یہودی مکر و فریب کے وہی تانے بانے جن سے اِس امت کے اسلاف کو واسطہ پیش آیا تھا، آج اُسی شدت کے ساتھ اِس امت کو درپیش ہیں ۔ عین وہی حربے جو اِس امت کی تاسیس کے وقت اِس کے خلاف آزمائے گئے تھے آج بھی پوری طرح میدان میں ہیں۔ فرق صرف یہ آیا ہے کہ آج یہ امت اُن قرآنی اسباق سے فائدہ نہیں لے رہی جو یہود کے حربوں کو بے اثر کر دینے اور ان کی حقیقت کو آشکار کر دینے کیلئے اِس امت کے اسلاف کو پڑھائے گئے تھے۔ وہ نظر جو اِس کو قرآن سے دستیاب ہوتی تھی اور جس سے مدد لے کر یہ اپنے دشمن کی نہایت خوب پہچان کرتی تھی، اور جس کی بدولت یہ دشمن کے حربوں کو نصف النہار کی مانند دیکھتی تھی، آج اِس کے ہاں ناپید پائی جا رہی ہے۔
چیزیں آج اِس امت کو ویسی نظر نہیں آ رہیں جیسی قرآن کی روشنی میں نظر آیا کرتی تھیں۔ قرآن نے اِس دشمن کا چہرہ اِس امت کو عین ابتدا کے اندر یوں دکھایا تھا:
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ۔أَوَلاَ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ۔ (البقرۃ: 75 - 77)
”مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ (یہودی) تمہارا یقین کر لیں گے، حالانکہ ان کے ایک فریق کا یہ حال یہ رہا ہے کہ اللہ کے کلام کو (اپنے کانوں سے) سنتے اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کر دیتے۔ (محمد رسول اللہ ﷺ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی انہیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیہ کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے وقوف ہو گئے ہو؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتانے لگے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تا کہ تمہارے رب کے پاس تمہارے خلاف تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے؟“
یہود کی حقیقت سے نقاب کشائی کرنے والے اِن قرآنی اسباق سے آج یہ امت اُس طرح فائدہ نہیں لے رہی جس طرح اِس کے اسلاف نے لیا تھا اور اِن قرآنی اسباق کی مدد سے یہود کی سب تیزی اور چالاکی کو انہی پر پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
مدینہ کے اندر یہ مٹھی بھر جماعت ابھی پیر گاڑ رہی تھی، اور عرب میں ظاہر ہونے والا یہ نیا دین ابھی اپنی بنیادیں اٹھا رہا تھا کہ یہود نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اِس کا پتہ صاف کر دینا چاہا کہ قبل اِس کے کہ یہ دین چہار وانگ پھیلے، عین ابتداءمیں ہی اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ مگر اِدھر اللہ کے فضل سے قرآنی نظر تھی جس کی بدولت اسلام کی یہ جماعت اپنا ایک ایک قدم خدائی ہدایت کی روشنی میں اٹھا رہی تھی۔ نتیجہ یہ رہا کہ یہود کی ہر سازش خود انہی کیلئے وبالِ جان ثابت ہوئی، اُن کی ساری ذہانت کاٹھ کباڑ نکلی، اور اِس مٹھی بھر جماعت کی بصیرت کے ہاتھوں ”فری میسن“ کے اُن سب پڑدادوں لکڑدادوں کو وہ منہ کی کھانا پڑی کہ صرف مدینہ اور خیبر سے نہیں جزیرۂ عرب سے ان کا پتہ صاف ہو گیا!
یہود جو اِس راز سے خوب واقف ہیں، اور ہمارے خلاف فریب کاری اور منصوبہ سازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اب کی بار یہ ٹھان کر آئے کہ وہ اِس دین اور اِس قرآن کو ہی ہمارے ہاتھ میں نہ رہنے دیں گے.. وہی دین اور وہی قرآن جس کے دم سے ہمارے اسلاف نے ایک مٹھی بھر جماعت ہوتے ہوئے ان کو ہزیمت سے دوچار کیا اور اُن کے منصوبوں کو خاک میں ملایا تھا۔ اُن کا سارا زور اِس بات پر رہا کہ وہ ہمارے اصل ہتھیار سے ہمیں محروم کر دیں جو کہ ہمارا قرآن ہے اور ہمارا عقیدہ ہے، اور جس کے آگے دنیا کے سب شیاطین بے بس ہو جاتے ہیں اور اُن کے سب تانے بانے بیت العنکبوت ثابت ہوتے ہیں۔سب سے بڑھ کر کسی بات سے یہود کی جان جاتی ہے تو وہ یہی کہ اِس امت کے ہاتھ میں پھر سے وہی ہتھیار اور وہی اوزار دیکھے جا رہے ہوں جن سے کام لے کر ہمارے اسلاف نے ان کا وہ پرانا طلسم کدہ توڑا تھا اور دنیا میں ان کی ساہوکاری کا خاتمہ کر کے رکھ دیا تھا۔ یہودی اپنا آپ اور اپنا مستقبل محفوظ ومامون صرف اُس صورت میں دیکھیں گے جب اُنہیں ہمارے بچوں کے ہاتھ قرآن سے خالی نظر آئیں۔جتنی دیر یہ امت اپنے اصل شفاف منبع سے دور رہے اور طاقت کے اپنے اصل سرچشمہ سے محروم رہے، یہود بھلے چنگے ہیں۔ ان کا مستقبل تب تلک محفوظ و مامون ہے۔ اُن کو جان کے لالے تب پڑیں گے جب وہ اِس امت کے نونہالوں کے ہاتھوں میں قرآن پکڑے ہوئے دیکھیں اور جب اِس قرآنی عقیدہ کی بنیاد پر اِس کے ہاں صفیں بنتی ہوئی نظر آئیں۔ اِس صورت حال کو وجود میں آنے سے روکنے کیلئے آج یہاں ہزار ہا انتظامات ہیں۔ جو کوئی بھی آج اِس امت کو اس کے اصل عقیدے اور اِس کے قرآن سے دور کر دینے کیلئے سرگرم عمل ہے، وہ درحقیقت زمانۂ حاضر کے ایک نہایت گھناؤنے منصوبے کا حصہ ہے، خواہ وہ اِس بات کا ادراک رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ خواہ وہ جان بوجھ کر اور باقاعدہ پروگرام کے تحت یہ کام کر رہا ہو یا محض اپنی کسی ’روٹین‘ کو انجام دینے کی غرض سے۔ دانستہ یا نادانستہ، وہ زمانۂ حاضر کے اُس عظیم ترین منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ ہے جس کو کامیاب کروانا یہود کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ وہ منصوبہ جس کے اندر یہود اپنی عالمی ایمپائر ہی نہیں خود اپنی بقاءہی کو مضمر دیکھتے ہیں، یعنی امت اسلام کو اس کی قوت کے اصل منبع و سرچشمہ سے دور رکھنا، جو کہ اس کا قرآن ہے، اس کا ایمانی عقیدہ ہے، اور ایمانی منہج ہے، اور ایمانی شریعت ہے۔ ہر دو فریق کا راستہ ہے تو یہیں سے نکلتا ہے۔ ہر دو راستے کے خدوخال ہیں تو وہ یہیں سے پھوٹتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مدینہ میں یہود ایک بڑی شان کے مالک تھے۔ یہ وہاں کی معیشت پر چھائے ہوئے تھے اور پورے علاقہ کو اپنے سود کے اندر جکڑ رکھا تھا۔ اسلام یہاں پہنچا تو یہود کی دشمنی ابھی عیاں ہو کر نہیں آئی تھی۔ مدینہ کے باشندے جو نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے، ان کے اندر یہ شعور پختہ ہونے کو ابھی کچھ دیر چاہیے تھی کہ ان کا یہ عقیدہ ہی جو ان کو قرآن سے ملا ہے ان کی اجتماعیت کی واحد بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ ہی اب ان کا وطن ہے اور یہی ان کا نسب اور یہی وہ بنیاد ہے جو ان کے جملہ تعلقات میں تصرف کرے اور دوستی اور دشمنی کے سب رشتے اب اِسی کے اندر سے پھوٹیں۔ اور یہ کہ اِس عقیدہ سے متعارض سب ناطے اور سب رشتے کالعدم ٹھہریں۔ مدینہ کے باشندے اِس نئے عقیدے سے ابھی یہ اسباق پڑھ ہی رہے تھے اور اِن اسباق کو ان کے اندر گہرا جانے کیلئے کچھ وقت درکار تھا۔ یہاں سے یہود کو ایک سنہری موقعہ ہاتھ آیا کہ یہ جزیرۂ عرب کے اِس نوخیز مسلم وجود کو پٹری سے سرکا دینے کیلئے اپنی سب صلاحیتیں آزمائیں۔ اِس کو شکوک وشبہات میں مبتلا کر دینے کے حربے اختیار کریں ، اِس کے اندر دراڑیں ڈال دینے اور اس کو فتنوں اور مصائب سے دوچار کردینے میں اپنا پورا زور صرف کریں۔اُن کی اِس طالع آزمائی میں مددگار بننے کیلئے، اِس نوخیز مسلم جماعت کی صفوں میں یقینا ایسے لوگ شامل تھے جو یہود کی سنتے تھے اور ان کی باتوں کا گہرا اثر لیتے تھے۔ اِس نوخیز مسلم جماعت کی صفوں میں یقینا ایسے لوگ پائے گئے تھے جو یہودی مفادات کا تحفظ اورمسلمانوں کے مابین اُن کا پورا پورا دفاع کرتے۔ یہاں تک کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ ان کی فریب کاری و بدعہدی پر ان کو کوئی سزا دینا چاہتے اور اُن کی مزید دسیسہ کاریوں کا راستہ بند کرنے کیلئے کسی کارروائی کا عزم فرماتے، یہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آپ کے آڑے آتے، جیسا کہ ہم کتب سیرت میں دیکھتے ہیں، رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی یہودی قبیلہ بنو قینقاع کیلئے وکالت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے روبرو بدتمیزی کی آخری حد کو چلا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