مفاھیم ینبغی أن تصحح فصل اول
مفہوم لا الٰہ الا اللہ
اگر محض ‘تصدیقٌ بالقلب واقرارٌ
باللسان’ ہی لاالٰہ پر ‘‘ایمان’’ ہوتا!
لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات…؛ اِس
اہم و سنگین مسئلہ کو ہم تین جوانب سے دیکھیں گے، اور یہ تینوں جہتیں بالآخر ہمیں
ایک ہی نتیجے تک پہنچائیں گی:
پہلی جہت سے بات شروع کرتے ہوئے… ہم
سوال کرتے ہیں: اللہ اپنے رسولوں کو انسانوں کی طرف بھیجتا کیوں ہے؟
ایسے عظیم سوال کا جواب ظاہر ہے ہم
اپنے پاس سے نہ دیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی کتاب سے لیں گے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ
إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ(النساء 64) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے
کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا
بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ
النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ
لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ
اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحديد: 25) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں
اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف
پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس
لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس
کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
اِس آخری رسالت کی تو خیر بات ہی اور
ہے، ہم ذرا اِن دو آیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آسمانی رسالتوں کے حوالے سے نوحؑ تا
محمدﷺ کچھ اصولی حقائق پر غور کرلیتے ہیں:
ان میں سے ایک آیت یہ واضح کرتی ہے کہ
رسولوں کا بھیجنا محض اس لیے نہیں تھا – معاذاللہ – کہ وہ پیغام پہنچا دیں اور
چلتے بنیں؛ یعنی آدمی کہے ہاں مجھے معلوم ہوگیا اور میں نے اس کی تصدیق کردی۔ بلکہ
مطلوب یہ ہے کہ آدمی کہے رسول نے مجھے بات پہنچادی، مجھے معلوم ہوگیا اور میں اُس
کا فرمانبردار ہوا۔ یہ ہے رسول کو ماننا۔ اور یہ ہے اُس ہدف کو پورا کرنا جس کے
لیے رسول مبعوث ہوتا ہے۔
دوسری آیت عین یہی ہدف بیان کرتی ہے
مگر اس کی پہچان کچھ زیادہ واضح انداز میں کرواتی ہے۔ رسول مبعوث ہوتے ہیں تاکہ
حیاتِ انسانی اس ‘‘قسط’’ پر قائم ہو۔ قسط ایک مختصر مگر جامع تعبیر ہے جس کی تفصیل
ہمیں دیگر آیاتِ قرآنی نیز سنتِ مطہرہ سے ملتی ہے؛ اور اسکی تفسیر بھی انسانی
اھواء و خواہشات پر چھوڑ نہیں دی گئی ہے۔
اس آیت کامدعا یہ ہے کہ رسولوں کا
بھیجنا اور کتابوں کا اتارنا محض ‘‘تبلیغ’’
کے لیے اور ‘‘مطلع’’ فرمادینے کی خاطر
نہیں ہے۔ بلکہ زمین میں باقاعدہ ایک مقصد پورا کرانے کے لیے ہے؛ اور وہ یہ کہ
لوگوں کی زندگی اللہ کی شریعت اور منہج پر قائم ہو؛ اِس شریعت کی وساطت یہاں خدا
کی اطاعت اور فرماں برداری ہو؛ اور اِس راہ سے لوگ اِس ‘‘قسط’’ پر قائم ہوجائیں۔
تو پھر زمین پر کوئی ایسا عمل مطلوب ہے جو اِس ‘‘تصدیق’’ اور ‘‘اقرار’’ کے بعد
انجام پانا ہے؛ اور اس کے بغیر رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کا مقصد ہی
پورا نہیں ہوتا؛ اس کے بغیر دین کچھ عبارتوں کا نام رہ جاتا ہےیا کچھ خیالوں اور
آرزوؤں کا؛ جس سے زمینی عمل کو کچھ فرق نہیں آتا؛ اور حیاتِ انسانی میں کوئی ذرہ
بھر تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ آیت میں اس کے بعد ‘‘لوہے’’ اور ‘‘زور’’ کی جانب اشارہ ہے
اور اللہ اور اُس کے رسولوں کی نصرت کا ذکر ہے؛ جوکہ صریح دلالت ہے کہ وہ اعمال جو
یہاں مطلوب ہیں اُن میں باقاعدہ جہاد فی سبیل اللہ آتا ہے لِيَقُومَ النَّاسُ
بِالْقِسْطِ ‘‘تاکہ لوگ قسط پر قائم ہوں’’۔
اگر یہ معنیٰ ہر رسالت کے اندر پایا
جاتا ہے؛ کیونکہ آیت میں سب رسالتوں ہی کی بابت ایک اصول بیان ہوا ہے؛ تو پھر یہ
آخری رسالت تو رسالتوں کی معراج ہے اور اس میں عائد ہونے والے فرائض کی تو شان ہی
اور ہے۔
سابقہ رسالتوں اور ان کے پیروکاروں کی
بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور نہیں حکم دیا گیا تھا اُن کو مگر
یہ کہ عبادت کریں وہ اللہ کی، پورے دین کو اُس ایک کے لیے خالص کرلیتے ہوئے، یکسو
ہو کر، اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکات، اور یہی ہے سیدھا ٹھیٹ دین۔ (سورة
البینة ۔ 5 )
اگر پہلی رسالتوں میں مسئلہ اس جامعیت
کے ساتھ مطلوب ہے کہ دین (اطاعت، بندگی، گرویدگی اور زندگی کا تمام تر رخ) ایک
اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے خاص کردیا جائے، اور نماز اور زکات تو اس میں باقاعدہ
نام لے کر ذکر ہوئے ہیں، تو پھر اس خاتمی رسالت میں تو یہ بات بالاولیٰ درکار
ہوئی۔
خدا نے مشیئت فرمائی کہ محمدﷺ کے بعد
اب وہ زمین پر کوئی رسول نہ بھیجے:
(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے
باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (سورۃ الاحزاب 4)
خبردار رہو، یقینا میرے بعد کوئی نبی
نہیں ہے( أخرجه الشيخان )
خدا کی مشیئت ہوئی کہ وہ اپنے دین کو
اِس خاتمی رسالت پر مکمل کردے اور پھر یہ رسالت تمام انسانیت کے لیے ٹھہرے:
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل
فرما دیا، اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرما دیا، اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ
دین پسند فرمالیا (المائدة 3)
اور نہیں بھیجا ہم نے تجھ کو مگر تمام
انسانیت کے لیے، خوشی سنانے والا اور ڈر سنانے والا (سورة سبأ 28 ).
