ہمارا سلطانیِ جمہور کو رد کرنا
آمریت نہیں احکم الحاکمین کی کبریائی کےلیے
حامد کمال الدین۔ مدیر سہ ماہی ایقاظ
hamid@eeqaz.org
واقعتا یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جو ’جمہوری مشقت‘ کو مسترد کردینے والوں کی راہ میں لا کھڑی کی گئی ہے۔ یعنی جیسے ہی آپ نے ڈیموکریسی کو رد کیا، دنیا کے نہ صرف عام لوگ بلکہ ’پڑھے لکھے‘ اس کا یہ مطلب لینے چل دیے کہ ہو نہ ہو یہ شخص ’آمریت‘ کا دور دورہ ہو جانے کا داعی ہے!
سماجی علوم پر اتنا کام ہو لینے کے باوجود آج کی پڑھی لکھی دنیا لوگوں کےلیے اپنے پاس دو ہی خانے رکھتی ہے؛ ’آمریت‘ اور ’جمہوریت‘! اگر آپ اپنے فٹ ہونے کےلیے ان دونوں میں سے کوئی ایک خانہ قبول نہیں کرتے تو شاید آپ کو اس دنیا سے کہیں باہر اپنے لئے جگہ تلاش کرنا پڑے گی؛ اگر آپ نے ’جمہوریت‘ کو رد کر دیا ہے تو کیا شک ہے کہ آپ ’آمریت‘ کے داعی ہیں، اور اگر آپ نے ’آمریت‘ کو رد کر دیا ہے تو آپ سے آپ، آپ نے ’جمہوریت‘ کے حق ہونے کو تسلیم کر لیا ہے! ’خانے‘ ہی دو ہوں تو آخر آپ کیا کریں گے؟! وہی امریکہ کا 'objcective type question !!!' اگر آپ جارج بش کے ساتھ نہیں تو آپ ان کے دشمن ہیں اور اگر آپ جارج بش کی دشمنی مول لینے کے متحمل نہیں تو پھر آپ کو ان کا ’دوست‘ ہونا پڑتا ہے!
*****
جمہوریت کو مسترد کرنے والی اور بھی قومیں ہو سکتی ہیں۔ بجا یا بے جا، جمہوریت سے نالاں اور بھی طبقے دنیا میں پائے جا سکتے ہیں۔ جمہوریت کو مسترد کرنے میں حق یا ناحق جو کچھ بھی وجوہات کوئی شخص یا کوئی طبقہ اپنے پاس رکھتا ہے وہ اپنی وجوہات خود بتا سکتا ہے۔ البتہ ہم اہل توحید اگر وقت کے جمہوری نظام کو مسترد کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدۂ توحید سے صاف طور پر متصادم ہے اور پھر یہ کہ عملاً یہ ہمارے دین اور دنیا کو اجاڑنے کا باعث ہے۔
کچھ جمہوریت کے ساتھ خاص نہیں ہر معاملے پر ہی طرح طرح کے خیالات اور مسلک رکھنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ایک غلط چیز کو غلط کہنے میں کوئی آدمی درست وجوہات رکھتا ہو گا اور کوئی غلط۔ حتی کہ ایک صحیح چیز کو صحیح کہتے ہوئے بھی ممکن ہے ایک آدمی صحیح بنیاد اختیار کرتا ہو اور ایک دوسرا آدمی غلط بنیاد اپنائے ہوئے ہو۔
لہٰذا جمہوریت یا کسی بھی باطل کو غلط کہنے والے سب کے سب طبقوں کو ایک ہی صف میں شمار کرنا کوئی علمی اور منطقی انداز نہ کہلائے گا۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کوئی اس کو غلط کہتا ہے تو اس کےلیے وہ کیا بنیاد اختیار کرتا ہے اور اگر وہ اس کو مسترد کرتا ہے تو اس کی جگہ وہ کیا لے کر آنا چاہتا ہے۔
