اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، کیا واقعی؟
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
اسلام ایک مکمل نظام حیات
ہے، کیا واقعی؟
_________________________ تحریر: جاسم سلطان
اردو استفادہ: مریم عزیز
اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں حالیہ اسلامی بیداری کا آغاز نو
امیدافزا ثابت ہوا ہے اور اس پس منظر میں کئی مسحورکن نعروں نے سبھی کا دل موہ
رکھا ہے جن میں سب سے نمایاں اور دلفریب دعویٰ ”اسلام ہی ہر مسئلے کا حل ہے“ قابل
ذکر ہے۔ تاہم موجودہ حالات کے پس منظر میں اس دعوے کی حقیقت اور اس سے متعلقہ کچھ
اہم امور کا ایک منصفانہ جائزہ لینا عقل اور انصاف کا تقاضا ہے۔
یہ دعوی درحقیقت ایک کشش تو رکھتا ہے مگر یہ کب اور کیونکر قابل
عمل بنتا ہے؟ اس دعویٰ کی بابت کیا کوئی بنیادی شرائط وضوابط بھی ہیں؟ کیا اسکے
مفہوم کے مطابق اسلام کی حیثیت محض ایک 'دستی کتابچہ' قسم کے ایک دستورالعمل کی سی
ہے جس میں تمام سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل سیدھے سیدھے درج کر دیے گئے ہیں
،کہ بس جن پر عمل کرنے سے اسلام کا مقصد پورا ہو جاتا ہو؟
یا یہ کہ اسلام دراصل کچھ وسیع تر اخلاقی اصولوں کا مفصل مجموعہ ہے
جو عمومی طورپر نہ صرف ایک مکمل اور بھرپور زندگی کی راہ دکھلاتا ہے بلکہ آخرت کا
بھی نجات دہندہ ہے؟
اور جہاں تک عمومیت سے ہٹ کر مسائل کی بات آئے، یعنی کسی خاص وقت
یا خاص ماحول میں درپیش مسائل، تو اس کے معاملہ میں، اپنے انسانی قویٰ سے کام لیتے
ہوئے، ہم اسلام کے اصول معلومہ سے اپنے لئے لائحہ عمل استخراج کرسکیں اور ایسا
کرنے کے دوران غلطی کا بالکل ویسا ہی امکان اور بالکل ویسی ہی گنجائش موجود رہے جو
کسی بھی انسان کو پیش آسکتی ہے؟
سوال یہ ہے کہ: زندگی کے کن پہلوؤں سے اسلام براہ راست مخاطب ہوتا
ہے یوں وہ کونسے مسائل ہیں جن کی رہنمائی ہمیں بالتفصیل لازماً اسلام میں مل جانی
چاہیئے؟ اور پھریہ کہ انسانی عقل کے استعمال کی گنجائش کہاں سے شروع ہوتی ہے تاکہ
تدبیرِمملکت، سیاسی مصلحت اندیشی اور معاشی حسن انتظام میں ہمیں اپنی خداداد
انسانی قابلیت کے جوہر دکھلانے کا موقع فراہم ہوسکے؟
صاحبو! یہاں ان سوالات کا جواب ہمیں معاملات کی ان دو صنفوں کے
مابین تمییز کرنے سے ملے گا کہ:
الف) وہ معاملات کونسے ہیں جو اسلام کے حکم کے عین مطابق حل ہونے
چاہئے، اس معنیٰ میں کہ ان میں انسانی کاوش کے لئے کوئی تدبیر اور تصرف کر لینے
کوئی گنجائش سرے سے نہیں۔
ب) اور وہ معاملات کونسے ہیں جن پر اسلام کے اصول و ضوابط ہر ہر
جزئیات میں براہ راست عائد نہیں ہوتی، کیونکہ ان معاملات میں صرف اسلام کے کلی
اصولوں کی ہی پابندی کرنا ہوتی ہے، اور جن میں انسانی سمجھ، اختلاف رائے، تدبیر
اور تصرف کیلئے گنجائش خود شریعت نے ہی رکھی ہے؟
یہاں ایک طرف وہ مسائل ہیں جن کی واضح مکمل اور تفصیلی ہدایات ملتی
ہیں، جیسے امور عبادات میں نماز وغیرہ نیزاکثر دیوانی قوانین بھی، جیسے مثلاً اسلام
کا قانونِ وراثت ،ہمارے لئے بدرجہء اتم موجود ہیں۔ دوسری طرف زندگی کے کثیر پہلو
ہیں جو انسانی ذہانت پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ جن کا بلا واسطہ اور قطعی وضاحت کے
ساتھ حکم قرآن و حدیث میں آپ کو نہیں ملے گا۔ اور عمومی طور پر یہ روز مرہ کے
مسائل کے معاملہ میں حق ہے۔ جسکی مثال ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جس میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی پیوند کاری سے متعلق فرمایا ”تم لوگ اپنے روز مرہ
کے معاملات بہتر جانتے ہو“۔یہ اس سے کچھ مختلف نہیں جو ہم یہاں عرض کر رہے ہیں۔
اگر ان اصولوں کو ہی لیں جو نظامِ عدل سے متعلق یا امورِ حکومت میں
مشاورت کے بارے میں ایک مجمل مگر وسیع ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں تو آپ پر یہ منکشف
ہوگا کہ ان جیسے اصولوں کو کسی خاص ماحول یا صورتحال میں جب عملی شکل دینے کی نوبت
آئے گی تو بھی کافی عرق ریزی درکار ہے۔ ریاستی امور میں باہمی مشاورت کا حکم ہمیں
قرآن کریم کی آیت "....جو اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں"۔(سورۃ
الشوریٰ:آیت 38)۔ کی صورت میں ملتا ہے۔ جس میں کہ کافی وسعت فراہم کی گئی ہے۔
چونکہ اس کیلئے کوئی مخصوص شرائط نہیں رکھی گئیں لہذا س کی عملی شکل بھی زمان و
مکان میں ہوتی تبدیلیوں کے حسب ضرورت تبدیل ہونے کی مجاز ہے۔
قارئین کرام، چلتے ہیں 'اسلامی بیداری' سے 'مکمل بیداری' کی طرف۔
آپ کو ادراک ہوگا حقیقی زندگی کے بے شمار تصفیہ طلب مسائل آپ کی توجہ کی راہ دیکھ
رہے ہیں۔ اب اگر ان مسائل کو اسلام کی روشنی میں مگر ہماری قابلیت سے ہی حل ہونا
ہے تو اس کارگزاری کو "اسلام" سے منسوب نہ کیا جائے (کہ جو ہم نے کیا وہ
دراصل عین اسلام کا حکم تھا)۔بلکہ ایک حل یا ایک طرز عمل جو ہم مسلمان اپناتے
ہیں،چاہے وہ اچھا ہو یا برا، اس کا سہرا یا اس کا الزام "مسلمانوں"کے سر
ہی بندھنا چاہیے نہ کہ اسلام کے ۔ )اس میں شک نہیں اسلام کی حقانیت اپنی جگہ مسلم ہے، اور ایک اچھا حل
پیش کیا جانے کی صورت میں اصل فضیلت اسلام کے اصولوں ہی کو جائے گی، مگر ہم یہاں
انسانی کردار کی بات کر رہے ہیں(
صاحبو، دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ مثلا دو فقہاءکو لیجئے ان کے
سامنے ایک جیسا مسئلہ رکھئیے، ہمیں ہرگز حیرانگی نہ ہوگی اگر وہ دونوں قرآن و حدیث
کے علوم کو اپنے اپنے فہم و ادراک کے مطابق استعمال کرتے ہوئے دو متفرق حل پیش
کریں! ایک کی توجیہ دوسرے سے بہتر اور کارآمد تر ثابت ہونا بھی کوئی اچھنبے کی بات
نہ ہوگی۔
بھائیو، یہاں جب ہم ہر دو رائے کی خوبی میں امتیاز کرتے ہیں تو اس
سے ہمارا مقصود یہ ہرگز نہیں کہ ان دو فقہا کے ہاں 'اسلام' الگ الگ ہے! بلکہ ہمارے
نزدیک اس وقت انکی استعداد اور قابلیت کی جانچ پیش نظر ہے، کہ ان میں ہر ایک اسلام
سے ایک صورتحال کیلئے کیا کچھ نکال کر دے سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو اسلامی
علوم پر عبور رکھتا ہو ،کسی مسئلے کا اور خصوصاً ہمارے آج کے مسائل کا قابل عمل
اور کامیاب حل پیش کرنے پر بھی قادر ہو۔
چناچہ جب لوگ ہمیں یہ کہتے سنتے ہیں کہ بلاشبہ "اسلام ہی ہر
مسئلے کا حل ہے" تو انکا استفسار بےجا نہیں کہ "اگر اسلام ہی ہر مسئلے
کا حل ہے تو پھر 'اسلامی' طبقوں کی بنائی گئی حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ کیا
ہے؟" اگر اسلام ہی جواب ہوا ہر مسئلے کا تو ہمارے سر پہ آن پڑی ان مشکلات کا
حل کیوں نہیں ہمارے پاس؟۔"کیا آپکا اسلام اس کا جواب دے سکتا ہے؟!"
یا پھراصل صورتحال کچھ یوں ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ ابھرتے نت نئے
تصفیہ طلب امور نے ہمارے ہنوز ناپختہ اذہان کو بوکھلا دیا ہے؟۔
دنیا ہمارے معاشروں میں ہماری ناکام کاوشوں کو دیکھ کر اسلام کے
دین کامل ہونے پر شک نہ کرے تو کیا کرے؟
کیا یہ نہایت ناانصافی کی بات نہیں کہ ہم اپنی ناکامیوں کو اسلام
کے سر تھوپیں؟ اورکیا ایسا کرنا حق نہیں کہ ہم اپنی صلاحیتوں اپنی قابلیتوں کی
کوتاہی کو کھلے دل تسلیم کرلیں؟ مسلمانوں کو یہ یقین کیونکر دلایا جائے کہ اسلام
ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مسائل تک کا حل ہے جبکہ صورتحال یہ ہو کہ اندرون
خانہ معاملات کیلیئے اسلامی متبادل ہی ہم سے ابھی استنباط نہ کئے جاسکے ہوں!
ثابت ہوا کہ خطا ہماری ذہنی کاوشوں کے ناکافی ہونے میں ہے۔اسلام تو
دراصل ہماری کوتاہیوں سے معصوم ہے۔اسلام ہمیں سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتا،اپنے
مسائل اپنے طور حل کرنے کا حکم دیتا ہے،نتائج کا ذمہ دار وہ کسی طور نہیں۔
مسلمان کا بیدار ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،اس بات کا احساس
کرنا کہ اسلامی احکامات کو سختی کے ساتھ ان امور میں لاگو نہیں کرنا چاہیئے جن کا
بلاواسطہ خصوصی طور پر حکم موجود نہیں۔ایسا کرنا اسلام کے غلط استعمال کے مترادف
ہوگا اور ہمارے عقیدے کے ساتھ شدید ناانصافی۔
ہمیں اپنے دعووؤں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اس سے پہلے کہ ہم آنے والی
نسلوں کو بھی یہی تا ثر دے بیٹھیں کہ اسلام ہر مشکل کا بنا بنایا حل ہے!
|
|
|
|
|
|