کہو اے انسانو! میں رسول ہوں اللہ کا
تم سب کی طرف (سورة الأعراف 158 )
اور میں بھیجا گیا ہوں جملہ اقوام کی
طرف۔ (أخرجه الشيخان)
اِن سب حقائق کا تقاضا ٹھہرا کہ اِس
خاتمی امت کو، جس کی خاتمی رسالت ہے، دو چیزوں کا مکلف کیا جائے نہ کہ صرف اُس ایک
چیز کا جس کی تمام مومن امتیں اس سے پہلے مکلف رہی ہیں:
سابقہ امتیں اس بات کی مکلف رہی ہیں
کہ وہ ‘‘اللہ کی عبادت کریں دین کو اُس ایک کے لیے خالص کرلیتے ہوئے، یکسو ہوکر’’،
خاص اپنے دائرے میں رہ کر۔ یہ خاتمی امت بھی اِس بات کی تو ویسے ہی مکلف ہے، مگر
اس پر مستزاد یہ اس بات کی بھی مکلف ہے کہ اِس دین کو یہ پورے روئے زمین پر
پھیلائے، اور رسول اللہﷺ کی جانشینی کا حق ادا کرے؛ اِس کے جہاد کا میدان یہ پورا
گلوب ہے؛ یہاں تک کہ دین ایک اللہ کے لیے ہوجائے۔
تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے جو
اِس خیر کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے (سورة آل عمران 104)
اور ان سے لڑو؛ یہاں تک کہ فتنہ باقی
نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے نہ ہوجائے (سورة الأنفال 39)
اِس مشن کا تقاضا یہ ہوا کہ اِس امت
سے جو کام مطلوب ہے وہ ‘‘تصدیق’’ اور ‘‘اقرار’’ سے بہت بڑھ کر ہے۔ پہلی امتوں
سے جو مطلوب تھا وہ بھی ‘‘تصدیق اور اقرار’’ سے بڑھ کر تھا، مگر اِس امت سے جو
مطلوب وہ تو اس سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔
تصور تو کریں، اِس لاالٰہ الا اللہ کے
حوالے سے ‘‘تصدیق اور اقرار’’ سے بڑھ کر کچھ مطلوب نہ ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے
خانہ کعبہ بتوں سے پاک ہوجاتا! اور پھر ایک خانہ کعبہ ہی نہیں، صرف مکہ ہی نہیں،
صرف جزیرہ عرب ہی نہیں جہان کا ایک بڑا حصہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوجاتا، شرک کی
پلیدی دور دور تک باقی نہ رہتی اور چہاردانگ عالم اسلام کا ڈنکا بجنے لگتا،
درحالیکہ اِس لاالٰہ الا اللہ کے لیے – بطورِ شرطِ نجات – کوئی تکلیف درکار، نہ
زحمت نہ مشقت اور نہ جہاد!
اِس لا الٰہ الا اللہ کے حوالے سے صرف
‘‘تصدیق اور اقرار’’ ہی مطلوب ہوتا تو کیا مدینہ میں اسلام کو کوئی دولت میسر آتی؟
اس لا الٰہ الا اللہ کے لیے ہجرتیں کرنا، گھر چھوڑنا، رشتے قربان کرنا اِس پر
‘‘ایمان’’ کی تعریف میں ہی نہیں آتا؛ ‘‘ایمان’’ اِن سب مصائب کو گلے لگائے بغیر
بھی معرضِ وجود میں آجاتا ہے اور جنت اِن سب جان جوکھوں کے بغیر بھی کھری ہے تو
اِس دعوت اور اِس نبیؐ پر جان نچھاور کرنے اور اس کی خاطر عرب و عجم کی دشمنی مول
لے آنے کا تصور ہی کہاں سے آگیا؟ چند برس کے اندر اندر جزیرۂ عرب کا اسلام کی قلمرو
میں ڈھل جانا، اور پھر ‘‘ایمان’’ کے اِس سیلِ بلاخیز کا پورے جہان کو تہ آب لے آنا
اور نصف صدی کے اندر اندر بحر ابیض تا بحراوقیانوس تا بحرہند اِس دین کے ڈنکے
بجنا… یہ سب تو رہا ایک طرف؛ اِس نبیؐ کی اکیلی جان کو پناہ ملنا ہی کہاں متصور
ہے؛ اِس کی ‘‘تصدیق’’ کرکے ہم فارغ تو ہوچکے؛ باقی تکلیفیں اٹھانا کہاں ‘‘ایمان’’
کی تعریف میں شامل ہے؟!
یعنی مسلمانوں نے اگر یہ سمجھا ہوتا
کہ اِس لاالٰہ الا اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے اسکی تصدیق اور اقرار کرنا… تو
مدینہ میں اِس شجر کو خون کون دیتا؟ یہودی اِس دین اور اِس نبی کے خلاف سازشیں
کرتے ہیں تو کرتے رہیں، باہر سے مشرکین قریش اسکی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی تیاریاں
کررہے ہیں تو کرتے رہیں، جزیرۂ عرب میں اِس نوخیز ریاست کے پائے مضبوط کرنے ہیں ،
اور روم اور فارس کی دیوہیکل شہنشاہتوں کو صفحۂ ہستی سے ختم کرکے کرۂ ارض پر اِس
لا الٰہ الا اللہ کے پھریرے لہرانے ہیں، اور اسلام کی اِس شریعت اور اِس تہذیب کو
روئے زمین کا مرکزی ترین واقعہ بنانا ہے… تو یہ سب ہوتا رہے؛ آخر ہم سے تو اِس
لاالٰہ الا اللہ کے حوالے سے‘‘اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب’’ ہی مطلوب ہےجس کے
بدلے میں نجات اور جنت کا ہم سے وعدہ ہے؛ پورے روئے زمین کو ہلا دینے سے ہمارے اِس
لاالہٰ الا اللہ پڑھنے کا تعلق؟!
