اسلامی نظام، ازالہ شبہات
اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے؟
ابوزید
اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے جو کہ
کسی ائیڈیالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ لبرل سیکولرزم ایک ایسا نظام ہے جو کہ ضرورت کے
مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے۔ یہ دونوں دعوے نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہیں۔
بے شک اسلام کی اپنی آئیڈیالوجی ہے
لیکن اس کا آپ سے آپ یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے۔کچھ
مقامات پر اسلام سیدھا سادھا قانون دیتا ہے اور بہت سارے مقامات پر بنیادی ہدایات (directives) دیتا ہے اور قانون سازی کو علماء کے
اجتہاد پر چھوڑ دیتا ہے ۔ بہت سارے مقامات پر سماج کے عرف کو بھی اہمیت دیتا ہے۔
یہاں پر مسئلہ لچک ہونے اور نہ ہونے کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لچک کتنی اور کس
بنیاد پر ہو۔ علماء نے شرعی نصوص کی تحقیق سے "مقاصد شریعت" کو بھی
منضبط کیا ہوا ہے جو کہ ہم پر "لچک" کے حدود بھی واضح کردیتے ہیں۔
ہم اس بات کے امکان کو بھی تسلیم کرتے
ہیں کہ دو دہائی پہلے طالبان کو افغانستان میں جو اسلامی نظام قائم کرنے کا موقعہ
ملا تھا اس میں انہوں نے اسلام میں موجود لچک اور اجتہادی امکانات کو کافی حد تک
نظر انداز کیا ہو۔ لیکن جو ذہنیت مغرب کو اپنے نظام کی ٹیوننگ کے لئے چار سو سال
تک کا ڈسکاؤنٹ دینے کے لئے تیار ہے وہ اسلام کو ایک آدھ دہائی تک کا موقعہ دینے پر
بھی کیوں صبر نہیں کر سکتی؟
مغرب کا سیکولر لبرلزم بھی کچھ نظریات
پر مبنی ہے اور یہ نظام جو بھی لچک دکھاتا ہے وہ اس کے اپنے مخصوص دائرے کے اندر
ہوتا ہے۔اسلام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مغربی نظام کے مطابق اور لبرل سیکولرزم کے
دائرے میں آکر اپنی لچک دکھائے ایک لغو اور احمقانہ توقع ہے۔اس وقت دنیا میں جو
تبدیلیاں آرہی ہیں وہ کسی حد تک مغربی نظام کے تسلط کے ہی نتیجے میں پیدا ہوئی ہے
اس لئے مغرب کے اپنے نظام کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنا آسان ہونا چاہئے تھا۔ لیکن
انہی کی دی ہوئی کچھ آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے جب بھی کہیں ان کے معاشرے میں
اسلامی رنگ کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے تو وہ بے چین ہو اُٹھتے ہیں اور اپنی
"ذہنی کشادگی" اور "وسعت نظری" کو بھلا کر معاشرے میں اسلامی شعائر
کو دبانے کے لئے قانون سازی تک کی جاتی ہے۔ایسے میں اگر کسی کو مغرب میں موافقت
اور مسلمانوں میں احتجاج کا مادہ نظر آتا ہے تو اسے فریب بلکہ خود فریبی ہی سے
تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مغرب اگر اپنے آپ سے موافقت رکھتا ہے تو اس کو کمال قرار
دینا ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے۔اگر یہ بات بیس سال پہلے کہی جاتی تو شاید اس
میں کچھ وزن ہوتا۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں مغرب نے"ساز گاری" کے وہ
کارنامے انجام دئے ہیں کہ رواداری کا پورا پردہ چاک ہوچکا ہے۔
ایک اور بات اس سلسلے میں غور کرنے کی
یہ ہے کہ تبدیل اور لچک کا محرک کیا ہو؟ مذکورہ نامہ نگار کی تحریر سے یہ واضح
ہوتا ہے کہ لچک اور موافقت پیدا کرنے کا کوئی بنیادی اصول نہیں ہے۔ اور انہوں نے
جس طرح سے سرمایہ داری اور لبرل سیکولرزم کو ایک دوسرے سے لازم و ملزوم قرار دیا
ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے آزاد معاشرے میں کسی بھی تبدیلی کا بنیادی
محرک معاشی ترقی ہوتی ہے جو کہ سرمایہ دار ہی اپنی ابلاغی اور سیاسی قوتوں کو
بروئے کار لاتے ہوئے ڈکٹیٹ کرتے ہیں۔کیا مغربی نظام کے داعی اس بات کا کھل کر
اعتراف کرنے کے لئے تیار ہیں ؟ یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ اپنے نظریات، اصولوں اور
محرکات کے بارے میں واضح مؤقف رکھتا ہے جبکہ مغرب کے پاس اپنے اصولوں کے بارے میں
لفاظیاں اور ڈھیلی ڈھالی اصطلاحات ہیں جو کہ اپنی مرضی اور معاشی مفادات کے سانچے
میں آسانی سے ڈھالی جاسکتی ہے۔گول مول اور بے سروپا اصطلاحات سے معاشرے کو مسحور
کرنے کے نتیجے میں یہی ہوسکتا ہے کہ طاقتور افرا د پورے اجتماعی نظم اپنے مفادات
کے لئے استعمال کریں اور مغرب میں ہو بھی یہی رہا ہے۔اسلام کی خوبی کو کمزوری قرار
دینےوالا اور مغرب کی خامی کو خوبی قرار دینے والا بلکہ اس خامی کی وجہ سے مغرب جن
مسائل کا سامنا کررہا ہے اسے کامیابی قرار دینے والا شخص مغرب کا ایک اندھا عقیدت
مند ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے مسلمان معاشرے کے کم علم اور بھولے
بھالے مسلمان زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتے ہیں۔