مفاھیم ینبغی أن تصحح فصل
اول
مفہوم لا الٰہ الا اللہ
مسئلہ لاالٰہ الا اللہ پر
اس قدر زور؟
قرآن پڑھئے تو لا الٰہ
الا اللہ کا بیان پورا وقت آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے! یہ شان کتاب اللہ میں کسی اور
مسئلہ کو حاصل نہیں!
کہنے کو آدمی کہہ سکتا ہے
کہ مسئلہ لا الٰہ الا اللہ کو یہ غیر معمولی اہمیت اِس لیے ملی کہ قرآن کے اول اول
مخاطب مشرک تھے! لیکن مدنی سورتوں میں بھی اِسی موضوع کا بار بار دہرایا جانا؟
جبکہ نفوس کے اندر عقیدہ راسخ کرایا جاچکا تھا بلکہ اسلامی معاشرہ وجود میں لایا
جاچکا تھا ، اور جبکہ وہ معاشرہ بھی کوئی عام سا معاشرہ نہیں بلکہ وہ جماعت تھی جو
جہاد کی بلندیوں پر پائی جاتی تھی… پھر بھی مدنی سورتوں میں توحید ہی کا موضوع
پورے تسلسل کے ساتھ چلایا جانا ؟ یہ دلالت ہے کہ اس مسئلہ کی اپنی ہی کوئی خصوصی
اہمیت ہے۔ نیز یہ دلالت ہے اس بات پر کہ توحید وہ چیز نہیں جسے کچھ عرصہ بیان کر
لینے کے بعد آپ کسی اور موضوع کی جانب منتقل ہوجائیں۔ بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کو لے
کر ہی آپ ہر نئے موضوع کی جانب منتقل ہوں گے۔ کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا جب اِس پر
بات ہونا موقوف ہو!
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ (النساء: 136 )
اے ایمان والو! ایمان لاؤ
اللہ پر اور اس کے رسول پر
پس لا الٰہ الا اللہ کا
مسئلہ حیاتِ انسانی کے اندر ایک دائمی و ہمہ وقتی مسئلہ ہے۔ اِس کی طرف صرف کفار
کو ہی دعوت نہیں دی جاتی کہ وہ اس پر ایمان لے آئیں۔ اور صرف مشرکین کو ہی اس کی
طرف نہیں بلایا جاتا کہ وہ اِس پر اپنا اعتقاد درست کرلیں۔ اِس کی طرف اہل ایمان
کو بھی باقاعدہ بلایا جاتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا…!
اور اس میں عجیب بات کیا
ہے کہ لا الٰہ الا اللہ ہی تمام قضیوں کا اصل قضیہ ہو!
قرآن نے اِس قضیہ کو اتنی
توجہ دی تو دراصل یہ اس وجہ سے نہیں کہ قرآن ایک ‘مذہبی’ کتاب ہے۔ بلکہ اس کی وجہ
یہ کہ قرآن وہ کتاب ہے جو زمین پر انسان کی زندگی کی سمت متعین کرنے آئی ہے!
انسان کی زندگی اپنی وہ
راست سمت کبھی نہیں پاسکتی جب تک یہ اُس ‘‘حق’’ کو نہ پالے جو تخلیقِ سماوات وارض
کے پیچھے بولتا ہے، بلکہ جب تک یہ اُس ‘‘حق’’ کے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہ کرلے… نہ
اس سے ہٹے اور نہ اسکے تقاضوں سے باہر نکلے۔
اور وہ ‘‘حق’’ جو آسمان و
زمین کی تخلیق کے پیچھے بولتا ہے صرف ایک ہے: نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ۔ وہ اکیلا
ہے جو پیدا کرنے والا ہے۔ وہ اکیلا ہے جو ضرورت رساں ہے۔ وہ اکیلا ہے جو اختیارات
کا مالک ہے۔ وہ اکیلا ہے جو تدبیرِکائنات کرتا ہے۔ وہ اکیلا ہے جو کائنات کو تھام
کر رکھے ہوئے ہے۔ نہ اُس کے سوا کوئی خالق ، نہ رازق، نہ کسی کی تدبیر اور نہ کسی
کا امر۔۔۔ اور یہ سب حقیقتیں تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اکیلا ہے جس کی عبادت ہو، کوئی
اُس کے ساتھ شریک نہ ہو۔ عبادت اور پرستش جس چیز کا نام ہے اُس کا ایک ذرہ کسی اور
کے آگے پیش نہ ہو۔
اتنا ہی نہیں کہ یہ بندوں
پر اللہ کا حق ہے … بلکہ یہ انسان کا اپنا ہی قضیہ ہے۔
کیا شک ہے کہ اللہ خالق
اور رازق اور منعم اور محسن ہونے کے ناطے یہ حق رکھتا ہے کہ عبادت صرف اُس کی ہو،
اور خدائی کسی اور کے لیے تسلیم نہ کی جائے… مگر وہ اپنے بندوں اور ان کی تمام تر
عبادت اور ریاضت سے غنی و بے نیاز بھی تو ہے! بندے عبادتیں کر کے اُس کی خدائی میں
کچھ اضافہ کریں گے اور نہ کفر وسرکشی کرکے اُس کی خدائی میں کچھ کمی۔ پس یہ مسئلہ
تو خود اِس انسان کا ہے!