*****
اب ہم دوسری جہت سے بات کرتے ہیں؛ اور
جوکہ پہلی جہت سے متصل ہے…
وہ سب کام اور محنت جو رسول اللہﷺ اور
آپؐ کے اصحابؓ لاالٰہ الا اللہ کے تقاضوں کے سلسلہ میں انجام دیتے رہے، آیا آپؐ
اور اصحابؓ کی طرف سے ایک رضاکارانہ عمل تھا؛ آپ پر واحب نہیں تھا؟کیا یہ سب کام
اور محنت ‘‘ایمان’’ پر ایک اضافہ تھا؛ بجائے خود
‘‘ایمان’’ نہیں تھا؟
تو اَب ہم پوچھتے ہیں… شریعت کی آئینی
واصولی پابندی، یعنی جو کچھ اللہ کی کتاب اور اُسکے رسولؐ کی سنت میں وارد ہوا
اُسکا اپنے آپ کو اور کل مخلوق کو پابند جاننا ؛ حیاتِ انسانی کے جملہ معاملات کو
اللہ اور اُسکے رسولؐ کی طرف لوٹانا… کیا یہ تطوُّع (رضاکارانہ عمل) تھا جسے اسلام
کی نسلِ اول نے اختیار کیے رکھا، وہ اِسکے مکلف نہیں تھے؟
خدا کی راہ میں اپنے گھربار چھوڑنا،
وطن قربان کرنا اور لا الٰہ الا اللہ کے خلاف برسرقتال قوتوں کے خلاف میدانِ جہاد
میں اترنا، تطوُّع (رضاکارانہ عمل) تھا، وہ اِس کے مکلف نہ تھے؟
ایک ‘‘امت’’ بن کر رہنے کا عملی تصور پیش
کرنا، جس میں تکافلِ اجتماعی بھی آتا ہے، ایمانی اخوت اور ولاء وبراء بھی، تعاون
علی البر والتقویٰ بھی، اور مسلم جان مال عزت آبرو کی حرمت کی پاسداری کرنا… یہ سب
تطوُّع تھا، وہ اِسکے مکلف نہیں تھے؟
زمین پر عدل اور انصاف کا ربانی نقشہ
پیش کرنا تطوع تھا، یہ اُن پر فرض نہیں تھا؟
لاالٰہ الا اللہ کے سب اخلاقیات کی
پاسداری کرنا، تطوُّع تھا، فرض نہیں تھا؟
عہد کو پورا کرنا اور اجتماعی ذمہ
داریاں نبھانا تطوّع تھا، واجب نہیں تھا؟
اور جس دوران صحابہؓ یہ سب اعمال
انجام دے رہے تھے، صاف سمجھ رہے تھے کہ وہ ‘‘ایمان’’ کے علاوہ کوئی چیز سرانجام دے
رہے ہیں؟! یعنی وہ سمجھتے تھے کہ ‘‘اقرارٌ باللسان وتصدیقٌ بالقلب’’ کرکے
‘‘ایمان’’ نام کی کارروائی سے تو وہ کب کے فارغ ہوچکے، اب تو وہ ایمان سے
‘‘زائدتر’’ کچھ امور انجام دے رہے ہیں؛ یعنی یہ سب کچھ اگر وہ نہ بھی کریں تو
‘‘ایمان’’ کا فرض تو پورا ہو ہی چکا!
یا پھر اُن کے نفوس اِس حقیقت کے
ادراک سے چھلک رہے تھے اور یہی بات اُنہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے
سمجھی تھی کہ اِن فرائض پر پورا اترنا اِس حقیقت پر ایمان کا براہِ راست مطالبہ ہے
کہ ‘‘نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر ایک اللہ، اور محمدﷺ اُس اللہ کے پیغمبر ہیں’’…
اور وہ اس کو ایمان کا اقتضا جان کر ہی اس کی بلندترین چوٹیوں کی سرکرنے کے لیے
کوشاں تھے؟
اور کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے
کہ اسلام کی ‘‘عملی تصویر’’ اسلام کی حقیقت سے ‘‘زائد تر’’ کوئی چیز ہو؟ اور
‘‘اسلام’’ کی تعریف میں تو شامل ہی نہ ہوسکتی ہو؟
اور اگر ایسا مان لیا جائے تو اس کے
بعد… اس دین کی وقعت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ اور حیاتِ انسانی میں اِس کا مشن اور
کردار ہی کیا باقی رہ جاتا ہے؟!
اور کیا اللہ رب العزت کا کتابیں نازل
فرمانا، رسول بھیجنا، رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو صبر، ہمت، برداشت، استقامت
اور جہادِ پیہم کی ہدایات دیتے چلے جانا… اس کا ماحصل بس یہ ہے کہ دلوں کے نہاں
خانے میں اس کی ‘تصدیق’ کا عمل انجام پالے اور زبانیں ایک آدھ بار اس کا اقرار
کرلیں، باقی زمین پر اس سے ایک پتہ بھی نہ ہلے، نہ حق کا اِحقاق ہو اور نہ باطل کا
اِبطال، نہ معروف کا قیام اور نہ منکر کا اِنکار… کتابوں کے نزول اور رسولوں کی
بعثت کا اصل مقصد پورا ہوا!
اور یہ امتِ خیر البشرؐ بھی اقرارٌ
باللسان وتصدیقٌ بالقلب کے لیے برپا کی گئی ہے؟!