ضروری نہیں جمہوریت کو مسترد کرنے والا ہر شخص مارشل لاءکا حامی ہو۔ جمہوریت کی بابت بری رائے رکھنے والے ہر شخص کو ایک ہی طعنہ دینا کہ وہ آمریت کا شیدائی ہے کوئی معقول انداز فکر نہ کہلائے گا۔
ضرور کچھ طبقے ایسے ہو سکتے ہیں جو کچھ ایسے محرکات کے زیر اثر جمہوریت کو مسترد کرتے ہوں کہ وہ ایک شر کو ہٹا کر اس سے کوئی بڑا شر لے آنے کے خواہشمند ہوں جس کا سبب ان کے سیاسی مفادات ہو سکتے ہیں یا پھر منحرف نظریات اور انتہا پسندانہ خیالات۔ مگر یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ چونکہ ایسے لوگ دنیا کے اندر پائے جاتے ہیں لہٰذا جو شخص بھی اب جمہوریت کو مسترد کرتا ہے بس وہ آمریت اور مارشل لاءکا حامی ہے! دیکھنا یہ ہو گا کہ کوئی شخص اس کےلیے کیا وجوہات رکھتا ہے اور یہ وجوہات رکھنے میں وہ کہاں تک حق بجانب ہے۔ جن غیر مسلم معاشروں کو حق کی روشنی میسر نہیں وہاں تو ایک باطل کسی اور باطل کی خاطر ہی مسترد ہو سکتا ہے کہ حق سرے سے دستیاب نہیں۔ ان بیچاروں کےلیے بڑی خوش قسمتی کی بات یہ ہو گی کہ بڑی محنتوں کے بعد ان کے ہاں سے ایک باطل جائے تو اس سے کوئی چھوٹا اور کم ضرر رساں باطل آئے نہ کہ اس سے بڑا باطل۔ ان کے ہاں موازنہ جب بھی ہو گا وہ ایک طرح کے باطل اوردوسری طرح کے باطل کے مابین ہو گا۔ یہ ان کا عذر تو نہیں البتہ مجبوری ہے، اور بدقسمتی بھی۔ مگر ہم جو امت محمدؐ ہیں ایک خالص عقیدہ اور کامل شریعت اپنے پاس رکھتے ہیں ہمیں ایسی کیا مجبوری ہے کہ ہمارے تخیل کی انتہا بھی جمہوریت یاآمریت یا مارشل لاءوغیرہ کے مابین موازنہ ہو؟ ہم ایک باطل کو دوسرے باطل کی قیمت پر کیوں مسترد کریں؟ ہمارے پاس جب حق ہے تو ہم باطل کو اس کی تمام اقسام اور اشکال سمیت مسترد کیوں نہیں کر سکتے؟ ایک ہم ہی تو وہ امت ہیں جو ایک باطل کو دوسرے باطل کےلیے نہیں بلکہ ہر قسم کے باطل کو ،مرحلہ وار نہیں ، بیک وقت مسترد کریں اور مسترد بھی خالص حق کےلیے کریں۔
*****
چنانچہ ہم موحدین کا جمہوریت کو رد کرنا استبداد پسندی نہیں...
جمہوریت کے خلاف بول کر ہمیں یا کسی بھی موحد مسلمان کو کسی آمریت یا کسی مارشل لاءکا راستہ ہموار کرنے سے چنداں غرض نہیں۔ موحدین کی بابت یہ رائے رکھنا مضحکہ خیز حد تک عجیب ہے۔ آمریت و مطلق العنانی کا راستہ ہموار کرنے کی ضرورت یا گنجائش یوں بھی یہاں کب ہے؟ یہ تو ہمیشہ سے یہاں موجود ہے۔ اس کا راستہ پختہ کرنے میں تو یہاں دانائے زمانہ ’جمہوریت‘ سے بیگار لے لیا جاتا ہے! پچھلے ساٹھ سال سے یہاں جمہوریت ہی تو آمریت کا پانی بھر رہی ہے اور اس کی خدمت میں خوب بھاگی دوڑی پھرتی ہے۔ محض الفاظ اور اشکال اور ’رنگوں‘ سے بہل جانے والی قوم کو مشقت کے سوا کیا کبھی کچھ ملا ہے؟ آمریت کے نام پر نہ سہی جمہوریت کے نام پر سہی!
