عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, December 3,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 1
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2013-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ڈیموکریسی مغرب کا دین ہے
:عنوان

جسدن دنیا میں توحید کےڈنکےعین اسی طرح بجنےلگےجس طرح استعماری فتوحات کےنتیجےمیں صدی بھر سےمغربی اصطلاحات کےڈنکےبج رہےہیں آپ بہت سی اقوام کےراہنماؤں کو دیکھیں گےاپنےدھرم کی کتابوں سےتوحید کےثبوت نکال نکال دینےلگے

. باطل :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف


یہ مبالغہ نہیں، ہمارے ملک کے ایک معروف دانشور نے چند سال پہلے اپنے اداریے کی باقاعدہ سرخی جمائی تھی:

’’مولانا (...  ...) نئی بحث نہ چھیڑیں جمہوریت کفر نہیں عین اسلام ہے‘‘

(اداریہ نوائےوقت لاہور 20 فروری 2009)

اُس موقع پر ہم نے ایقاظ[1]  میں لکھا تھا:

بقول مدیرِ مکرم: جمہوریت عین اسلام ہے...!

یعنی جس وقت امریکہ پاکستان میں ’جمہوریت‘ کے مطالبے کر رہا ہوتا ہے، اور آپ جانتے ہیں امریکہ کے ’جمہوریت‘ کے لیے مطالبے کسی وقت اتنے شدید ہو جاتے ہیں گویا ہم نے امریکہ کی کوئی چیز دبا لی ہے... تو کیا اس وقت ہم یہ سمجھا کریں کہ امریکہ پاکستان میں ’اسلام‘ لانے کے مطالبے کر رہا ہوتا ہے؟! اور یہی بات ظاہر ہے یورپی یونین اور کامن ویلتھ کے ’جمہوریت‘ کےلیے مطالبوں پر صادق آئے گی!؟

جمہوریت عین اسلام ہے تو ہمارے ہاں یہ ’اسلام‘ آنے کےلیے ہم سے بھی بڑھ کر مغرب اور مغرب کا میڈیا اور مغرب کی کاسہ لیس این جی اوز پریشان ہوتی پھریں! بلکہ ’جمہوریت‘ کے معاملے میں جب بھی ہم کوئی ’کوتاہی‘ کر بیٹھیں تو مغرب کی جانب سے بلا تاخیر اس پر ہمیں ’شو کاز نوٹس‘ ملیں! کیا یہ کچھ تھوڑا سا عجیب نہیں؟! اسلام کا یہی ایک حصہ آخر کیوں ایسا ہے جس کے حق میں ہم کوئی قصور کر بیٹھیں تو مغرب اس پر گرفت کرنے میں دیر نہیں کرتا؟!

جو شخص مغربی مفکرین کو تھوڑا بہت بھی پڑھتا ہے اس سے ہرگز روپوش نہ ہوگا کہ جن اصطلاحات کو وہ لوگ مغربی طرزِ حیات کے ترجمان الفاظ کا درجہ دے کر رکھتے ہیں، اور ’ترجمان‘ بھی اس درجے کا کہ ایک ہی لفظ بول کر مغربی طرز حیات کی ’’سپری میسی‘‘ کا پورا مفہوم ادا ہو جائے.. ان چند الفاظ میں سے ایک نہایت کثرت سے مستعمل لفظ ’ڈیموکریسی‘ ہے جس کو ایک عالمگیر قدر universal value کے طور پر منوانا ان کے ہاں ہر اہم فرض سے اہم تر ہے.. جی ہاں  democracy for the third world!!!

معلوم نہیں ہمارے یہ معزز دانشور معاملے کی اصل تصویر کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ حضرات! ’ڈیموکریسی‘ آج مغرب کا باقاعدہ دین ہے اور اس کےلیے وہ اسی طرح غیرت میں آتا ہے جس طرح کوئی بھی معاشرہ اپنے دین کےلیے غیرت میں آتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ’ڈیموکریسی‘ کا ذکر ہونے پر اس کے سینے پر ویسی ہی ٹھنڈ پڑتی ہے جیسی کسی بھی قوم پر اپنے دین کا ذکر سن کر پڑتی ہے۔ ہمارے لوگوں کو یہ ’اسلام‘ میں بھی مل جاتی ہے تو یہ تو مغربی مفکرین کےلیے اور بھی خوشی کی بات ہے! آخر ذاکر نائیک ہندو دھرم کی کتابوں سے ’’توحید‘‘ کے کچھ ایسے سبق نکال کر نہیں دکھا دیتے جن کو ہندو آج بھولے ہوئے ہیں؟! مگر اس میں کیا شک ہے کہ ذاکر نائیک کا ہندو دھرم کی کتابوں سے توحید کے حوالے نکال نکال کر دکھانا اسلام کی برتری اور حقانیت ثابت کرنے کےلیے ہوتا ہے نہ کہ ہندو دھرم کا چہرہ سنوارنے کےلیے! ابھی ظاہر ہے ہندوؤں کے ہاں ایسے ’دیدہ ور‘ پیدا نہیں ہوئے جو خود بھی اپنی وید سے توحید کے یہ ثبوت نکال نکال کر دکھائیں۔ جس دن ان شاء اللہ دنیا میں توحید کے ڈنکے عین اسی طرح بجنے لگے جس طرح افواجِ استعمار کی فتوحات کے نتیجے میں کوئی صدی بھر سے مغربی اصطلاحات کے ڈنکے بج رہے ہیں __ اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں __ تو آپ بہت سی اقوام کے راہنماؤں کو دیکھیں گے کہ ا پنے دھرم کی کتابوں سے ’’توحید‘‘ کے ثبوت خود نکال نکال کر دکھارہے ہیں!