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے
پیدا کی گئی ہے؛ کہ تم امر بالمعروف کرنے والے، نہی عن المنکر کرنے والے، اور اللہ
تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ( آل عمران 110)
تو کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے
کہ اِس امت کے برپا کرائے جانے کی جو اصل غایت ہے وہ اس کو سونپے جانے والے کام سے
‘‘زائد تر’’ ایک چیز ہو؛ یعنی وہ غایت پوری ہو تب نہ پوری ہو تب اس سے ‘‘اصلِ
ایماں’’ کو کوئی فرق نہ پڑتا ہو؟! ایمان کی ‘‘اصل حقیقت’’ بہرحال اس کے بغیر پوری
ہوجاتی ہو؟!
یا پھر یہ کہیں گے کہ لا الٰہ الا
اللہ کو اور اس کے عملی تقاضوں کو یوں لازم وملزوم رکھنا خاص صحابہؓ والی نسل کے
حق میں تھا۔ البتہ ان کے بعد آنے والی نسلوں کے حق میں ایمان بس ‘‘تصدیق اور
اقرار’’ کا نام ہے؟!
اور اس پر دلیل؟ کتاب سے یا سنت سے؟
یا چلیے کسی عقلی منطق سے ہی؟!
کیا کوئی منطق یہ تسلیم کرتی ہے کہ
ایک نسل کے لیے تو نجات اتنی مشکل کردی جائے کہ لا الٰہ الا اللہ ان سے باقاعدہ
عملی تقاضوں کے ساتھ مطلوب ہو، البتہ باقی نسلوں سے عملی تقاضوں کے بغیر؟ باقی
نسلوں سے صرف یہ مطلوب ہو کہ وہ زبان سے ‘لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ کہہ دیں
اور دل سے اس کی تصدیق کردیں؛ اور بس اِس پر ایمان کا سرٹیفکیٹ پالیں ؛ ‘‘ایمان کی
تعریف’’ ان کے حق میں مکمل، اگر باقی کچھ ہے
تو وہ ایمان سے ‘‘زائد تر’’ کوئی چیز ہے؛ جسے وہ اپنی مہربانی سے کردیں تو بہت خوب،
نہ کریں تو ‘‘ایمان’’ تو بہرحال پورا ہے!
ہاں یہ واقعہ اپنی جگہ کہ اسلام کی
نسلِ اول لا الٰہ الا اللہ کے تقاضوں کو، خود اپنی ذات کی سطح پر بھی اور اپنے
ماحول اور سماج کی سطح پر بھی، اُس اعلیٰ معیار پر پورا کرتی رہی جو تاریخ میں پھر
کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بعد کی نسلیں اِن تقاضوں سے جان چھڑاتی چلی گئیں؛
معاملہ ایک تسلسل کے ساتھ نیچے آتا رہا اور کچھ صدیوں میں ہم اُس بلندی سے اِس
پستی کو آپہنچنے۔ ‘ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے
مارا’۔ تاہم اس کا یہ سبب نہیں کہ نسلِ اول سے تو یہ لاالٰہ الا اللہ اپنے تقاضوں
کے ساتھ مطلوب تھا اور مابعد نسلوں سے بغیر تقاضوں کے!
پہلی نسل کے کچھ خصائص یقیناً ہیں؛ جن
کے باعث وہ تاریخ کی منفرد ترین نسل ٹھہری۔ یہ نسل جاہلیت میں ایک زندگی گزار آئی
تھی، اس کے بعد اس کو نعمتِ اسلام ملی تو رات اور دن کا وہ فرق جس طرح اس پر واضح
تھا کسی پر نہ ہوا۔ پھر رسول اللہﷺ بنفسِ نفیس اُن کے مابین موجود تھے؛ یہ آپؐ سے
براہِ راست وحی کی تعلیم لیتے؛ آپؐ کی ہمہ وقت نگرانی میں تربیت پاتے؛ تو پھر لازم
تھا کہ جس قدر بلندی پر جانا انسانی بس میں ہو یہ اُن چوٹیوں کو سر کر کے آتے۔ بعد
کے لوگوں کو ایک بنی بنائی چیز ملی لہٰذا اِن کا معاملہ پہلوں جیسا نہیں ہوسکتا
تھا۔ یہ سب درست ہے۔ مگر ہماری بات لاالٰہ الا اللہ کے تقاضوں کی بابت ہورہی ہے؛
اسلام کے یہ بنیادی ترین فرائض بہرحال جوں کے توں رہیں گے؛ نسلوں اور زمانوں کا
فرق یہاں اثرانداز نہیں ہوگا۔
*****
اب ہم تیسری جہت سے بات کرتے ہیں:
نفسِ انسانی کی دنیا میں… کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی کسی چیز پر ‘‘ایمان’’ رکھتا ہو
مگر اس کا تمام تر عملی رویہ اُس ایمان کے تقاضوں کے مخالف اور متعارض چلتا چلا
جائے؟
نفسیاتی معالج ہمیں schizophrenia نامی ایک خطرناک مرض بتاتے ہیں، جس میں آدمی کی شخصیت دو صاف
متعارض رویوں کے مابین بٹتی چلی جاتی ہے۔ ابھی اُس پر پیار اور میلان حاوی تھا کہ
یکدم نفرت جوش مار اٹھتی ہے۔ آدمی پر بے بسی کی ایسی ایسی کیفیات گزرتی ہیں کہ وہ
مرفوع القلم ہوجاتا ہے۔ لیکن اِس حالت میں بھی اُس میں ‘‘رویہ’’ اور ‘‘سلوک’’ ظاہر
ضرور ہوتا ہے!
لیکن وہ فرضی حالت جس کی ہمیں مرجئہ
خبر دیتے ہیں… یعنی انسان بالکل اپنی طبعی حالت میں ہے، بقائمی ہوش و حواس ہے،
باطن میں وہ کسی چیز پر ‘‘کامل ایمان’’ رکھتا ہے لیکن وہ چیز اُس کے جملہ
تصرفات میں کبھی ایک بار بھی ظہور نہیں کرتی۔ اس پر کسی کا غلبہ اور قہر (اکراہ)
ہو، تو چلیں اور بات ہے اور وہاں تو آدمی دل کی بات اپنے تصرفات میں ظاہر نہیں
ہونے دیتا، مگر یہ شخص پوری طرح آزاد اور خودمختار ہے، لیکن پھر بھی وہ چیز کبھی
اپنا اظہار نہیں کرتی… تو یہ فرضی وخیالاتی حالت جس کا ہمیں
مرجئہ انکشاف کر کے دیتے ہیں، نفس انسانی کے حوالے سے ایک ایسی چیز ہے جس کا آج تک
کہیں وجود نہیں پایا گیا!