جس قوم کے ستم گروں کا کام محض الفاظ اور تعبیرات سے چل جاتا ہو وہاں ظلم کرنے والوں کو کس بات کی دشواری؟ حقائق پر اصرار کرنا ایک خاص ذہنی اور فکری استعداد چاہتا ہے۔ قوم کا یہ ذہنی اور فکری معیار بلند کرنے پر یہاں کھپا ہی کون ہے؟ ہمارے طاغوت ابھی آرام کریں اور چین سے رہیں ہماری اسلامی تحریکیں ابھی’جمہوریت‘ میں مصروف اور ’آمریت‘ کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور ہماری قوم اپنے دن پھرنے کےلیے ’پارلیمانی عمل‘ پر نظر جمائے ہوئے ہے! داد دیجئے اس ذہن رسا کی جو اس کوچۂ سیاست سے قوم کی دلچسپیاں قائم رکھنے کی ہر بار ایک کامیاب تدبیر کرلیتا ہے۔ یعنی قوم اس راہ سے کسی بھی دن اپنی منزل پر پہنچ سکتی ہے!!!
حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک استحصالی نظام قائم ہے۔ ہمیں اس کو کوئی خاص نام دینے پر کچھ بہت زیادہ اصرار نہیں۔ عرف عام میں اس کا نام جمہوریت ہے اس لئے ہم جمہوریت کے نام سے اس کا بطلان کرتے ہیں۔ آپ اس کا کچھ اور نام رکھ دیں ہم اس نام سے اس کو مسترد کرنے لگیں گے۔ہمیں تو حقائق سے غرض ہے ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس میں اور آمریت میں یوں بھی کوئی بہت بڑا فرق نہیں۔ آمریت کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ لوگوں کے حقوق غصب کرنے میں آمریت کی صورتیں بھی درجہ بدرجہ مختلف اور متفاوت ہو سکتی ہیں۔آمریت کی بھی بعض اشکال میں ’آزادیاں‘ پائی جا سکتی ہیں اور جمہوریت کی بھی بعض اشکال میں عوام کے حقوق مارے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اس جمہوریت کو ہم نے اگر مسترد کر دیا تو آمریت آجائے گی، یہ ڈراوے ہمیں نہ دیے جائیں۔ آمریت کب نہیں تھی جو اَب اس کے آجانے سے ہم خوف کھانے لگیں اور اس ڈر سے یہاں پر قائم استحصالی نظام، جس کو عرف عام میں جمہوریت پکارا جاتا ہے، کا شرعی حکم تک بیان کرنا موقوف کر دیں!؟
لوگوں کو آمریت اور مطلق العنانی کا ڈر کیا بس اسی وقت لاحق ہوتا ہے جب اس جمہوریت کو شریعت کی میزان میں تولنے کی بات کی جائے؟ ہر کوئی جو چاہے اس کے ساتھ کرے بس اسلام کے حوالے سے اس کی مذمت نہ ہو! عوام کے حقوق کو جان کے لالے بس اسی وقت پڑتے ہیں جب اس استحصالی نظام کی بابت اسلام کا حکم واضح کیا جائے!؟ گویا سب کو ان کے حقوق وافر مل رہے ہیں لہٰذا اب اگر اسلام کے حوالے سے اس ’خوبصورت نظام‘ کی برائی کی گئی تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ ہم آمریت کا ہر طرف دور دورہ کر دینا چاہتے ہیں اور عوام کو ان کے ملے ملائے حقوق سے خوامخواہ محروم کر دینے کے مؤید ہو رہے ہیں۔ البتہ اگر ہم اس نظام کو ’اسلامی‘ تسلیم کر لیں یا اس کو ’اور بہتر‘ کرنے کےلیے اس کا حصہ بن جانا قبول کر لیں، جس کا تقاضاہو گا کہ باقی قوم کی طرح ہم بھی ساری عمر اس کولہو کا بیل بنیں، تب اور صرف تب ہم آمریت پسندی کے الزام سے چھوٹتے ہیں!
