اسلام پسند بھی گڑھی خدا بخش کی نذر؟
تحریر: محمد زکریا خان
اسلام پسندوں کے پاس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ہی شخصیت تھی وہ بھی گڑھی خدا بخش میں منعقدہ برسی کی نذر ہو گئی!
ہمارے ہاں مذہبی رجحانات، دھڑے بندیوں اور تنظیموں کے عجیب ہی ڈھب ہیں۔ سیکولر یہاں خاصا آسودہ پایا جاتا ہے جبکہ پنج وقتہ نمازی کے گرداگرد مذہبی رجحانات بہت سی الجھنیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگر قبولیت نماز کو زیر بحث نہ بھی لایا جائے تو بہت ساری کوتاہیاں ایک نمازی کے سامنے رکھی جاتی ہیں جو اس کی نماز میں ضعف کا سبب بتائی جاتی ہیں۔ بھلے اس نے مسواک بھی کیا ہو لیکن مسواک کے سائز کا مسئلہ درجات کیلئے ازبر رکھنا شاید چوک گیا ہو۔ سر ڈھانپنا کب کفایت کرتا ہے ٹوپی کے رنگ،بُنت،سائز اور ٹوپی کی شکل میں فضائل نماز کے بہت سے درجات پوشیدہ ہیں۔ غسل میں بھی بعض اعضاءجنہیں سرسری لیا گیا ہوگا اس وجہ سے نماز اکارت کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ناف کی اچھی طرح پڑتال کر لی گئی تھی۔ گردوغبار نے ناف کے کسی گوشے میں مورچہ تو نہیں بنا لیا تھا۔ کان کے سوراخ کی خبر لی یا نہیں!
جن دنوں کوئی نمازی اپنی گزشتہ نمازوں کے اکارت نہیں تو فضائل میں کمی کی وجہ سے افسردہ خاطر تھا انہیں دنوں گڑھی خدا بخش خاصی پر رونق تھی۔یہاں بڑوں بڑوں کا امتحان درکار تھا۔ آپ بھٹو کی درگاہ پر حاضر ہو کر جان کی سلامتی چاہتے ہیں یا نہیں۔ سیانوں نے اپنی اپنی پسند کی جماعتوں کو کہہ بھی دیا تھا کہ ہاتھ ہولا رکھیں پیپلز پارٹی منصہ شہود پر آنے کو ہے۔ اچھے اچھے خدا پرست بینظیر کے مقتل پر سندھ یاترا کر آئے تھے۔
پیپلز پارٹی سیکولر ہے اس لیے خاصی آسودہ ہے۔ ضیاءبیچارے کو اسلام سے شغف ہو گیا تھا۔ اسلام کے لیے نرم گوشہ تو جہاں تک سننے میں آیا ہے بانی پاکستان کے دل میں بھی پایا جاتا تھا، لیکن دفتروں میں نماز کی باجماعت پابندی جیسا سنجیدہ قدم ضیاءنے اٹھایا تھا۔ جن بیرو کریٹس کی گردنیں اب تک سفارت خانوں میں جا کر جھکنے کی عادی تھیں اور دفتر میں کلف چڑھے سوتی کرتے کی طرح اکڑی ہوئی ہوتی تھیں انہیں خدا کے آگے کمر جھکانے میں فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کرنا پڑی تھیں!
بھٹو کا سول مارشل لاءاگر ضیاءالحق کے ہاتھوں کیفر کردار کو نہ پہنچتا تو آج پاکستان بیروت اور قاہرہ سے بڑھ کر برہنگی کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ فرعون کو بھی اپنی کرسی اور وسائل پر بڑا گھمنڈ تھا۔ چلا تھا وہ آسمانوں میں جھانکنے۔ بھٹو پر بھی کرسی کی حقیقت رسی کی تنگ ہوتی گرہ تک نہیں کھلی تھی۔ فرعون بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو نوازتا تھا اور پھر اُن سے بنی اسرائیل کی جاسوسی کرواتا اور وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی اطاعت کے درس دیتے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بابت بھی اُس کا یہی گمان رہا ہو گا۔ شریف گھرانے کا ہے وفادار ثابت ہو گا۔ ضیاءالحق کے بارے میں بھٹو کو بھی یہی غلطی لگی تھی۔ سلمان تاثیر بھی زیادہ سے زیادہ سیکورٹی لینا چاہتا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام بیشک غلام قوم میں پیدا ہوئے مگر ان کی گھٹی میں توحید پڑی تھی۔ مسلمان کا بچہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ورلڈ کپ کا تماشا گھنٹوں بیٹھا دیکھا کرتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اور عافیہ کی سر گزشت سے غافل بنا رہتا ہے مگر پھر بھی کہیں سے گولی نشانے پر لگ ہی جاتی ہے۔
