ألبراليــــون هــــــؤلاء؟!
د. جعفر شيخ إدريس
دیسی لبرل!
محمد زکریا خان
zakria@eeqaz.org
مشرقی اور خاص کر مسلم دنیا کے تناظر میں لبرلزم کی دو اقسام ہیں:
ایک، ‘باہر کا بنا ہوا، اصلی’۔
دوسرا، ‘یہاں کا بنا ہوا، دو نمبر’، جس کو ہمارے یہاں ‘اصلی’ کے نام پر بیچا جارہا ہے!
اول الذکر کے مالکان خود اپنا تیارکردہ مال بیچ رہے ہیں، لہٰذا اُن کے ساتھ بات ہوسکتی ہے۔ اُن کے مال میں کیا کیا نقص ہے، اُن کو نشاندہی کرکے دی جاسکتی ہے۔ یہ نقائص بے حد زیادہ ہیں، مگر آپ اُن کے ساتھ گفت و شنید کرسکتے ہیں۔ وہ سننے کے لیے تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ کسی کسی وقت وہ آپ کی بات تسلیم بھی کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی چیز کا عیب دور کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ، جیساکہ وہ عرصۂ دراز سے اپنی اِن اشیاء کو بہتر سے بہتر بنانے میں لگے ہیں؛ لہٰذا تنقید کو خاصی وقعت دیتے ہیں۔
مگر ‘دو نمبر’ مال بیچنے والوں کے ساتھ آپ یہ معاملہ نہیں کرسکتے؛ کیونکہ ‘اصل’ جس کی نقل ہورہی ہے اِن کی اپنی تیارکردہ نہیں۔ اِن کی مہارت ‘کاپی’ کرنا ہے؛ اور یہی اِن کی کامیابی کا پیمانہ۔ اِس میں کوئی ‘تبدیلی’ یا ‘بہتری’ لانی ہے تو وہ ‘‘اصل’’ والے نے لے کر آنی ہے ۔ اِس پر کسی ‘نظرثانی’ کی ضرورت ہے تو وہ ‘‘اصل’’ والے کا اختیار ہے اور اُسی کو اِس كا كوئی عيب يا نقص جاننے سے بھی کوئی دلچسپی ہوسکتی ہے؛ اِن کی تو چیز ہی تب بکے گی جب وہ زیادہ سے زیادہ ‘‘اصلی’’ معلوم ہو!
چنانچہ دیسی نقالوں کے ساتھ آپ لبرل ازم پر گفتگو نہیں کرسکتے؛ ایک لمحے میں مسئلہ خراب ہوجائے گا۔ ان دانش وروں میں وہ اسپرٹ یکسر مفقود ہے جو مغرب کے فلاسفہ کے ہاں پائی جاتی ہے۔لبرل ازم کے اصل ‘مالکان’ اپنے نظریے میں سقم تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، ہمارے نقال اسے ہر عیب سے ماوراء بتائیں گے، ناقابل تنقید، ‘مقدس گائے’! آپ ایک ایسے شخص سے کیا مکالمہ کرلیں گے جس کی حدِتخیل یہ ہے کہ وہ یورپی مخلوق نظر آئے اور اس کی ہر چیز یورپ سے آئے! یہ تو وہ عبقری ہیں جو آپ کو یورپی باشندے کے شکم میں پلنے والے کیڑوں تک کے فوائد انگلیوں پر گنوا دیں! زیادہ عرصہ نہیں ہوا ترکی کے انقلابی ‘کمال اتاترک’ اور مصر کے عبقری ‘طہ حسین’ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اہل مغرب سے میٹھا کڑوا سب ہی لینا ہو گا۔ ڈاکٹر زکی نجیب محمود راہ حق پر آنے سے پہلے کہا کرتے تھے: ‘‘اپنے یہاں فکر کی بالیدگی ناممکن ہے جب تک ہم اپنےفکری ورثے سے جان نہیں چھڑا لیتے، اپنے معاصرین جیسا علمی وتہذیبی طرزِحیات اختیار نہیں کرلیتے، انسان اور کائنات کو اُسی نظر سے دیکھنے نہیں لگتے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہم کھائیں تو اُن کی طرح، کام میں جتیں تو اُن کی طرح، کھیل شغل ہو تو ان کی طرح، لکھیں تو اُن کی طرح بائیں سے دائیں’’!
