مزاحمتی عمل جو مفقود ہے
حامد کمال الدین۔ مدیر سہ ماہی ایقاظ
hamid@eeqaz.org
ہماری یہ گفتگو دو پوائنٹس میں ہوگی:
پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ: استعمار نے جب سے ہمارا ملک چھوڑا تب سے اُس نے ہمیں خاص اپنے ڈھب پر چلانے کےلیے باقاعدہ ایک سسٹم دے رکھا ہے۔ ہم نے استعمار کو ایک عام سا ’بیرونی قبضہ کار‘ جانا؛ یہی وجہ ہے کہ اس کے محض یہاں سے چلے جانے کو ہم نے ’آزادی‘ سے تعبیر کیا۔ حق یہ ہے کہ یہ استعمار نہ کسی عام فاتح کی طرح ہمارے ہاں آیا اور نہ کسی عام فاتح کی طرح ہمارے ہاں سے رخصت ہوا۔ اس کی اس نیچر کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ورنہ بڑی دیر تک ہم اپنا اور اپنی قوم کا وقت، سرمایہ اور جذبہ ضائع کرتے رہیں گے۔ یہ وہ فاتح تھا جو صرف فوجیں لےکر ہمارے ہاں وارد نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اپنے کتب خانے، اپنے سکول، کالج، جامعات، اپنی ابلاغیات، ادبیات، تھیٹر، آرٹ، شوبز، اپنا پریس سب کچھ ساتھ اٹھا لایا تھا۔ البتہ جاتے ہوئے وہ صرف اپنی فوجیں ساتھ لے کر گیا باقی سب کچھ چالو حالت میں ہمارے پاس چھوڑ کر گیا۔ اس کو وہ ’’سسٹم‘‘ کا نام دےکر گیا؛ اور وہ ’’سسٹم‘‘ آج تک ہمارے ہاں چل رہا ہے بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں چل رہا ہے؛ جس پر خیر سے اب تھوڑا بہت ’اسلامی‘ پینٹ بھی ہوگیا ہے نیز اس میں کچھ برائے نام ’اسلامی‘ پرزے بھی فٹ کروالیے گئے ہیں؛ جس کے نتیجے میں اب وہ ہمیں اپنی ہی چیز نظر آنے لگی ہے۔
اِس آخری چیز کو میرے خیال میں ایک نہایت عظیم پیش رفت کہنا چاہئے؛ بلکہ اس پر اس کو داد دینا بھی بنتا ہے۔ یعنی ایک بدیسی چیز کو اب میں نہ صرف مسترد نہیں کروں گا اور اس کو ختم کرنے کےلیے کوئی آواز نہیں اٹھاؤں گا بلکہ اس کے تحفظ کو اپنا اسلامی فرض باور کروں گا اور اس کی مخالفت کرنے والے کو ’انتہاپسند‘، ’کونسپی ریسی تھیورسٹ‘، ’سرپھرا‘، ’فتنہ پرور‘، ’جنونی‘، ’تکفیری‘، ’خارجی‘، ’ایمان کےلیے خطرہ‘ اور نہ جانے کیا کیا القاب دوں گا!
میرے نزدیک اسلام سے بیگار لینے کی اِس سے بڑی مثال تاریخ میں نہیں پائی جاتی؛ اور ایک محنتی خرانٹ قوم کو اِس پر داد نہ دینا شدید زیادتی ہوگی!