کسی مذہبی گھرانے کی برسی ہوتی تو ہمارے مذہبی رحجانات آپ کو دلیلیں لا لا کر دیتے کہ برسی کیا تیجا منانا، قل خوانی کرنا فاتحہ تک پڑھنا بدعت ہے۔ یہ خانوادہ سیکولر ہے۔ جب تک نماز پڑھنے نہیں آتے انہیں نہ کلمہ سکھانا ہے اور نہ معنی بتانا ہے۔ برسی خوب منائی گئی اور اُس بیچارے کے بھی خوب لتے لیے گئے جو یہاں مقدور بھر اسلام کی شمع جلانا چاہتا تھا۔ جس نے نائٹ کلب بند کرائے اور مسجدیں آباد کیں۔ رمضان المبارک میں روزے کے اوقات میں ہوٹل قبرستان کا منظر پیش کرتے تھے۔ جام و دارو کا دور دورہ بھٹو کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ ہیلو کی جگہ السلام علیکم! لیڈی آپریٹر کو یہ کلمات کہنے کے لیے کافی پریکٹس کرائی گئی تھی۔ حسبہ کا قانون، متوازی اسلامی بینکاری، زکوٰۃ کا نظام، فوج میں اسلامی شعائر کا التزام۔ انگریزی الفاظ کی جگہ اردو اصطلاحات کے لیے ایک فعال سیل بنانا۔ اور سب سے بڑھ کر برسوں کی غلامی میں مدہوش قوم کو جہاد کی راہ دکھانا۔ بنی اسرائیل بھی فرعون کی غلامی سے نہیں نکلنا چاہتے تھے۔ پھر ایک ڈائنامک قیادت نے وہ کمال کر دکھایا کہ چند عشروں میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر سپاہ نے اپنے لیے آزاد وطن حاصل کر لیا تھا۔ آج امریکہ کو ہول آتا ہے یہ لفظ سن کر جسے عرف عام میں ’پنجابی طالبان‘ کہتے ہیں۔ ڈیڑھ صدی تک انگریز کے جوتے پالش کرنے والے آ ج اُسے خانہ ساز چپل سے ٹھوکریں مار رہے ہیں۔ کتنے اسلام پسندہیں جو ضیاءکے دست راست سمجھے گئے مگر آج گویا وہ اس کو جانتے تک نہیں! پرائے تو ضیاءاور ضیاءباقیات کے دشمن ہیں ہی، گڑھی خدا بخش والی اس برسی پر آپ منہ میں گھنگنیاں لے کر کیوں بیٹھ گئے ہیں۔ آپ کی سیاسی کارگزاری یہاں اگر کوئی ہے تو وہ یہی ٹینور ہو گا جب سرخ سویرے کا ایک گڑھا گڑھی خدا بخش میں کھودا گیا تھا تو دوسرا افغانستان میں۔ پھر اس پر بھی آپ شرمائے شرمائے؟! اس لیے کہ بھٹو جمہوریت پسند تھا اور ضیاءالحق ڈکٹیٹر! یہ فرنگی اصطلاحات آپ کے رویے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی، یہ دن بھی ہم اسلام پسندوں کی قسمت میں لکھے تھے۔ اوروں سے ہمیں کیا شکوہ ،وہ زیادہ اونچا بھی بول لیں گے تو یہی کہیں گے نا کہ برسی منانا بدعت ہے! اس پر دلائل لے آئیں گے! اس سے اوپر دیکھنا ہمارا کام تھا۔ بھٹو الحاد کا ایجنڈا تھا تو ضیاءاسلام پسندوں کی امید۔ پکا ملحد نہ بھٹو تھا نہ پکا اسلامی ضیاءالحق۔ ہاں اگر دونوں میں اپنے کاز سے کوئی وفادار ہو سکتا تھا تو اس کا فیصلہ شاید مشکل نہیں۔ اسلام اور پاکستان کی خیر خواہی چاہنے والے یہاں کم ہی پائے گئے ہیں۔ پھر اگر وہ تتر بتر نظر آئیں تو کفر کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ اور بہت ساری چیزوں میں بھی مفاہمت ہو ہی جاتی ہے۔ جب ایسا ہے تو اس وقت ضرورت یہ تھی کہ اسلام کا ایجنڈا سامنے آتا، برسی برسی نہیں مسئلہ ایک ایجنڈے کا احیاءہے۔ یہ بدعت سے زیادہ اسلام اور خطے کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہ وقت بولنے کا تھا نہ کہ شرمندہ ہونے کا۔ آپ خود بھی قیادت فراہم نہ کر پائیں اور برصغیر میں سے دستیاب قیادتوں کو بھی بھولی بسری یادیں بنا دیں یا یہ کہ وہ شرمناک کام تھے تو پھر آپ نے قوم کی کیا خدمت کی۔ حالی، اقبال، مودودی اور ضیاءاگر کوئی ایجنڈا نہیں تو بھٹو بہرالحال ایک ایجنڈے کا نام ضرور ہے۔ بھٹو کی برسی کہیں ہمارے برسہا برس نہ لے جائے۔ ہم بھی ضیاءالحق کو خلیفہ نہیں کہتے۔ ہم نے غائبانہ نماز جنازہ کی سعادت بھی حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی یہاں بتاتا چلوں برصغیر کے اندر آپ کے دامن میں دکھانے کو کچھ ہے تو وہ مذکورہ بالا شخصیات کے دم قدم سے ہی ہے۔ اگر آپ کے پاس چراغ نہیں تو ظلمتوں کو چھٹنے کے لیے ضیاءتو چاہیے نہیں تو زیاں ہو گا۔ مستقبل کا بھی اور نسلوں کا بھی!