین کی خاطر قربانیوں کا راستہ اختیار کرلیتے، مگر انکی فکر ترکاریوں، ککڑیوں، گیہوں اور لہسن پیاز سے آگے جانے والی نہ تھی! انجامِ کار مسور تو جیسےکیسے ملے ذلت اور دربدر کی ٹھوکریں انکا مقدر ٹھہرادی گئیں۔ ان دربدر کی ٹھوکروں کیلئے آج ہمارے کچھ نابغاؤں کی چاہت بھی دیدنی ہے۔

[2]    جبکہ اپنے عالمی حوالے پوری طرح برقرار رکھتا ہے (یو این چارٹر وغیرہ) اور وہاں پر البتہ کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتا... اور یہاں سے وہ ایک عمومی معنیٰ میں آپ کو اپنے پیراڈائم میں پوری طرح جکڑ کر رکھتا ہے۔ چنانچہ اپنے عالمی حوالوں اور اصطلاحوں سے مدد لے کر ہی وہ دنیا میں اپنے یہ سب کرشمے انجام دیتا ہے۔

[3]   ’’طائفہ منصورہ‘‘ کا ذکر متعدد احادیث میں آتا ہے۔ عقیدہ کی کتب بھی اس کے ذکر سے پُر ہیں۔ ہمارے دین میں اس طائفہ کے قائم ودائم رہنے کی باقاعدہ پیشین گوئی ہوئی ہے۔ مختصراً: یہ امت محمدؐ کا وہ خاص طبقہ ہے جو ہر دور میں باطل سے ہاتھاپائی کرےگا اور کبھی سرنڈر نہیں ہوگا۔ اسکے دو خصوصی محور ہیں: ایک وہ ٹھیٹ اصحابِ علم ودانش جو باطل کے فکری قلعے مسمار کرتے رہیں گے، اور ایک وہ مجاہدین جو بزورشمشیر باطل کے دانت کھٹے کرتے رہیں گے۔ اس طائفہ کو ’’منصورہ‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اسے آسمان کی پشت پناہی حاصل رہے گی؛ نہ مخالفین کبھی اسکا بال بیکا کرسکیں گے اور نہ وہ گھر کے لوگ جو دشمن کے مقابلے پر اسکو بےیارومددگار چھوڑ دیں گے یا جو اِس جنگ میں دشمن کے طرفدار ہوجائیں گے۔

                ہم اپنے الفاظ میں کہیں تو طائفہ منصورہ: اِس امت کے جسم میں فٹ کردیا گیا وہ خودکار نظام جو باطل کے مقابلے پر اِس کی نظریاتی مدافعت اور اِس کی عسکری مزاحمت کو میدان میں لاتا رہےگا اور جوکہ، ازروئےاحادیث، اِس امت کے جسد میں قیامت تک معطل نہ ہوگا؛ اور درحقیقت اس کو زندہ اور باقی رکھنے کا باعث ہوگا۔ حضرات! امتِ محمدؐ کا قیامت تک اپنی اصل پر  قائم ودائم رہنا کوئی معمولی بات نہیں؛ اس حقیقت کا اصل راز اور روحِ رواں یہی برگزیدہ طبقہ (طائفہ منصورہ) ہے جو اِس امت اور اِس کے عقیدہ کی خاطر  باہر والوں کی بےتحاشا دشمنی بھی مول لےگا اور اندر والوں کی مسلسل جفاکاریوں کی بھی زد پر رہے گا، البتہ اس کی نظر خدا کے اجر پر رہے گی اور خدا کی مدد اس کی پشت پر۔ اِن احادیث کا عملاً متحقق ہونا خود آج ہمارے دور میں بھی ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور اِن نبوی پیشین گوئیوں کا بالفعل پورا ہونا خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرسکتا ہے، والحمدُ لله الذي بعثَ محمداً بالحق وجعل رايتَه قائمةً إلى قيام الساعة۔

[4]   ’’مکمل اِباء‘‘...اِس مسلکِ حق کے حامل لوگ آگے چل کر –  منہجی طور پر –   دو سکولز آف تھاٹ میں منقسم ہوتے ہیں:

1.      ایک وہ فریق جو مسلم سرزمینوں میں جاہلیت کے زیرسایہ چلنے والے سب یا بیشتر اداروں سے نکل آنے اور عملاً گوشۂ عزلت  isolation میں محصور ہورہنے کو اپنے اس منہج کا حصہ ٹھہراتا ہے۔یہ فریق معاشرے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت سے یا تو تہی ہوتا ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ تہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے کچھ افراد جو معاشرے اور زندگی کی تشکیل و انتظام کرنے والے اداروں کو چھوڑ کر اسکی دعوت میں شامل ہوئے ہوتے ہیں اپنی سابقہ اہلیت کے دم سے معاشرے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت سے ضرور کچھ نہ کچھ لیس ہوتے ہیں مگر خود ان کی اگلی نسل جو معاشرتی عمل سے دور رہ کر جوان ہوئی ہوتی ہے نیز ان کی عمومی بھرتی اِس صلاحیت سے عاری اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہوتی ہے، جبکہ اپنے اختیارکردہ عمومی منہج کے باعث یہ طبقے مجموعی طور پر سماجی تاثیر کی صلاحیت اور پوزیشن سے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ ’’عقیدہ‘‘ اور ’’پیراڈائم‘‘ کے معاملہ میں حق پر ہونے کے باوجود یہ لوگ معاشرے میں کوئی ایکویشن  equation  نہیں بناپاتے اور سماجی طور پر غیرموثر وغیرمتعلقہ رہتے ہیں، سوائے یہ کہ کسی محدود سے علاقے میں  کسی آبائی یا قبائلی بنیاد پر ان کو عام آبادی یا اس کے معتدبہٖ حصے کی وابستگی اور پیروکاری حاصل ہو۔ }ایسی استثنائی صورت میں، خود ہماری نظر میں، اسلامی دعوت کو جاہلی اداروں سے دوری اختیار کرنے اور کروانے کا ہی منہج اختیار کرنا چاہئے اور خود اپنی راہنمائی اور نگرانی میں وہاں پر لوگوں کو زندگی کے زیادہ سے زیادہ شعبوں کےاندر ماڈل منصوبے بنا کر دینے چاہئیں اور اِس طریقے سے حتی الامکان وہاں جاہلی بینکوں، سکولوں، درسی نصابوں، ٹی وی چینلوں ودیگر کمیونی کیشن اداروں، انشورنس کمپنیوں، سیکولر این جی اوز اور سیاسی وسماجی اداروں وغیرہ کے قدم لگنے میں آڑے آنا چاہئے اور ایسے سب کام شرعی بنیادوں پر خود کرکے دینے چاہئیں۔ بلکہ کچھ محنت کے بعد اگر وہاں پر کسی اسلامی قوت کے قدم جم جائیں، چاہے اُسکو وہاں پر حکومت نہ بھی حاصل ہو صرف عوامی پزیرائی اور حمایت حاصل ہو، تو مصالح اور مفاسد کو دیکھتے ہوئے حسب استطاعت اس (a state within the state) کے عمل کو توسیع بھی دینی چاہئے۔ یہ امکان بھی رد نہ ہونا چاہئے کہ کسی بڑے اسلامی احیاء کی بنیاد شاید خدا کو یہیں سے اٹھانا منظور ہو۔ دولة المرابطين جس نے فاطمی (درحقیقت عبیدی رافضی) خلافت کا تین سو سالہ ملبہ ہٹا کر شمالی افریقہ کے طول وعرض میں توحید کے پرچم لہرائے اور بالآخر اندلس کو بھی ایک طرح سے ازسرنو فتح کیا تھا اور یوں ملتِ صلیب کو تین صدیوں تک کےلیے (اندلس سے) پیچھے دھکیل دیا تھا، اِس عمل کی زندہ مثال ہے{۔ تاہم چونکہ یہ صورت بہت محدود اور دوردراز خطوں (remote areas) کے سوا عام طور پر کہیں پیش نہیں آتی، اس لیے عمومی حوالے سے یہ منہج ہماری نگاہ میں قابل تجویز نہیں ہے۔ ہاں کچھ خاص خطوں میں جہاں ڈیموگرافی اور جغرافیائی محل وقوع واقعتاً اس کی گنجائش فراہم کرتا ہو، جیساکہ ہم  عرض کرچکے، ضرور اِسی منہج کو اختیار کرنا چاہئے۔