تو حضرات! جب تک اس ’’سسٹم‘‘ کو ہی ہم نہیں سمجھیں گے جو سات سمندر پار سے لا کر ہمارے ہاں انسٹال کرایا گیا اور جس پر ’اسلام‘ کا ٹھپہ بھی لگوا دیا گیا، اور جوکہ ایک عالمی ’’سٹیٹس کو‘‘ کا پانی بھروانے کا ایک نہایت کامیاب ذریعہ چلاآتا ہے اور جس کی درازیِ عمر کے فی الوقت ہزاروں جتن ہورہے ہیں، یہاں تک کہ اس کےلیے ہمارے دین اور عقیدے کا استحصال ہورہا ہے اور ہمارے وسائل برباد اور ہماری نسلیں اجاڑی جارہی ہیں... جب تک اِس بدیسی سسٹم کو ہم کلیتاً رد نہیں کردیں گے اس وقت تک ہم کسی مناسب حل پر بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
غرض جب تک آپ اِس کے پرابلم ہونے پر ہی اتفاق نہیں کریں گے اُس وقت تک اس کا کوئی سلوشن لاکر دینا آپ کے بس میں ہی نہیں ہوگا۔ بلکہ عین ممکن ہے بہت سے دینداروں کی طرح آپ اس پرابلم کو ہی اپنے حق میں سلوشن دیکھنے لگیں! یعنی ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘! لہٰذا مغرب سےدرآمد شدہ اِس پورے فنامنا کا جب تک ایک گہرا تجزیہ نہیں کرتے ہم اوپر اوپر پھرتے رہیں گے؛ معاملے کی تہہ کو نہیں پہنچیں گے۔
مختصراً، یہ غلاموں پر حکمرانی کا ایک سسٹم ہے جس کو وہ چلتی حالت میں چھوڑ کر گیا ہے اور اس کو چلانے کےلیے غلاموں کا ایک ناپیداکنار ٹولہ... جو سینہ تان کر شرفائے قوم کو چیلنج کرتا ہے کہ کھیل کے ’قواعد وضوابط‘ کا پابند رہتے ہوئے وہ اس سے گیند چھین کر دکھاسکتے ہیں تو ضرور دکھائیں! بلکہ جیسے جیسے اِس نظامِ باربرداری سے لوگوں کی بددلی بڑھتی جارہی ہے، ویسے ویسے عالمی طاغوت کا منظورِنظر یہ ٹولہ یہاں کے شرفاء کو یاد دلانے لگا ہے کہ اِس بازیچہ کے سبھی دروازے اِن (شرفاء) کےلیے ہمیشہ سے ہی کھلے تو رہے ہیں آخر کس نے اِنہیں روکا ہے کہ یہ بھی اِس کھیل میں کچھ اچھی کارکردگی کرکے دکھادیں! ’لےآتے اسلامی انقلاب، کس نے آپ کو منع کیا ہے! عوام کو اپنا ہمنوا بنالیتے اور اپنی ’اکثریت‘ ثابت کرکے یہاں جو چاہتے کرلیتے، لیکن عوام ہی نے آپ کو رد کردیا ہے تو اس میں کسی کا کیا قصور‘!
چنانچہ باربار یہ ٹولہ آپ کو ’رولز آف دا گیم‘ کا حوالہ دے گا اور باربار اِس کھیل میں آپ کو اچھی کارکردگی دکھانے کا ’اصولی‘ چیلنج دے گا جو کسی وقت طعنے میں بدل جاتا ہے! بعینہٖ جس طرح ایک دولتمند آدمی ایک ایسے غریب کو جس کے گھر میں دو وقت کھانے کو روٹی نہ ہو’گالف‘ میں بازی لگانے کا چیلنج دیتاپھرے اور اُس کے قبول نہ کرپانے کی صورت میں ’میرٹ‘ کے طعنے دے!
کونسا میرٹ حضرات؟ ایک مہنگا کھیل جو میڈیا، بیرونی آشیرباد، بین الاقوامی جوڑتوڑ (جو بالعموم مین ہیٹن، لندن اور دبئی کے گراں مایہ اپارٹمنٹس میں انجام پاتا ہے اور ایک دنیا اس بات کے سچ ہونے پر گواہ ہے)، عالمی ساہوکاری، کارپوریٹ بدمعاشی، این جی اوز کے ہوش ربا نیٹ ورک اور ملٹی نیشنل مافیاز وغیرہ ایسے ان گنت معلوم ونامعلوم فیکٹرز کا مرہونِ منت ہے اور جو صرف مراعات یافتہ طبقوں ہی کے کھیلنے کا ہے... ایک ایسا مہنگا کھیل کھیلنے کی ’دریادلانہ‘ پیش کش آپ یہاں کے اُن درماندہ طبقوں کو بھی کردیجئے جو عالمی ایلیٹ کے کسی منصوبے کے اندر فٹ نہیں بیٹھتے اور جن کےلیے اِس مہنگے کھیل کے کسی ایک بھی فیکٹر کی مانگ بھرنا کبھی ممکن نہیں رہا... بلکہ جو اپنے حلال ذرائع سے دو وقت کی روٹی کھالیں تو بڑی بات ہے! یہ سب شرفاء جو اِس عالمی حرام خوری اور کاسہ لیسی سے گھن کھاتے اور اپنے ضمیر کی صدا پر کان دھرنے کو کرسیِ اقتدار پر ترجیح دیتے ہیں، ان شرفاء کو باربار یہاں اپنا حرام خوری سے پلا ہوا جثہ اور سٹیروئڈز steroids سے تنے ہوئے مسل دکھائیے اور چیلنج دیجئے کہ آئیے ہمارے ساتھ ’الیکشن‘ لڑلیں!