بتائیے کیا ایسے مقلدِجامد کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ ایسا شخص جس کی ہر رائے وہی ہونی ہو جو پیشواؤں کی ہے!
اِس خطے کی قسمت میں شاید اصلی چیز ہے ہی نہیں۔ جو چیز دیکھو، دو نمبر! (جس قوم کے پاس سب سے اصل چیز ہو – یعنی کتابِ ہدایت – اور وہ اس سے لاتعلق ہو، اس پر تعجب بھی کیسا!)
کل ہمیں دو نمبر ‘اشتراکیوں’ سے واسطہ تھا اور آج دو نمبر ‘لبرلوں’ سے۔ دونوں کا یہ خیال رہا ہے، اور برحق ہے، کہ اِس طفیلی پن کے راستے کی اصل رکاوٹ یہاں پر اسلام ہے۔ یہاں سے دونوں کو ‘اسلاموفوبیا’ کا مرض لاحق ہوا۔ ہمارے یہاں کے اشتراکیوں کا حال یہ رہاتھا کہ ان کی دعوت جس کا کل تعلق ‘غریب کی فکر کرنے’ اور ‘معاشی اصلاحات کا بیڑا اٹھانے’ سے تھا، ہمارے اِس عالم اسلام میں ان کی اصل پریشانی البتہ سرمایہ داری مصنوعات بیچنا ہوگئی تھی۔ عالم اسلام میں ان کی ایک بہت بڑی ترجیح ڈانس، بدکاری، میوزک، شراب، فحاشی اور حرام کاری کی ترویج ہوگئی تھی۔ یعنی سرمایہ داری کلچر کا ایک گھٹیا اور سستا آؤٹ لیٹ۔ انسانی خواہشات اور کمزوریوں کا استحصال۔ یہ سرمایہ داری مصنوعات بیچنا ہمارے یہاں کے ‘اشتراکیوں’ کے لیے اس قدر ضروری کیوں ہوگیا تھا؟ اس لیے کہ اسلامی اقدار جو اس بدکاری اور غلاظت کے راستے کی رکاوٹ تھیں وہی اسلامی قدریں عالم اسلام کے نوجوانوں کے اِن لوگوں کی جانب مائل ہونے میں رکاوٹ تھیں۔ لہٰذا ‘حکمت عملی’ کا تقاضا تھا کہ اس قحبہ گری کا سہارا لے کر یہ نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرلیں اور اسلام کی قیود سے ان کو باہر لے آئیں؛ جس کے بعد وہ اِن کی فکری مصنوعات کے بھی خریدار ہوجائیں گے! کیونکہ ان کے مقابلے پر جو اسلامی تحریکیں تھیں وہ نوجوانوں کو عقائد ، عبادات، فرائض اور اخلاق ایسے عزم الامور کا بار اٹھوارہی تھیں اور ان پر حلال و حرام ایسی بندشیں لگارہی تھیں؛ لہٰذا یہ اس کے مقابلے میں ان کو فحاشی اور سفلہ پن بیچ کر اپنی مارکیٹ بنالیں گے! وہی ابلیسی حربہ جس سے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو پہلے دن خبردار کیا تھا:
يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا (الاعراف: 27)
اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔
إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء (البقرۃ: 169)
شیطان تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے۔