ہاں جو چیز مانی جاسکتی ہے وہ یہ کہ
ایک چیز پر آدمی کا ‘‘ایمان’’ ہو لیکن ظاہر میں اُس سے معارض بعض تصرفات پائے جائیں۔
یہ ایک طبعی حالت ضرور ہوسکتی ہے، بلکہ عالمِ بشر میں غالب ترین حالت یہی ہے کہ
آدمی دل سے کسی چیز پر اعتقاد رکھتا ہو مگر عمل اور رویے میں وہ اُس پر پورا نہ
اتر پا رہا ہو اور اپنے اُس اعتقاد سے متعارض بعض رویے اُس سے سرزد ہوجاتے ہوں۔ گو
یہ چیز بھی بلاسبب نہیں اور اسکی اپنی ایک دلالت ہے۔
جہاں تک اسکے بلاسبب نہ ہونے کا تعلق
ہے تو وہ یہ کہ نفس انسانی میں فوری خواہشات کی جانب ایک قوی میلان پایا جاتا ہے
اور ان فوری خواہشات سے وہ کسی وقت شکست بھی کھا جاتا ہے۔ ایک عہد یا ذمہ داری
نبھانا نفس کے میلانات پر یک گونہ قید ہے اور نفس اِن قیود سے فرار بھی کرتا ہے۔
لیکن اس نفسیاتی تجزیہ میں یہ بات محلوظ رہے کہ ‘‘ایمان’’ فطرت ہے؛ لہٰذا نفس
انسانی کا کسی چیز پر ایمان ہونا خود بھی ایک قید ہے؛ یعنی ایک مومن شخص کا
خواہشات کے پیچھے بھاگنے میں ‘‘ایمان’’ باقاعدہ ایک رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ پس جہاں
ایمان کے راستے میں خواہشات ورغبات ایک قید ہے وہاں خواہشات ورغبات کے راستے میں ایمان
ایک قید ہے۔ اور یہاں سے ان دونوں کی کھینچاتانی شروع ہوجاتی ہے جوکہ نفس انسانی
کی بابت ایک سچی ترین حقیقت ہے۔ انسانی نفس انہی دو قوتوں کی کشتی کا اکھاڑا بنتا
ہے؛ گو ہر نفس کی صورتحال اس معاملہ میں دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں کوئی پلڑا بھاری
ہے تو کہیں کوئی۔ البتہ مرجئہ ہمیں جو صورتحال فرض کر کے دیتے ہیں، یعنی اعمال اور
تصرفات میں ایمان والا پلڑا صفر ہو پھر بھی انکی تعریف کی رُو سے اس کا نام
‘ایمان’ ہے، عجیب و غریب بات ہے۔ یعنی ایمان کا ہونا نہ ہونا ‘‘عمل’’ کے حق میں
ایک برابر ہو!
یہ ہے نفس انسانی کی وہ صحیح طبعی
حالت (جس کو نہ مرجئہ صحیح طرح سمجھ سکے اور نہ خوارج)*۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ
کے نور کی مدد سے اِن اشیاء کو دیکھنے والے علماء کا یہ کہنا رہا ہے کہ إن الإيمان
يزيد وينقص.. ينقص بالمعاصي ويزيد بالطاعات ‘‘ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ..
نافرمانی کے اعمال سے گھٹتا ہے اور اطاعت کے اعمال سے بڑھتا ہے’’
‘‘دین’’ جس کو انسان شعوری انداز میں اختیار کرتا ہے بذاتِ خود ایک قید
ہے، جوکہ خواہشات کے اُس دائرے کو جو مباح ہے مقید کرتا ہے اور ان کی رفتار کو ایک
کنٹرول میں لاتا ہے۔
فرمانِ خداوندی ہے:
یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت
کرو (سورة البقرة 229 )
یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے قریب مت
پھٹکو (سورة البقرة 187)
خواہشات تو نفس کے لیے یقینا مزین کی
گئی ہیں: ‘‘مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور
بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور
کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی
کے پاس ہے’’ (آل عمران 14 )۔
لیکن ایمان بھی ایسی غیر حسین حقیقت
تو نہیں جس کا پلڑا کبھی بھی ان پر بھاری نہ پڑے! (‘‘اور لوٹنے کا عمدہ ٹھکانا تو
اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے’’) ( آل عمران 14)
اِسی طرح فرمایا:
لوگو!
زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزه
چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راه پر نہ چلو، وه تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
(سورة البقرة 168 )
اور شرک والی عورتوں سے جب تک وہ
مسلمان نہ ہوجائیں نکاح نہ کرنا؛ بیشک مسلمان لونڈی مشرک شریف زادی سے اچھی ہے
اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو (سورة البقرة (221)
اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم
کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود
عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی (النساء 24)
یعنی ‘‘ایمان’’ وہ مہار ہے جو خواہشات
کو حد میں لاتی ہے۔
‘‘حلال’’ اور ‘‘حرام’’ کا تصور ہی یہ ہے کہ خواہشات کو ایک قید میں لایا
جائے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ ‘‘فرائض’’ کا تصور آجاتا ہے جیسے نماز، زکات، روزہ، حج
اور تمام اخلاقیاتِ لاالٰہ الا اللہ، اور سب سے بڑھ کر جہاد فی سبیل اللہ۔ یہ سب
کچھ ہے ہی نفس کو قید میں لانا اور اس کو اللہ کے آگے جھکانا۔
نفسِ انسانی میں یہ جو ‘‘خواہشات’’
اور ‘‘محرکات’’ رکھے گئے ہیں، یہ خدا نے عبث نہیں رکھ دیے۔ اسی طرح؛ اِن خواہشات
کی راہ میں جو ‘‘قیود’’ رکھے وہ بھی بے مقصد نہیں…
اللہ رب العزت جانتا تھا کہ زمین میں
انسان کی جو خلافت (جانشینی) ہے اور جس کی خاطر اس کی تخلیق ہوئی ہے، زمین پر اس
کی یہ مہم پوری ہونا اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے اندر کچھ محرکات ہوں جو اس کو
یہاں عمل، حرکت اور پیدآوری پر اکسائیں جس سے زمین پر آبادکاری ہو۔ زمین پر انسانی
وجود سے یہ چیز بھی مقصود ضرور ہے اور یہ اس منصوبے کا باقاعدہ حصہ ہے:
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں
زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں(البقرة 30)
اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس
میں تمہاری آبادکاری کی (سورة هود 61 )
اسی طرح یہ اُس ‘‘متاع’’ سے لطف اندوز
ہونے کے ذرائع ہیں جو زمین پر انسان کو اتارتے وقت مذکور ہوا:
زمین میں تمہارا ایک مستقرہے اور ایک
متاع ہے، خاص وقت کے لیے (البقرة 36)دوسری جانب یہ وہ نقطۂ آزمائش ہے جس کے لیے
اس انسان کی
تخلیق
ہوئی ہے:
روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے
زمین کی آرائش بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون عمدہ تر اعمال والا
ہے (سورة الكهف 7 )
یہ تو رہی خواہشات اور مرغوبات کی
بات۔ رہ گئی قیود اور ضابطوں کی بات، تو یہ بھی زمین پر انسان کی یہ خلافت
(جانشینی) کو درست طور پر سرانجام پہنچانے کے لیے ضروری ہیں، یعنی جو اس خلافت کو
خلافتِ راشدہ بنائیں یا کم از کم اس نقطہ کی طرف لے کر جائیں۔ وجہ یہ کہ ان
خواہشات اور مرغوبات کا معاملہ اگر ایک محفوظ حد سے آگے گزرجائے تو یہ انسان کے حق
میں مہلک ہے؛ اِس سے یہ اُس بلندی پر نہیں رہتا جو خدا نے اس کے لائق رکھی ہے اور
جس کو وہ ‘‘احسنِ تقویم’’ کہتا ہے اور جس کی بدولت یہ حیوان سے ممیز ہوتا ہے ، اور
جس کے بل پر یہ اُس ‘‘امانت’’ کو اٹھانے کے لیے نامزد ہوا ہے جس کا سن کر آسمان
اور زمین اور پہاڑ کانپ گئے تھے اور اس کو اٹھانے سے صاف مکر گئے تھے مگر انسان نے
اس کو اٹھا لیا تھا…
یہ ‘‘قیود’’ انسان کی زندگی میں دہرا
کردار ادا کرتی ہیں:
1- یہ
ان ‘‘مرغوبات’’ کی مناسب مقدار کا تعین کرتی ہیں جن کو اس کی خواہشات بے تحاشا
لینا چاہتی ہیں؛ جس سے نفس کی توانائی ساری کی ساری شہوتی عمل کی نذر نہیں ہوتی۔
2- پھر
اس توانائی کو یہ ایک ایسے عمل میں صرف کرواتی ہیں جسے ہم اپنی زبان میں ‘‘اقدار’’
کہتے ہیں اور جس کے دم سے یہ اشرف المخلوقات ہے، اور جوکہ دراصل وہ ‘‘امانت’’ ہے
جس کے باعث یہ حیوانات سے ممیز ہے۔
اِس طریقے سے؛ ایک جانب ‘‘محرکات’’
آجاتے ہیں اور ایک جانب ‘‘ضوابط’’؛ اور انسان کی زندگی کو ایک توازن مل جاتا ہے؛
جس سے اس کے وجود کی غایت پوری ہونے لگتی ہے جس کو ہم حالت کے اعتبار سے احسنِ
تقویم کہتے ہیں اور غایت کے اعتبار سے خلافت یا امانت۔
ہاں یہ سچ ہے کہ یہ توازن ہر وقت، ہر
حالت میں، اور بدرجۂ اتم قائم نہیں رہتا؛ اس میں اونچ نیچ مسلسل رہتی ہے؛ اور ہر
کیس دوسرے سے مختلف ہوتا ہے:
اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے عہد
سونپا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اسکا قصد نہ پایا ( طہ 115)
ہر بنی آدم خطاکار ہے، اور خطاکاروں
می بہترین وہ ہیں جو کثرت سے لوٹ آنے والے ہیں (أخرجه أحمد وأبو داود وابن ماجه
والدارمي)
یہاں سے؛ گناہ کا تصور سامنے آتا ہے…
گناہ، یعنی معصیت، نافرمانی…
یہ دو میں سے کسی ایک سبب کا نتیجہ
ہوتی ہے، اور کسی وقت ہردو سبب کا… کسی لمحے محرکات شدید ہوجاتے ہیں، اور کسی لمحے
قیود میں کمزوری واقع ہوجاتی ہے، اور کسی وقت یہ دونوں واقعے ایک ساتھ ہوجاتے ہیں،
اور نافرمانی ہوجاتی ہے۔ یہ ہیں نافرمانی کے عوامل؛ ان میں جس درجہ کا اشتراک ہوگا
یہ اُسی درجہ کا نتیجہ پیدا کرکے دیں گے… جس وقت محرک کمزور ہو، اُس وقت کمزور سی
قید بھی اُس کو روکنے کے لیے کفایت کرے گی؛ ہاں جس وقت وہ شدید اور منہ زور ہو اُس
وقت ایک نہایت قوی ارادہ درکار ہوگا جو اس کو قید ڈال سکے۔ قوتِ ارادی پوری ہو تو
وہ اس کو قابو کرلے گی اور نافرمانی واقع نہ ہوگی، اور اگر ہوگی تو نہایت وقتی سی
اور وہ بھی یوں جیسے ایک چیز آدمی کی گرفت سے سرک گئی ہو؛ اسی کو قرآن میں
‘‘لَمَم’’(۹) کہا گیا ہے۔ ہاں جس وقت ارادے کی قید بالکل
بودی ہو تو وہ ایک منہ زور خواہش کے آگے جواب دے جاتی ہے اور خواہش سب بند توڑ
جاتی ہے۔
‘‘روزِ
آخرت پر ایمان’’ وہ قوی ترین قید ہے جو خواہشاتِ نفس کو قابو کے اندر لانے میں
مددگار ہوتی ہے۔ جتنی زوردار اس کی گرفت ہوگی اتنا ہی نفس خدا کی مقرر کردہ حدود
میں رہے گا؛ یعنی اس کے اندر سے اطاعت اور فرماں برداری برآمد ہوگی اور یہاں خدا
کے عائد کردہ فرائض کی پابندی ہوگی۔ ایسا بھی نہیں کہ انسان اپنی بشریت سے نکل
جائے گا اور فرشتہ بن جائے گا جو خدا کی معصیت کر ہی نہیں سکتا! مقصد یہ ہے کہ
اطاعت (خدا کی حدوں کی پابندی، فرائض کی انجام دہی) انسان کی زندگی میں ‘‘اصل’’ کی
حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور کبھی کبھی اس سے نکل جانا اور نافرمانی میں قدم دھر
لینا ‘‘خلافِ اصل’’۔ یہ ہے وہ حالت جو اللہ رب العزت نے متقین کے حوالے سے برسبیل
ستائش بیان فرمائی ہے:
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے
حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش
مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال
پر اڑے نہیں رہتے۔ ایسے ہی لوگوں کا صلہ پروردگار کی طرف سے بخشش اور باغ ہیں جن
کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور (اچھے) کام
کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے۔ (آل عمران 135 - 136 )
ہاں جب ایمان بالیوم الآخر کمزور پڑ
جائے – اور جیسے جیسے کمزور پڑے – ویسے ویسے اس کی مخالف حالت ‘‘اصل’’ کی حیثیت
اختیار کرنے لگتی ہے اور اللہ کی فرماں برداری پر قائم رہنا ‘‘خلافِ اصل’’۔
مگر اِن تمام احوال میں ‘‘ایمان’’ کی
کارکردگی صفر پھر بھی نہیں ہوتی۔ اس کا ہونا نہ ہونا عملاً ایک برابر ہو؛ یعنی
آدمی اسلام اور فرماں برداری کا کوئی ایک بھی رویہ اختیار نہ کرتا ہو، یہ بہرحال
ناممکن ہے۔
نافرمانی – اجماعِ علماء کی رو سے –
آدمی کو اسلام سے خارج بہرحال نہیں کرتی۔
(۱۰)
اسلام سے جو چیز اس کو خارج کرتی ہے
وہ ہے استحلال، یعنی معصیت کو روا ٹھہرا لینا اگرچہ وہ عملاً اس معصیت کے قریب بھی
نہ پھٹکتا ہو۔
جبکہ یہ استحلال خالی گناہ میں پڑنے
سے مختلف چیز ہے۔
خالی گناہ میں پڑنا ‘‘کمزوری کا
لحظہ’’ گنا جاتا ہے؛ جوکہ مخلوق انسانی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ آدمؑ
پر حملہ آور ہوا اور اُس وقت آپؑ کا عزم آپؑ کا ساتھ نہ دے سکا۔ ‘‘کمزوری کا
لحظہ’’ وہ ہے جب ‘‘ایمان’’ آدمی سے کہیں گم ہوجاتا ہے؛ ایمان آدمی کے پاس ہوتا
ضرور ہے مگر وہ موقع پر آدمی کو مل نہیں رہا ہوتا۔ شاید یہی وہ معنیٰ ہے جس کی
جانب حدیث میں اشارہ ہوا ہے ‘‘نہیں زنا کرتا زانی، جس وقت کہ وہ زنا
کررہا ہوتا ہے، اس حال میں کہ وہ مومن ہو۔ نہیں چوری کرتا چور، جس وقت کہ وہ چوری
کررہا ہوتا ہے، اس حال میں کہ وہ مومن ہو’’ (صحیحین) تاوقتیکہ وہ جاگ اٹھتا ہے اور
اس کا شعور بحال ہوجاتا ہے، اور تب وہ خدا سے معافیاں مانگنے لگتا ہے، اور خدا
معاف کردینےوالا ہے!
رہ گیا استحلال، یعنی ایک نافرمانی کے
کام کو روا کرلینا… تو یہ خدا کی عبادت سے استکبار ہے اور اس کے حکم کے آگے جھکنے
سے کھلی سرتابی۔ ایسا انسان بزبانِ حال یا بزبانِ قال کہہ رہا ہوتا ہےکہ خدا بے شک
یہ کہے مگر میرا فیصلہ کچھ اور ہے۔ یہ عصیان (نافرمانی) کی وہ حالت ہے جو شیطان نے
علی الاعلان کیا تھا:
‘‘کہنے
لگا: میں اس سے بہتر ہوں مجھ کو تونے آگ سے بنایا اور اُس کو گارے سے بنایا’’
(سورۃ ص 76)
نیز کہا: ‘‘میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے
والا ہرگز نہیں جس کوتو نے کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے بنایا’’ (سورة الحجر 33 )
اور یہ وہ نافرمانی ہے جس کو خدا کبھی
معاف نہیں کرتا کیونکہ یہ شرک ہے:
اللہ ایک شرک ہی کو معاف نہیں کرتا،
اس کے سوا وہ جس چیز کو چاہے بخش دے (سورة النساء 116 )
سوال یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں
خدا کی ‘‘نافرمانی’’ ہوجانے کی حدود کیا ہیں؟
کیا ایسا ہوسکتا کہ یہ نافرمانی
پھیلتے پھیلتے پورے معاشرے کو اپنی زد میں لے لے، نیز اسلام کے ‘‘جملہ اعمال’’ تک
چلی جائے، اور اس کے بعد بھی معاشرہ مسلمان کا مسلمان، کیونکہ ‘تصدیق اور ‘اقرار’
باقی ہے؟!
کیا خیال ہے اگر آپ کے پاس ایک ایسا
معاشرہ ہوجائے جہاں ہر شخص ایسا ہی ایک (مرجئہ کی تعریف کردہ) ‘‘مسلم’’ ‘‘مومن’’
پایا جانے لگے؟!
کیا وہاں پر رسولوں کے بھیجے جانے اور
کتابوں کے اتارے جانے کا کوئی ایک بھی مقصد پورا ہوگا؟
یاددہانی کے طور پر، ہم وہ ہدف آپ کے
سامنے رکھتے چلیں جو بعثتِ رُسُل اور نزولِ کتب سے خدا کا مقصود ہے:
‘‘بے
شک ہم نے رسولوں کو بھیجا، بینات دے کر، اور ان کے ساتھ اتاری کتاب اور میزان،
تاکہ لوگ قائم ہوجائیں قسط پر’’ (الحدید: 25)
یہاں (مرجئہ کے دم قدم سے)… رسولوں کا
‘‘اقرار’’ بھی ہوگیا اور ‘‘تصدیق’’ بھی… تو کیا رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد
پورا ہوا؟ کتاب اور میزان جو رسولوں کے ساتھ نازل کی گئی تاکہ لوگوں کی زندگی اس
قسط پر قائم ہو… تو یہاں کونسا قسط قائم ہوا؟!
یاددہانی کے طور پر، ہم اس آیت یا
آیات کا ایک بار پھر ذکر کرتے چلیں جن میں اس امت کے برپا ہونے کی غایت بیان ہوئی:
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے
انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو،
بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ( آل عمران 110)
اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط
بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔
(سورة البقرة 143 )
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ
جہاد کرنے کا حق ہے اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر
کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی
تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)
تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور
اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی
اچھا ہے وہ مددگار(سورة الحج 78 )
‘‘تصدیق’’
اور ‘‘اقرار’’ ہوگیا، مگر… مذکورہ غایتوں میں سے کونسا کام پورا ہوا؟!
کیا اِسی انداز کے زعم اور رویے سے
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا قصہ سناتے ہوئے ہمیں باقاعدہ خبردار نہیں فرمایا
تھا؟
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین
ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وه اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی حاﻻنکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع
آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے۔ کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا
گیا کہ اللہ کی طرف بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں، اور انہوں نے اس
کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا اور آخرت واﻻ گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو
تقویٰ رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے (سورة الأعراف 169)
یا پھر ‘‘فرائض’’ اور ‘‘مکلف’’ ہونے
کا تصور بنی اسرائیل کے لیے تھا ہماری ‘‘امتِ مسلمہ’’ کے حق میں نہیں ہے۔
غالباً ایسے ہی کسی زعم کا ازالہ
صحابیِ رسولؐ حذیفہ بن الیمانؓ نے یہ کہہ کر فرمایا تھا:
نعم الإخوة لكم بنو إسرائيل إن كان
لكم كل حلوة ولهم كل مرة (۱۱)بنی
اسرائیل تمہیں اچھے بھائی مل گئے، میٹھا میٹھا تمہارا کڑوا کڑوا اُن کا!!
پھر کیا عجب (مرجئہ کے) ‘‘ایمان’’ اور
مطالباتِ لاالٰہ الا اللہ کی بابت دیے ہوئے اِس تصور پر قائم معاشرہ وہ غُثَاء (خس
وخاشاک) ہو جس سے رسول اللہﷺ نے ہمیں خبردار فرمایا تھا۔
آج آپ دیکھ سکتے ہیں کس طرح دنیا بھر
کی قومیں اِس خس وخاشاک(۱۲) پر ٹوٹ پڑی ہیں جو صرف ‘‘تصدیق اور
اقرار’’ پر قانع ہے اور اس کو ‘‘ایمان’’ سمجھتا ہے!!
رہ گیا وہ مسلم معاشرہ جس میں خدا کی
شریعت راج کرتی ہے، تو خدا کی نافرمانی کے افعال وہاں بھی ہوجاتے ہیں، لیکن دوکام
تو کبھی بھی، کسی بھی صورت، کسی بھی شخص کے حق میں موقوف نہیں ہوتے۔ ‘‘مسلمان’’
تسلیم ہونے کے لیے دو کام تو وہاں ہر شخص کرے گا خواہ درپردہ منافق کیوں نہ ہو، اس
کا باقی حساب اللہ کے ذمے۔ ایک، دن میں پانچ بار خدا کے آگے سجدہ ریز ہونا۔ دوسرا،
خدا کی شریعت کی طرف تحاکم کرنا(۱۳)۔
یہ دو باتیں تیرہ سو سال تک مسلم معاشرے کے بدیہیات میں شامل رہی ہیں؛ مسلمانوں
میں خواہ کتنا ہی انحراف کیوں نہ درآیا ہو اِن دو چیزوں کے بغیر مسلمان ہونے کا
تصور نہیں تھا۔ ان دو چیزوں کو علی الاعلان ترک کر رکھنا اور پھر بھی ‘مسلمان’ کہلانے
کا پورا پورا حق رکھنا، یہ رجحان اِس آخری صدی میں ہی پروان چڑھا ہے۔ ‘مسلمان’ کی
یہ قسم اِس بڑی سطح پر آج ہی دریافت ہوئی ہے!
(۹) لَمَمٌ
(النجم: 32) قصور سا سرزد ہوجانا
(۱۰) اِس
اجماع سے صرف خوارج نے خروج کیا ہے، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
(۱۱) رواه
الطبري عن حذيفة من أكثر من طريق.
(۱۲) قال
: أنتم يومئذ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السيل! (حدیث پیچھے گزر چکی ہے)
آپﷺ نے فرمایا: نہیں، تم اُس روز
تعداد میں بہت زیادہ ہوگے، مگر تم وہ خس وخاشاک ہوگے جو سیلاب کی سطح پر ابھر آتا
ہے
(۱۳) تحاکم
الی الشرع: یعنی سب معاملات شریعت کی طرف لوٹانا، سب فیصلوں کیلئے شریعت کے پاس
جانا۔