فضیلت
مآب ابو اسحاق الحوینی
اردو
استفادہ: ابن علی
شیخ ابو اسحاق الحوینی مصر کے ایک بڑے عالم، مفتی اور محدث ہیں۔
محدثِ عصر شیخ ناصر الدین البانیؒ کے خاص شاگردوں میں آتے ہیں۔ چوٹی کے عرب خطیبوں
میں شمار ہوتے ہیں۔ زیر نظر عبارت ان کے ایک خطبہ بہ عنوان ’’الوَلاءُ لِمَن؟‘‘
سے ماخوذ ہے۔ اردو استفادہ کے دوران یہاں ’برصغیر‘ کی مناسبت سے اس میں تصرف کیا
گیا ہے البتہ خطبے کی روح جوں کی توں قائم رکھنے کی کوشش ہوئی ہے۔
معزز
حضرات!
حمیتِ دینی (عقیدہ ’’ولاء و براء‘‘) دراصل اس
چیز کا نام ہے کہ یہ شخص اللہ رب العزت کے ساتھ ایک واضح وابستگی رکھتا ہے؛ اِس
عقیدہ کی رُو سے مسلمان کی دوستی اور دشمنی کا محور خدا کی ذات ہو جاتی ہے...
ہمارے دشمنوں نے جب یہ جانا تو وہ سب سے بڑھ کر ہمارے اِسی عقیدہ کے درپے ہوئے اور
اِسی کو بے جان کر دینے کی ٹھانی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں عجیب و غریب اصطلاحات کا
ڈھیر لگ گیا؛ ایسی اصطلاحات جن کو ہماری اِس امتِ توحید نے آج تک کبھی نہیں جپا
تھا: ’انسانی اخوت‘... اور ’عالمی برادری‘... اور نہ جانے کیاکیا! اور تو اور، بڑےبڑے
مولوی حضرات یہ بولی بولنے لگے: ’ہمارے عیسائی بھائی‘! ’ہمارے غیر مسلم بھائی‘!
خبردار رہو؛ یہ اپنے ایمان کو داغ لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عقیدہ ’’الولاء
والبراء‘‘ کی پامالی ہے۔ یہ جن کو تم ’بھائی‘ کہتے ہو، اللہ عزوجل ان کو ’’کافر‘‘
کہتا ہے۔ ایک مولوی صاحب بولتے ہیں: ’ہمارے وطن کے بھائی، ہماری عیسائی برادری‘! دوسرے
بولے: ’ہمارے ہندو بھائی‘ اور ’ہمارے سکھ بھائی‘! سنو! یہ حرام ہے؛ تمہارا پرودگار
ان کو کافر کہہ چکا ہے۔ جس کو اللہ کافر کہے اور ذلیل قرار دے، تمہارے لیے روا
نہیں کہ تم اس کی تکریم کرو۔
اِس حمیتِ دینی (عقیدہ ’’ولاء وبراء‘‘) کو پامال
ہوتا دیکھنا ہو تو اپنے امپورٹ اور ایکسپورٹ سے منسلک تاجروں کو دیکھو، کہ یہ کسی
کسی وقت اُن کافروں کو کیسا احترام دیتے ہیں۔ کس طرح اُن کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ جب
تک کافر کرسی پر رونق افروز نہ ہوجائے ہمارا یہ فرزند اسلام نشست سنبھالنے کا
روادار نہ ہوگا! اُس کے آگے پیچھے یوں دوڑا پھرے گا گویا ایں سعادت دوبارہ نیست!
وہ کوئی کفر بک دے، اِس کا مہمان رہتے ہوئے حرام کاری کرے، شرابیں پئے، مجال ہے جو
اِس کی مسکراہٹیں ختم ہونے میں آئیں اور اُس کے روبرو اِس کی ’خندہ پیشانی‘ میں
کوئی فرق آئے! اور خدا کی خاطر غضب ناک ہونا تو گویا اِس نے کبھی سنا اور نہ جانا!
