فصل 10 کتابچہ: ’’اپنی جمہوریت یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘
یہ مختصر کتابچہ: ہمارے یہاں قائم ’ڈیموکریسی‘ نامی ایک بدیشی نظام کے خاتمے اور شرعِ خداوندی کی مطلق رِٹ بحال کرانے کی دعوت ہے۔ ملک میں اِس ہدف کو عملاً ممکن بنانے کےلیے؛ قوم میں اس پر انتہا درجہ یکسوئی پیدا کرانا ضروری ہے۔ قوم کو یکسوئی کی اس مطلوبہ سطح پر لانے کےلیے؛ کسی باصلاحیت مسلم جمعیت کو یہاں ڈھیروں محنت کرنا ہوگی۔ ہمارے خیال میں اس عمل کا آغاز بھی تاحال کسی قابل ذکر حد تک نہیں ہوا ہے؛ کجا یہ کہ ہم ابھی سے توقع رکھیں کہ اس کے لیے کوئی بڑا قافلہ ترتیب پاجانے والا ہے یا قوم اس نظام کے خاتمہ کےلیے اٹھ کھڑی ہونے والی ہے۔ یہ البتہ واضح ہے کہ کوئی بڑا قافلہ ترتیب پائے بغیر اور قوم کے ایک معتدبہٖ حصے کو اس کے لیے تیار کئے بغیر یہ ہدف حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اِس ہدف کی جانب پیش قدمی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ:
1. ہم داعیوں کے ہاں اِس نظام کو رد کرنے پر کس درجہ کی یکسوئی پیدا ہوچکی ہے۔ (’اسلامی نظام‘ کی صدائیں بلند ہونا، جوکہ بڑی دیر سے ہورہی ہیں، ہماری نظر میں ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ پہلے اُس ’غیراسلامی نظام‘ کی بابت اپنی پوزیشن واضح کریں جس کو ہٹائے بغیر آپ کا یہ ’اسلامی نظام‘ کہیں فٹ ہونے والا نہیں ہے)۔
2. قوم کو اس پہ تیار کرنے پر کس قدر محنت کرلی گئی ہے؟ عوامی ذہن سازی کے محاذ پر آپ کی کیا پیش رفت ہے؟
3. اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے سرگرم افراد، اداروں، جماعتوں اور پروگراموں کے مابین کس درجہ کا اشتراک اور تعاون پایا جانے لگا ہے۔ جمہوریت کو رد کرنے کے معاملہ میں ایک عمومی اتفاق رکھنے کے باوجود، حالیہ مرحلوں کے دوران اس جمہوری نظام کے ساتھ ڈیل کرنے کے موضوع پر اگر اِن اسلامی جمعیتوں کے مابین راستوں اور طریقوں کا اختلاف پایا جاتا ہے تو اس اختلاف کو قبول کرتے ہوئے، اور اس میں ایک دوسرے کو عذر دیتے ہوئے، ایک وسیع تر دائرہ میں مل کر قافلہ بننے کی، ان جماعتوں کے ہاں کیا کیا صورتیں اختیار کی گئی ہیں؟ باہمی شیرازہ بندی کی کیا تدبیر ہوئی ہے؟ ہر گروپ کے یہاں اپنے جیالوں کو حدود میں رکھنے کا کیا انتظام ہے اور ایک دوسرے کی قیادت کو قبول کرنے پر کس درجہ آمادگی پائی جاتی ہے؟
4. باطل کو مسترد کرانے کی اِس دعوت کو آگے بڑھانے میں... آپ معاشرے کے باشعور تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرلینے کی کیسی استعداد سامنے لائے ہیں؟ یہاں کے ادبی وثقافتی عمل کو متاثر کرنے کیلئے آپکے اسلوب اور خطاب میں کس قدر پختگی ہے۔ فکری وسماجی رجحانات کو رخ دینے پر آپکو کیسی دسترس ہے۔ کیونکہ سماجی صلاحیتیوں سے محروم افراد خواہ وہ کتنے ہی نیک، عبادت گزار، مخلص اور جذبے والے کیوں نہ ہوں کسی حقیقی تبدیلی کا علم اٹھاکر چلنے سے بہرحال قاصر ہوتے ہیں۔
5. قربانی کے جذبے سے کس قدر سرشار ہیں۔ استقامت کس درجہ کی نصیب ہوئی ہے۔
ایک باصلاحیت جمعیت یہاں بہرحال مطلوب ہے۔ تبدیلی اگر ’آرڈر‘ پر تیار کرنےکی چیز ہوتی ، یا ایک دوسرے کو طعنے اور کوسنے دینے سے برپا ہوجایا کرتی، یا خواہش اور آرزو پر منحصر ہوتی تو بڑی دیر سے رونما ہوچکی ہوتی۔ صلاحیت، محنت، دین کی حقیقت کا صحیح ادراک، باطل کی حقیقت سے آشنائی، مومنوں کےلیے نرمی اور کافروں کےلیے سختی کا مظہر بننا... اِس مطلوبہ عمل کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔
صاف سی بات ہے قوم کو ظلم کے اِس نظام سے نجات دلانے کےلیے کسی کے پاس بھی طلسمی حل نہیں ہے۔ قوم کے ایک معتدبہٖ حصے کو اس کام کے لیے ہلائے جلائے اور اٹھائے بغیر یہاں کوئی راستہ نہیں ہے۔ نہ بندوق اس مسئلے کا حل ہے اور نہ لاٹھی۔ محض تقریروں ، درسوں، وعظوں اور خطبوں سے یہ ہدف حاصل ہونے والا ہے اور نہ بیلٹ بکسوں کی راہ سے۔ اس کےلیے آپ کو سماج میں اترنا ہوگا اور اس کےلیے ایک خالص ایمانی بنیاد اختیار کرنا ہوگی۔ نہ کسی تنظیم کی دعوت اور نہ کسی لیڈر کی پروجیکشن اور نہ کوئی سیاسی لہجے۔ خالص ایمانی اسلوب۔ اللہ اور یوم آخرت کی تذکیر، نجات کی دُہائی اور باطل سے دامن کش ہوجانے اور شرک سے بیزاری اختیار کرلینے ایسے بےساختہ قرآنی نبوی موضوعات۔
تبدیلی کے داعیوں کو یہ گھاٹی بہرحال چڑھنا ہوگی۔ اِس گھاٹی کے چند ابتدائی مراحل بظاہر اس قدر تنگ ہیں گویا گزرنے کا راستہ نہیں ہے۔ البتہ تھوڑا آگے جاکر یہ راستہ حیران کن حدتک کھلا ہوجاتا ہے۔ قوم کا ایک بڑا حصہ ایسی کسی نجات دہندہ جمعیت کا بڑی دیر سے منتظر ہے۔ قوم کی حالت اُس بچے کی طرح ہے جو اپنی بھوک اور پیاس نہ بتاسکتا ہویا جو اپنی بھوک اور پیاس کا مداوا کرنے سے قاصر ہو اور اس کیلئے کسی ’بڑے‘ کی راہ تک رہا ہو۔ یہ زخموں سے چُور اور جذبوں سے لبریز قوم بھی یہاں صرف کسی ’بڑے‘ کی راہ تک رہی ہے۔ اسکا ’’بڑا‘‘ وہ ہوگا جو اسکی بات سمجھے اور اسکو اپنی بات سمجھائے (کمیونی کیشن گیپ فِل کرلے)، اسکو نصیحتیں کرنے کی بجائے اسکی ضرورتوں اور مجبوریوں کا ادراک کرے، اسکی خاطر فرعونِ وقت سے الجھے، اسکو ’ہدایات‘ دینے کی بجائے اسکا ہاتھ پکڑ کر چلائے، اسکا استحصال کرنے والے طبقوں کے ساتھ اسکی خاطر ٹکرائے، اسکا بوجھ ہلکا کرنے کی آج ہی کچھ تدبیریں کرکے اپنے قائدانہ جوہر اور اپنی مدبرانہ صلاحیتوں کا ثبوت دے اور اسکی غم گساری میں اپنے سچا ہونے کا عملاً یقین دلائے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں پیچھے رہنے کی بجائے اس قوم کے آگے لگے، اور اسکو دنیا وآخرت کی جتنی خیر لاکر دے سکتا ہو (کسی ’انقلاب‘ یا ’اقتدار‘ ملنے پر موقوف رکھے بغیر) اُتنی سی خیر اور تعاون کا اس کو آج ہی بندوبست کرکے دے۔ ایسا کوئی ’’بڑا‘‘ میدان میں آجاتا ہے تو ہمیں یقین ہے اسکی سرکردگی میں یہ قوم سمندروں کو پارکرجانے، صحراؤں کو پاٹ جانے اور دریاؤں کے رخ بدلنے کی استعداد رکھتی ہے۔
عمرانی طور پر سب عوامل اِسی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ یہاں ایک نہایت پکی ہوئی صورتحال کسی اسلامی تحریک کو میدان میں اترنے کی دعوت دےرہی ہے۔ ان دستیاب حالات اور عوامل کا صحیح استعمال کرلیا جائے تو یہ معاملہ شاید ہماری توقع سے بھی بڑھ کر آسان نکلے۔
اس میں اضافی طور پر یہ بات نہایت شاداب کن اور حوصلہ افزا ہے کہ ہمیں بیڑیاں ڈال رکھنے والا عالمی طاغوت افغانستان کی چٹانوں پر ہمارے مسلم نوجوان کی ضربوں سے پاش پاش ہو رہا ہےاور روئے زمین پر اسکا قبضہ اور اقتدار تیزی کے ساتھ سمٹنے والا ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے یہ تھرڈ ورلڈ ممالک ایک بڑے خلا کا سامنا کررہے ہیں۔ کسی تحریک نے اگر اس صورتحال کیلئے تیاری کررکھی ہے تو اسکو یہاں ایک حیران کن پیش قدمی کے مواقع لازماً ملنے والے ہیں۔
سب سے اہم سماجی صلاحیت ہے اور اس سے اہم، تفقہ فی الدین۔ نعرے، شورشرابہ اور زندہ باد مردہ باد ہمارے کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ البتہ سماجی طور پر اپنی جڑیں گہری کرنا اور نظریاتی میدانوں میں یہاں ایک جنگ برپا کردینا، نیز عوام کو اپنی پشت پر لےآنے کی صلاحیت سامنے لانا، یہاں مطلوبہ پیش قدمی کے عمل میں نہایت موثر ہوں گے۔ البتہ اللہ کی مرضی ہر چیز پر غالب ہے اور اُس کے فیصلے سب سے برحق۔
مصر کا تحریر سکوائر ہمارے سامنے عملاً تبدیلی کا ایک خط کھینچ چکا ہے۔ اُس تبدیلی کے مضمون سے بےشک آپ اختلاف کرلیجئے، اور یقیناً اس پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے، مگر اسے ایک عملی مثال ہم اس لیے شمار کرتے ہیں کہ جب ایک قوم، یا قوم کا ایک معتدبہٖ حصہ کسی چیز کو مسترد کرنے کےلیے دیوانہ وار اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جس وقت جذبوں کا کوئی بےقابو طوفان ایوانوں کا رخ کرتا ہے اور بھانپنے والے اُس طوفان کی بلاخیزی بھانپ لیتے ہیں تو ہواؤں کے رخ بھی بدل جاتے ہیں۔ تحریر سکوائر نے اس لحاظ سے عالم اسلام کی ہر تحریک کو آگے بڑھنے کا ایک راستہ دکھا دیا ہے۔ البتہ لوگوں کو اٹھانے اور گرمانے کی استعداد ہمیں ہی لےکر آنی ہوگی۔
یہ نظامِ کہنہ اپنے طبعی انجام کی طرف بڑھنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ اس کا وہ طلسم کدہ اب چراغِ سحری ہے۔ ’جمہوری مشقت‘ کی صورت میں ہم اس کی بہت سیوا کرچکے۔ بڑی دیر تک اُس کو یہاں ایک مفت کی سواری ہاتھ آئی رہی ہے۔ اپنے لئے خواہ اس نے کتنے ہی جدید ذرائع نقل و حمل ایجاد کیے رکھے ہیں مگر انسان پر سواری کا ایک اپنا نشہ ہے۔ اس کی عادتیں خراب کرنے میں سب سے زیادہ دخل ہماری ہی مجرمانہ غفلت کو رہا ہے۔ اور اب یہ دنیا بدلنے میں بھی ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہے۔
مغرب ڈرتا ہے تواس دن سے جب ان ملکوں کی باشندہ مسلم اقوام مغرب کا سب کچھ مغرب کو واپس کرنے پر ضد کرنے لگیں۔ جس دن مغرب کو یہاں سے یہ پیغام ملاکہ اس کی تہذیب ، اس کی فکر ، اس کے نظریے اور فلسفے ،اس کے قانون، اُس کے نظام تعلیم ، غرض اس کے کسی فیشن کےلئے یہاں کوئی مارکیٹ نہیں۔ اس کےاصل مال کی یہاں کسی کوطلب ہے اور نہ اس کے دونمبر مال کی کوئی کھپت ۔ اس کے نظریہ و تہذیب اور اس کے قانون کی یہ سب کتابیں ہماری قوم کے بچے اب نہیں پڑھنے کے۔ اس کا یہ نظام یہاں کسی کو قبول ہے نہ اس نظام کے کار پرداز اور نہ اس کے فاضل پرزہ جات۔ یہ سب کچھ چاہے تو مغرب اٹھالے جائے؛ ہمارے ہاں کباڑ میں بھی کوئی اس کا خریدار نہیں اور ہمارے عجائب گھروں میں اپنے تاریک دور کی یہ یادگاریں رکھنے کی بہت کم جگہ ہے۔
اپنی قوم کو یا قوم کے ایک موثر طبقے کو اگر آپ اس بات پر تیار کرلیتے ہیں – اورظاہر ہے کہ یہ ایک طویل دعوتی اور تربیتی عمل ہی کے نتیجے میں ممکن ہے – تو وه دن مغرب کی ہم پربرتری کا آخری دن ہوگا۔ غلامی کے طوق اور سلاسل اس دن ٹوٹیں گے جس دن ہم مغرب کی چیزیں مغرب کو واپس کرنے کی ٹھان لیں گے۔ ہمارا یہ فیصلہ یقین کیجئے ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ان ملکوں میں ہمیں اپنا ہی انتظار ہے ۔یہاں، اور اِس پورے عالمی منظر نامے پر، اب اس کے سوا اور کچھ باقی نہیں!
اقتباس از ’’مزاحمتی عمل جو مفقود ہے‘‘ |