سرمایہ دارانہ نظام اور جنسیانے کا عمل
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
سرمایہ دارانہ نظام اور
جنسیانے کا عمل
بچیوں
کے لباس پر سپرنگر جرنل نامی ایک مغربی ادارے کی ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔ اس تحقیق
کے مطابق مارکیٹ میں بچیوں کے لباس کچھ زیادہ ہی جنسیانہ ہیں جس کی وجہ سے کم عمر
بچیاں جو کہ ابھی ذہنی طور پر جنسیت کی مائل ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتی ان پر بھی
جنسیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق نوعمر بچیوں کے لئے جو لباس آن لائن
دستیاب ہیں ان میں ٣٠ فیصد تک لباس جنسیت زدہ (sexualizing) ہیں۔ ایک نظریہ ہے جسے انگریزی میں Objectification
theory کہتے ہیں۔ جس کے مطابق مغرب میں عورتوں کو بکثرت مردوں کی نگاہوں
کی ہوس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں عورتیں بھی اپنے آپ کو اسی طور
پر سمجھنا اور پیش کرنا شروع کر دیتی ہیں، نتیجتاً عورتوں کے اندر دھیرے دھیرے یہ
شعور پختہ ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ ان کا جسم مردوں کی پسند کے اعتبار سے ڈھالنے
اور فیصلے کرنے کی کوئی شئے ہے۔ ویسے ایک عجیب بات ہے۔ جو باتیں ایک اوسط درجے کے
عام مسلمان کے لئے قابل مشاہدہ ہوتی ہیں ان نتائج تک پہونچنے کے لئے مغرب میں
باقاعدہ کچھ کرنا پڑتا ہے اور اس کووہاں پر "ریسیرچ "کہتے ہیں۔ ہے نا
عجیب بات؟بعض اعتبارات سے، ایمانی فراست ایک اوسط درجے کے مسلمان کو بھی شاید
سماجی علوم کے ماہرین سے بہت آگے لے جاتی ہے۔
بچیوں کی جنسی نفسیات کی بات آہی گئی ہے تو" بھارت" سے
بھی ایک تحقیق آئی ہے جو کہ خیر سے ابھی تک مشرقی ملک ہی ہے ۔ بھارت کو مغربیانے
کا عمل کسی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اسی سے اندازہ کر لیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک
تحقیق کے مطابق بچیوں کے لئے اب لڑکوں سے تعلقات رکھنا جسے جدید زبان میں relationship کہا جاتا ہے ایک ناگزیر چیز
بن گئی ہے۔ یہ ایک ساکھ اور شان کا مسئلہ بن گیا ہے۔ کوئی لڑکی اگر ایسی ہو جس کا
کوئی بوائے فرینڈ نہ ہو تو وہ اپنی سہیلیوں کے طرف سے ایک دباؤ محسوس کرتی ہے اپنے
آپ کو اس طرح کے تعلقات قائم کرنے پر مجبور پاتی ہے۔ایسی میں جو لڑکی ذہنی طور
کوئی بوائے فرینڈ رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتی وہ بھی ماحول کے جبر کی وجہ سے اور
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بھی "کچھ "ہے اپنے آپ کو اس طرح کے تعلقات پر
مجبور پاتی ہے۔ ماحول کے اس جبر کی بنا پرکبھی کبھی ان تعلقات کو بحال رکھنے کے
لئے انہیں اپنے بوائے فرینڈ کے" مطالبوں" کے آگے جھکنا بھی پڑتا ہے۔
|
|
|
|
|
|