اے میرے بندو! اگر تمہارے
مومن کیا کافر، نیک کیا بد، سب اُس شخص جتنے نیک ہوجائیں جو تم میں سے سب سے بڑھ
کر نیک ہے، تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہ ہو۔ اور اگر تمہارے مومن کیا
کافر، نیک کیا بد، سب اُس شخص جتنے بدکار ہوجائیں جو تم میں سب سے بڑا بدکار ہے،
تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر نقص واقع نہ ہو۔ (صحيح مسلم)
اور موسیٰؑ نے کہا کہ
"اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے
نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے" (سورة إبراہيم: 8)
جبکہ انسان کا معاملہ اس
کے برعکس ہے…
ایک طرف… یہ انسان خدا کے
لطف وکرم سے کسی ایک لمحہ کیلئے بےنیاز نہیں:
اے انسانو! اپنے اوپر
اللہ کا احسان ذہن میں لے کر آؤ کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے کہ آسمان
اور زمین سے تمہیں روزی دے، اس کے سوا کوئی معبود ہے ہی تو نہیں، تو تم کہاں
اوندھے جاتے ہو (سورة فاطر: 3)
تو دوسری طرف… عبادت کرنا
اِس کی فطرت۔ اِس کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں جس میں یہ کسی نہ کسی چیز
کی عبادت نہ کر رہا ہو، خواہ وہ شعوری طور پر ہو یا لاشعوری طور پر(۱)۔ زندگی کا کوئی ایک لحظہ
نہیں جب اِس کا معاملہ دو صورتوں سے باہر ہو: یا یہ عبادت گزار ہوگا اللہ وحدہٗ
لاشریک کا، اور یا یہ عبادت گزار ہوگا اللہ کے ساتھ یا اللہ کو چھوڑ کر کسی غیر
ہستی کا۔ اور جب غیر کی عبادت ہوگی تو خواہ وہ اللہ کے ساتھ ہو یا اللہ کو چھوڑ
کر، ایک برابر ہے؛ قرآن اس کو شیطان کی عبادت قرار دیتا ہے کیونکہ یہ شیطان کا
تقاضا پورا کرنا ہے:
اے اولاد آدم کیا میں نے
تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (سورة يس
60 - 61)
اِسی طرح انسان کی فطرت
میں خواہشات کے ساتھ ایک گہری لگن رکھ دی گئی ہے:
مرغوب چیزوں کی محبت
لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع
کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا
سامان ہے (آل عمران 14 )
اِن مرغوباتِ نفس کی جانب
میلان کسی حکمت کے تحت رکھا گیا ہے، تاہم یہ مرغوبات اُن رخنوں کا بھی کام دیتے
ہیں جہاں سے شیطان نفسِ انسان میں در آنے کے لیے جگہ پاتا ہے اور وہاں سے اس کو
اپنی ڈالی پر چڑھا کر رفتہ رفتہ خدا کی عبادت سے باہر لے آتا ہے۔ خدا کی عبادت سے
دور کردینا کہیں وقتی ہوتا ہے جس کو ‘‘معصیت’’ کہا جاتا ہے: لا يزني الزاني حين
يزني وهو مؤمن ، ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن..(۲) اور کہیں وہ کلی انداز کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ
سے ناطہ مطلق طور توڑا جا چکا ہوتا ہے، شرک کی صورت میں، یا کفر کی صورت میں، یا
جحود کی صورت میں:
قَالَ فَبِمَا
أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَثُمَّ لآتِيَنَّهُم
مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن
شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ(۳)
اب کہاں وہ زندگی جو خدا
کی عبادت ہو اور کہاں وہ زندگی جو شیطان کی عبادت ہو:
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا
عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (۴)
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي
الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ(۵)
اللہ کا فضل اور کرم اصل