اس نظام کا بنیادی نکتہ صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے ایک غلام قوم کو چلایا جائے اور غلام رکھا جائے۔ اس سسٹم کا کسی وقت ’جمہوری‘ شکل اختیار کرلینا اور کسی وقت ’آمریت‘ والا روپ دھار لینا میرے نزدیک کچھ بڑا فرق نہیں رکھتا۔ میری نظر میں یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب آپ اس سکے کو اچھالتے ہیں تو کبھی ایک رخ اوپر آجاتا ہے تو کبھی دوسرا۔ پچھلی پون صدی سے آپ اسی کھوٹے سکے کے ساتھ کھیلتے اور دل بہلاتے چلے آرہے ہیں؛ اس دلچسپ کھیل میں وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلتا اور آپ ہر چند سال بعد ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اس کھیل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ بلکہ کسی کسی وقت اس کھیل میں ایسے ایسے سنسنی خیز موڑ لےآئے جاتے ہیں کہ بہت سے سنجیدہ لوگوں تک کو چاروناچار اس میں شریک ہوجانا پڑتا ہے۔ یوں ستر سال ایک قوم کا وقت برباد کرنے کےلیے ناکافی ٹھہرتے ہیں! آخر کب تک؟
ہم سمجھتے ہیں اِس نظامِ باطل کے خلاف وہ مطلوبہ نظریاتی مزاحمت ہی آج تک کھڑی نہیں کی گئی جو اِس کی چُولیں ہلا کر رکھ دینے کےلیے یہاں بجا طور پر مطلوب ہے۔ اچھےاچھے صالحین ومصلحین نے اِس نظام کو اپنانے اور اسلامیانے کی کوشش کی، جوکہ ایک جھانسہ ثابت ہوا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس نظام کو اپنائیں یہ نظام ہی ان لوگوں کو اپنا جائے! بجائے اس کے کہ یہ اِس نظام کو اپنے ڈھب پر لائیں یہ نظام ہی اِن کو اپنے ڈھب پر لےآئے! ورنہ اِن کو کسی ناکارہ پرزے کی طرح مشین سے نکال باہر کرے۔اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔
پبلک فورم کا بنیادی پوائنٹ یہ ہے کہ اِس نظام کے مقابلے پر اُس اصولی اسلامی مزاحمت کو میدان میں لایا جائے جو ہمارے معاشرے کے فعال حصے کو عملاً دو فریقوں میں تقسیم کردے؛ حزب اللہ اور حزب الشیطان؛ اور بیچ کی مخلوقات کو زیادہ سے زیادہ irrelevant کردے۔ حضرات ایسا ایک آتش فشاں اٹھانا یہاں پر ناگزیر ہے۔ یہاں نمازیوں، روزہ داروں، قرآن پڑھنے والوں کو اِس نظامِ باطل کی مزاحمت کی راہ دکھانا اِس وقت کا اہم ترین مرحلہ ہے۔
ہماری نظر میں ایک زوردار مزاحمت کھڑی کیے بغیر یہاں معاملے کا وہ ابتدائی سِرا ہی ہمارے ہاتھ آنے کا نہیں جو قوم کو اِس اندھیری رات سے نکال کر صبحِ روشن دلانے کی نوید بنے۔ ایک پرامن مگر پیہم، زوردار، نظریاتی، سماجی اور سیاسی مزاحمت۔ a complete defiance ۔ یہی مزاحمتی آہنگ بلند ہوتے ہوتے جب تک ایک گونج کی شکل اختیار نہیں کرلیتا اُس وقت تک اِس نظام کو کوئی بڑا چیلنج نہیں دیا جاسکتا۔ اِس نیک مقصد کےلیے ہم تمام جائز ذرائع اختیار کریں گے۔ تعلیم، تربیت، ذہن سازی، ابلاغ، ملٹی میڈیا، سوشل میڈیا نیٹ ورکس، مساجد پر محنت، سٹریٹ کنویسنگ، سٹریٹ پاور، انٹلکچول فورمز ... یہ سب ذرائع اِس نظام کے خلاف ایک پرامن عوامی مزاحمتی رَو اٹھانے کےلیے اور اس عوامی رَو کو شدت اور یکسوئی کی آخری حد کو پہنچانے کےلیے اختیار کیے جائیں گے۔
