یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
یہودی کو اپنا ہتھیار بھی معلوم ہے اور ہمارا ہتھیار بھی!
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
پس یہ سب استعمار اور یہ سب استحصال جس ایک حقیقت کے دم سے ممکن ہوا اور ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ سینۂ مسلم میں آج وہ ”عقیدہ“ بیدار نہیں رہا جس نے کسی وقت اِس پوری دنیا کو الٹ کر رکھ دیا تھا اور ظلم کے اِن سب شبستانوں کو خاک میں ملا ڈالا تھا اور استحصال کی چکی میں پسنے والی خلقِ خدا کو تقویٰ، خدا ترسی اور عدل و انصاف کے پھل چکھنے کو وافر مقدار میں دستیاب کرائے تھے۔ اور آج جب یہ شعلہ اِس امت کے اندر بجھا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو خود اِس کے گھروں میں چوروں نے آ کر ڈیرے ڈال دیے ہیں بلکہ وہ سب چور آج سینہ زوری پہ آگئے ہیں اور ہم بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ سب اصول اور سب ضابطے اور سب ”حوالے“ اور سب ”قراردادیں‘ اُن پر بے اثر جا رہی ہیں، یوں جیسے کسی کو سنتا ہی نہیں! ان کو خوب معلوم ہے، جب تک ”عقیدہ“ کا یہ شعلہ ہی کسی طرح جہانِ مسلم میں پھر سے نہیں بھڑک اٹھتا اُن کو یہاں کس بات کا ڈر؟ وہ آگ جس نے ”صحرا نشینوں“ کے دم سے پورے جہان میں روشنی کی تھی آج اِن کے اپنے گھروں میں خاکستر ہوئی پڑی ہے تو وہ شر پسند وجرائم پیشہ مخلوقات جن کی سب وارداتیں ہوتی ہی اندھیروں میں ہیں، اُن کو اپنی کارروائیاں کرنے کیلئے اِس سے بہتر کونسا موقعہ ہے؟ صدیوں کی محنت نے ان کو یہ ”موقعہ“ لا کر دے دیا ہے، جس کا اِس سے پہلے وہ کبھی تصور بھی نہ کر سکتے تھے، تو وہ اِس سے ایک ”بھر پور“ فائدہ کیوں نہ اٹھائیں اور اِس موقعہ کو غنیمت کیوں نہ جانیں؟ بلکہ اِس موقعہ کو زیادہ زیادہ دراز کرنے کیلئے وہ اپنا پورا زور صرف کیوں نہ کر دیں....؟
صدیوں کے اِس عمل اور محنت نے اُن کے ہتھکنڈوں کو زیادہ سے زیادہ پختہ اور ’میچور‘ کر دیا ہے۔ تجربات سے سیکھنے والی دنیا کی اِس کائیاں ترین قوم نے منصوبہ سازی میں کمال مہارت حاصل کی ہے اور وہ بہت سے حربے اور ہتھکنڈے جو اِس سے پہلے خام صورت میں پائے اور برتے جا رہے تھے آج اُن کو نہایت سائنٹفک انداز میں برتا جا رہا ہے۔ ہزاروں ”پی ایچ ڈیز“ آج اِسی مقصد کیلئے بیٹھے ہیں اور اربوں کھربوں کے وسائل اِسی ایک چیز کیلئے وقف ہیں اور ”تعلیم“ و ”ابلاغ“ کی وساطت یہاں ذہنوں کے سب تار چھیڑ رہے ہیں۔ ”طریقے“ اور ”وسائل“ یقینا بے حد ترقی کر گئے ہیں اور نہایت سائنٹفک صورت دھار گئے ہیں مگر ان کا ”مضمون“ اور ”حقیقت“ آج بھی وہی ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے برتے گئے تھے اور جن کی بابت قرآن نے ہماری چشم کشائی کی تھی۔ وہی پرانا ہدف نئے سے نئے اسلوب میں پورا کرنے کی نہایت موثر کوششیں ہو رہی ہیں۔ وہ ایک غایت جس کو متحقق کرنے کیلئے اعلیٰ صلاحیتوں اور ذہین دماغوں کی پوری ایک ایمپائر مصروفِ عمل ہے، بلکہ اس کیلئے رات دن ایک کر چکی ہے، ان کی وہ غایت قرآن نے کچھ مختصر ترین الفاظ میں ہمیں بہت پہلے بتا دی تھی:
وَدَّت طَّآئِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ۔۔
”اہل کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح وہ تمہیں (تمہارے اصل سے) بھٹکا دیں....“
پس یہ وہی پرانی خواہش تو ہے جو صدیوں سے سینوں میں دفن چلی آئی ہے! یہ وہی غایت تو ہے جسے رو بہ عمل لانے کیلئے یہود نے مدینہ کے اندر ہزار ہا پاپڑ بیلے تھے، مگر صحابہؓ کے قرآن پر ڈٹے رہنے کے باعث ان کی یہ خواہش اور کوشش پوری نہ ہوئی تھی، البتہ آج جا کر ہم ایسوں کے دم سے پوری ہونے لگی ہے!