یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
پون صدی پہلے برپا ہونے والے اسلامی تحریکی عمل کو عین اپنی ابتدا ہی میں جو چند نہایت سربرآوردہ شخصیات میسر آئیں، سید قطبؒ ان میں سے ایک ہیں۔
یہود وہی یہود ہیں!
”یہودی“ کا حملہ ہمارے عقائد پر، نظر ہمارے وسائل پر!
یہودی کو اپنا ہتھیار بھی معلوم ہے اور ہمارا ہتھیار بھی!
قرآن پڑھنے والی امت یہود سے مار کھائے، تعجب ہے!
تلبیس اور تشکیک.. یہود کے دو سب سے بڑے ہتھیار
یہودی نقب زنی.. بذریعہ تلامذۂ استشراق.. تعلیم و اِبلاغ!
قرآن نے یہود کی بابت اِسقدر طویل نوٹ کیوں دیا؟
تاریخ کا کبھی نہ بدلنے والا کردار!
اسلام کے فدائی پھر آتے ہیں!
حسن البناؒ، ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطبؒ ایسے مجددین کا اٹھایا ہوا یہ تحریکی عمل اللہ کے فضل سے چند ہی عشروں میں جہاد کے میدانوں کا بھی رخ کرنے لگا اور رفتہ رفتہ کئی ایک سماجی شعبوں کے اندر بھی نہایت خوب پیش قدمی کرنے لگا۔ آج ایک طرف ہمارے ماڈرن یوتھ کی ایک اچھی خاصی تعداد اسلام کی حقیقت پر علیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتی ہے اور جاہلیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ پا چکی ہے، یہاں تک کہ اس کا ایک بڑا طبقہ مغرب میں دعوتی میدان کے اندر ایک کامیاب پیش قدمی کر رہا ہے.. تو دوسری طرف ہمارے شیر دل مجاہدین عالم اسلام کے کئی ایک خطوں میں استعمار کے لشکروں کے مد مقابل سینہ سپر ہیں اور سرفروشی کی ناقابل یقین داستانیں رقم کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اس کی تاریخ کے کچھ بھولے ہوئے اسباق یاد دلا رہے ہیں.... مسلم سینوں میں ٹھنڈک ڈالنے والا یہ کثیر الجہتی عمل درحقیقت اُسی کاروان کا ایک تسلسل ہے جو سقوطِ خلافت کے ایک عشرے کے اندر اندر عالم اسلام کے اطراف و اکناف میں اٹھ کھڑا ہوا تھا اور کچھ ایسے جاں نثار مفکرین اور قائدین کے دم سے برپا ہوا تھا جو ہماری تاریخ میں امر ہو جانے والی ہیں۔ ہمارے اِس تحریکی عمل میں یقینا کئی ایک غیر متوقعہ موڑ آئے ہیں اور شاید آگے بھی ابھی بہت سے موڑ آنے والے ہیں، مگر وہ بات جو یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ ہمارا یہ قافلہ ”امت“ کی سطح پر یقینا رواں دواں ہے، بے شک جماعتوں اور تنظیموں کی سطح پر نقشہ کتنا بھی بدلا ہو یا آئندہ بھی بدلتا رہے۔
عصر حاضر میں قافلۂ اسلام کے اِن اولین حدی خوانوں میں سید قطبؒ کو جو مقام حاصل ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید وہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو سید قطبؒ اپنے ہم عصروں میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ باطل سے الجھنے والے ہمارے آج کے جتنے موحد طبقے ہیں ان کے مابین ”سید قطبؒ“ سے بڑھ کر شاید ہی کسی معاصر نام نے پزیرائی پائی ہو۔ ایسا بے وجہ نہیں؛ باطل کے خلاف عالم اسلام کو صف آراکرنے میں سید قطبؒ جس سطح تک جاتے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے اور اس سطح تک جانا عصر حاضر میں شاید کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ ایک طرف فکر کی قوت، دوسری طرف ایمان کی جولانی، تیسری طرف قرآن فہمی، چوتھی طرف سماجیات پر ایک نہایت گہری نظر، پانچویں طرف حالات کی تشخیص اور زمانہ کی نبض شناسی پر کمال کی قدرت، اور چھٹی طرف وہ جرأتِ گفتار اور بے باکی جو آدمی کو تختۂ دار تک لے جاتی ہو، اور ساتویں طرف ادب پر وہ دسترس اور وہ قادر الکلامی جو ان کے ہر مترجم کو عاجز کر دے! آج استعمار اور استشراق کے سبھی لاؤڈ سپیکر اپنی تنقید اور مذمت کیلئے عالم اسلام کے فکری ناموں میں سے ”سید قطبؒ“ کو سب سے اوپر رکھتے ہیں.. یہ ایک شخص جس کو شہادت پاکر اپنے پروردگار کے پاس پہنچے چوالیس برس بیت چکے، برابر باطل کے ایوانوں میں ذکر ہوتا ہے.. تو اس کے کچھ نہایت معقول اسباب ہیں۔ اِس بات کا اندازہ کرنا ہو توشاید سید قطبؒ کی یہی ایک تحریر دیکھ لینا کافی ہو!
چونکہ یہ تحریر نصف صدی پرانی ہے، اور اِس دوران پلوں کے تلے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، علاوہ ازیں عالم عرب میں لکھی جانے والی ایک تحریر کو اسلامیانِ بر صغیر کیلئے متعلقہ بنانا کئی ایک پہلوؤں سے ضروری معلوم ہوتا ہے، اس لئے ”اردو استفادہ“ کے دوران اِس کے کئی ایک حصوں میں تصرف کیا گیا ہے اور کئی ایک مقامات کو اچھا خاصا کھول دیا گیا ہے۔
”اہل ایمان کی عداوت میں سب سے بڑھ کر
تم یہود کو ہی پاؤ گے اور مشرکوں کو ۔۔۔“