طمانچہ
موقع المسلم / محمد زکریا خان
بحرین میں صفوی ساسانی انقلاب کے آگے سنی مسلمانوں کی شدید مزاحمت،اہلسنت میں ٹھیٹ سلفی عقیدے کے احیاءنے بحرین کو بچا لیا۔
اگر خطہ میں سنی علماءنے پہلے سے صفوی ساسانی خطرے سے رائے عامہ کو خبردار نہ کیا ہوتا تو بحرین میں آج سیاہ عمامے ناگ کی طرح پھنکار رہے ہوتے۔ ایران اپنے خونیں انقلاب کے دن سے ہی پڑوسی ممالک میں ایران جیسے انقلاب کے بیج بوتا رہا ہے یہاں ہمارے ہاں سنی مسلمانوں میں نادان قیادتیں ایرانی انقلاب کی مثالیں دیتی رہی ہیں۔ یوں تو شاہ رضا پہلوی کے زمانہ اقتدار میں ہی پورے عربستان پر ساسانی تسلط کا منصوبہ طے پا چکا تھا خاص طور پر خلیج کی ریاستیں ان کےلئے نوالہ تر کی طرح تھیں۔ خمینی انقلاب سے اس منصوبے میں شیعی تعصب کا اضافہ ہواباقی سارا منصوبہ پہلے کی طرح موجود تھا۔ خمینی کے تقیہ پر مبنی اسلامی انقلاب میں عربوں سے نفرت مجوسیوں سے بھی بڑھ کر رہی ہے۔ مجوسی اگر مجوسی کہلائے تو مسلمان اسے کافر سمجھ کر اپنے منصوبے بنائیں لیکن اگر تقیہ کے مذہب کے پیچھے عربوں کے خلاف بغض چھپا ہو تو سنیوں کو اسے سمجھنے میں تیس سال کا طویل عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ لینے سے یہاں فارسی تعصب ختم کیا ہونا تھا الٹا ایران کے مقامی شیعی عرب بھی فارسی تعصب کا شکار چلے آرہے ہیں۔ ایران کو ہر اس چیز سے بغض ہے جس میں عروبیت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایران کی قیادتیں آج تک خلیج عرب کو خلیج فارسی کہنے سے باز نہیں آئیں۔ کہا گیا کہ چلیں نہ خلیج فارس،نہ خلیج عرب،خلیج اسلامی نام رکھ لیتے ہیں۔ اس پر بھی فارسی تعصب راضی نہ ہوا۔کہا گیا کہ کیوں نہ خلیج علی نام رکھ لیں؟ نہیں! اچھا چلو خلیج حسین سہی۔ حسین حسین کا ماتم کرنے والے حسین کو دولت ساسان کی بحالی کیلئے استعمال کرتے ہیں نہ کہ حسین کا دین انہیں عزیز ہے۔
شاہ بحرین حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کو پچھلے دنوں ہی یہ بات سمجھ میں آئی کہ فارسی خطرہ بحرین میں پچھلے تین عشروں سے سر طان کی طرح پھیل چکا ہے۔ شاہ کی حکومت منامہ میں دفتر سنبھالنے کے ساتھ ہی فارسی عزائم کے سامنے مجبور دیکھی گئی۔ پچھلے دنوں شاہ کو ہوش آیا کہ پانی سر سے گزر گیا ہے۔ فارسی استعمار کی بو سونگھتے ہی شاہ نے خلیجی مشترکہ دفاع کی فوج سے مدد کی درخواست کی۔ گزشتہ تیس سالوں سے یہ سپاہ مفت کی کھا رہی تھی۔ اب بھی شاید سرکاری سطح پر ایسا ردعمل سامنے نہ آتا وہ تو خلیج کے غیور عوام تھے جن میں گزشتہ دو عشروں سے سلفی فکر انڈیل دی گئی تھی۔ عرب نوجوان پوری بیداری سے صفوی خطرے کو دیکھ رہے تھے۔ اب موقع آیا تو ان کا جوش دیدنی تھا۔ خلیج کی مشترکہ دفاعی فوج نے بھی اسی سے حوصلہ پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے دین کے اصل وارث اور اس پر جان دینے والے یہاں کے علماءاور عوام مسلمان رہے ہیں۔
فارسی ناگ ابھی بحرین میں اپنی ناکامی پر بل کھا رہا تھا۔عمامے سروں سے سرک سرک کر گردنوں میں پھندے بن رہے تھے کہ کویت نے ایران کی سازش بے نقاب کر دی۔ کویت میں باقی خلیجی ریاستوں کی نسبت آزادی ہے ۔اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے صفوی سازش وہاں انقلاب کےلئے خاصی دراڑیں ڈال چکی تھی۔
ابھی بحرین کی چوٹ کا زخم ہرا تھاکہ کویت نے کم از کم آٹھ جاسوسی ایرانی نیٹ ورک کا انکشاف کر کے جن میں پارلیمنٹ کے ممبران بھی تھے انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
ابھی بھی اس ناگ کا سر نہیں کچلا گیا۔ بظاہر مصر میں تبدیلی کو فارسی ریاست بہت سرا ہ رہی ہے لیکن درپردہ مصر میں فارسی عزائم کا خاتمہ حسنی مبارک کی بے دخلی کے ساتھ ہی ہو گیا ہے۔ مصر میں فاطمی استعمار کے دوران بھی کبھی شیعت نہیں پنپ سکی مگر حسنی مبارک کے منحوس دور میں قاہرہ سیاہ عماموں کی آماج گاہ بنا رہا۔۔حسنی مبارک کے ساتھ فارسی سازش بھی یہاں شاید بہت عرصے تک اپنے پاؤ ں نہ جما سکے۔
ادھرلیبیا میں قذافی کا اقتدار اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ قذافی اپنے سامنے افریقہ میں ایک وسیع عبیدیین(1) کی جدید سلطنت کا خواب دیکھ رہا تھا۔ قذافی کے دور اقتدار میں سرکاری سرپرستی میں خرافات،بد اعتقادی،قبر پرستی اورگمراہ صوفیت کا زور رہا۔افریقہ کے اس خطے میں ایسی بدعت کے رونما اور عام ہونے پر ہی عبیدی سلطنت وجود پا گئی تھی۔قذافی ایک عرصے سے عبیدی سلطنت کی متعفن فضاؤں کو یہاں لانا چاہ رہا تھا۔
خدا بھلا کرے ہمارے سنی علماءکا جو پچھلے ڈیڑھ عشرے سے نہ صرف صحابہ والے عقیدے کو پھر سے زندہ کرنے میں اپنی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں بلکہ انہوں نے ہی ساسانی صفوی خطرے سے عوام کو چوکنا کر رکھا تھا۔
موجودہ ایرانی قیادت پورے عراق کو بزرگ شیطان امریکہ کے توسط سے ہڑپ کر چلی ہے۔افغانستان کا ایک حصہ بھی ایران کے سپرد کرنا طے پاگیا ہے۔اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ خلیجی ممالک کے عوام کی طرح دوسرے سنی اکثریت والے ممالک ہوش کے ناخن لیتے ہیں یا پھر امام خمینی کے اسلامی صفوی انقلاب کی مثال سے قوم کو لوریاں دیتے رہتے ہیں!
جہاں تک خود خلیجی مملکتوں کے سربراہوں کا تعلق ہے تو انہیں کئی جیتی جنگیں ہارنے کا تجربہ ہے۔صیہونی ریاست سے خائف رہنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ غیور اور جانباز امت کا سودا کرنا انہیں خوب آتا ہے۔ لیکن زمانہ کروٹ لے چکا ہے۔ صفوی خطرے کا بہانہ بنا کر اگر شاہ بحرین نے کوئی دفاعی منصوبہ صیہونی قابض ریاست سے کیا تو اپنے انجام کی آپ ذمہ دار ہو گی۔ ویسے بھی شاہوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔
(1) عبیدیوں کی دولت، جوکہ فاطمی دولت کے نام سے چلتی رہی ہے۔ یہ ایک چالباز فارسی خاندان کی حکومت تھی جس نے آل بیت کا نام ہتھیا کر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنا نسب جوڑ کر مراکش تا مصر اپنی باطنی رافضی دولت قائم کر لی تھی۔ بعد ازاں، اس شجرۂ خبیثہ کو صلاح الدین ایوبی نے جڑ سے اکھاڑا تو خطہ میں صلیبیوں کے ساتھ جنگ میں پورا اترنا ممکن ہوا۔ چونکہ اس کی ’فاطمی‘ نسبت ایک جھوٹ ہے، اسلئے علمائے اہلسنت اس کو عبیدی ریاست کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