ابھی کل کی بات ہے ایک کثیر تعداد یہاں ایسی تھی جو کمیونزم کی مخالفت کا صرف ایک ہی مطلب جانتی تھی ...۔ غریب دشمنی! یہ سب کوئی ان پڑھ اور سادہ لوح نہیں تھے ان میں بڑے بڑے پڑھے لکھے، ترقی پسند دانشور اور ادیب تھے جو دنیا کو صرف دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کیمونسٹ غریب دوست اور غیر کمیونسٹ غریب دشمن!!!
یہ ایک زبردست ’منطق‘ ہے! جو چیز سفید نہیں وہ ضرور سیاہ ہے اور جو سیاہ نہیں وہ لازماً سفید ہونی چاہیے! بعض لوگوں کی آنکھ رنگ نہیں دیکھ سکتی ان کےلیے کوئی چیز یا تو سیاہ ہو سکتی ہے یاسفید۔ گہرا رنگ ان کو سیاہی مائل دکھتا ہے اور ہلکا رنگ سفیدی مائل۔ البتہ رنگ ان کے ہاں کل دو ہیں؛ سفید اورسیاہ۔ نظر کے معالج اسے رنگ کوری (Colour blindness) بولتے ہیں۔ جسمانی طور پر یہ عارضہ بہت کم لوگوں کو لاحق ہوتا ہے البتہ فکری طور پر یہ بہتوں کو لاحق دیکھنے میں آیا ہے۔ باطل افکار کی پیروکار ایک بڑی تعداد بنیادی طور پر ’رنگ کور‘ ('Color blind') ہوتی ہے۔
اسی ’منطق‘ پر چلتے ہوئے ابھی حال ہی میں امریکی قیادت نے دنیا کی ایک دوگانہ تقسیم کی ہے۔ جس کی رو سے کوئی اگر امریکہ کا ساتھی نہیں تو پھر وہ دہشت گردوں کا ساتھی ہے۔ یہ تقسیم بھی مقبولیت پانے سے کچھ ایسی محروم نہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک سمیت دنیا کی بیشتر حکومتوں نے اس تقسیم کی رو سے اپنا محل وقوع متعین کرنے میں ’جلدی‘ کے ساتھ ساتھ ’نیک نیتی‘ اور ’سعادت مندی‘ کا بھی ثبوت دیا!
ایک اورمثال لیجئے۔ یہاں قوم پرست جماعتوں اور لسانی تحریکوں کا یہ حال رہا ہے کہ جوشخص ان کی تقلید میں قوم پرستی کا مسلک اختیار نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک اپنی قوم کا غدار ہے۔ گویا ان کے ہاں کسی انسان کے فٹ ہونے کےلیے دو ہی خانے ہیں؛ لسان پرستی اور یا پھر لسان سے غداری! ان دونوں کے مابین یا ان دونوں کے سوا ایک انسان کی کوئی طبعی غیر طبعی حالت ہو ہی نہیں سکتی!
یہی حال ہمارے جمہوریت پرستوں کا بھی ہے۔ کوئی شخص اگر جمہوریت کا مؤید نہیں تو پھر وہ آمریت کا مؤید ہے۔ لہٰذا جمہوریت کو مسترد کر کے آپ سے آپ ایک شخص استبداد اور ظلم و بربریت کا داعی قرار پائے گا۔ منطق وہی آسان منطق ہے کہ دنیا دو قسم کی ہے؛ جمہوری یا پھر استبدادی۔ اس کے سوا کوئی تیسرا امکان دنیا میں کبھی پایا گیا ہے اور نہ کبھی پایا جائے گا!