حالانکہ۔۔۔ اِدھر جہاں ہمارے کمیونسٹ سرمایہ داری مصنوعات کے بیوپاری بنے ہوئے تھے، اُدھر مغرب میں ان کے بھائی اس کے برعکس حالت پر تھے۔ مغرب کے کمیونسٹ اس لچر کلچر کے خلاف محاذآرا تھے۔ یہاں تک کہ سٹالن کی ایک بیٹی اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ ہمارےے والد ہمیں شارٹ اسکرٹ کے پہننے سے منع کرتے تھے۔ مغربی پاپ میوزک پر اشتراکی ممالک میں پاپندی عائد تھی۔ ‘راک اینڈ رول’ کے کیسٹ اشتراکی ممالک میں غیر قانونی طور پر سمگل ہوتے تھے۔ سویت یونین کے بکھرنے کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے ماسکو جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے مشاہدہ کیا کہ ماسکو میں خواتین کا لباس یورپی اور امریکی خواتین کی نسبت کہیں زیادہ باوقار تھا۔ بعد میں جب مغربی کلچر کے سامنے رکاوٹیں ہٹ گئیں تو روس اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں وہ بے لباسی دیکھنے میں آئی جو پہلے وہاں ناپید تھی۔
اب اُنہی ‘اشتراکیوں’ کے نقش قدم پر ہمارے یہ ‘دو نمبر’ لبرل ہیں، جو ‘اسلاموفوبیا’ کی وہی کہانی دہرا رہے ہیں۔ ایک بڑا فرق البتہ یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو سوویت یونین کا حاشیہ بردار ہونے کے باعث مغربی استعمار کی مخالفت کرنا تھی۔ جبکہ ہمارے لبرلز کی یہ مجبوری نہیں۔ ان کو استعمار کی تحسین کرنی ہے۔ استعمار نہ آتا تو اسلامی اخلاق اور اقدار کی بیڑیاں کون توڑتا! ان کے اسلام دشمن لبرلزم کو جنم کون دیتا! میں ایک ایسے لبرل سے واقف ہوں اور اپنے کانوں سے اس کی یہ خواہش سن چکا ہوں کہ اس کے ملک میں بھی عراق کی طرح امریکہ کو گھس آنا چاہیے۔ یہ صاحب عراق میں امریکی افواج کے لیے ایسی ہی خدمت دے کر فارغ ہو چکے تھے۔ بعد میں کھوج لگانے پر مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے لبرل اس قسم کے موقف پر تعجب نہیں کرتے۔ صرف یہاں تک ہی نہیں، لبرلزم کا یہ دو نمبر مال بش کی تائید میں مظاہرےکرنے سے نہیں ہچکچاتا۔
عالم اسلام میں پائے جانے والے مغربی افکار کے ‘‘مقلدین’’ جو آج کل ‘لبرل’ کہلاتے ہیں مغربی افکار میں سے صرف باطل نظریات ہی درآمد کرنے پر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ خود مغرب نے ایسے باطل نظریات اس گمان پر اختیار کیے تھے جو ان کے خیال میں مغرب میں پائے جانے والے خلفشار کا حل ثابت ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ وہ نظام اور نظریات آپ اپنی ذات میں باطل ہیں، نہ وہ مغرب کے لیے درست ہیں اور نہ مشرق کے لیے۔ تاہم ممکن ہے مغربی ممالک کے لحاظ سے باطل ہوتے ہوئے ان نظریات نے کوئی فائدہ پہنچایا ہو۔ عالم اسلام کے اپنے حالات ہی مغرب سے سراسر مختلف ہیں۔ ایسے نظریات جو مغرب میں ان کے حالات کے لحاظ سے کچھ تبدیلی لائے بھی ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عالم اسلام کے لیے کیسے ضروری ہو گئے؟ یہاں وہ مغرب والے حالات بھی نہیں ہیں یہاں کا ماحول بھی ان افکار کے لیے قطعاً ساز گار نہیں ہے۔ یہاں بھی انہی افکار اور نظریات کی پیوند؟!