2.       دوسرا فریق وہ ہے جو معاشروں میں قائم اداروں کو خالی کرآنا اور نتیجتاً  گوشۂ عزلت isolation   کا شکار ہوجانا بہرحال درست نہیں جانتا۔  معاشروں پر اثرانداز ہونے والے مراکز اور اداروں میں بدستور پایا جانا وہ سماجی عمل کا ایک حصہ جانتا ہے جو کسی وقت موقوف نہیں ہوتا اگرچہ وہ ادارے کفر کے زیرتسلط کیوں نہ آگئے ہوں۔یہ ان مراکز اور اداروں کے اندر باقاعدہ ایک سماجی جنگ لڑتااور اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے وہاں پر چھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ اُس کے فکری پیراڈائم کو مسلسل جوتے کی نوک پر رکھتا اور اس کو صاف ضلالت گردانتا ہے اور کسی ایک بھی معاملے میں اس کو اپنے لیے ’’حوالہ‘‘ نہیں ٹھہراتا، دستورِ محمدؐ کے سوا کسی دستور اور آئین کو سرے سے سے نہیں مانتا (اُس کا داعی‘ بننا تو دور کی بات ہے) اور نصوصِ شریعت کے فہم یا تطبیق یااِجراء  کے مسئلہ کو علمائے شریعت کے علاوہ کسی نام نہاد ’اتھارٹی‘ یا ’پروسیجر‘ کی جانب لوٹانے کو باطل اور جاہلیت جانتا ہے۔ غرض حق کے تعین کےلیے یہ صرف اور صرف آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور ایک لچکدار سماجی وسیاسی تعامل a flexible social & political interaction کے باوجود دو ملتوں کا فرق نہایت نمایاں کرکے رکھتا ہے اور کسی ایک لمحہ کےلیے اسے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ البتہ سماجی وسیاسی وانتظامی اداروں کو، کفر کے زیرتسلط ہونے کے باوجود، کفر کی جاگیر نہیں بلکہ مشترکہ انسانی زمین سمجھتا ہے جوکہ کسی وجہ سے کفر کے زیرقبضہ آگئی ہے اور جس کے ساتھ فی الحال اِسے ’ڈِیل‘ کرنا ہے۔ یہ پوری ہمت اور پامردی کے ساتھ اور اپنی سیرت وکردار، شرافتِ طبع، دیانت اور حسنِ اخلاق سے کام لے کر، نیز دانشمندی، مواقع کے درست استعمال، صراحت، قوتِ دلیل، بلاغت، جرأتِ گفتار اور سماجی مہارت کے بل بوتے پر وہاں مسلسل اپنی دسترس بڑھاتا اور زیادہ سے زیادہ ’’سپیس‘‘ حاصل کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ کچھ دیگر دستیاب امکانات کو کام میں لاکر کسی وقت پورا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اِس عمل کی اعلیٰ ترین مثال یوسف علیہ السلام ہیں، جیساکہ پچھلے شمارہ میں ہم نے امام ابن تیمیہؒ کے کلام سے اس کی نشاندہی کی تھی اور ہمارے حالیہ شمارہ میں بھی اس موضوع پر ایک مضمون شامل ہے۔  }حق یہ ہے کہ  عین اسی طرزِعمل کے نتیجے میں حق کی اقامت کے حوالے سے –  ملکِ مصر کے حصے میں ایک نہیں دو یوسف آئے۔ ایک یوسف بن یعقوب نبی اللہ علیہما السلام، جنہوں نے بادشاہِ مصر کی پیش کردہ  یا اُس کے سامنے اپنی فرمائش کردہ ولایت قبول کی اور بالآخر مصر کو اسلام کی قلمرو بنا ڈالا۔ دوسرا یوسف بن ایوب (صلاح الدین بن نجم الدین ایوبیؒ)، جس نے فاطمی (عبیدی فارسی رافضی) خلیفہ کی پیش کردہ وزارت قبول کی تاہم چند سالوں کے اندر فاطمی خلافت کا پتہ صاف اور اس کا خطبہ موقوف کرکے نہ صرف پورے مصر پر سنت کا علم بلند کردیا بلکہ صدیوں کے بعد وہاں پر خلافتِ بغداد کا خطبہ بحال کروایا اور آخر شام کو مصر کے ساتھ ضم کرکے حطین کے تاریخی معرکہ میں ملتِ صلیب کی کمر توڑ ڈالی، اور اس کے نتیجے میں آئندہ آٹھ سو سال کیلئے بیت المقدس اسلامی تحویل میں واپس لےکر دیا{۔ وہ خطے جو ’تہذیب‘ کا گڑھ مانے جاتے ہیں اور جہاں پر جاہلیت کا پیداکردہ فساد معاشرے میں خاصا گہرا سرایت کرچکا ہوتا ہے اور انسانی سرگرمی کو خاصا کنٹرول حالت میں رکھا گیا ہوتا ہے، ایسے (شہری) خطے بالعموم یہ ثانی الذکر منہج اختیار کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں۔

     چونکہ بالعموم یہاں پر ہمیں ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا ہے، لہٰذا اس ثانی الذکر منہج پر یہاں ہم کچھ مزید روشنی ڈالیں گے:

   جیساکہ ہم نے کہا، اِس منہج کی رُو سے معاشرتی عمل کےلیے قائم اداروں کو، اگرچہ وہ کفر کے زیرِتسلط ہوں، ایک مشترکہ انسانی سرزمین کے طور پر لیا جاتا ہے۔  ان اداروں سے مکمل ناطہ توڑ لینے کے احکام یقیناً اِس فریق کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کی مطلق تطبیق اُس وقت ہوتی ہے جب خالص اسلامی ادارے وجود میں لےآئے گئے ہوں۔ ہاں جب اسلامی ادارے وجود میں آگئے ہوں اُس وقت جاہلی اداروں میں جانا، خاص استثناءات کو چھوڑ کر، کفر اور معصیت ہی شمار ہوگا۔ البتہ جس وقت اسلام کے قائم کردہ اور اسلام کے زیرہدایت چلنے والے کوئی ادارے ہی معاشرے میں وجود نہ رکھتے ہوں تو چونکہ انسانی زندگی کو معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا  اس لیے انسانی نشاط کے مراکز اور اداروں کو مکمل طور پر چھوڑ دینے کے احکام بھی لاگو نہیں کیے جاتے بلکہ جزوی طور پر اور خاص حدود و قیود کا پابند رہ کر کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم ان کو درمیانی مرحلے کے احکام کہتے ہیں اور علمائے سنت کے ہاں ان کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (’’درمیانی مرحلہ‘‘ سے مراد وہ ادوار جب معاشرتی عمل کفر یا ظلم کے زیرقبضہ چلاگیا ہو، اس موضوع پر ہمارے پچھلے شمارہ کا مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)۔