ایک خاص بات یہ کہ:
یہ نظام زمین میں جب اللہ کی خدائی کے مقابلے پر انسان کی خدائی قائم کرواتا ہے اور رب العالمین کے ساتھ شرک کی ہی ایک ماڈرن صورت ہے تو اس کے خلاف مزاحمت کو ہم ایمان اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اِس کی اِسی حیثیت کو ہی ہم اِس مسلم معاشرے کے قلب و ذہن میں جاگزیں کرائیں گے۔ یعنی ہم اسے محض ایک سیاسی قسم کا اختلاف نہیں رہنے دیں گے۔ ہم اسے محض ’کرپشن اور ناانصافی‘ وغیرہ کے خلاف اٹھنے والی دُہائی کا رنگ نہیں دیں گے۔ ہمارے نزدیک یہ اِسلام اور کفر کی وہ کشمکش ہے جس میں پورا اتر کر دکھانا بڑی دیر سے اِس امتِ توحید پر قرض ہے اور یہ کشمکش اُسی عالمی اکھاڑے کا حصہ ہے جسے استعمار نے عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کے اندر برپا کررکھا ہے۔ یہ ایک ہی عالمی ساہوکاری نظام ہے جو خالق کے ساتھ شرک اور مخلوق کے ساتھ ظلم اور استحصال کی فی زمانہ ایک بدترین اور مکروہ ترین صورت ہے؛ اِس کی مقامی اور عالمی جہتیں کچھ بہت الگ الگ نہیں۔ لہٰذا:
ایک طرف ہم اس مزاحمت کو اپنے عقیدے اور شریعت کی اصطلاحات کے ساتھ سامنے لائیں گے اور اِس کو محض کسی سیاسی جدوجہد کے طور پر پیش نہیں کریں گے۔
دوسری طرف ہماری حکمتِ عملی یہ ہوگی کہ ہم اُن تمام برائےنام اقدامات اور غیر مؤثر دفعات کو قابلِ اعتناء نہ جانیں جو فی الوقت اسلام کو تو کوئی کام نہیں دے رہیں البتہ اِس نظام کے خلاف اسلامی مزاحمت کے کھڑا ہونے کی راہ میں حائل ہیں۔ یعنی وہ دفعات جو اسلام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے فی الوقت اِسی نظام ہی کو فائدہ پہنچا رہی ہیں اور اس کے ’’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ پر پردہ ڈال دینے کے سوا اِس نظام میں فی الحال ان کا کوئی کردار نہیں؛ ایسی کچھ بےاثر دفعوں یا شقوں پر خوشی سے لوٹ پوٹ ہونا ہمارے کیس کو بےجان کردینے کا سبب ہوگا۔ (اِن اسلامی دفعات کے تیار کرنے والوں نے کتنے اخلاص سے کام کیا، یہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں)۔ ہماری نظر میں اِن برائے نام دفعات کی کوئی اہمیت اگر قائم کروائی بھی جاسکتی ہے اور اُن میں جان ڈالی بھی جاسکتی ہے تو وہ صرف اُسی وقت اور اُسی صورت میں جب اِس نظام کے خلاف ٹھاٹھیں مارتی ایک اسلامی مزاحمت میدان میں لےآئی جائے۔ ’عصا نہ ہو تو کارِ کلیمی ہے بےبنیاد‘! ہاں جب وہ مطلوبہ مزاحمت سامنے لےآئی جائے، وہ زوردار اسلامی مومنٹم یہاں تشکیل دے لیا جائے اور اس کے ہاتھوں اِس نظامِ باطل کا بہت کچھ بہہ جانے کا خطرہ پیدا کرالیا جائے تو عین ممکن ہے تب اِن اسلامی دفعات کی قسمت بھی جاگ اٹھے! تب یہ برائے نام اسلامی دفعات ہی، جن کی تاحال کچھ بےربط وغیرموثر الفاظ سے بڑھ کر حیثیت نہیں، یکایک کسی عملی جامے کی ضرورتمند سمجھی جانے لگیں! البتہ فی الحال اِن دفعات کے حوالے دےدےکر گلے خشک کرنا ہمارے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ فی الحال صورت یہ ہے کہ اسلام پسندوں کی جانب سے صبح شام اِن دفعات کے حوالے دیے جانا اِس نظام کا ہی ایک بہت بڑا مسئلہ حل کرتا ہے اور وہ یہ کہ ایک باطل نظام کو ہمارے ہی زبان وبیان سے اسلام کی سند حاصل ہوجاتی ہے جس کے بعد اِس باطل کو للکارنے کے حوالے سے ہمارا کیس ختم ہوکر رہ جاتا ہے اور ہمیں چیلنج ملنے لگتے ہیں کہ اکثریت کا نو من تیل لے آؤ اور اِن دفعات پر عمل کروا لو، البتہ ’سسٹم‘ پر اعتراض کرنا چھوڑ دو، نہ صرف اعتراض کرنا چھوڑ دو بلکہ اس کے حمایتی اور دفاع کنندہ بنو اور ان دفعات کے حوالے دےدے کر اِس کے معترضین کو خاموش کراؤ؛ اور اِس نظامِ بیگار کےلیے مذہبی طبقوں کی وفاداری یقینی بناؤ! لہٰذا جب تک یہ نظام اپنے اِن الفاظ کو جو چند اسلامی دفعات کی صورت میں اِس نے ادا کردیے ہیں کوئی واضح معنیٰ ومفہوم نہیں پہناتا اور اِس حوالے سے اپنے سب تناقضات discrepancies کو ختم نہیں کرلیتا؛ اور واضح طور پر اِس ملک میں شرعِ محمدﷺ کی مطلق رِٹ تسلیم نہیں کرلیتا... تب تک ہم بھی اِس کے کچھ متناقض self-contradictory الفاظ کو کسی بڑی توجہ کے قابل نہیں جانیں گے۔ کوئی اسلامی دفعہ یہاں اُس وقت ہی ہماری توجہ کےلائق ہوگی جب وہ شرعِ محمدﷺ کی مطلق رِٹ قائم کروائے، البتہ جب وہ محض اِس نظام کا چہرہ سنوارنے کے کام آرہی ہو تو اُس وقت ہم ایسی کسی دفعہ کو نظامِ باطل کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کا زور اور یکسوئی ختم کروانے کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے۔
یہاں ایک اشکال کی جانب بھی اشارہ کرتا چلوں... حالیہ ایام میں مصر وغیرہ میں جو پیش رفت ہوئی، اور جس میں یقیناً بہت کچھ حوصلہ افزا ہے، اس کو باربار یہاں انتخابی عمل کی کامیابی کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے! میرے نزدیک یہ ایک سطحی اندازِ مطالعہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مصر میں ایک زوردار عوامی مزاحمت کے نتیجے میں استعمار کے منظورِنظر ٹولے کا حصار پہلے توڑا گیا ہے اور اِس عوامی مزاحمتی عمل کے ذریعے وہ بڑی بڑی رکاوٹیں جو تبدیلی کی راہ روک کر کھڑی تھیں پہلے ہٹائی گئیں اور بلاشبہ یہ کام کسی انتخابی عمل کے بغیر ہوا... ہاں یہ راستہ صاف کرلینے کے بعد انتخابی عمل نے کچھ پیشرفت ضرور کرکے دی۔ ضروری نہیں وہ حصار جو تحریر سکوائر میں ٹھاٹھیں مارتی عوامی مزاحمت نے توڑ کر دیا پوری طرح ٹوٹ گیا ہو۔ اس حوالے سے بہت کچھ دیکھنا اور کہنا ابھی باقی ہے۔ ہماری نظر میں، یقیناً اِس سے قوی تر اور پختہ تر ایک مزاحمت اٹھائی جاسکتی تھی، جس سے اِس انقلاب کا لہجہ اسلام اور شریعت کے حق میں اور بھی غیرمبہم ہوتا۔ بہرحال ظلم کا یہ حصار ایک زوردار عوامی ریلہ اٹھادینے کے نتیجے میں ہی ٹوٹ سکا۔ کچھ محنت کرکے پاکستان میں یقیناً ہم اس سے قوی تر اور اسلام کے حق میں ایک پختہ تر عوامی ریلہ برپا کرسکتے ہیں۔ ہاں اس کے بعد، اور ظالموں کا کنٹرول یہاں ایک بار ختم کردینے کے بعد، اگر کسی انتخابی عمل کا ڈول ڈالا جاتا ہے اور اس کا ایک واضح فریم طے ہوجاتا ہے تو ہم بھی ایسے کسی انتخابی عمل کے مخالف نہیں۔ تب مصر کی طرح ایسے کسی انتخابی عمل سے مثبت امید بھی رکھی جاسکتی ہے اور اِس جانب قوم کی راہنمائی بھی کی جاسکتی ہے۔مگر اِس وقت تو ایسی کسی محنت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اُس برتن کو بھرنے کی کوشش جس کا پیندا جگہ جگہ سے چھدا ہوا ہے!
المختصر...
نہ تو ہم یہاں عالمی استعمار کے منظورِ نظر ٹولے کے اس بہکاوے میں آئیں گے کہ اِس بظاہر ’آسان وغیرجانبدار‘ کھیل میں ہم اس سے گیند چھین کر دکھادیں۔
نہ ہم اس کشمکش کو محض ایک سیاسی جدوجہد کے طور پر لیں گے؛ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ،ہمارے لیے یہ ایمان اور اسلام کا مسئلہ ہے اور ہم اِس باطل کے مقابلے پر ایسے ہی ایک سنجیدہ لہجے کی حامل مزاحمت کھڑی کرنے پر اپنی توانائی کی ایک ایک رمق صرف کردینا خود پر اپنے دین، اپنی امت اور اپنی آئندہ نسلوں کا حق سمجھتے ہیں۔
علاوہ ازیں، ہمارے نزدیک اِس مرحلہ میں اُن تمام غیرپیدآور بحثوں سے پہلو بچا کررکھنا ضروری ہے جو اِس نظامِ باطل کے خلاف اسلامی مزاحمت کھڑی کردینے کے عمل میں رکاوٹ لےآنے کےلیے سامنے لائی جانے والی ہیں۔ کسی دستوری بحث میں پڑے بغیر، ہم اپنا کیس ایک اصولی بنیاد پر، اور نہایت سادہ الفاظ میں، لوگوں کے سامنے رکھیں گے:
کسی بھی اسلامی یا غیراسلامی دفعہ کے علی الرغم، اِس نظام میں.. ’مذہب‘ کے خدا کو ’قانون‘ کے دائرے میں بہرحال ’قانون‘ ہی کے خدا کی منظوری درکار رہتی ہے۔ ’قانون‘ کے خدا کی منظوری کے بغیر ’مذہب‘ کا خدا جو مرضی کہہ لے اُسکا کہا ’مذہب‘ تو ہوتا ہے ’قانون‘ نہیں۔ واقعتاً یہ نظام اِس پر معترض نہیں کہ ’مذہب‘ کی کوئی بات کسی وقت ’قانون‘ بنادی جائے مگر اِس کی رُو سے، ہیں یہ دو الگ الگ چیزیں۔ اور یہی بات غورطلب ہے۔ ’مذہب‘ یہاں ’قانون‘ بن ضرور سکتا ہے البتہ ’مذہب‘ خودبخود ’قانون‘ نہیں۔ جبکہ اللہ کے ہاں ’’دین‘‘ وہ ہے جو بیک وقت ’مذہب‘ بھی ہو اور ’قانون‘ بھی۔ اللہ کے ہاں سے جو کچھ اتر آیا ہے کسی بھی اضافی شرط کے بغیر وہ آپ سے آپ ’مذہب‘ ہے اور آپ سے آپ ہی ’قانون‘۔ جتنا وہ ’مذہب‘ ہے اُتنا ہی وہ ’قانون‘ ہے۔ اس کی ایک حیثیت کو ماننا اور دوسری کو نہ ماننا خدائے مالک الملک کے ساتھ کھلا کفر ہے۔
جنابِ صدر!
دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ اس ملک میں اسلامی ایجنڈا کو پبلک سپورٹ دلوانے کےلیے ہم جو ذرائع اختیار کریں گے اُن میں اہم ترین گراس روٹ عمل Grass-Root Level Work ہے۔ یہ عمل اب ترکی، مصر اور فلسطین وغیرہ میں اسلامی قوتوں کے حق میں اچھی خاصی کامیابی دکھا چکا ہے۔ہمارے خیال میں یہ نہ صرف مسلم عوام کو اسلام کے تحریکی عمل کی پشت پر لانے کے ایک ذریعے کے طور پر اہم ہے بلکہ اِس نظامِ ظلم کے ہاتھوں معاشرے کا جو استحصال ہورہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے ویسے بھی ہم مسلم تحریکوں پر امت کا یہ حق ہے کہ ہم اِس دورِ محکومیت کے دوران ہی مسلم عوام کا نجات دہندہ بن کردکھائیں۔
اِس سلسلہ میں... پبلک فورم اس منہج سے متفق نہیں کہ لوگوں سے کہا جائے کہ اِس ظلم سے نجات پانے کےلیے آپ ہمارے اقتدار میں آنے کا انتظار کریں اور اُس مرحلہ کو ممکن بنانے کےلیے فی الحال ہمیں اقتدار میں لانے کےلیے ہی سرگرم رہیں، اور جب تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی تب تلک ہم سے کسی چیز کی توقع نہ رکھیں! بلکہ ہم ان سے کہیں گے کہ تمہیں ہر ظلم اور اندھیرےسے نکالنے اور دنیاوآخرت کے حوالے سے تمہاری جملہ ضرورتیں پوری کرانے کے لیے ہم تمہارے لیے جو آج کرسکتے ہیں وہ آج ہی کریں گے، پھر کسی اسلامی انقلاب آجانے کے بعد ہمارے بس میں جو ہوگا وہ تب کریں گے۔
ہمارے نزدیک لوگوں کو ’قیادت‘ دینا اِسی چیز کا نام ہے۔ اسلامی تحریک اپنی قیادت کا استحقاق جس چیز سے ثابت کرے گی وہ یہ کہ آج کی ڈیٹ میں ہی وہ اپنی پیاری قوم کو درندوں بھیڑیوں کی چھیناجھپٹی سے کس قدر تحفظ دلاسکتی اور ان کی زندگی کو آسان کرنے کےلیے کیا کیا ذرائع اختیار کرسکتی ہے اور اس طرح اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں، تدبیر ومنصوبہ بندی پر اپنی قدرت، نیز اپنی دیانت اور قوم کےلیے دردمندی، بےلوثی اور سچائی کا ثبوت دےسکتی ہے۔ لہٰذا؛ امت کا پرسانِ حال بننا بوجوہ آج ہی ضروری ہے نہ کہ اقتدار ملنے کے بعد۔
یوں بھی امت کی قیادت کا حق رکھنا یہاں پر کچھ بنیادیں مانگتا ہے؛ محض تقریروں، تحریروں اور کارنر میٹنگز سے یہ چیز حاصل ہونے کی نہیں۔ گلی گلی محلے محلے کی سطح پر... لوگوں کی زندگی کا حصہ بننا، روزمرہ ضرورت میں ان کے لیے دستیاب رہنا، ان کے دکھ بانٹنا، ان کے بوجھ ڈھونا، ان کے مسائل کے لیے چھوٹے چھوٹے عملی حل نکال کر دینا، ان کی لاوارث دنیا میں چھوڑ رکھے گئے بہت سے خلا پر کرنا، خدمت اور راہنمائی کے ذریعہ سے (نہ کہ محض وعظ وارشاد کے ذریعہ سے) ان کا بڑا بننا (سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُہُمْ)، ایک ایسے ملک میں جو مکمل