اِس حمیتِ دینی (عقیدہ ’’ولاء وبراء‘‘) کو پامال
ہوتا دیکھنا چاہو تو اس وقت دیکھو جب کسی یونیورسٹی میں کوئی نامور مستشرق تقریر
فرمانے آیا ہو؛ تم پہلی بار اپنے بڑے بڑے دانشور جغادریوں کے ہوش اڑے دیکھو گے؛
اور اُس کے لیے اِنہیں ایسے ایسے القاب استعمال کرتا اور اُس کی شان میں ایسے ایسے
قلابے ملاتا دیکھو گے کہ تھرڈ ورلڈ کی پوری اوقات اِس ایک ’دانشور‘ کے رویے میں
نظر آجائے! مجھے آج تک یاد ہے جب جان پالکٹر جو کہ ایک وجودی Existentialist
دہریہ ہے، اپنی داشتہ کے ہمراہ جامع ازھر میں ’خطاب‘ فرمانے آیا؛ اُس وقت میں
جامعہ الاَزھر میں تھا اور میں نے وہاں پر عجب حال دیکھا تھا۔
الاَزھر میں ہی میرا اپنا چشم دید واقعہ ہے،
جہاں کافر سیاحوں کا سیر کے لیے آنا ایک معمول ہے۔ جس طرح اِدھر آپ کی فیصل مسجد
اور بادشاہی مسجد وغیرہ کو ’سیرگاہ‘ کا
درجہ دے رکھا گیا ہے اور جس کے باعث یہاں کافر مردوں اور عورتوں کا ’سیر‘ کی غرض
سے آنا جانا ہردم لگا رہتا ہے۔ مسجدانتظامیہ نے ایک خاکروب کو چند دوپٹے تھما رکھے
تھے کہ غیر ملکی سیاح عورتوں کو، جو یہاں ’سیر‘ کرنے اور مسجد کا تقدس اپنے پیروں
تلے روندنے آتی ہیں، ننگے سر دیکھو تو ایک عدد دوپٹہ پیش کرو ! انتظامیہ کے ’تقویٰ‘
اور ’خداخوفی‘ کی داد دیتے چلئے؛ سر کے کچھ حصے پر پارچہ نما کوئی چیز ہونا لازم
ہے ورنہ مسجد کی بے حرمتی ہو سکتی ہے! کیا دیکھتا ہوں، ایک عورت جو مِنی سکرٹ پہنے
ہوئے ہے؛ آدھی آدھی رانیں برہنہ کررکھی ہیں، خاکروب کا دیا ہوا دوپٹہ ’انجوائے‘
کرتی مسجد میں ہر طرف بھاگی پھرتی ہے! ادھر اسی حلیہ کی ایک برہنہ عورت خاکروب سے
دوپٹہ پکڑنے پر آمادہ نہیں! میں خاکروب اور اس عورت کی تکرار سننے کے لیے ذرا رک
گیا۔ خاکروب کو اپنی ’ڈیوٹی‘ پوری کرنی ہے؛ یہ اُس کو دوپٹہ پکڑا رہا ہے۔ جبکہ مِنی
سکرٹ میں ’ملبوس‘ یہ عورت دوپٹے کے بغیر ہی مسجد کی سیر کرآنے پر مصر ہے! پھر
جانتے ہو کیا ہوا؟ عورت اپنے پرس سے ایک پاونڈ کا نوٹ نکالتی ہے اور خاکروب کے
ہاتھ پر دھر دیتی ہے؛ جس پر خاکروب خاموشی سے اپنا مطالبہ واپس لے لیتا ہے! صرف
ایک پاؤنڈ لگا مسجد کی حیثیت خاک میں ملانے پر! یہ ہو رہا ہے خدا کے گھروں میں! فِیْ بُیُوتٍ أذِنَ اللّٰہُ أن تُرْفَعَ
وَیُذْکَرَ فَیہَا اسْمُہ (سورہ نور آیت 36) ’’
اُن گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا
ہے‘‘! ذرا
میرے ساتھ غور کرتے چلئے ؛ جامع مسجد ازھر میں یا آپ کی فیصل مسجد اور بادشاہی
مسجد میں کفار کا آنا بھلا کس غرض سے ہے؟ کیا اِن مقامات پر ’’مسجد‘‘ کے احکام
لگنا موقوف کردیا گیا ہے؟ اب یہ مسجدیں نہیں رہیں؟ خدا کی تعظیم اور کبریائی کےلیے
مخصوص جگہیں نہیں ہیں؟ کیا یہ عجائب گھر
ہے؟ سیرگاہ ہے؟ نہیں، یہ اللہ کا گھر ہے جس کا یہ حشر ہو رہا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں
کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے مگر صرف کسی ایسی غرض سے جو اللہ کے گھر کے شایان
ہو، نہ کہ اس کو ’سیرگاہ‘ سمجھ کر۔ کافر یہاں کوئی سوال پوچھنے کے لیے آنا چاہیں،
مسلمانوں سے کسی معاملہ میں رجوع کے لیے آنا چاہیں، یا کسی اور معقول غرض کے لیے
آنا چاہیں؛ ضرور آئیں۔ سو بار آئیں۔ مرد آئیں۔ عورتیں آئیں۔ ہم کبھی اعتراض نہیں
کریں گے۔ کفار یقیناًنبیﷺ کے پاس مسجد میں ہی حاضر ہوا کر تے تھے، مگر کفار کے نبیﷺ
کے پاس وہاں حاضر ہونے میں بھی مسجد کی ایک ہیبت اور شان قائم ہوتی تھی۔ البتہ
مسجد کو ’تماشے کی جگہ‘ بنانے والے ہمارے یہ آج کے مسلمان ہیں جو اپنے دین کے
مسلمات کو مسلسل روندتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام کے یہ سپوت آج مسجدوں سے ’’سیاحت‘‘ کی
کمائی کریں گے اور اگر برہنہ عورتوں کو یہاں آنے سے روکا گیا تو سیاحوں کا رخ
اِدھر کو نہیں رہے گا! اف خدایا! آج ہم کس دور میں ہیں!