جبکہ صورت حال یہ ہے کہ جمہوریت کا معاملہ پچھلی دونوں مثالوں سے دگرگوں ہے۔ کمیونسٹوں کے قائم کردہ ’غریب دوستی ‘ اور ’غریب دشمنی ‘ کے مفروضے کے مابین چلیں کم از کم کوئی ’تناقض‘ تو ہے۔ اسی طرح ’قوم پرستی‘ اور ’قوم سے غداری‘ کے مابین کم از کم تعارض تو پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں مثالوں میں تو غلطی صرف یہ ہے کہ تقسیم محدود اور بے جا طورپر مانع ہے کیونکہ اس میں باقی سب اقسام کو غیر موجود اور ناممکن تصور کر لیا گیا ہے۔ البتہ جمہوریت اور استبداد میں تو وہ ’تعارض‘ بھی نہیں جو اس بے جا طور پر مانع تقسیم میں کچھ تو لطف پیدا کرے۔ ان دو لفظوں کو تو آپ ایک تعبیر میں اکٹھا کر لیں تو ہر گز باعث تعجب نہ ہو۔ کہیں اگر آپ کو ’استبدادی جمہوریت‘ یا ’جمہوری استبداد‘ کا بتایا جائے تو کہاں تک آپ اس کو ایک انہونا اور ایک غیر حقیقی واقعہ قرار دیں گے!؟
ایسی جمہوریت سے اختلاف رکھنے پر کیا پھر آمریت اور استبداد پسندی کا طعنہ دیا جا سکتا ہے؟ یہ تو ’طعنہ‘ بھی نہیں بنتا جس کو مسکت دلیل کا درجہ دیا گیا ہے اور بڑے بڑے فاضل دانشور جسے ایک قطعی حجت کے طور پر پیش فرما رہے ہیں!
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ’رواداری پسند‘ دانشور کمیونسٹوں کی اس بات کو شدید ناگوار جانیں گے کہ وہ کمیونزم کے سب مخالفین کو غریب دشمن گردانیں۔ بلکہ کمیونسٹوں کی اس حرکت کو وہ فکری دھونس قرار دیں گے، جو کہ بالکل درست ہے۔ اس طرح ہمارے یہ جمہوریت پسند دانشور قوم پرست جماعتوں کی اس حرکت کو مذموم جانیں گے کہ وہ غیر قوم پرستوں کو ’قوم کے غدار‘ شمار کریں بلکہ وہ قوم پرست جماعتوں کی اس ذہنیت کو فاشزم بھی قرار دیں گے، جو کہ بالکل درست ہے...۔ مگر جب جمہوریت پر بات آئے گی تو ہمارے یہی رواداری پسند دانشور جمہوریت کے مخالف تمام طبقوں کو آمریت کے مؤید قرار دینے سے شاید ہی کبھی چوکیں۔ اپنے اس فعل کو نہ تو وہ ’فکری دھونس‘ شمار کریں گے اور نہ ’فاشزم‘!!!
کیا اسے ان کاحسن کرشمہ ساز کہا جائے!؟
رہی حقیقت تو وہ یہی ہے کہ ایک جمہوریت ہی نہیں دنیا کے ہر باطل کو مسترد کرنے میں لوگ اپنے اپنے اسباب اور وجوہات رکھتے ہیں کوئی بد سے بدتر کا داعی ہوتا ہے کوئی بد سے کم تر بد کا۔ البتہ ایک طبقہ ایسا ہے جو باطل کو صرف حق کی بنیاد پر مسترد کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ باطل کو صرف حق کی بنیاد پر رد کرتے ہیں اوردنیا کے کسی اور طبقے پر قیاس نہیں ہو سکتے کیونکہ دنیا کے کسی اور طبقے کو خالص اور مطلق حق تک رسائی ہے ہی نہیں۔