ہمارے یہ مسلم دانشور جس معنیٰ میں جمہوریت کو اسلامی کرتے ہیں وہ ہمیں پوری طرح معلوم ہے اور اُس معنیٰ میں ہمیں ان سے بحث کرنے کی بھی کوئی بڑی ضرورت نہیں (کہ اس کا تعلق ’مفروضوں‘ hypothesis کی دنیا سے ہے جیسا کہ ہم اپنی بیشتر تحریروں میں بیان کر چکے)... البتہ وہ ’’وجہ‘‘ جس کے باعث ہمارے یا کسی بھی تھرڈ ورلڈ قوم کے ایک لیڈر کو آج اِس دور میں ’ڈیموکریسی‘ کی مالا جپتے ہوئے ایک اعلیٰ درجے کی ’تسکین‘ محسوس ہوتی ہے خاص طور اگر ہمارا وہ لیڈر ڈیموکریسی کے یہ ’مقدس الفاظ‘ بولتا ہوا مغرب کے کسی ’ڈائس‘ پر بھی کھڑا ہو اور اُس پر ہر طرف سے تالیاں اور داد برس رہی ہو... وہ ’’وجہ‘‘ بھلا کسے سمجھ نہیں آتی؟!

تھرڈ ورلڈ کے اس لیڈر کا تو یہی دل چاہے گا کہ اس کے دھرم کی کتابوں کے ہر صفحے پر ہی اگر کہیں ’ڈیموکریسی‘ کا لفظ کندہ کر دیا گیا ہوتا تو آج اس کا وہ ایک ایک صفحہ پلٹ کر مغرب کے اس خوبصورتی کے ساتھ تالیاں بجاتے مجمع کو دکھاتا کہ صاحب ہم تو ہمیشہ سے ہی آپ جیسے ہیں بلکہ آپ بعد میں ایسے بنے ہم آپ سے پہلے آپ جیسے تھے، یہ ’فرق‘ تو نہ جانے ہمارے اور آپ کے مابین کہاں سے آ ٹپکا... کہ آپ کے ہاں بڑی دیر سے جمہوریت ہے اور ہمارے ہاں اب آرہی ہے!

یہ ایک واقعہ ہے کہ ’نصرانیت‘ مغرب کا ’’دین‘‘ بہت محدود معنیٰ میں ہے تو ’ڈیموکریسی‘ بہت وسیع معنیٰ میں۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ ’ڈیموکریسی‘ کا نعرہ لگا کر ان کے آج کے ’فاتحین‘ اپنی اقوام سے جنگی مہمات کی ’منظوری‘ تک لیتے ہیں (خواہ درپردہ ان کا کچھ بھی ایجنڈا ہو، کیونکہ ’دین‘ کا استحصال ہر قوم میں ہی ہو جاتا ہے)۔ کسی جنگی مہم پر روانہ ہونے کےلیے وہ ’مغربی طرزِ حیات کو بالا دستی دلانے‘ کے الفاظ منہ پر لاتے ہوئے ابھی پھر جھینپتے ہیں، مگر ’ڈیموکریسی‘ کا لفظ بول کر وہ اپنا یہ مفہوم پوری طرح ادا کرلیتے ہیں اور تب ایک جنگ تک جائز... بلکہ ’واجب‘ ہو جاتی ہے!

یقین کیجئے جب کوئی چیز کسی قوم کےلیے ’’دین‘‘ ہو جاتی ہے تو اس کو اقوام عالم میں برتری دلانے کےلیے جنگ کرنا اس کی زندگی میں عام سی بات ہوتی ہے۔ دنیا کو بھی اِس پر ’اعتراض‘ ہو تو ہو مگر ’’تعجب‘‘ نہیں ہوتا! ’کمیونزم‘ کےلیے ’مشرقی بلاک‘ کا دنیا بھر میں جنگ کرنا دورِحاضر کا ایک معلوم واقعہ ہے۔ سب کمیونزم سے تنگ تھے مگر کسی کو بھی اس پر تعجب نہ تھا کہ سوویت یونین ’کمیونزم‘ کےلیے جنگ کرتا ہے!

یقیناًہمارے لیڈر چاہتے تو ’اشتراکیت‘ بھی اپنے یہاں ان کو ’تیرہ سو سال پہلے‘ نظر آ سکتی تھی مگر ’ڈیموکریسی‘ کے بلاک میں ہونے کے باعث ’سوشلزم‘ کو یہ ’شرعی چھوٹ‘ دینے کی بجائے ہم نے اُس کے ساتھ جنگ شروع کر دی تھی، حتیٰ کہ اپنے کچھ ’انتہا پسندوں‘ کی جانب سے ’سوشلسٹوں‘ پر کفر کا فتویٰ لگنا بھی اُس دور میں ہمیں کچھ ایسا معیوب نہ لگتا تھا!

صاحبو! ’ڈیموکریسی‘ مغربی بلاک کےلیے ویسا ہی ’مقدس‘ درجہ رکھتی ہے جیسا مقدس درجہ مشرقی بلاک کےہاں ’سوشلزم‘ کو حاصل تھا۔ اس کی عظمت قائم کروانے کےلیے مغرب ہر حد تک جا سکتا ہے۔ اس کےلیے لڑنا اور مرنا مرانا اس کے ہاں ہرگز کوئی عار کی بات نہیں، بلکہ فخر کی بات ہے؛ قریب قریب وہی حیثیت جو ہمارے بچے بچے کے ذہن میں کسی وقت توحید اور رسالت کو حاصل ہوا کرتی تھی...!

کیوں نہ ہو؛ اپنے اپنے ’’دین‘‘ کےلیے ہر کوئی میدانِ جنگ میں اترتا ہے... دو واقعے، ایک دورِ انبیاء سے، اور دوسرا ’اکیسویں صدی‘ سے:

سلیمان علیہ السلام کو ھدھد آکر بتاتا ہے اور یہ ننھا موحد پرندہ اس پر حیران ہوتا ہے کہ خطۂ سبا میں تہذیب سے دور افتادہ ایک ایسی قوم پائی جاتی ہے جو ’آج بھی‘ خدائے رب العالمین کو چھوڑ کر سورج دیوتا کو پوجتی ہے! سلیمان علیہ السلام اس پر سفارت روانہ کرتے ہیں اور باقاعدہ لشکر کشی کےلیے آخری حد تک آمادہ ہو جاتے ہیں بلکہ قومِ سبا کو اَلٹی میٹم بھی جاری کر دیتے ہیں، یہ الگ بات کہ جنگ کے بغیر ہی سبا فتح ہو جاتا ہے۔

 جارج بش اپنی قوم کو بتاتا ہے کہ عراق کے زرخیز اور تیل سے مالا مال خطے میں ایک قوم ’آج بھی‘ ایسی پائی جاتی ہے جس کی زندگی ’ڈیموکریسی‘ کے بغیر گزرتی ہے اور جہاں ’ڈکٹیٹرشپ‘ کا دور دوره ہے! جارج بش عراق کے اس ’ظلم اور اندھیرے‘ کے خلاف عازم جنگ ہو جانا  ہے اور اپنی اس جنگ کےلیے ڈیموکریسی کا ’مقدس نام‘ بار بار جپتا ہے بلکہ آس پاس کے پورے خطے کےلیے وہ ’ڈیموکریسی‘ کے حوالے سے  قوم کو اس کا ’فرض‘ یاد دلاتا ہے اور اس کے راستے میں قربانیاں دینے کا عزم دہراتا ہے۔ امریکی قوم ”عراق کے انسان“ کو ’ڈیموکریسی‘ دلوانے کےلیے (کم از کم نعرہ یہی تھا) جارج بش کو جنگ پر جانے اور اپنے بچے مروانے کی منظوری دے دیتی ہے، اِس ’مادیت‘ کے دور میں بھی کہ جب بچے پیدا کرنا امریکی ماں کےلیے بے حد مشکل ہے!

ادھر اَفغانستان میں وہ ہمیں ’ڈیموکریسی‘ دے کر جانے پر ابھی تک بضد ہیں!

یا للعجب! ہمیں مارنے کےلیے بھی ڈیموکریسی، ہمیں امداد ملنے کی شرط بھی ڈیموکریسی، ہمیں بے وقوف بنانے کےلیے بھی ڈیموکریسی، ہم پر اپنی مرضی کے طبقے مسلط کئے رکھنے کےلیے بھی ڈیموکریسی! کیا کوئی ہمیں سمجھا سکتا ہے ’اسلام کا وہ حصہ‘ جو ’ڈیموکریسی‘ سے متعلقہ ہے، اس میں امریکہ کی دلچسپی آخر ہے کیا؟؟؟

کیا واقعتا ہم تھرڈ ورلڈ اقوام کا صحیح مصرف اِن ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ’ڈیموکریسی‘ کی پرمشقت ریہرسل کرنا ہے؟ پون صدی کوئی کم عرصہ تو نہیں!