آج یہاں ایسے ایسے ’مفسر‘ پائے جانے لگے ہیں کہ
ان کی تفسیر کو دیکھ کر آدمی لرز اٹھتا ہے۔ اخبارات میں ۱۹۷۴
ء سے میں ایک دانشور کے کالم پڑھتا آرہا ہوں جو اپنا پورا زور اِس بات پر صرف کر
رہا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اور مجوس اور مسلمین سب کو اہل جنت ثابت کر دے! اِس سال
بھی اُس نے ’ثابت‘ کیا ہے کہ مسلمان، یہودی، عیسائی، مجوسی اور صابی سب جنتی ہیں؛
کیونکہ اس کا فہم قرآن یہی کہتا ہے! ایسے لوگ آج دانشور ہیں؛ بڑے بڑے اسٹیج، بڑے
بڑے چینل، بڑے بڑے اخبار، بڑے بڑے فورم اِنہی کے لیے مختص ہیں، خواہ یہ ہمارے
مسلمات کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیں اور ہمارے عقیدہ کا ستیاناس کر دیں؛ کیونکہ حریتِ
اظہار اِسی کا نام ہے!
کفار کے تہواروں میں شرکت کے مسئلہ کو نرم کر
دینا ضروری ہو چکا ہے! بھائی تنگ نظر اور متعصب کیوں بنو؛ دین اور عقیدہ کو
ملیامیٹ کردو۔ سب سے زیادہ شست باندھ کر تیر چلاؤ تو عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ پر؛
کیونکہ یہی اِس سارے مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ کفار کے تہواروں پر اژدھام کرنے والے یہ
کون ہیں؟ مسلمان! موحد! یہ مسلمان ملک ہے کوئی مغربی ملک نہیں؛ ایسٹر پر جدھر
دیکھیں آپ کو مسلمان نظر آئیں گے! یہی کیا، آپ کو یہاں پوری پوری داڑھیوں والے نظر
آئیں گے! پابندِ نقاب خواتین ملیں گی! ماشاء اللہ پوری فیملی ایسٹر کی سیر کو نکلی
ہوئی ہے؛ سڑکوں اور پارکوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں! (قبطی عیسائیوں کے ہاں باغات
میں نکل کر نسیم صبح سے لطف اندوز ہونا اور خاص کھانوں پر مشتمل ایک ناشتہ کرکے
آنا ایسٹر کے ’مناسک‘ میں گنا جاتا ہے)۔ جی ہاں آج ایسٹر ہے! پوری پوری داڑھیوں
والوں اور نقاب اوڑ رکھنے والیوں کو آج یہ بھی یاد نہیں کہ عالمی صنف بندی میں اِن
کے لیے جو خانہ مخصوص ہے اس کا نام ’دہشت گرد‘ ہے؟ اِن کو یہ بھی یاد نہیں کہ پوری
دنیا میں آج جو بھی جنگ کھڑی کی جا رہی ہے وہ دراصل اِنہی کے خلاف ہے؟ آج ایسی
کوئی بات یاد رکھنے کا دن نہیں؛ کافروں کی تماشاگاہیں بھرنے کا دن ہے!
اور یہ ہیپی نیو ایئر کی رات ہے۔ بدکاریوں کی
رات۔ زناکاریوں کی رات۔ شرابیں چلنے کی رات۔ خدایا ایک مسلم ملک میں یہ سارا شور
شرابہ، کیا کافر یہاں اتنے ہو گئے ہیں؟ نہیں یہ مسلمان ہیں! بدکاری، شرابیں،
کافروں کے تہوار کی یہ ساری رونق فرزندانِ اسلام کے دم سے ہے! ہوٹلوں میں جاؤ، جگہ
نہیں ملتی؛ سارے ہوٹل بک ہیں! کمرہ پانے کے لیے ’تعلقات‘ اور ’ذرائع‘ کام میں لائے جا رہے ہیں، پیسوں کی پروا
نہیں جتنے مرضی لے لیں، اس رات کسی اچھے ہوٹل میں کمرہ ملنا چاہیے! چھپنے چھپانے
کی احتیاج نہیں؛ سب کچھ ’معمول‘ کی بات ہے۔ ایک آزاد خودمختار مسلمان ملک میں یہ
سب کون کر رہا ہے؟ یہی، مسلمان!
ہاں ابھی یہ گلہ باقی ہے کہ جب اسرائیل ہمیں
جوتے مارتا ہے اور جب ہندو ہماری لکھوکھا فوج کو ’سرنڈر‘ کرواتا ہے... تو آخر خدا
کہاں ہوتا ہے وہ ہماری مدد اور نصرت کو کیوں نہیں آتا!!! میں کہتا ہوں روئے زمین
پر ایسی قوم کا باقی رہ جانا ہی کیا کم معجزہ ہے جو فتح و شادمانی نہ ملنے کے شکوے
بھی ہونے لگے!!! پوچھتے ہو ترقی اور کامرانی کیوں نہیں ملی! یہ کیوں نہیں پوچھتے
کہ زمین ہمارے نیچے دھنسا کیوں نہیں دی گئی!!! کیا کبھی قرآن نہیں پڑھا؟ کبھی اپنے
نبیؐ کے ارشادات نہیں سنے؟ ہمیں تو اپنے دین میں اِس بات سے روک دیا جاتا ہے کہ ہم
اُن تباہ شدہ قوموں کے مسکنوں میں سکونت اختیار کریں جنہوں نے کبھی کسی زمانے میں
ظلم کیا تھا اور پھر ان پر خدا کا عذاب اترآیا تھا؛ حالانکہ زمین ساری خدا کی ہے۔
زمین کی سب پاکی اور ناپاکی اس کے باشندوں کے دم سے ہے ۔ زمین ازخود ناپاک نہیں
ہوتی اس پر رہنے والے اس کو ناپاک کرتے ہیں۔ زمین ازخود دارالکفر نہیں ہوتی اس کے
باشندے اپنے عقائد اور اعمال سے اس کو دارالکفر کردیتے ہیں۔ یہی مکہ ہے جو خدا کا
پسندیدہ ترین بقعۂ زمین ہے مگر پھر بھی یہ کچھ دیر دارالکفر رہنے کے بعد جاکر
دارالاسلام بنتا ہے۔ چنانچہ آج کا دارالکفر کل کا دارالاسلام ہوسکتا ہے اور کل کا
دارالاسلام آج کا دار الکفر۔ ایمان وکفر کے مسئلہ سے زمین بیچاری کا کیا تعلق؟ اس
کے باوجود، خدا ہمیں منع کرتا ہے کہ ’’مَسَاکِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘‘
کے باشندے بن کر رہیں، حالانکہ زمین ساری اللہ کی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ مسئلہ
عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ میں داخل ہے۔ ان بستیوں میں ظالموں کے کرتوتوں کی باقیات
دیکھنا صبح شام قلوب کو متاثر کرتا ہے۔ ایسی
جگہیں جہاں پر خدا کا قہر اترا وہ ہماری نگاہ میں معمول کی چیز ہو کر رہ جاتے ہیں۔
’ابوالہول‘، ’اہرام‘ اور ’بادشاہی قلعہ‘ ایسی سیرگاہ
بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبوک کے سفر کے دوران نبیﷺ حِجر کے علاقہ میں دیارِ
ثمود کے پاس سے گزرے تو چہرہ مبارک ڈھانپ لیا۔ سواری کو تیز کر لیا۔ اور اصحابؓ سے
فرمایا: إذَا مَرَرْتُمْ بِدِیَارِ
الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَأسْرِعُوْا؛ خَشْیَۃَ أنْ یُصِیْبَکُمْ مَا أصَابَہُمْ ’’جب
تم ظالموں کے دیار سے گزرو تو تیز ہو جاؤ، اس ڈر سے کہ تمہیں بھی وہ چیز نہ آلے جس
نے اُن کو آلیا تھا‘‘۔ کیا تم نے غور کیا؟ یہ کافر مرا پڑا ہے اور تمہیں ہدایت کی
جارہی ہے کہ یہاں تیزی سے گزر جاؤ اور اس والے انجامِ بد سے خدا کی پناہ مانگو۔ تو
پھر زندہ کافر سے دوستی اور بغل گیری چہ معنیٰ! وہ کافر جو خود تمہارے سامنے کفر
کررہا ہے اس کے ساتھ البتہ تمہاری خوب خوب دوستی نبھے؟! یہ تمہارے نبیﷺ ہیں جو
تمہیں خبردار فرما رہے ہیں: مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِکِیْنَ
فَہُوَ مِنْہُمْ ’’جو
شخص مشرکوں کے ساتھ رہن سہن رکھے وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ کیا نبیﷺ کی یہ تنبیہ کافی
نہیں؟