اندھیرنگری ہے، وڈیروں، رسہ گیروں، ساہوکاروں اور مفادپرستوں کی چیرہ دستیوں سے (آج ہی، نہ کہ آپ کا انقلاب آجانے کے بعد) ان کو تحفظ دلانا، کچھ ایسی ’’اپنی مدد آپ‘‘ (co-operative) اسکیموں کا بندوبست کرکے اُن کو دینا جو ان کو ایک گونا ریلیف دلوائیں اور جس کے باعث وہ اسلامی قیادتوں کو اپنا نجات دہندہ باور کریں، نیز معاشرے کو سمجھنے اور چلاسکنے کے حوالے سے اسلامی قیادتوں کے وِژن اور صلاحیت کا خود اپنی آنکھوں مشاہدہ کریں، جس سے ایک جانب اُن پر لادین قیادتوں کا خبثِ باطن اور نااہلی، جبکہ دوسری جانب اسلامی قیادتوں کی دردمندی اور لیاقت بیک وقت واضح ہوں، اور آمنے سامنے کے اِن دو صفحوں کا فرق زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتا چلا جائے، یہاں تک کہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے خودبخود ان کے سامنے ایک سوال کھڑا کر دینے لگے... جس کے ساتھ ساتھ اُنکو تعلیمِ ایمان بھی پورے زوروں کے ساتھ ہورہی ہو... یہ چیز مسلم معاشروں Muslim Masses کو باطل سے برگشتہ کرانے اور اِس مہم میں ان کو اپنا ہم سفر بنانے میں کمال اثر رکھےگی؛ اسلام کے تحریکی عمل کو اِس جانب توجہ کروائے بغیر ہرگز کوئی چارہ نہیں۔
اِس عمل کی ایک اور جہت بھی ہے: انجیل بردار این جی اوز کسی ’’آکٹوپس‘‘ کی طرح معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے رہی ہیں اور اِس بار وہ ’’ملک‘‘ پر نہیں ’’معاشرے‘‘ پر قابض ہونے جارہی ہیں، جس میں وہ بے تحاشا کامیاب جا رہی ہیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں اُن کا ثقافتی ایجنڈا اُن کے اِس رفاہی عمل کی آڑ میں ہی پیش قدمی کرتا چلاآرہا ہے۔ عنقریب، یہاں جگہ جگہ اُنہی کی اسکیمیں نظر آئیں گی اور ایسی ہر اسکیم کمال انداز میں اُن کے کسی ثقافتی مقصد کو پورا کروا رہی ہوں گی۔ اِس کے مقابلے میں اسلام کے داعی یا تو ثقافتی جنگ بھی اپنے کسی موہوم ’انقلاب‘ کے انتظار میں موقوف کردیں، یا پھر یہ بھی لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بنتے ہوئے اُن کو اِس ثقافتی مزاحمت کے لیے تیار کریں۔ مسلم شعور میں جگادی گئی یہ ثقافتی مدافعت بذاتِ خود وہ چیز ہے جو یہاں پر بہت بڑے بڑے پانسے پلٹا دینے کی امکانی صلاحیت رکھتی ہے۔
سب سے اہم یہ گراس روٹ ورک ہی ہے جس کی جانب ہمارے باصلاحیت انقلابی نوجوانوں کا رخ ہوجائے تو بہت تھوڑے عرصے میں یہاں کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ کئی اور چیزیں ہیں جن کا وقت کی کمی کے باعث میں ذکر نہیں کرپاؤں گا۔ پبلک فورم کے بروشر میں یہ نکات بالترتیب 4، 5، 6 اور 7 کے تحت بیان ہوئے ہیں، آپ وہاں سے ان کا مطالعہ فرماسکتے ہیں۔
وماعلینا الا البلاغ