میں یہ ہے کہ۔۔۔ جب انسان اللہ کا حق ادا کرنے لگتے ہیں، یعنی اُس کی ربوبیت کو
تسلیم کرتے اور اپنی نیاز اور عبادت کے جملہ افعال کو اُس کے لیے خاص کردیتے ہیں
اور اپنے اندر پایا جانے والا بندگی کا مادہ خالص شکل میں اُس کی عظمت پر نچھاور
کرنے لگتے ہیں۔۔۔ تو پھر وہ احسنِ تقویم (عمدہ ترین ہیئت) میں آجاتے ہیں۔ دنیا میں
اُن کی زندگی اعلیٰ ترین اور پاکیزہ ترین اور حسین ترین ہوجاتی ہے اور آخرت میں وہ
بارگاہِ خدا میں باریابی کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اس حقیقت کے ساتھ کفر کر لینے
کی صورت میں دنیا میں اُن کا وقت گزارنا جانوروں کی طرح چرنا ہے، اور آخرت میں
خدائی پاداش کا حقدار بننا۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا
يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى
لَّهُمْ(۶)
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا
الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى
فَبَشِّرْ عِبَاد(۷)
ِ یہ وجہ ہے کہ انسان کو
ہر لحظہ اس لا الٰہ الا اللہ کی ضرورت ہے۔
کافر اور مشرک ہے… تو لا
الٰہ الا اللہ کی ضرورت ہے کہ یہ اپنا اعتقاد بنیاد سے درست کر لے۔ اور اگر مومن
ہے… تو لا الٰہ الا اللہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ اس پر قائم رہے اور اپنے نفس میں
شیطان کے داخلے کے راستوں کو مسدود کیے رکھے جو ہر وقت اس تاک میں ہے کہ وہ اِس کے
عمل اور رویے کو خدائے لاشریک کی عبادت اور اطاعت نہ رہنے دے۔
پس ہر صورت میں؛ اس لا
الٰہ الا اللہ کو انسانی زندگی میں ایک معیّن کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ لا الٰہ
الا اللہ کوئی ایسی ‘‘عبارت’’ بہرحال نہیں ہے جو بول دی جائے اور پھر وہ ہوا میں
تحلیل ہوجائے، نہ نفس میں اس کا کوئی اثر، نہ ماحول میں اس کی کوئی بازگشت، اور نہ
زندگی میں اس کا کوئی اقتضاء!
(۱) وہ
لوگ بھی جو اپنے تئیں ‘ملحد’ ہیں نہ کسی چیز پر ‘ایمان’ رکھتے ہیں اور نہ کسی چیز
کی ‘عبادت’ کرتے ہیں، یہ اپنی اھواء کو پوجتے اور اپنی خواہشات کی غلامی کرتے ہیں۔
قرآن میں فرمایا: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاه (الجاثيۃ :23) ‘‘کیا
دیکھا تو نے اُس شخص کو جس نے اپنی ھوائے نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے’’
(۲) أخرجه
الشيخان . ‘‘زانی نہیں زنا کرتا مگر اس حال میں جب وہ مومن نہیں ہوتا، اور چور
چوری نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مومن ہو’’
(۳) (سورة الأعراف 16 - 17 ) . بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا
میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں
گا ان کے آگے اور ان کے پیچھے او ر ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں
سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا
(۴) الملك
(22) تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے
سیدھی راہ پر
(۵) الرعد
(16) تم فرماؤ کیا برابر ہوجائینگے اندھا اور انکھیارا؟ یا کیا برابر ہوجائیں گی
اندھیریاں اور اجالا؟
(۶) محمد
(12) اور کافر برتتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھائیں اور آگ میں ان کا
ٹھکانا ہے
(۷) الزمر
(17) اور وہ لوگ جو طاغوت کی پوجا سے بچے اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے انہیں کے لیے
خوشخبری ہے تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو