یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
یہودی نقب زنی.. بذریعہ تلامذۂ استشراق.. تعلیم و اِبلاغ!
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
اسلام کے سب ٹکسالی نقوش کو کھرچ کھرچ کر ان کی جگہ کچھ نئے تصورات اور جدید بدعات ہیں جو ”علمیت“ کی سند کے ساتھ ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل کیلئے پیش خدمت ہیں اور ان کے کانوں میں صبح شام اب انہی اشیاءکی گونج ہے!
کیسے نئے سے نئے ”اسباق“ ہیں جو اسلام کے نام پر آج ہمیں بڑی محنت کے ساتھ پڑھائے جا رہے ہیں!
کوئی پوچھے، آج سے پہلے آخر کیوں یہ سبق ہمیں پڑھنے کو نہیں ملے تھے؟ چودہ سو سال تک مسلسل ہم اِن ”علمی دریافتوں“ سے محروم رہے تو آخر کیوں؟ کوئی سوچے، اسلام کے یہ اسباق ہمیں پڑھنے کو کیا تب ہی ملنے تھے جب ہمیں پڑھانے والے ”اہل کتاب مستشرقین“ کے ڈگری یافتہ ہوں اور انہی کے اعتماد یافتہ!
چلتے جائیے۔ ”افکار“ کی اِس یلغار سے جان نہیں چھوٹتی کہ ”شہوات“ کے لشکر ہم پر نہایت بے رحمی کے ساتھ چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ کیسے کیسے خونیں چھُرے ہیں جو ہمارے ناپختہ بچوں اور بچیوں کیلئے ”میس پروڈکشن“ سے نکالے جاتے ہیں! غلاظت کا ایسا سیلاب بھی کیا کبھی ہم پر آیا ہو گا جس میں آج ہمارے یہ نونہال غرقاب کرا دیے گئے ہیں؟ مسلم ہاتھوں سے اسلامی شریعت کا دامن چھڑوا دینے کی یہ ایک اور سطح ہے جس پر نہایت گرمجوشی سے ”کام“ ہو رہا ہے۔ کچی عمر کے ہمارے الہڑ جوان، عالم اسلام کا یہ قیمتی ترین سرمایہ.. یہودی قحبہ گر کے غلیظ پیروں میں رل رہا ہے۔ جذبات کی ہیجان انگیزی کے ہزاروں سائنٹفک حربے، جو انسانیت کو گندگی میں دفن کرانے کیلئے یہودی سگ منڈ فرائڈ کا دیا ہوا تحفہ ہیں، ہمارے اِن معصوم بچوں اور بچیوں پر تیر بہ ہدف نسخہ کی صورت آزمائے جا رہے ہیں۔ ہمارے یہ بچے جن کو ہم ابھی نہ عقیدہ پڑھا پائے تھے اور نہ شریعت، نہ ان کو اپنی تاریخ کے اسباق پڑھا سکے تھے اور نہ ان کو خود شناسی کے کسی عمل سے گزار سکے تھے اور نہ زمانے میں چلنے والی آندھیوں سے ان کو واقف کرا سکے تھے اور نہ دشمن سے نمٹنے کا کوئی گر سکھا سکے تھے، آج مکمل طور پر اہل کتاب اور ان کے تلامذہ کی دسترس میں ہیں۔ اہل کتاب منصوبہ کار خوب جانتے ہیں اسلام کی شریعت کو معاشرے کے اندر استوار ہونے کیلئے قلوب اور عقول کی جو سرزمین درکار ہے، اس کیلئے طہارت اور پاکیزگی پہلی شرط ہے۔ لیکن اگر یہیں پر صبح شام وہ اتنی غلاظت پھینک جاتے رہیں گے، یہاں تک کہ عالم اسلام اُن کے پھینکے ہوئے کوڑے کے ایک ڈھیر کی تصویر پیش کرتا رہے گا، تو شریعت کو استوار ہونے کیلئے آخر یہاں کونسی جگہ میسر آئے گی؟ غرض شریعت پر ہماری گرفت چھڑوا دینے کیلئے فحاشی اور فحش کاری کا نشر و احیاءبھی ایک نہایت آزمودہ حربہ ہے اور پوری شدت کے ساتھ، اور اب تو خود ہمارے ہی قوم کے لوگوں کے ہاتھوں، ہم پر آزمایا جا رہا ہے۔
رہی سہی کسر پھر ہماری ”تاریخ“ پر نکالی گئی، کیونکہ اپنی اِس ”تاریخ“ پر فخر کرتے ہوئے بھی ہمارا نوجوان پیچھے جاتے جاتے ”قرآنی عقیدہ“ تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ سب معجزے در اصل اِسی عقیدہ اور اسی شریعت کے دم سے ہوئے تھے، ورنہ یہ وہی عرب تو تھے جن کو تہذیب کبھی چھو کر نہ گئی تھی اور جہاں پر بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا رہا تھا مگر یہی بدو تھے جو اَب دنوں کے اندر زمانے کے استاد بنے اور تہذیب کے پروردگار! چنانچہ اہل کتاب کی اٹھائی ہوئی اِس انٹلکچول موومنٹ نے، جو کہ اب بڑے عرصے سے ہمارے اپنے ہی لوگوں کے دم سے چل رہی ہے اور نہایت کامیاب جا رہی ہے، اپنی بہت ساری توجہ ہماری ”تاریخ“ کی جانب بھی صرف کر رکھی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری ایک قابل فخر ترین چیز اب باعث شرمندگی ٹھہرائی جانے لگی ہے۔ آج اِنہی ”نابغوں“ کی تاثیر سے ہمارا نوجوان اِس انداز سے سوچنے پر مجبور ہے کہ کاش محمد بن قاسمؒ نے سندھ پر حملہ آور ہو کر ہمیں شرمندہ نہ کیا ہوتا، اور محمود غزنویؒ نے سومنات کا مندر توڑ کر ہمارا سر شرم سے نہ جھکایا ہوتا، کاش طارق بن زیادؒ نے اسپین لے کر ہمیں یہ بدنامی کا داغ نہ دیا ہوتا، مسلم بن قتیبہؒ نے خطۂ ترکستان میں ”پرائے ملکوں“ کے معاملات میں دخل نہ دیا ہوتا اور مشرق کی جانب فتوحات کرتے کرتے چین تک نہ جا پہنچا ہوتا، کاش عمرو بن العاصؓ نے جزیرۂ عرب کا باشندہ ہوتے ہوئے ”پرائے ملک“ مصر پر چڑھائی کر کے اور پھر طرابلس و تیونس کا رخ کر کے ”جمہوری اقدار“ کا ستیاناس اور ”یو این او کی شریعت“ کی پامالی نہ کی ہوتی، مغرب میں عقبہ بن نافعؒ اور موسیٰ بن نصیرؒ شمالی افریقہ کے ممالک فتح کرتے کرتے بحر اوقیانوس تک نہ گئے ہوتے اور معاویہ بن ابی سفیانؓ نے بحر ابیض میں اپنے بیڑے دوڑا کر بائزنٹائن اور اٹلی اور فرانس کو اپنی بقا کی بابت پریشانی میں مبتلا نہ کیا ہوتا اور قبرص اور سسلی اور کریٹ پر اسلام کے پرچم نہ لہرائے ہوتے! کیا دنیا کی کوئی قوم ہے جس کی تاریخ نے ایسے سپوت پیدا کئے ہوں جو ہماری اِس ملت بیضاءنے ہمیں اور بلکہ پوری انسانیت کو پیدا کر کے دیے؟ لا الہ الا اللہ کے پھریرے دنیا بھر میں لہرانے والے لشکروں کے وہ سپہ سالار جن کے قصے سنائے بغیر مائیں اپنے لاڈلوں کو سونے نہیں دیتی تھیں اور ماؤں سے یہ کہانیاں سن کر نونہال، بڑے ہو کر ”خالد بن ولید“ اور ”طارق بن زیاد“ اور ”محمد بن قاسم“ اور ”صلاح الدین ایوبی“ بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے،.... ہماری تاریخ بلکہ ہمارے وجود کے یہ درخشاں ستارے ہمارے نوجوانوں کیلئے ”باعثِ خفت“ ہونے لگے تو حضرات کیا اب بھی آپ اہل کتاب کو اُن کی اِس کمال صناعی اور کاریگری پر دل کھول کر داد نہیں دیں گے؟! ہماری کونسی چیز ہے جو خود ہماری ہی نظر میں اب مشکوک نہیں ٹھہرا دی گئی ہے؟! ہمیں اپنے اصل سے ہٹانے کیلئے کونسی علمی و فکری تدبیر ہے جو اختیار ہونے سے رہ گئی ہے؟ اِس سے بڑھ کر اُن کی کامیابی کیا ہو گی کہ ہم بطورِ امت اور بطورِ ملت آپ اپنی نظر میں مشکوک اور غیر معتبر ہو جائیں! ہم خود اپنے آپ کو تاریخ کا ایک ”حرفِ غلط“ نظر آئیں گویا تاریخ کے اندر سب سے زیادہ جرائم ہماری ہی اس امت نے کر رکھے ہیں!.. اور وہ قوم جو تاریخ انسانی میں بدترین وارداتیں کرتی آئی ہے اور جس نے ہمیشہ حق اور اہل حق کا خون کیا ہے اور جس پر انبیاءلعنتیں کرتے گئے ہیں اور جس کے شر سے قرآنی صحیفہ آج تک دنیا کو خبردار کر رہا ہے، آج زمانے کی استاد ٹھہرے اور ہمارے بچوں کی اتالیق!
کوئی تصور تو کرے ہمارے اِن مفکروں اور دانشوروں اور پروفیسروں اور ریسرچ کاروں کے دم سے اہل کتاب کی پہنچ کہاں تک ہونے لگی ہے! اُن کے یہ تیکھے تیکھے ’برمے‘ ہمارے دماغوں میں کس کامیابی کے ساتھ کھودتے چلے جا رہے ہیں!
اہل کتاب خود عالم اسلام میں آ کر محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیادؒ کو ڈاکو اور لٹیرا کہیں گے تو کون اُن سے یہ بات قبول کرے گا، بلکہ اُن کے خلاف یہاں جلوس نکلیں گے، اس لئے اے استشراق کے ہونہار شاگردو! اب یہ کام عالم اسلام میں تمہیں کرنا ہے اور آج کے مسلم ذہن کو مرحلہ در مرحلہ اِسی نوبت کو پہنچانا ہے کہ اس کو ”اپنی“ تاریخ سے وحشت آنے لگے۔ مسلم نوجوان ”اپنے“ ماضی سے گھن کھانے لگے اور ”اپنی“ شریعت کا نام سن لے تو اسکے اوسان خطا ہو جائیں.... اور ہمیں تمہاری اِس ”اسکالرشپ“ کا پورا یقین ہے!
اور.... ابھی یہ سب لوگ ”مسلمان“ ہیں! ان کے نام آخر مسلمانوں والے ہی تو ہیں! اپنے اِن ”مسلم ناموں“ کے ساتھ.. یہ صبح کو مسلمان ہوتے ہیں!! اپنی اِن ”سرگرمیوں“ کے ساتھ.. شام کو یہ اسی اسلام کا انکار کر رہے ہوتے ہیں!! یہ یہود کا وہی پرانا کردار تو ہے جو اِن ”مسخ شدہ مخلوقات“ کے ذریعے وہ ہمارے یہاں ادا کر رہے ہیں۔ چیز وہی ہے، اگرچہ پیش کرنے کے اسلوب بدل گئے ہوں۔ شراب وہی پرانی ہے، اگرچہ ”پیمانے“ نئے ہوں!
یعنی اسلام کا یہ بھیس تو ہے ہی، جو کہ تمہیں اپنے اِن مسلم ناموں کی بدولت ”یقینی و قطعی طور پر“ حاصل ہے۔ پس اسلام کا یہ بھیس لو اور پھر اپنی اِس ساری تحقیقی و علمی و ثقافتی مساعی سے اسی اسلام کو مٹا ڈالو؛ دیکھتے ہیں مسلمانوں کی نسلیں اسلام سے کس طرح نہیں پھرتیں! اُس اسلام سے جو تاریخ کی طویل صدیوں تک ہمیں ڈراتا رہا ہے، ہاں ”اسلام“ ہی آج اگر ان کو تم کوئی ”نیا“ دے دیتے ہو تو اِس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے؟!
صبح کو اسلام کا دعویٰ اور شام کو اسلام کا انکار!
ایک کروٹ اسلام کا اقرار، دوسری کروٹ اسلام کی بیخ کنی!
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔۔ شاید کہ مسلمان اپنے دین سے پھر جائیں!
وَلاَ تُؤْمِنُواْ إِلاَّ لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ۔۔ ”اور یقین مت کرو مگر اُسی کا جو تمہارے دین کا پیرو ہو“....
یہود اور نصاریٰ کے ”دین“ پر چلے بغیر بھلا کس کا گزارا ہے!!!
صیہونی کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں گے۔ تب تک ہمارے لیڈروں کا یقین نہیں کریں گے جب تک یہ انہی کے دین اور نظام کے پیرو نہ ہوں۔ آپس میں یہ بات طے ہے۔ اسلامی عقیدہ کی بیخ کنی ایک نہایت واضح ہدف ہے۔ ہاں مگر کوئی کام بے موقعہ نہیں ہو گا! نہایت زیرک انداز میں، ہر چیز اپنے اپنے وقت پر، ہر کام نہایت خوب ”ہوم ورک“ کر لینے کے بعد، اور نہایت صحیح موقعہ کا انتخاب کر کے، پلاننگ اور ڈیزائننگ اور ”پیکنگ“ کے اعلیٰ ترین معیارات کو قائم رکھتے ہوئے، اور اس بات کا پورا انتظام کرتے ہوئے کہ خوامخواہ اور بلا ضرورت کسی کے کان کھڑے نہ ہوں اور ”واقعہ“ ہو جانے سے پہلے ہرگز کوئی جاگنے نہ پائے! بے شک ہمارے اِن ”مسلم نام برداروں“ اور اُن ”پراجیکٹ مالکوں“ کے مابین کوئی باقاعدہ سمجھوتہ نہ ہوا ہو اور فریقین کے مابین اگرچہ ”دستخطوں“ کا کوئی رسمی تبادلہ عمل میں نہ آیا ہو، لیکن اگر کسی نے ”معاملہ فہمی“ سے وافر حظ پا رکھا ہے تو اِن تکلفات کی ضرورت ہی کیا ہے! یہ تو پہلے سے طے ہے کہ اِس پراجیکٹ میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جو ”اشارے“ سمجھیں اور خود اقدامی سے کام لیں!
البتہ مسلم معاشروں میں اتریں تو چہروں پر ”معصومیت“ سجا لیں۔ ”علمی دیانت“ اور ”تحقیقی معیاروں“ کیلئے پریشان نظر آئیں۔ ”معروضیت“ کے بھاری لبادے اوڑھ کر برآمد ہوں اور انہی لبادوں کے ساتھ روپوش ہو جائیں۔ ان ”مسلم نام برداروں“ کی کم از کم ایک تعداد ضرور ایسی ہے جو یہاں سب کچھ نظر میں کئے ہوئے ہے مگر آخری حد تک آپ کو ”انجان“ بن کر دکھائے گی! باطن میں جو کچھ چھپا کر بیٹھی ہے اس کو ظاہر کرنے میں ”موقعہ مناسبت“ کا آخری حد تک خیال رکھے گی اور ہر مجلس کے ”مناسب حال“ بات کرے گی، جبکہ جانتی ہے آس پاس میں ماحول پورے کا پورا اسی چیز ہی کیلئے تیار کیا جا رہا ہے اور انہی کی آواز سنائی جانے کیلئے سب کچھ ”ڈیزائن“ ہو رہا ہے اور یہ کہ مقامی و عالمی سطح پر بے شمار ادارے اور شعبے اور دیوہیکل منصوبے اِسی کو ممکن بنانے کیلئے صبح شام مصروف ہیں....
اور ہاں وہ لوگ جو دین اسلام کی حقیقت کو جانتے اور معاشرے پر واضح کر سکتے ہیں، اِس پورے عمل کے دوران وہ البتہ پس زنداں ہونے چاہئیں اور یا پھر تتر بتر کر کے رکھے جانے چاہئیں، اور یا سرے سے انکا صفایا ہونا چاہئے.. اِن معاشروں کی خیرخواہی کی اِسکے سوا آخر کیا صورت ہے! حق گوؤں کا خون نہ ہو تو یہ کہانی کہاں پوری ہوتی ہے!
٭٭٭٭٭