’’درمیانی مرحلے کے احکام‘‘ کے حوالے سے ہمارے علمائے شریعت فقہ اسلامی کے ڈائنامزم سے بہترین کام لیتے ہیں (تاہم معاملے کو خاصے موٹے انداز میں لینے اور فقہی باریکیوں کو نظر میں نہ رکھ پانے والے طبقوں کےلیے یہاں پر کچھ اشکالات بھی پیدا ہوتے ہیں اور وہ اِس منہج کو اُس فریق کے طرزِعمل کے ساتھ ملادیتے ہیں جو کفر کے پیراڈائم ہی کو اسلام کے پیراڈائم کے ساتھ خلط کرنے کا منہج اختیار کرتا ہے اور جس کے رَد پر ہمارا یہ پورا مضمون لکھا گیا ہے)۔ بہرحال یہ حق ہے کہ اِس منہج کے اختیار کرنے میں اچھی خاصی فقہی گہرائی درکار رہتی ہےاور یہاں عوام الناس کو اگر ٹھیٹ توحید کے حامل اہل علم و دانش کی راہنمائی حاصل نہ ہو تو جذباتی و سطح بیں طبقوں کےلیے معاملہ کسی قدر ’سمجھ سے بالاتر‘ رہتا ہے، جیساکہ اس وقت ہے۔ (’’فقہ‘‘ عام آدمی کا کام نہیں، فقہاء کا اختصاص ہے)۔ یہ بھی ماننا چاہئے کہ ٹھیٹ علماء کی غیرموجودگی میں معاملہ واقعتاً کسی وقت وہ جاہلی رخ بھی اختیار کرجاتا ہے جس کا رد کرنا خود ہمارے اِس مضمون کا مقصد ہے (ہدایت اور حق پر ثابت قدمی کےلیے آدمی کو مسلسل خدا رُخ رہنا ہوتا ہے؛ خدائی توفیق و استقامت سے استغناء کسی وقت ممکن نہیں؛ اور اپنے بارے میں ہمیشہ حق پر رہنے کی ضمانت نبی کے سوا کوئی نہیں دےسکتا)۔ چونکہ اِس منہج کی عملی تطبیق فی الحال ہمارے اِس خطے میں نہیں پائی جارہی اور لوگ اس اول الذکر منہج سے ہی مانوس ہیں (جس میں عزلت اختیار کی جاتی ہے)، اور اصل میں تو لوگوں نے وہ منہج دیکھ رکھا ہے جو جاہلیت کے ساتھ نظریاتی سطح پر ہی بیچ کی راہ چلنے کا عادی ہے... لہٰذا ہمارے تجویز کردہ (درحقیقت دورِ حاضر میں علمائے توحید کی ایک بڑی تعداد کے اختیارکردہ) اس منہج کی بابت اَذہان کے اندر اشکالات کا پایا جانا ایک طبعی امر ہے۔ ہمارے خیال میں، جب تک کوئی جماعت اس منہج کو لےکر عملاً میدان میں نہیں اترتی تب تک اس کی بابت سوالات ختم نہ ہوں گے۔

           چونکہ اِس عمل میں درمیانی مرحلہ کے دوران    جاہلیت کے ساتھ ایک روزمرہ تعامل بہرحال کیا جاتا ہے.. گو اس کے عملی احکام کو فقہی پراسیس سے ہی کشید کیا جاتا ہے مگر اس کی سپرٹ کو صرف اور صرف عقیدہ سے حاصل کیا جاتا ہے، یعنی اس کی کل غذا عقیدہ میں ہے... لہٰذا اِس عمل کی تہہ میں ’عقیدہ‘‘ کی تعلیم اور تلقین کا کام اس قدر گہرا لےجانے کی ضرورت ہوتی ہے اور تعلیمِ عقیدہ وتذکیرِ ایمان کا یہ کام یہاں اس کثرت اور شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے سننے والوں کو ’’عقیدہ‘‘ پر یہ اتنی ڈھیر ساری توجہ ایک طرح کا غلو نظر آتا ہے۔ مگر اس عمل کی ساری جان اسی چیز کے اندر ہے لہٰذا اس کی شدت میں ہرگز کوئی کمی نہیں آنے دی جاتی۔ تربیت کےلیے لگائی گئی ٹکسال کو  نوجوانوں کو تیار کرنے کے عمل میں –  اِس پہلو پر خاص نگاہ رکھنا ہوتی ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ’’عقیده‘‘ کے فہم اور رسوخ میں خاص درجہ کی پختگی کے بغیر اِس کوچے کا رخ ہی نہیں کرنا چاہئے۔  یہاں قدم قدم پر وہ مقامات آتے ہیں جہاں اذہان اور افکار میں جاہلیت یا اہلِ جاہلیت کی جانب میلان ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے؛ اور خطرے کی گھنٹیاں کسی وقت خاموش نہیں ہونے دی جاتیں، کیونکہ یہاں سے قدم سرک جانا اسلام کے تحریکی عمل کے حق میں صریح موت ہے۔ خود قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اِس جانب انتباہ کیا گیا ہے۔ (مثل سورۃ الکافرون، بنی اسرائیل 74۔75، الفرقان 52، القلم 8۔9، عبس 1۔10، الکہف 28، الانعام 121، یونس 15، ھود 112۔113 وغیرہ)۔


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز