اسلامی نظام، ازالہ شبہات
مغرب کے وسائل استعمال کرکے مغرب کی ہی مخالفت!
ابوزید
abuzaid@eeqaz.org
’’مسلمان مغرب کے وسائل اور فراہم کردہ سہولتیں استعمال بھی کرتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں‘‘۔
یہ جملہ نہ صرف سچ بلکہ پہلی نظرمیں تو واقعی میں زوردار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس نادر نکتے پر ذرا گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے تو ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے یہ وسائل مانگ کر نہیں لئے۔ بلکہ ہمیں اگر کچھ بھی ملتا ہے تو وہ مغرب کے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے کہ ان کو مستقل طور پر نئی مارکٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کونے کونے میں اپنی منڈیاں کھولے ہوئے بیٹھے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مغرب ہمیں جو کچھ دے رہا ہے ہم سے اس کی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس لئے ہم پر احسان جتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
۱۔ مغرب کے وسائل استعمال کرکے مغرب کی ہی مخالفت!
۲۔ مغرب کے لبرل ڈیموکریٹک نظام کو اختیار کرنے کے فوائد
۳۔ اسلامی نظام اپنے ابتدائی دور میں ہی ناکام ہوگیا تھا
۴۔ اسلامی تاریخ قتل و غارت گری کی تاریخ؟
۵۔ اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے۔
۶۔ اسلامی نظام صرف خیالی منصوبہ ہے جبکہ مغرب حقیقت ہے۔
۷۔ خلاصۂ کلام
تیسری بات یہ کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد بڑی حد تک استعماری دور میں پڑی ہے جس میں واقعتاً مسلمانوں کی زمینوں سے لوٹے ہوئے وسائل نے ہی مغرب کی مادی ترقی کو مہمیز دی۔ اگر مغرب اپنی کامیابیوں کو مفت بھی ہم سے شیر کرتا ہے تو بھی کسی حد تک ہمارا یہ حق تھا چہ جائیکہ ہم سے پورا معاوضہ وصول کر کے اپنی پراڈکٹ اور خدمات ہمیں بیچ کر ہم پر اپنا احسان جتانے لگے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جب مسلمان مغرب کے وسائل استعمال کرنے سے قاصر تھا اور نہ ہی استعمال کرنا چاہتا تھا اور ان وسائل کے استعمال سے معاشرے میں جو تبدیلیاں پیدا ہورہی تھیں اس کا سامنا کرنے کی اس میں استعداد ہی نہیں تھی ایسے میں مغرب نے اپنی سیاسی قوت اور معاشی قوت کو بروئے کار لاکر ہم پر بزور ان وسائل کو مسلط کیا۔ ایسے میں ان وسائل کے لئے ہم پر احسانات جتانامغرب کو تو زیب دیتا ہی نہیں لیکن یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہمارے یہ نابغۂ روزگار دانشور جو کہ مغرب کی نمائندگی کرتے ہیں کس درجے میں ذہنی دیولیہ پن کے شکار ہیں۔ آج بھی جب ہم مغربی وسائل کا استعمال کرتے ہیں تو ایک مسلسل جدوجہد سے گذرتے ہیں اور مستقل طور پر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان وسائل کے استعمال کرنے کی وجہ سے ہماری تہذیب اور اقدار پر جو منفی اثرات پڑتے ہیں ان سے خود کو اور ہماری نئی نسل کو بچائیں۔
تعجب ہے کہ جب دیندار طبقہ ریڈیواور ٹیلیوژن کی مخالفت میں فتوی دیتا ہے تو وہ تنگ نظر اور جب ان کو سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت مجبور ہوکر استعمال کرتا ہے تو پھر لازم ہے مغرب کی بے بنیاد تہذیبی اقدار کو بھی جون کا توں تسلم کرلیں۔
اصل بات ہے کچھ اور۔ مغربی وسائل میں جو ترقی ہورہی ہے اسکے نتیجے میں آج ہماری تعلیم یافتہ نسل اس قابل ہوچکی ہے کہ انہی وسائل کو اسلام کیلئے بروئے کار لاسکے بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر قسم کی اسلامی تحریکیں انہیں وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مغرب کے خلاف ایک باقاعدہ مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش میں کامیاب نظر آتی ہیں۔
یہی جدت پسند طبقہ تھا جو ان مغربی "وسائل" کو کبھی ہم پر مسلط کرنے کے لئے بے تاب تھا اور آج بھی ان علماء کو گالیاں دینے میں خاص قسم کی لذت محسوس کرتا ہے جنہوں نے ریڈیو کو حرام قرار دیا تھا۔ لیکن آج یہ وسائل ریڈیو سے ہوتے ہوئےٹی وی، انٹرنیٹ اور فیس بک کو پہونچنے تک اُمت مسلمہ بھی تیار ہوچکی ہے ۔ پس انہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو ان وسائل کے استعمال کرنے اور نہ کرنے سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ ان وسائل کو مغرب کے خلاف استعمال کرنے سے ہے۔ پہلے وسائل کا استعمال نہ کرنا ان کی پریشانی تھی کہ مغرب کے ملحدانہ اقدار کو پھیلانے میں رکاوٹ تھے اور اب کوئی پریشانی ہے تو وہ یہ ہےکہ انہیں وسائل کو مغرب کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے! ایسی بے چینی اور پریشانی ایک ہارتے ہوئے فریق کو ہی لاحق ہوسکتی ہے۔
دراصل مغرب کے جدید وسائل کو اسلام کی حفاظت، اشاعت اور اقامت کےلئے استعمال ہونا ایک زبردست پیش رفت۔ اس کو آپ مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں یا جدید زبان میں بقائے اصلح بھی۔ مغرب کے اپنے ایجاد کردہ وسائل کا اسی کے خلاف استعمال ہونا اور مغرب کا اس معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ دھیرے دھیرے مغرب وقت کے رفتار میں پیچھے پڑ رہا ہے۔ ایسی تہذیب جو ان جدید وسائل کو جھوٹ پھیلانے، منطقی انداز میں ڈائیلاگ کے بجائے کارٹون بنانے، آزادی کے نام پر بدگوئی کرنے، فحش نگاری (pornography) پھیلانے، وغیرہ میں استعمال کرنے میں ہی پرجوش ہو اور دوسری طرف مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادمسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کو اسلامی معلومات فراہم کرنے، شرق تا غرب اسلامی اتحاد کا جال (network) پھیلانے، مغربی اقوام کے خلاف ایک معروضی اور منطقی مقدمہ کھڑا کرنے، توحید کے شفاف چشمے سے نکلے ہوئے اسلامی علوم کی ترویج کرنے میں استعمال کر رہے ہوں(۱) تو مغرب اور ان کے پروردہ دانشوروں کو جو پریشانی لاحق ہے وہ تو ہوگی ہی۔
الغرض مغرب کے وسائل کا مغرب کے خلاف استعمال ہونا ان کی اپنی ناکامی ہے۔ مغرب اور مغرب کے پروردہ دانشور ان وسائل کی وجہ سے ہم پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ یہ ہم پر زبردستی مسلط کئے گئے تھے اور پھر نہ صرف معاشی اعتبار سے اس کی پوری قیمت وصول کی گئی بلکہ ان وسائل کی ترقی میں ہمارا ہی لوٹا ہوا مال استعمال کیا گیا۔ ان مسلط کردہ وسائل کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی نظام کو شدید صدمہ بھی پہونچایا گیا ہے اور اب جبکہ ہم کسی طرح سے اس صدمہ کو جھیل کے پھر سےکھڑے ہونے کے قابل ہورہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی مظلومیت کا واویلا کرنے کے بجائے کسی کونے میں جاکر سینہ کوبی کریں۔
رہی یہ بات کہ پاکستانیوں سمیت تیسری دنیا کے لوگوں کا یہ خواب ہے کہ وہ مغرب میں رہیں، وہیں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں وہیں ملازمت کریں اور اچھی زندگی گذاریں اور اس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں تو یہ بات صرف جزوی طور پر صحیح ہے۔ بہت سارے مسلمان باجود مواقع کے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو مغرب کی تہذیبی نجاست سے بچانے کے لئے اُن ممالک میں نہیں جاتے اور کسی حد تک اپنے کیریئر کی قربانی تک دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا تو بہت آسان ہے کہ بہت سارے پاکستانی اور دوسرے ممالک کے لوگ دنیوی مقاصد کے لئے یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں۔ لیکن اسکی پیمائش کرنے کا کیا ذریعہ ہے کہ کتنے لوگ مواقع کے باجود اپنے کریر کی قربانی دیتے ہوئے ان ممالک میں نہیں جارہے ہیں؟ اس لئے موصوف کی بات ایک بے بنیاد دعوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اگر ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی دنیوی مفاد کی وجہ سے مغربی ممالک میں جابستے ہیں اور اسکے باوجود ان ممالک کی تہذیبی اقدار کو قبول نہیں کرتے تو بھی اس میں شکایت کی کوئی بات نہیں ہے۔ مغربی ممالک کا قانون انہیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ مغربی تہذیب کو جوں کا توں اپنا لے۔یہ تہذیبی تنوع کا دعوی، لامحدود لبرلزم کا مرض، مساوات کے جھوٹے دعوے، یہ کشادہ دلی اور وسعت نظر کا زعم آخر مغرب کی ہی تو سوغات ہے! آخر کیا بات ہے کہ جب تک ان ممالک میں اسلامی رنگ ظاہر نہیں ہوئے تھے یہ معاشرے بڑے روادار لگ رہے تھے۔ اب کیا ہوا کہ "سکارف" اور مساجد کے مینار سے انہیں خطرہ محسوس ہونے لگا؟ صاف اور سیدھی سی بات ہےکہ مغرب کی رواداری، کشادہ دلی، تنوع، مساوات اور وسعت نظر، یہ اور اس طرح کی خصوصیات مغرب کیلئے ہی تھیں نہ کہ پوری انسانیت کیلئے۔ اسلئے مغرب یا مغرب کے نام نہاد نمائندوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم سے ہمارے ہی دینی اور تہذیبی اقدار کے خلاف رواداری کا مطالبہ کریں۔ ہم اگر کسی رواداری اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں گے تو ہمارے دین کے مطابق نہ کہ مغرب کے پر فریب دعوؤں کے زیراثر۔ اس معاملے میں مغرب اور اسلام میں فرق یہی ہے کہ ہمارا دعوی ہماری روایات اور شریعت کی شکل میں موجود ہے اور ہم وہی دعوی کرتے ہیں جس پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل مغرب دعوے کے معاملے میں ہر چیز میں لامحدود اور غیر مشروط ہوتا ہے لیکن جب عمل کرنے کی ضرورت پیش آئے اور وہ بھی اسلام کے معاملے میں تو دھیرے دھیرے اس میں استثناءات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور آخر میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان کے ہر تہذیبی اقدار سے مستثنیٰ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان جو مغربی ممالک میں آباد ہوئے تھے وہ کشادہ دلی اور تنوع کے مغربی دعوے کے فریب میں آگئے تھے۔ اس لئے انکو ملامت کرنے کے بجائے مغرب خود اپنی خبر لے کہ انکی مزعومہ "تہذیبی اقدار" کی لائٹ اسلام کے معاملے میں کیوں آف ہو جاتی ہے۔
۱۔ہمارے کہنے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہے کہ مغرب نے اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے جو غلاظت پھیلائی ہے مسلمان اس سے بچے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر کونسی اقوام اپنے آپ کو کس طرح سے پیش کر رہی ہے؟ کس نے اپنی کیا پہچان بنائی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ان وسائل کے استعمال کے معاملے میں مسلمان عوام مغربی عوام سے بھی بد تر ہوں۔ لیکن ان وسائل کے استعمال سے جو برائیاں پھیل رہی ہیں ان کی ترویج میں نہ صرف بنیادی کردار مغربی اقوام کا ہے بلکہ ان برائیوں کے جواز کو فکری بنیاد بھی مغرب نے ہی فراہم کی ہے۔