عثمانیوں کی اُٹھان
ابو زید
عالمی منصہ شہود پر نہ
جانے کیا کیا واقعات پیش آتے ہیں، کچھ چھوٹے کچھ بڑے اور کچھ ناقابل توجہ۔کچھ
واقعات تیزی سے گذر جاتے ہیں اور ان کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ کچھ واقعات کو انتہائی
اہمیت دی جاتی ہے لیکن پھر ان کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا۔ لیکن وقت کا دھارا
بہرحال اپنا مخصوص رخ رکھتا ہے اور اپنی مدھم سی چال کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
واقعات چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے اپنا اثر ضرور چھوڑتے ہیں لیکن وقت کی چال رکتی پھر
بھی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں عالمی سطح پر اسلام کی پیش قدمی ہی گویا وقت کی چال
ہے۔پچھلی کچھ دہائیوں میں مسلمانوں پر کیا کیاآفتیں گذریں، کیسی کیسی قیامتیں ٹوٹ
پڑیں، ہمارے کتنی نوجوان مارے گئے اور ہمارے کتنی بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور
پھر ہمارے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کے لئے ہمارے دین کے شعائر کے ساتھ کیا کیا مذاق
کیا گیا۔ لیکن وقت کی چال ہے ہی ایسی چیز کہ اس کو روکا نہیں جاسکتا۔ دنیا کی
طاقتور اور ترقی یافتہ قوموں میں ان کے اپنے نظریات اور انکی اپنی ٹیکنالوجی خود
انہی کی تباہی کا سامان کر رہی ہے۔مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب کہیں تباہی کا منظر
تو کہیں خوشحالی کا۔ لیکن خوشحالی ہویا بد حالی، بیداری ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے
رہی۔ وقتی ہنگامے اور حالات کے تھپیڑوں سے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وقت اپنی چال
بدل دیگا۔ لیکن یہی حالات غیر محسوس انداز میں اسی پیش رفت کے لئے راہ ہموار کرتے
رہتے ہیں۔
ایسی ہی اسلامی بیداری کی
ایک جھلک ترکی میں نظر آرہی ہے۔کبھی یہاں کا مرد مومن جہاں بانی کاکام دیتے دیتے
وقت کی چال کو ہی نظر انداز کربیٹھا تھا۔پھر اسی ترک کے مردناداں نے جہاں بینی کے
شوق میں خدا فراموشی کی روش اپنالی تھی۔لیکن قسطنطنیہ کی عظمت کو لوٹا نہیں سکا۔
وقت نے پھر پلٹا کھایا۔ اور عثمانیوں کی اُٹھان صاف نظر آرہی ہے۔ جہاں بانی تو
جمود میں کھوگئی تھی اور نئے سرے سے جہاں بینی کا کام اس مرد مومن کو کرنا تھا۔ رب
کائنات تو مطلق ہے اور اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں آنی، اس لئے خدا شناسی کے
معاملے میں یہ اُمت کبھی پیچھے نہیں رہی۔ لیکن یہ فانی دنیا ہے ہی تبدیلیوں کا
نام، اس لئے جہاں بینی ہمیشہ سے ایک چیلنج رہی ہے۔اس اُمت کے قائدﷺ نے اس کی تربیت
عجیب ہی انداز میں کی تھی۔ خدا شناسی کے ساتھ جہاں بانی اب اسی آسمانی امت کی
خصوصیت ہے، بھٹک گئے وہ لوگ جو جہاں بانی اور خدا فراموشی میں فرق نہیں کرپاتے۔
عظمت رفتہ کی یادیں،حالات
کی مار ، ماضی کے گھاؤ اور مستقبل کی امنگوں نے عثمانویوں میں ایک نیاسحر پھونک
دیاہے ۔کوئی صدی بھر پہلے اس امت کے تن نازک میں شاہیں کاجگر پیدا کرنے کی امنگ
میں ایک بلبل یو ں نوا پیرا ہواتھا:
اگر عثمانیوں پر کوہ غم
ٹوٹا توکیاغم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے
ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر
کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں
ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے
نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن
میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ
ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں
شاہیں کا جگر پیدا
کہاں سیکولر ترکی اور
کہاں اسلام؟ ترکی کا سیکولرزم ایسا تھا کہ دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اجتماعی زندگی تو
رہی ایک طرف شخصی زندگی میں بھی دین پر پابندی تھی۔ کم از کم تین بار سیکولرزم کی
حفاظت کے لئے اتاترک کے نظریات کی امین فوج اور عدلیہ نے منتخب شدہ حکومت کو
گرادیا۔لیکن وقت پھر دھیرے دھیرے اپنی چال چلتا رہا۔ بے شک بغیر ایمان کے انسان کو
خسارے کا ہی سامنا ہوا اور وقت اس کی واضح طور پر گواہی دے رہا ہے۔ آج ترکی کی
خاتون اول خیر النساءگل صرف اپنے اسکارف کی وجہ سے اتاترک کے وارثوں کے سینے پر
مونگ دل رہی ہے۔بار بار طاقت کا استعمال کرکے سیکولر فوج اپنی ساکھ کھوچکی
ہے۔بیسویں صدی کے آخر آخر تک وقت کچھ دوسرے ہی انداز میں انگڑائی لے رہا تھا۔
2002 سے ترکی میں جسٹس اینڈ
ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکومت چل رہی ہے جس کے لیڈران رجب طیب اردگان اور عبد اللہ گل
بہ ترتیب وزیر اعظم اور صدر ہیں۔ ان دونوں لیڈروں پر اسلام پسندی کا الزام ہے۔ رجب
طیب اردگان 1998 میں صرف اس بات پر جیل جا چکے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسی نظم پڑھی
جسکے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ یہ نظم کمال پاشا کے نظریات کے خلاف ہے۔ نظم کا
قابل اعتراض حصہ یہی تھا کہ اس میں مسجدوں، گنبدوں اور میناروں کو ترکی کی نشانی
قرار دیا گیا تھا۔ واقعی اسی سال پرانا کمال اتاترک کا نظریہ ایسے ہی شیشے کی طرح
نازک تھا!!
جس طرح پورے عالم اسلام
میں استعمار کی پروردہ سیکولر قیادتیں سیکولر معنوں میں بھی ایماندار اور ترقی
پذیر طرز حکومت دینے میں پوری طرح ناکام رہی، ترکی کی سیکولر قیادت کا بھی یہی حال
رہا۔ بیرونی نظریات پر پلنے والا ٹولہ جواپنے ماضی پر شرمندہ ہو اور اپنے ایمان
کاواضح طور پر تعین ہی نہ کرسکے وہ اپنی ملت کے ساتھ کس طرح ایمان داری کا مظاہرہ
کرسکتا ہے۔ نتیجتاً اکیسویں صدی کے ابتداءتک ترکی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر
رہا تھا۔ کرپشن اور بد عنوانی عام تھی۔ رجب طیب اردگان جو کہ 1994 سے 1998 تک
استنبول کے مئیر رہے تھے نے اپنی ایمانداری، محنت اور لگن سے عوام کا اعتماد جیت
لیا تھا۔اتنے مختصر عرصے میں انہوں نے دنیاکے ایک بہت بڑے شہرکا نقشہ ہی بدل کر
رکھ دیا تھا۔یہاں تک کہ ان کی اس کارکردگی کی وجہ سے 1996 میں استنبول کانفرنس میں
دنیا کے بڑے شہروں کی بہبود کے لئے مئیروں کی منظم تحریک شروع ہوئی ۔ایسے حالات
میں جبکہ عقائد اور فکر کی ترویج ممکن ہی نظر نہ آتی تھی ذہانت، جہاں دیدگی، ایمان
داری، لگن اور خدمت خلق کے جذبے نے بند راستے کھول دئے۔
ترکی کی صورت حال یہ ہے
کہ سیکولرزم یہاں پر اپنی عمر پوری کرچکا ہے، اسوقت سیکولرزم فرسودگی کی نمائندگی
کر رہا ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے کمال پاشا کے کچھ جانشین ادارے ہاتھ پاؤں مار رہے
ہیں جبکہ اسلام جس کو کبھی پس ماندگی کا نشان سمجھا جاتا تھا آج تبدیلی ، ترقی اور
بالیدگی کی علامت بن رہا ہے۔ یہ در اصل ایک انتہائی خوش آئند صورت حال ہے۔ترکی آج
بھی سیکولر ہی ہے، ترکی میں حکمرانی کے لئے سیکولرزم کا دم بھرنا بنیادی شرط ہے۔آج
بھی ترکی اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون کر رہا ہے۔ یہ ترکی کے افسوسناک ماضی کی یاد
گار ہے۔لیکن حالات کا رخ کچھ اور ہی ہے۔جنوری 2009 میں ورلڈ اکنامک فارم کی ڈیووؤس
میں منعقدہ کانفرنس میں جب ترکی کے وزیر اعظم کو غزہ کے قتل عام پر پوری طرح بات
کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا تو وہ شدید غصہ کے عالم میں کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔
اس پر ترکی کی غیرت مند قوم نے اپنے لیڈر کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی واپسی پر
بھر پور استقبال بھی کیا۔پھر پچھلے سال غزہ کے مظلوموں کی امداد کے لئے اسرائیل کی
خود ساختہ پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے ترکی نے اقدام کر کے چھ جہازوں کا بحری بیڑا
بھیجا۔ اسرائیل نے اس پر امن بحری بیڑے پر حملہ کرکے نو ترکی باشندوں کو قتل
کردیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی میں اسرائیل مخالف جذبات عروج پر ہیں۔اب حالت یہ ہے کہ
ترکی اپنے تمام تر سیکولرزم کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہوئے غزہ کے
مظلوموں کی مدد کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر چکا ہے اور اس معاملے میں عوام اور
حکومت یک زبان و یک خیال ہیں۔ اس وقت ترکی اور اسرائیل کے تعلقات اچھے نہیں چل رہے
ہیں اور ترکی کی طرف سے یہ اعلان بھی ہو چکا ہے کہ جب تک اسرائیل معافی نہیں مانگے
گا تعلقات پوری طرح بحال نہیں ہونگے ۔ دوسری طرف اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا
ہے اور مصر ہے کہ اس نے "بین الاقوامی پانیوں " میں اپنے دفاع میں
فلوٹیلا بیڑے پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیل کے غیر انسانی اور مجرمانہ رویے سے ویسے تو
ہر صاحب نظر واقف ہی تھا لیکن اگر کسی کو کچھ شک رہا تو ان پورے واقعات نے اسرائیل
کی انسان دشمن پالیسی کو خوب خوب آشکار کردیا۔میڈیا کے بس میں ہی نہیں تھا کہ وہ
ان واقعات پر پردہ ڈا ل کر ایمانداری کا بھرم بھی رکھ سکے۔
ترکی نے یورپی یونین کی
رکن کی امیدواری 1987 سے پیش کی ہوئی ہے ۔ یورپی یونین کی پیشرو انجمن یورپی
اکنامک کمیونٹی کی ممبرشپ کے لئے ترکی نے 1963 سے اپنا دعوی پیش کیا تھا۔ لیکن
یورپ کی طرف سے ترکی کو بار بار دھتکارا جاتا رہا اور اب بھی اس کی اُمید کم ہی ہے
کہ یورپی یونین ترکی کو اپنے رکن کی حیثیت سے قبول کرے گی۔ شاید اس خاکستر میں
پائے جانے والے شرار آرزو یا ماضی میں ہوئے عثمانیوں کی پیش رفت سے آج بھی یورپ
خوف کھاتا ہے حالانکہ ترکی نے اپنے آپ کو ہر نشان کہن سے لا تعلق کرنے میں کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
"اسکارف" کے جس خوف
میں آج یورپ مبتلاءہوا ہے ترکی کی لادین قیادت اسی سال سے اس کی دہشت میں
مبتلاءرہی۔1924 سے ہی ترکی میں سرکاری نوکر، وکلاء، اساتذہ اور سیاست دان خواتین
پر اسکارف اور پردے کی پابندی رہی۔ لیکن جنوری 2008 میں ترکی کی پارلیمنٹ نے 79
فیصد ووٹ سے اس پابندی کو ہٹانے کے لئے قرارداد پاس کی۔ جون 2008 میں ترکی کی
عدالت نے پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا کہ یہ فیصلہ
ترکی کے سیکولر اصولوں کے خلاف ہے۔ اس فیصلے کو قانونی سے زیادہ سیاسی فیصلہ قرار
دیا گیا اور انصاف پسند دانشوروں نے عدالت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی ۔ در اصل
ترکی میں فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی اپنے آپ کو سیکولر نظریات کی محافظ سمجھتی
ہے۔اکتوبر 2010 میں صدارتی محل میں منعقدہ ایک سرکاری تقریب میں ترکی کے آرمی چیف
نے صرف اس لئے شرکت نہیں کی کہ اس تقریب میں صدر عبد اللہ گل کی اسکارف پوش اہلیہ
بھی شریک تھیں۔ اسکارف گریزی کی یہ انتہا صاف بتا رہی ہے کہ سیکولرزم ٹوٹ پھوٹ کے
کتنے قریب ہے۔
ستمبر 2010 میں طیب ارگان
کی حکومت نے کچھ قانونی تبدیلیوں کے لئے ریفرنڈم کرایا جو کہ یورپی یونین کی رکنیت
کے لئے ضروری تھا۔ اس ریفرنڈم میں عوام نے 58 فیصد ووٹ حمایت میں ڈال کر حکومت پر
اپنا بھروسہ جتایا۔ اس ریفرنڈم میں فوجیوں کے احتساب کی زیادہ گنجائش پیداکی گئی
تھی جس کے نتیجے میں ان فوجیوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکے جنہوں نے
منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تھی۔1980 میں ترکی فوج نے بغاوت کرنے کی
کوشش کی تھی اور پھر 2003 میں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف بھی بغاوت کرنے کی کوشش
پکڑی گئی تھی۔
اسی ریفرنڈم کی جیت سے
حوصلہ پاکر ترکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ حجاب اتروانے والے قانون پر زبردستی عمل
نہیں کروایا جائے گا۔ بہرحال ترکی کی سیکولر فوج اور عدلیہ اور اسلام پسندعوامی
پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے درمیان اس وقت ایک کشمکش جاری ہے۔ دھیرے دھیرے
سیکولرزم دقیانوسیت اور فرسودگی کی علامت بنتا جارہا ہے اور اسلام پسندی آزادی اور
ترقی کی نشانی۔ موجودہ صورت حال میں بھی ترکی کی حکومت کے لئے قانوناً یہ ممکن
نہیں کہ وہ اسلام کی حمایت میں کوئی واضح اقدام کریں، لیکن حالات جس رخ پر جارہے
ہیں اس میں اسلام کی پیش رفت صاف نظر آرہی ہے۔
قطع نظر اس سے کے کہ ہم
جسٹس اینڈ دیولپمنٹ پارٹی کے منہج کی تنقیح کس طرح سے کرتے ہیں، اس حقیقت کو نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ترکی دھیرے دھیرے اپنی بنیادوں کی طرف لوٹ رہا ہے۔آنے
والا وقت بتائے گا کہ انشاءاللہ یہ پیش رفت اپنے لئے خود کس طرح راستہ بناپائے گی۔
امید ہے کہ جس جمود کی وجہ سے خلافت عثمانیہ زوال سے دوچار ہوئی تھی اس کے مقابلے
میں یہ نئی اٹھان عالم اسلام میں ایک شاندار ڈائنامزم پیدا کرنے کا باعث بنے
گی۔عثمانیوں کی اُٹھان‘ اسلام کی آج کی پیش قدمی کو ہمارے شاندار ماضی سے ملاتی ہے
۔یورپ جو کبھی اس اُمت کو دسترخوان سمجھ کر ٹوٹ پڑاتھا انشاءاللہ قسطنطنیہ کے
راستے یہ اُمت اس اندھی آزادی کی علمبردار قوم کو نئی اور حقیقی آزادی سے روشناس
کرائے گی۔