چنانچہ وہ لوگ جو وقت کے اس رائج جمہوری نظام کو عقیدۂ توحید کی بنا پر مسترد کرتے ہیں اور نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین اور شریعت سے متصادم ہونے کی بنا پر پارلیمنٹ کے اختیارات کو باطل قرار دیتے ہیں ان کی اس دعوت سے یہ فرض کر لینا کسی بھی طرح درست نہیں کہ ایسا کہنے والے کو آمریت یا استبداد کی کوئی طلب ہو رہی ہے۔ اس کا فرانہ نظام کو اسلام کی رو سے باطل کہنے والوں کو جس چیز کی طلب ہو سکتی ہے وہ اسلام ہی ہے۔ ’اسلام‘ اور ’جمہوریت‘ دو مترادف الفاظ نہیں کہ جمہوریت کے ساتھ اسلام خود بخود چلا آئے گا جس طرح ’جمہوریت‘ اور ’استبداد‘ باہم متعارض کلمات نہیں کہ جمہوریت جانے سے لازماً استبداد آئے گا اورجمہوریت ہونے سے لازماً استبداد چلا جائے گا! ’استبداد‘ تو ’جمہوریت‘ کا نقیض بنتا ہی نہیں! البتہ اسلام جو خدا کے ہاں سے نازل ہوا ہے یقینا اس جمہوریت کا نقیض ہے جو مغرب کے آگے صدی بھرزانوئے تلمذ طے کرتے رہنے کے بعد ہم پر منکشف ہوئی اور جو تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر ملک میں قائم ہے۔
جب ایسا ہے تو پھر کیوں نہ یہ یقین رکھا جائے کہ آج کے موحد طبقے جو اس جمہوریت کو اسلام کا نقیض مانتے ہیں وہ جمہوریت کا یہ شرک ختم کر کے اس کی جگہ، جب بھی ممکن ہو، استبداد نہیں اسلام لانا چاہتے ہیں اور معاشرے کو استحصال اور انسانی خدائی کی سب جمہوری و غیر جمہوری شکلوں سے پاک کر کے اللہ کی خالص بندگی پر یکسو کرنا ہی ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ موحد مسلمانوں کی بابت ایسا گمان رکھنے میں آخر کیا حرج ہے؟
جمہوریت کو اس کے سب استبداد سمیت رد کر دینا اوراستبداد کو اس کی سب جمہوری و غیر جمہوری اشکال سمیت مسترد کر دینا ...۔اور یوں باطل کی ایک کلی نفی کرتے ہوئے خدائے وحدہ لا شریک کی غیر مشروط بندگی و فرمانبرداری اختیار کرنا اورکروان...۔آج اس دور اور معاشرے میں مسلمان ہونے کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ ایک مسلمان کو کسی باطل کی نفی کرتے وقت اسی بات سے غرض ہو سکتی ہے۔ اس کا باطل کی کسی ایک صورت کو رد کرنا باطل کی کسی دوسری صورت کی تائید نہیں ہوا کرتا۔ یہ ’جدلیات‘ (Dialects) کا فلسفہ باطل نظاموں کے پیروکاروں کے معاملے میں درست ہو تو ہو جو ایک باطل کو ختم کریں بھی تو ایک دوسرے باطل کی راہ ہموار کرنے کی قیمت پر۔ یوں توحید کی روشنی میسر نہ ہو تو قومیں ایک گمراہی سے نکل کر دوسری اوردوسری سے تیسری میں جاتی ہیں۔ ضلالت کی بہت سی صورتوں کو ایک ساتھ چلاتی ہیں اور بہت سی صورتوں کو باری باری آزماتی ہیں۔ اس درد ناک مشقت سے آج تک ان کی جان نہیں چھوٹی۔ جتنا فاصلہ یہ طے کر آئی ہیں اس سے زیادہ ابھی پڑا ہے اور پڑا رہے گا۔ مگر وہ قوم جس کو ازل سے ابد تک ایک ہی ہستی کو پوجنا اور ایک اسی کی شریعت پہ چلنا ہے اسکا معاملہ بالکل اور ہے۔ یہ دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنے دین پہ رہ کر جس راحت میں ہو سکتی ہے اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔
اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ (البقرہ: 257)
”اللہ ایمان والوں کا ولی و کارساز ہے وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں انکے ولی و کار ساز طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں“۔
یہی وجہ ہے کہ توحید کی تعلیم اور توحید کو نفوس میں گہرا اتارنا ہر فرض پر مقدم ہے۔ یہ ایک ایسی اہلیت ہے جو انسان میں ہر چیز کو دیکھنے اورپرکھنے کا انداز بدل دیتی ہے۔ ایک ظلمت کا رد جب ایک موحد کرتا ہے تو وہ ایک ایسے شخص سے بہت مختلف ہوتا ہے جو توحید سے آشنا نہیں مگر کسی ظلمت سے تنگ آکر اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ ظلمت تو ظلمت ہے ہرشخص اس سے وحشت کھاتا ہے۔ توحید کی حقیقت معلوم نہ ہو اورخدا کی پناہ میں آنے اور اس کی شریعت کا سہارا پانے کا شعور نہ ہو تو ایک ظلمت سے بھاگ کر کسی دوسری ظلمت میں پناہ چاہتا ہے جو کہ وقتی ہی ہو سکتی ہے۔ ظلمتیں اس کا تعاقب کرتی ہیں اور ظلمتیں ہی اس کا انتظار۔
ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ (نور:40)
”ظلمتوں (کے دَل) ہیں جو ایک دوسرے پر چڑھے ہوتے ہیں (ایسی ظلمتیں کہ)آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی دیکھنے نہ پائے۔ (سچ ہے) جسے اللہ نورنہ بخشے اسکے لئے پھر کوئی نور نہیں“۔
خدائے واحد کی بندگی پر یقین رکھنے والی اس قوم کو خدائے واحد کی بندگی کا مطلب اور مفہوم سکھا لیا جائے، جو کہ اسلامی تحریکوں کا اصل مشن ہونا چاہیے، تو جمہوریت کو رد کرنے کے سوال پر یا کمیونزم کو مسترد کرنے کے موضوع پر یا قوم پرستی کے خلاف صدا بلند کرنے پر یا حتی کہ کسی بھی گمراہی کو چھوڑنے کی دعوت دیے جانے پر ’متبادل‘ کی چیستان خود بخود لغو ہو جاتی ہے۔ حقیقت اسلام کی بنیاد پر قوم کے ایک معتدبہ طبقے کی تربیت اورذہن سازی نہ ہوئی ہو پھر بہرحال اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایک گمراہی کا ازالہ ایک دوسری گمراہی سے ہونے لگے لیکن آسمانی ہدایت اورخدا کی سنتوں سے آشنائی ہو تو ایسی قوم گمراہی کو صرف ہدایت کی خاطر چھوڑتی ہے اور باطل کو صرف حق سے بدلتی ہے۔
اپنے ایک قاری سے محض اس بات پر اتفاق کروا لینا پس ہمارا مقصود نہیں کہ وقت کا رائج نظام ایک باطل نظام ہے۔ ہماری بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ نہ ہی یہ کہنا یا تاثر دینا کوئی دانشمندی ہے کہ بس اس جمہوریت کو جانا چاہیے پھر اس کی جگہ کیا آتا ہے اور کیا نہیں آتا اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ اس انداز فکر کے ہم بالکل مؤید نہیں۔ ہمیں اس باطل کے جانے سے جس قدر سروکار ہے اس کی جگہ حق کے آنے سے اس سے بڑھ کر سروکار ہے۔ حق کے آنے کو اگر کسی وجہ سے کوئی دیر ہے تو اس باطل کے فی الفور جانے کی دہائی مچانا منہج توحید کی ترجمانی نہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب بہرحال نہیں کہ اتنی دیر تک ہم اس باطل کو قبول کئے رہیں۔ اس باطل کا جانا اور اس کی جگہ پرحق کی طلب پیدا ہونا اسی بات پر موقوف ہے کہ مسلسل ہم اس کو مسترد کریں البتہ حق کی لوگوں کو تعلیم دیں اورحق کی خاطر محنت اور قربانی کےلیے اپنے آپ کو اور لوگوں کو تیار بھی کریں۔