باطل نظریات کو رواج دینے میں ہم نے اپنے دیسی لبرلز کو نہایت سرگرم عمل پایا ہے لیکن مغرب میں چند اعلیٰ اقدار بھی پائی گئی ہیں اُن پر ہم نے کبھی ان لبرلز کو سرگرم ہوتے نہیں دیکھا! چلیں اُن اشیاء میں بھی تو یہ کبھی اعلیٰ نمونہ بن کر دکھاتے!
مقلدینِ مغرب کو لاحق تیسری آفت یہ ہے کہ یہ مغرب کے بعض افکار اور سسٹمز اپنے یہاں کچھ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے درآمد کررہے ہیں جن کا اپنے یہاں وجود ہی کہیں نہیں ہے!
اس کی ایک مثال: سیاست سے مذہب کو بے دخل کرنے کا فلسفہ جو سیکولرزم کہلاتا ہے، مغرب کو اس نظریے کی اس لیے ضرورت پڑی تھی کہ مغرب میں پائی جانے والی تھیو کریسی(مذہبی شخصیات کی اجارہ داری) جنگ و جدال کا سبب بن رہی تھی۔ اگر اقتدار پر کیتھولک قابض ہوتے تو وہ صرف اس پر اکتفاء نہ کرتے تھے کہ ریاستی امور کو سنبھالیں بلکہ ان کی سب سے بڑی ترجیح عیسائیت کے دوسرے فرقے پروٹسٹنٹ سے جینے کا حق چھیننا ہوتی تھی۔ قابض فرقہ اپنی ساری توانائیاں مغلوب فرقے کے نظریات کی بیخ کنی پر لگا دیتا تھا اور انہیں جبری مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اِدھر عالم اسلام الحمد للہ کبھی ایسی رسہ کشی کا شکار نہیں رہا۔ مثال کے طور پر اہل سنت نے جس زمانے میں معتزلہ ایک اہم فرقہ تھا کبھی انہیں اپنے اعتقادات تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ علمی مباحث ضرور ہوتے تھے جو کہ ایک مثبت رویہ کی غمازی کرتے ہیں۔ اہل سنت سے اصولی اختلاف کرنے والے فرقوں کو تبدیلی مذہب پر مجبور کرنا تو دور کی بات ہے اہل سنت نے تو کبھی یہود و نصاریٰ کو اپنی قلمرو میں تبدیلی دین پر مجبور نہیں کیا۔مسلمانوں کے خطوں میں دوسرے ادیان کے پیروکار اپنے خاص مذہبی تہواراور عبادت کے رسم و رواج ادا کرنے میں آزاد تھے۔ ایسی فراخ دلی تو آپ کو لبرل ازم میں بھی کہیں نظر نہ آئے گی۔
چنانچہ یورپ میں لبرل ازم کے قبول عام ہونے کی ایک وجہ تو مذہبی مقتدر طبقہ کی فوج داری والا رویہ تھا ۔ بعدازاں لبرل ازم کی تحریک کی کامیابی میں خود ان مذہبی شخصیات کی موافقت شامل رہی ہے بلکہ ان کا تعاون بھی رہا ہے۔ ادھر عالم اسلام میں ہمارے نقال لبرل سیکولرزم کو مسلط کرنا چاہ رہے ہیں جہاں عوام کیا مذہبی شخصیات کوئی شخص اسلام سے وابستگی چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور جہاں ہر اجنبی فلسفے کے خلاف اللہ کے فضل سے شدید بے چینی پائی جاتی ہے، اور جہاں مسالک کے مابین ہمیشہ سے ہی کمال آہنگی پائی گئی ہے یہاں تک کہ ان کے مابین لڑائی بھڑائی کرانے والے عناصر آج بھی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور زیادہ تر بیرونی مقاصد کو پورا کرانے کا ذریعہ ہیں!یہ حال تو ہے یہاں کے جعلی لبرلز کا، اگر یہاں اصلی لبرل پائے جائیں تو کیا کیا تماشے ہوں گے، اس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔
اصل مضمون کا لنک:
http://www.albayan.co.uk/MGZarticle.aspx?ID=1051