*****

حضرات! ایک چیز مغربی اقوام کےلیے ’’دین‘‘ کا درجہ رکھتی ہے، اس ’’دین‘‘  کا حوالہ اپنی تمام تاریخی و فکری جہتوں سے زمانے بھر میں معروف ہے، اُن کے مفکرین اُس (ڈیموکریسی) کی جیت کو اپنی جیت کہہ کر مسلسل آپ کے سامنے بغلیں بجا رہے ہیں یہاں تک کہ ایک ’طرزِ زندگی‘ کے پورے جہان پر غالب آجانے کا اعلان کر رہے ہیں، بلکہ   The End Of History[2]    کے باقاعدہ شادیانے بجارہے ہیں... اور ادھر ہمارے کچھ شکست خوردہ ذہن عین اُسی چیز (جس کو وہ اقوام اپنے ’’دین‘‘ کے طور پر پیش کرتی ہیں) کے حوالے اپنے ’اسلامی مصادر‘ سے دیتے چلے جا رہے ہیں، بلکہ اپنے ہاں اِس پر معترض ہونے والے ہر شخص کو ’چپ‘ کروا رہے ہیں، کہ کہیں اسلام کو ایک ’پسماندہ‘ اور ’غیرجمہوری‘ مذہب نہ سمجھا جانے لگے!!!... کیا پوری امتِ محمدؐ اِس پر خاموش ہی رہے گی؟

صاحبو! سمندر میں جزیرے بنائے نہیں جاتے! ایک اصطلاح عالمی طور پر اگر ایک واضح معین مفہوم رکھتی ہے اور اس کی کچھ مخصوص دلالات  connotations  ہیں اور وہ اصطلاح ایک باقاعدہ حوالے کے طور پر دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے تو دنیا کے چھوٹے سے کسی گوشے میں کچھ لوگوں کے ہاتھوں اس کو کچھ نئے معانی پہنا دینے کی کوشش نیک نیتی تو ضرور کہلا سکتی ہے البتہ عملاً یہ سمندر میں جزیرے کھڑے کرنے کے ہی مترادف ہو گا، جوکہ اصولاً عبث ہے اور عملاً محال۔

واقعتا اگر آپ کا اپنا ایک جداگانہ مفہوم ہے اور وہ اپنے مضمون substance میں اس قدر مختلف ہے کہ ایک چیز شرک سے ہٹ کر اب توحید بن گئی ہے، یعنی ایک بعدالمشرقین کا فرق لے آیا گیا ہے، (یعنی ایک اتنا بڑا فرق جس سے بڑا فرق دنیا میں کوئی پایا ہی نہیں جاسکتا).. تو جہاں اپنا ایک جداگانہ مفہوم سامنے لے آنے پر اتنی محنت کرلی گئی (جوکہ ہمارے نزدیک محل نظر ہے)  وہاں اس کےلیے ایک عدد اصطلاح بھی جداگانہ رکھ لی ہوتی! تاکہ یہاں کے ’سادہ لوح‘ ڈیموکریسی کے عالمی طور پر جانے پہچانے حوالے سے ’مغالطہ‘ ہی نہ کھاتے! بلکہ ’ڈیموکریسی‘ کے اِس عالمی حوالے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی کسی کو نہ رہتی! بلکہ یہ سوال ہی سرے سے نہ اٹھتا! مغرب کا شرک بھی ایک ہی لفظ سے پہچان میں آ جاتا اور ہمارے گلے میں پڑا خدائے رب العالمین کی غیر مشروط فرماں برداری کا طوق بھی ایک ہی لفظ بول کر سامنے آ جاتا!

لیکن اس صورت میں ظاہر ہے عالمی جاہلیت کی وہ واردات بھی نہ ہوسکتی جو ’ڈیموکریسی‘ کے اس عالمی نعرے کے پیچھے اصل ایجنڈا تھا! آپ خود سوچئے... ’ڈیموکریسی‘ کے اندر سے غیر اللہ کی خدائی اور ’عوامی نمائندوں‘ کا حرفِ آخر ہونا نکال دیا جائے؛ یوں کہ اللہ مالک الملک کا نازل کیا ہوا ایک ایک حرف قانون ہو اور ایسا قانون کہ اُس احکم الحاکمین کے فرمادینے کے بعد نہ کسی کی رائے، نہ کسی کی ’منظوری‘ اور نہ کسی کے ’دستخط‘.. یعنی ’ڈیموکریسی‘ سے اس کا اخص الخاص وصف ہی نکال باہر کیا گیا ہو اور اس کو دینِ انبیاء کی اخص الخاص حقیقت __ یعنی توحیدِ رب العالمین اور مطلق غیر مشروط طور پر اس کی شریعت کے آگے سر تسلیم خم کر دینا __ کا عکاس بنا دیا گیا ہو، تو کیا یہ ایک ہی بات آپ کو حیرت میں نہ ڈال دے گی کہ امریکہ اور پورا مغرب آپ کے ہاں ’ڈیموکریسی‘ کے قیام کےلیے اس قدر بے چین کیوں رہتا ہے؟!

حضراتِ گرامی!

حاکم کے چناؤ کے معاملہ میں اسبتداد کو مسترد اور شوریٰ کو فرض کر دینے‘ پر بھلا کس مسلمان کو اعتراض ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ہماری اپنی تاریخی اصطلاحات کے ساتھ ہو؟ کیا آپ کو کوئی ایک بھی ’ڈیموکریسی‘ کو مسترد کرنے والا صالح مسلمان نظر آیا ہے جو ’’شوریٰ‘‘ کو لازم نہ جانتا ہو اور جو ’استبداد‘ اور ’آمریت‘ کو غلط نہ جانتا ہو؟ تو پھر کیا ہمارے یہ معزز دانشور حضرات کبھی غور فرمائیں گے کہ آخر اختلاف اور اعتراض ہے کہاں پر؟

ان دو واضح حقیقتوں کو بھلا کون شخص جھٹلا سکتا ہے کہ:

1)    ڈیموکریسی‘ زمانۂ حاضر کی ایک معروف اصطلاح ہے اور اپنی خاص متعین عالمی و تاریخی دلالات connotations رکھتی ہے، اور یہ کہ: 

2)       ’ڈیموکریسی‘ کو مغرب اپنے نہایت امتیازی شعارات میں سے ایک شعار جانتا ہے؟

ان دو چیختے دھاڑتے حقائق کے ہوتے ہوئے، آپکو کوئی چیز اپنے دینِ کامل میں خود اپنی ایک بے ساختہ ترتیب اور اپنی امتیازی اصطلاحات کے ساتھ ملتی ہے، اور جس پر کوئی مسلمان داعی معترض نہیں.. تو کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اپنے دین کے ایک شعار ’’شوریٰ‘‘ کا حوالہ دے کر وقت کے ایک معروف عالمی شعار ’ڈیموکریسی‘ کوماتھے پر سجا لینے پر اتنا اصرار کیوں ہے...؟

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں ’’ڈیموکریسی‘‘ ایسے ایک معروف عالمی شعار کے بیک وقت ’اسلامی‘ و’غیراسلامی‘ مفہوم زیب تن کر رکھنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے...

یہ کہ... ہم دینداروں کو ’ڈیموکریسی‘ کا وہ حوالہ دے کر چپ کرا دیا جایا کرے جس کا تعلق کچھ ’مفروضوں‘ hypothesis  یا طاقِ نسیاں کی نذر ہو جانے والے کچھ ’تصورات‘ سے ہے.. جبکہ وائٹ ہاؤس کے عالمی نامہ نگاروں سے کھچاکھچ بھرے ہال میں کسی اچھے رنگ کی ٹائی میں ملبوس ہمارا ایک صدر جس ’ڈیموکریسی‘ کے قیام اور بحالی کا __ زور دے دے کر __ یقین دلا رہا ہو اس کا تعلق ’واقع‘ اور ’حقائق‘ سے ہو! آخر کون ہے جسے سمجھ نہیں آتی؟!

یہ ہے اصل نقب جو ’جمہوریت‘ کے دھانے سے ہمارے گھر میں لگایا جاتا ہے۔  پس جمہوریت کے دو مونہہ نہایت کارآمد ہیں؛ جمہوریت کا ’اسلامی‘ مونہہ ہمیں مسحور کرنے کےلیے اور اس کا ’غیراسلامی‘ مونہہ یہاں کے مغرب پرستوں کا اعتماد بحال رکھنے کےلیے!

بہت ہو لیا۔ ہماری ’شورائیت‘ اور اُن کی ’ڈیموکریسی‘ کے مابین پائی جانے والی اس ’لفظی مشابہت‘ سے خدا را کیا آپ ہماری جان چھڑوا سکتے ہیں؟

کیا آپ اتفاق نہیں کرتے کہ دنیا کے مختلف فریق ’ڈیموکریسی‘ سے ایک سی مراد نہیں لیتے؟ لفظ ایک ہے اور ’مراد‘ ہر کسی کی اپنی اپنی!!!!!؟... یعنی عین وہ چیز جو ایک طاقتور کو ایک کمزور کے ساتھ واردات کر جانے کا نہایت خوب موقعہ فراہم کرتی ہے!

اصطلاح ایک اور ’مفہوم‘ سب کا اپنا اپنا! ایک گاڑی کو دھکا سبھی مل کر لگائیں مگر اس کا اسٹیرنگ صرف ایک فریق کے پاس ہو! سبھی اس گاڑی کو اپنے اپنے وجود سے ایندھن فراہم کریں مگر وہ جائے ایک ہی فریق کی منزل پر! اس کو کہا جاتا ہے ’لفظی اشتراک‘، یعنی ایک ایسا خوبصورت انتظام کہ جس میں ہم بڑی سادگی سے جاہلیت کا پانی بھرا کریں اور ہو سکے تو اس کے بہت سے ناز نخرے اٹھائیں اور اِس کی ’اخلاقی ضروریات‘ بھی بہم پہنچائیں، اور وہ بھی ’اسلام‘ کے نام پر اور ’عاقبت‘ خراب ہو جانے کے ڈر سے، کیونکہ جاہلیت اپنے حق میں کچھ شرعی ’فتاویٰ‘ بھی رکھتی ہے!

*****

حضرات اسلامی شورائیت‘ کو موضوعِ نزاع آخر بنایا ہی کس نے ہے؛ اور وہ تو حقیقت ہی کچھ اور ہے؟ ’ڈیموکریسی‘ کے ساتھ یہ خلطِ مبحث آخر پیدا ہی کیوں کیا جائے؟ البتہ لفظ ’ڈیموکریسی‘ کی اپنی کچھ تاریخی وفکری دلالتیں connotations   ہیں، جن کی راہ سے ہمارے گھر میں ایک بہت بڑا نقب لگ جاتا ہے۔ یہ نقب روز بروز بڑا ہو رہا ہے؛ اور میرا نہیں خیال اس پر کوئی بھی ہمارے ساتھ اختلاف کرے گا۔

صورتحال کو اچٹتی نظر سے دیکھ لینا بھی بہت کافی ہے۔ خاطر جمع رکھئے، ملک کے نظام کا تمام تر رخ اب اُسی سمت کو ہے جو ایک معروف عالمی حوالہ کے طور پر ’ڈیموکریسی‘ کا کوئی اقتضاء ہو سکتا ہے۔ ایک چیز وہی کچھ پیدا کر سکتی ہے جس کےلیے وہ ہے۔ کچھ ’ضروری‘ مرحلے تھے جو سر ہوئے[3]، آگے آگے آپ کو وہی صورت نظر آئے گی جو بالآخر ’مادر پدر آزاد‘ پر ہی جا کر منتج ہو۔ ہمت ہو تو دیکھتے جائیے، یہ ایک نہایت خاص انداز اور ترتیب کے ساتھ خود ہی برہنہ سے برہنہ تر ہوتی چلی جائے گی اور ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ آپ سے آپ سامنے آتا چلا جائے گا۔ اپنے طبعی رخ پر پڑا ہوا یہ معاملہ جیسےجیسے ہمارے  قابو سے باہر ہوتا جائے گا، جیسےجیسے ’چڑیاں کھیت چگتی‘ چلی جائیں گی اور ’پچھتانے‘ کا وقت ہاتھ سے نکلتا جائے گا، ویسےویسے اِس کی اصل حقیقت ہم پر عیاں ہوتی چلی جائے گی۔ ہاں یہ ’تسلی‘ دلانے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی کہ ’مغرب کی نسبت ابھی یہ بہت کم ہے‘! بالکل اُسی طرح، جس طرح فحاشی اور عریانی کے حوالے سے ’’نوائے وقت‘‘ کا معاملہ ہمیشہ ’’جنگ‘‘ سے دس بارہ سال پیچھے رہتا ہے! اِس دوڑ کا نام اگر ’مشرقی جمہوریت‘ ہے تو ضرور یہ ’مغربی جمہوریت‘ سے ایک مختلف چیز ہے!

پس زیادہ امکان یہی ہے کہ ’ڈیموکریسی‘ کی صحیح ’اسپرٹ‘ کو سامنے لانے والی خواتین و حضرات ہی اب آنے والے دنوں میں یہاں منصہ سیادت پر ظہور کریں۔ اور ’صحیح اسپرٹ‘ سے مراد یہی ہے کہ ’ڈیموکریسی‘ کے ساتھ ’اسلامی‘ کا adjective لگوانے کےلیے ان خواتین و حضرات کو ذرا یاد کروانا پڑا کرے گا کہ جناب ’کتابوں‘ میں کہیں کہیں اِس کو ’اسلامی‘ بھی کہا گیا ہے! نیز ’قرار دادِ مقاصد‘ اور ’اسلامی دفعات‘ وغیرہ ایسی اشیاء کے ذکر خیر کےلیے بھی حافظے پر زور ڈالنا پڑے گا کہ ہاں یہ بھی ہے! یوں عنقریب آپ کو ایک ’جدید پاکستان‘ سے واسطہ پڑنے والا ہے، اگر آپ چاہیں تو اِس کےلیے ابھی سے تیار ہو لیں! خصوصاً آج ’ڈیموکریسی‘ کو جو ’روشن خیال میڈیا‘ اور ’ایک صاحبِ طرز سول سوسائٹی ‘ کے خوبصورت شانے ملے ہیں ان کی بدولت لگتا یہی ہے کہ ’اسلامی جمہوریت‘ کی ترکیب کامختصر ہو کر ایک ’لفظ‘ پر آ جانا اب کوئی دن کی بات ہے! 

ذرا اِن تیزی کے ساتھ سامنے آتے ’نئے‘ ٹرینڈز پر نگاہ ڈالئے، اور فرمائیے کیا ہماری اس بات میں ذرہ بھر کوئی مبالغہ ہے؟

حضرات! اس تیزی کے ساتھ ’جدید‘ ہوتے پاکستان کی ’جمہوری‘ رُتوں کا تھوڑا سا جائزہ لے کر تو دیکھئے۔ ایک جھلکی ہی اپنا آپ بتا دیتی ہے کہ دستور کی کچھ دور افتادہ شقوں کے حوالے سے آئے روز ہم ایک فضول بحث لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک کہانی بول بول کر اپنا آپ خود کہتی ہے۔ یہ اپنا رنگ خودبخود گہرا کر رہی ہے۔ آپ کو پوری ’کارروائی‘ ملاحظہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ’تلاوتِ کلامِ پاک‘ کے وقت ہی آپ دیکھتے ہیں آپ کے ایوانِ نمائندگان کی آج کوئی ایک چوتھائی، یکلخت، ’دوپٹے‘ کی ضرورت مند ہو جاتی ہے! اور وہ بھی ’تلاوت‘ کے دوران دوران ہی کےلیے! یہ آپ کی مجلسِ قانون ساز ہے، جس کی بابت آپ کی قرارداد مقاصد یہ کہتی ہے کہ خدا کے دیے ہوئے کچھ ’مقدس اختیارات‘ عوام کی راہ سے ان ہستیوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ پس جہاں آپ کو اپنی نگاہ نیچی کر لینا پڑتی ہے وہاں آپ کے سامنے خدا کے بخشے ہوئے کچھ ’مقدس اختیارات‘ کی مالک ہستیاں بیٹھی ہیں۔ ان خواتین کے لباس پر اور ان کی نشست و برخاست پر اور ان کے طرزِ حیات پر مت جائیے، ان ’اولی الامر‘ کی تو اطاعت مجھ پر اور آپ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کر رکھی ہے، فِی الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہ![4] اپنی مرضی اور موڈ کی بات تھوڑی ہے، ہم تو اِن کی اطاعت کے شرعاً پابند ہیں! اس پر، اتنے بڑے بڑے علمی ناموں اور فتووں  کا ہم پر رعب ڈالا جائے گا اور ایسی اعلیٰ دستاویزات کے حوالے سنائے جائیں گے کہ ہمیں اپنے ایمان کی فکر تو ضرور ہی لاحق ہو جانی چاہیے! ’اجماعِ امت‘ کو ٹھکرانا کیا کوئی چھوٹا گناہ ہے!

پس ’ڈیموکریسی‘ کی تو باہر ہی نہیں اپنے یہاں اتنی قسمیں ہیں کہ سبھی طبقے مل کر کہیں پہنچنا چاہیں تو قیامت تک نہ پہنچ پائیں۔ کم از کم ہم اسلام پسند جو یہاں مالک الملک کے اتارے ہوئے ایک ایک حرف کو ہر دستور سے بالاتر دستور دیکھنا چاہتے ہیں اور خدا کے فرمائے ہوئے کے سامنے زبانیں بند، بحثیں ختم، حیل و حجت موقوف اور سر جھکے ہوئے دیکھنے کے متمنی ہیں.. کم از کم ہم اسلام پسندوں کی منزل اس راستے سے آنے والی نہیں۔ حضرات یہ وہ نظام ہی نہیں جو ’’رسولؐ کے لائے ہوئے‘‘ ایک ایک حکم کے آگے ’سمعنا و اطعناکہتا چلا جانے کےلیے وجود میں لایا گیا ہو۔

*****

ایک قابل غور سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ابھی بھی اس سسٹم کو ’اسلام پسندوں‘ کی شرکت اور سرگرمی کی ’اشدضرورت‘ ہے؟

ہماری ناقص رائے میں اس کی بہت بڑی ضرورت تو اب باقی نہیں۔ ’قرادادِ مقاصد‘ کا حوالہ اور دستور کی ’اسلامی دفعات‘ کا حوالہ اور کچھ مذہبی شخصیات کے دستخط یہاں کے ’غیر سیکولر معترضین‘ کو خاموش کروا دینے کےلیے قیامت تک کافی ہیں! لہٰذا اسلام پسندوں کی مزید خدمات کہیں فٹ ہوتی نظر تو نہیں آتیں۔ یہاں کے ناخداؤں کے تیور دیکھیں تو یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلام پسندوں‘‘ کے ناز نخرے اٹھانا قیام پاکستان کے ابتدائی چند عشروں کی ضرورت تھی جو کہ بدرجۂ اتم پوری ہوئی۔ ’’اسلام پسندوں‘‘ سے جو چاہیے تھا وہ لیا جا چکا۔ خود ’’اسلام پسندوں‘‘ کے پاس جو تھا وہ اپنے ہاتھ سے دے چکے۔ دی ہوئی چیز واپس لینا معیوب بھی ہے اور اب تو جان جوکھوں کا کام بھی! یہ نظام ایک بار ’’اسلامی‘‘ ثابت ہو چکا، اب ساتھ چلنا چاہیں بڑے شوق سے چلیں، البتہ چھوڑ کر جانا چاہیں تو معاملہ اب اتنا سادہ تھوڑی ہے! اب تو آپ اِس کو چھوڑ کر جاتے ہیں تو یہ ’’اسلامی‘‘ نظام سے انحراف ہو گا، جس کو ہمارے شرعی مصادر میں ’’شذوذ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے (یعنی ’جماعت سے علیحدگی اور دوری‘ اختیار کرنا؛ جبکہ اسے ’اسلامی ریاست‘ اور ’الجماعۃ‘ کامیابی کے ساتھ ثابت کیا جاچکا اور ہماری ہی سعیِ مسلسل کے نتیجے میں یہ ہدف حاصل کرایا گیا)۔ تو پھر ’’شذوذ‘‘ کا حرام ہونا خود اسلام پسندوں سے بڑھ کر کس پر واضح ہو گا!؟

پس اسلام پسندوں کی کوئی اہمیت تھی تو وہ خیر سے پوری ہوئی۔ کچھ حوالے جو اسلام پسندوں کے دم سے ہاتھ آ چکے، اب قیامت تک کےلیے کافی ہیں۔ یہ ’حوالے‘ اب صرف اور صرف سنبھال رکھنے کی چیز ہے اور حوالے ’سنبھال رکھنا‘ بھلا کیا مشکل ہے؟! خاص خاص مواقع پر اور کچھ مخصوص بحثوں کے دوران اب یہ ’کتابوں‘ سے نکال لئے جاتے رہیں گے!

 ؂       ہو چکی نماز، مصلیٰ اٹھائیے!

 

 

 



[1]   سہ ماہی ایقاظ اپریل تا جون 2009

[2]   امریکہ کے ایک نہایت شہرت یافتہ دانشورفرانسس فوکویاما  Francis Fukuyama کی شہرہ آفاق تصنیف:  The End Of History And The Last Man  جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سرد جنگ کا اختتام محض ایک دور کا اختتام نہیں بلکہ انسانی ارتقاء کا ہی نقطۂ اختتام ہے۔ فوکویاما کی اِس تصنیف کا کہنا تھا کہ ’لبرل ڈیموکریسی‘ کی صورت میں انسانیت کو جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچ چکی اور جو پانا تھا وہ پا چکی۔ اب کوئی چھوٹی موٹی ترمیمات ہوں تو ہوں مگر کسی بڑی سطح پر انسان کے اِس عمرانی سفر میں اب آگے کچھ نہیں!

    یعنی مغربی بلاک کی اِس فتح اور اس کے نتیجے میں مغربی اقدار کی بالادستی پر انسان کی فکری و تہذیبی ترقی کا اختتام ہوتا ہے!!!

[3]   اس نظام کو اسلام پسندوں کی جو ضرورت رہی ہے، اس پر تھوڑا آگے چل کر بات آرہی ہے۔

[4]   احادیث میں آنے والے بیعت کے الفاظ (جن کا معنیٰ ہے: ’’ہم اپنی پسند کے وقت بھی اور ناپسند کے وقت بھی آپ کے اطاعت گزار رہیں گے‘‘) اور جوکہ ’’مسلم اولی الامر‘‘ کے روبرو کہے جاتے ہیں۔ یہاں ہمارے کچھ نیک طبقے ہیں جن کی زبان پر آپ ہر وقت یہ دعوت سنتے ہیں کہ ’دورِ حاضر کے حکمران طبقوں کے ساتھ ہم ویسا ہی تعامل اختیار کرنا ضروری سمجھتے ہیں جیسا سلف نے اپنے دور کے حکمرانوں کے ساتھ اختیار فرما رکھا تھا‘۔ تو پھر آپ کے سامنے اِس ’اسلامی ڈیموکریسی‘ کے طفیل جو ’اولی الامر‘ دستیاب ہیں ان کی ایک چوتھائی وہ ہے جو ’تلاوتِ کلام کے وقت‘ دوپٹے کی ضرورت مند ہوتی ہے؛ ان کی ’اطاعت فی المعروف‘ کا وہ ’سلفی منہج‘ بھی پس آپ سے آپ عیاں ہے! کچھ باتیں اللہ کے فضل سے اتنی واضح ہیں کہ وہاں ’دلائل‘ دینا  خوامخواہ کی مشقت ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز