تیونس تا مصر
جو دریا جھوم کے نکلے ہیں ،تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے!
بقلم: عائشہ جاوید
اسلامی تحریکوں میں زندگی ہو تو طاغوتوں کے پاؤں تلے عالم اسلام لرز سکتا ہے۔ بلکہ لرز رہا ہے۔ یہ پھل جو بہت تیزی کے ساتھ پک رہا ہے، کیا اِس بار بھی یہ ہماری کسی کمزوری اور ’عدم تیاری‘ کی نذر ہو جانے والا ہے؟ جاہلیت کے پاس ”نیا“ لانے کو اب بہت کچھ نہیں رہ گیا ہے اور ایک زوردار اسلامی عمل کی پیش قدمی کیلئے روز بروز خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ البتہ اِس کو پر تو ہمیں ہی کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر یہ ”پر“ ہو جائے گا۔ مصر میں بھی نظر یہی آتا ہے کہ یہ خوبصورت خلا ایک بار پھر اسلامی قوتوں کے بغیر پر ہو گا۔ جہاں یہ بات دردمندوں کے یہاں کئی ایک سوال کھڑے کر رہی ہے، اور حوصلہ مندوں کے یہاں اللہ کے فضل سے امیدوں کے کئی ایک دریچے وا کر رہی ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم اقوام کے اِن جذبات کا، خواہ وہ فی الحال کسی اسلامی شعور کے عکاس نہ بھی ہوں، ہم بغور ملاحظہ کریں اور اس وقت کی سوسائٹی کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنائیں۔
2010 ءکے اواخر تک کون سوچ سکتا تھا کہ خوابِ غفلت میں محو عرب دنیا میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر اٹھنے والی ہے جوامت مسلمہ کوامریکی مفادات کے محافظ طاغوتوں کے بار سے آزاد کرنے کی راہ میں ایک سنگ میل کا کام دے سکتی ہے! کسے علم تھا کہ اس خوابیدہ اُمت کو جھنجھوڑنے کے لئے ایک اور جھٹکا اس بار بر اعظم افریقہ کے شمال میں واقع ایک غیر معروف ملک کا مقدر بننے والا ہے!کسل و وہن کی دبیز تہہ کو ’انقلاب ِ یاسمین ‘ کے معطر جھونکے ایک دانست میں ہی لے اڑیں گے!یقینا بڑے سے بڑے تجزیہ نگاروں کے احاطہءخیال میں یہ تصور بھی نہ ہو گا! مگر ایسا ہو گزرا! دنیا نے راتوں رات ایک عیاش آمر کو لاوارثوں کیطرح لندن اورپیرس سے سر چھپانے کے واسطے سیاسی پناہ کی بھیک مانگتے بھی دیکھا، انکے انکار پر خجلت کا شکار ہوتے بھی دیکھا اور محلوں میں مست موجی رہنے والوں ان فراعین کیلئے زمین تنگ ہونے کا نظارہ بھی ملاحظہ کیا!پردے پر پابندی ڈال رکھنے والے اس آمر کو سعودی عرب میں پناہ لینا کتنا شاق گذرا ہوگا جہاں پر اس کی ماڈرن قسم کی بیوی کو اب برقعے میں رہنا ہے؟
بیشک عزت ، ذلت کے معاملے اس بابرکت ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو عروج و زوال کے نشیب و فراز کو جیسے چاہے گردشِ دوراں کا روپ دے ڈالتی ہے۔وہ ذات رسی دراز کرنے پر آئے تو دل پر پڑے کالے دھبے کو ظلمات کا ایسا لبادہ اوڑھا دیتی ہے کہ نورِ ہدایت کے دخول کیلئے کوئی دریچہ پانا محال ہو جاتا ہے!
٭٭٭٭٭
تیونس کے انقلاب کو ابھی دن ہی گزرے تھے کہ اہلِ مصر کے شباب میں ایمانی غیرت نے بھرپور انگڑائی لی! دیے کو جلا بخشنے کیلئے ایک لو کی ضرورت تھی! 28 نومبر 2010 بروز اتوار کو ہونے والے مصر کی تاریخ میں بدترین دھاندلی کا نشانہ بننے والاالیکشن آمریت کی منہ بولتی مثال کی صورت میں انکے سامنے تھا۔جمہوریت کے ذریعے پر امن انقلاب کی امنگیں ٹوٹنے کے زخم ابھی ہرے ہی تھے۔بیروزگاری، اشیاءکی بڑھتی قیمتیں، افراطِ زر، رہائشی مسائل سے چھٹکارا پانے کی موہوم امیدیں ’شفاف‘انتخابات کے بعد ایک بار پھر دم توڑ چکی تھیں۔ایک طویل سیاہ رات کے سوا افق پر کچھ نظر نہ آتا تھا۔
جغرافیائی محل وقوع سے غیر معمولی اہمیت کے حامل، اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین واقع، عالم عرب کے سب سے گنجان آباد ملک کے باشندوں کی ایک کثیر تعداد اس بابت کسی دو رائے کی حامل نہ تھی کہ یہ الیکشن محض رسمی کارروائی تھے اور انکے ووٹ ڈالنے سے سسٹم میں کوئی تبدیلی آنا خارج از امکان تھا۔الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مواطنین کا کہنا تھاکہ دھاندلی کاو اضح ثبوت بیرونی تجزیہ نگاروں کی آمد پر پابندی اور حزب اختلاف( جس میں سیاسی اعتبار سے سب سے منظم جماعت اخوان المسلمون ہے )کے بہت سے ممبران کو جیل میں نظر بند کر دینے سے عیاں تھا! اس پر مستزاد یہ کہ اس چال کے پس پردہ مصری الیکشن کمیشن کی وہ شق تھی جس کے تحت امن وامان کی خرابی میں ملوث افراد یا سیاسی بنیادوں پر 2 ہفتوں تک جیل کی ہوا کھانے والے الیکشن میں کھڑا ہونے کیلئے نااہل قرار پائے!عوام اپوزیشن سے ہمدردی رکھنے کے باوجود انہیں ایوانِ اقتدار میں نہیں دیکھ پا رہے تھے گویا نام نہاد جمہوریت میں انہیں بربادی سوا کچھ نہ ملاتھا!سہانے مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے ،جمہوریت کو نجات دہندہ مانتے مانتے وہ ہاتھ ہی ملتے رہ گئے تھے!
حالیہ انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے والی ووٹرز کی قلیل تعداد سے یہ تخمینہ لگاناکچھ ایسا مشکل نہ تھا کہ امسال ہونے والے صدارتی انتخابات میں عوامی عدم اطمینان کس درجے کا تھا۔450 حکومت مخالف امیدواروں کو الیکشن لڑنے کا اجازت نامہ دیا گیا تھا۔صدارتی پارٹی سے 800 امیدوار کھڑے ہوئے جبکہ درجنوں گرفتاریوں کے عمل میں آنے کے باعث اخوان کی تعداد گھٹ کر 130 رہ گئی تھی، یہ با ت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ’جمہوریہ مصر ‘ میں اخوان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابند ی لاگو ہے کیونکہ کہ ان پر اسلامی منشور لیکر چلنے کا الزام ہے،۔اس بنا پر انکے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔مصری پارلیمینٹ میں 518 سیٹوں میں سے 508 آزادانہ انتخابات کیلئے مختص ہیں جبکہ بقیہ دس سیٹ صدارتی صوابدید پر ہیں۔64 سیٹیں اس با ر خواتین کیلئے مخصوص کی گئیں جن پر منتخب ہونے والی امیدواروں سے اس سے بڑھ کر کیا توقع رکھی جائے کہ وہ محض کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ ہوں گی!غضب تو یہ ہے کہ حکومت مخالف پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی!اخوان اور لبرل وفد پارٹی کا کوئی امیداور بھی سامنے نہ آسکا۔کسی نے بہت خوب کہا کہ دھاندلی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کے تحت دن دھاڑے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں ہوتا مگر اس بار تو حد ہی ہوگئی!
الیکشن مہم میں بطور امیدوار کھڑی ہونے والی منال عبدالکریم اپنے مختصر حلقے کے ہمراہ قاہرہ کے ایک گنجان آباد علاقے میں خواتین سے ملاقاتیں کرنے کی غرض سے داخل ہوئی تھی۔اتنے میں اسکا سامنا خنجروں سے لیس چنداوباش جوانوں سے ہوا۔وہ الٹے قدموںمڑی تو ایک حکومت نواز پویس افسر نے اسکا راستہ روک دیا۔اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والی اس بہن نے احتجاج کیا تو اسے واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ اسکی مہم اب ختم ہو چکی!
معاملہ منال پر ہی ختم نہیں ہوتا، لاتعداد اخوانیوں کو اسی صورتحال کا سامنا رہا۔انکے 1200 حامیوں کو عین الیکشن کے روز گرفتار کر لیا گیا!
موبائل فون پر بنائی گئی متعددویڈیوز اس حقیقت کی چغلی کھاتی نظر آتی ہیں کہ شخصی آزادی کے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا۔قاہرہ کے نواحی علاقے شبریٰ الخیمہ میں اخوان کے حامیوں سے پولیس اہلکاربلا سبب ہاتھا پائی کرتے رہے ۔صلاح الدین عیسیٰ نامی ایک وکیل جو اخوان کے حامی تھے کہتے ہیں کہ پولنگ اسٹیشن میں جانے کی کوشش کی تو ان پر مکوں کی بارش کر دی گئی!بیشتر علاقوں میںلکڑی اور شیشوں سے بنے بیلٹ بکس پر خستہ حال تالے پڑے منہ چڑا رہے تھے،۔ عام منظردیکھنے میں آیا کہ کیمروں سے چھپتے چھپاتے حکومتی کارندے بیلٹ بکس کو جعلی ووٹوں سے بھر کر اپنے ساتھیوں کے حوالے کرتے رہے !186 ممبران کو پولنگ سٹیشن کے باہر گرفتار کر لیا گیا۔ضلع حلوان، ازبکیہ اور6 اکتوبر سے اپوزیشن پارٹی کے امیدواروں نے بطور احتجاج اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔قاہرہ اور اسکندریہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔سعد القطاطنی جو جانے والی پارلیمنٹ میں اخوانیوں کے لیڈر ہیں اور انکی جماعت پچھلے الیکشن میں 88 سیٹوں پر براجمان تھے (جو اسمبلی کا پانچواں حصہ تھا) نے بارہا خبردار کیا تھا کہ انقلاب لانے کیلئے عوام کا پرامن ذرائع پر سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے مگر حکمران طبقے کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
عالمی ذرائع ابلاغ کے دباؤاور بڑھتی ہوئی مبینہ بدعنوانیوں کے پیشِ نظررسم ِ دنیا نبھاتے ہوئے حکومت نے تحقیقات کا عندیہ تودیا مگر داخلی خارجی سطح پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔یہاں تک کہ ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈپٹی ڈایئریکٹرجو سٹورک نے ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں خدشات کا اظہار کیا کہ شفاف اور غیرجانبدارالیکشن منعقد کروانے کے سلسلے میں عالمی دباؤ کی کمی تھی ۔الیکشن مانیٹرنگ کیلئے جاری کرنے والے 6000 اجازت ناموں کے حامل افراد میں صرف 10 فیصد کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا گیا۔بنا بریں نیویارک کے ہیومن رائٹس واچ کا نمائندہ ٹام مالینووسکی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ انتخابات میں ماسواشفافیت کے سب کچھ تھا!
٭٭٭٭٭
82 سالہ ریٹائرڈ ائیر چیف مارشل حسنی مبارک کی زیر قیادت نیشنل دیموکریٹک پارٹی مصر کے سیاسی منظر نامے پر 1978 سے تین عشروں تک واحدناقابل شکست سیاسی طاقت بن کر ابھری ہے، ارض مصر کے طول و عرض پر راج کرنے والی اس جماعت کومشرق وسطی میں ا مریکی مفادات کو پروان چڑھانے کے عوض 13 بلین ڈالر کا امداد ی پیکج دس سالہ دورانیہ میں مہیا کرنے کے سبز باغ دکھائے گئے !ضمیرفروشوں کیلئے یہ ’خطیر‘ رقم کنزِ قارون سے کم نہ تھی! اپنے آقاؤں کی خوشنودی پانے کیلئے مبارک نے اسرائیل کیلئے ہر کڑے وقت میں نرم گوشہ دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔2004 میں عالمی امداد کو محبوس و مجبورفلسطینیوں تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔ اس بد بختی پراکتفا نہ کرتے ہوئے شیطانی دماغ مالکوں پر وار ہونے اور اپنی وفا کا یقین دلانے کیلئے اس سے بھی کچھ بڑھ کر کرگزرنے کا خواہش مند تھا!بیروت کی امیریکن یونیورسٹی میں شعبہ ءپولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ھلال خاشان کے بقول اپنے طویل راج میں مبارک کی تماتر توجہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے،امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اسرائیل کی طرفداری کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر مرتکز رہی ہے، بجائے اسکے کہ عرب دنیا کے مسائل کے حل کیلئے کلیدی کردارادا کرے وہ روزِ اول سے ہی اپنی داداگیری قا ئم رکھتے ہوئے ابھرتے سیاسی حریفوں کو ظلم و تشدد کے ذریعے کچلنے کی ریت اپنائے ہوئے ہیں!
ایک عرصہ سے مصر میں گرفتاریاں اور تشدد جیسے معمول سے بن کر رہ گئے ہیں۔خالد سعید کے انجام سے کون واقف نہیں ؟’جمہوریہ مصر کے اس 28 سالہ جوان کا قصور محض اتنا تھا کہ اس نے مصری پولیس کا اصلی چہرہ بے نقاب کرنے کی جسارت کرتے ہوئے ایک آن لائن ویڈیو انٹر نیٹ پر پوسٹ کر دی تھی۔اسکے بعد اسکا لاشہ گھر کے قریب موجود ایک عمارت کی لابی میں اس حالت میں پایا گیا کہ اسکے سر کو ماربل کی سیڑھیوں پر مار مار کر کچل دیا گیا تھا!ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے تو معامل کو رفع دفع کرنے کیلئے پولیس نے کارروائی کی یقین دہانی تو کرا دی مگر ملزموں کے نام پر دو راہگیروں کو گرفتار کر لیا! انہی کرتوتوں کے باعث اسکندریہ کے مکین عرف عام میں پولیس سٹیشن کو ذبح خانے کے نام سے جانتے ہیں!
٭٭٭٭٭
قرائن کافی عرصے سے ایک ان دیکھے طوفان کی پیشین گوئی کر رہے تھے مگر شاید دلوںپر مہر لگے صم بکم عمی آمر اپنی طاقت، خوشامدیوں کے ٹولے اور امریکہ نوازی کے نشے میں کچھ ایسے سر مست تھے کہ خطرے کی بو اور عامتہ الناس کے دبے غم وغصہ کے ابھرتے جذبات تک شناسائی حاصل کرہی نہ پائے۔
انتفاضہءمصر کی لہر 25 جنوری کو اٹھی اور جمعتہ الغضب تک 90 سے زائد مظاہرین کی اموات واقع ہو چکی تھیں۔مشتعل افراد نے حکومتی پارٹی کے ہیدکوارٹرز کو نذرِآتش کر دیا۔ بپھرے ہوئے مظاہرین نے میوزیم تباہ کر دیا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز ملک بھر میں بند کر دی گئیں۔ ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی گئی ۔فوج کو کرفیو نافذ کرتے ہوئے مظاہرین کو موقع پر گولی مار دینے کا حکمِ شاہی جاری کر دیا گیا!جگہ جگہ نکلنے والے جلوس پر امریکی ساخت کی آنسو گیس برسائی گئی مگر اب کی بار شباب کے عزم جوان ہیں، جیسے کسی نے ان میں انقلاب کی روح پھونک دی ہو۔تین عشروں تک ناحق سہنے کے بعد اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا! ایسالگتا تھا کہ کوئی قبض زدہ مریض بے چین ہو اُٹھا ہو۔ گیدڑ بھبکیوں سے بے نیاز یہ جلوس جن راہوں سے گزرتے ہیں وہاں کے مکین گھروں کی بالکونیوں اور چھتوں سے آنسو گیس کا اثر زائل کرنے کیلئے لیموں کے رس کا موسلادھار چھڑکاؤ کرنے لگتے ہیں۔’مبارک، اب گھر جاؤ!‘ پورے مصر کا نعرہ بن گیا ہے ! میدان التحریر پر ملین مارچ کی سیسہ پلائی دیوار کے آگے فوج اور پولیس ہتھیار ڈال چکی ہے بلکہ تو بعضوں نے سادہ لباس میں مظاہرین کیساتھ اظہار یکجہتی کا راستہ اپنا لیا ہے! غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ بدترین قسم کا غیر انسانی سلوک کرنے میں مبارک نے اسرائیل کا جو ساتھ دیا تھا اس کو کوئی باضمیر اور غیرت مند قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ حسن البناءاور سید قطب کے دیس کے باسی مجبوری کی وجہ سے غم و غصے کا گھونٹ پی کر اپنی قوم کے ماتھے پر اس کلنک کو لگتا ہوا دیکھنے پر مجبور تھے۔لیکن مصری عوام کی یہ مجبوری اندر ہی اندر لاوا بن کر تیار ہورہی تھی۔
اس مرتبہ مبارک کے کابینہ معطل کر دینے کے ڈرامائی اقدامات اور اگلی معیاد کیلئے کرسی چھوڑ دینے کے جھوٹے وعدے رنگ دکھانے والے نہیں!دیکھنا یہ ہے کہ مبارک سیاسی خودکشی نہ کرنے کے زعم میں اقتدار سے منسلک رہتا ہے یا بچی کچھی غیرت اسے صدارت سے کنارہ کشی اختیار کر لیے پر مجبور کرتی ہے!
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ویانا کی انڑنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ’نوبل انعام یافتہ‘ امریکہ کے ایک اور وفادار ،محمد البرادعی پر موقع کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیڈرشپ رول اپنے سر لینے کا بھوت سوار ہوا ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ اہلِ مصر آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے والے نہیں!
ایک طویل مدت تک اندھیرنگری میں ٹھوکریں کھانے کے بعد، امید ہے وہ ضرور محتاط ہونگے۔اسلام کو جاہلیہ سے خلط نہ ہونے دیں گے کہ جاہلیت خواہ کسی بھی دور سے نسبت رکھے، جاہلیت ہی کہلاتی ہے بالفاطِ دیگر اللہ اور اسکے بنائے ہوئے نظام سے انحراف!خالق کا مقام مخلوق کو دینے کی غلطی جسکا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں۔جاہلیت انسانوں کو خود ساختہ نظام مربوط کرنے کی آزادی دیتی ہے جہاں قانون سازی اللہ کے قوانین سے مبرا قرار دی جاتی ہے ۔جبکہ اسلام کے آنے کا مقصد تخلیق کوخالق کی طرف لوٹا کر،بنی آدم کو اس اعلی و ارفع مقام تک لے جانا تھا جہاںوہ خواہشاتِ نفس کی غلامی سے آزاد ہو کر اللہ کے حضور سر ِ تسلیم خم کر لے۔ رب العرش کو نہ اپنی ذات میں شراکت قبول ہے، نہ اپنے دیے گئے نظام میں کہ خیروشر کا یکجا ہونا خلافِ فطرت ہے!نظامِ اسلامی کے سوتے وحیءالہی سے نمو پاتے ہیں جبکہ جاہلیت اپنی موت آپ مر جانے کیلئے ہے۔ ربعی بن عامرؓ نے فارس کے سالار رستم کے اس استفسار پر کہ مسلمان وہاں کیوں آنا چاہتے ہیں، واضح الفاظ میں بیان کیا تھا کہ ہمارے رب کا حکم ہے کہ انسان کو اسکے نفس کی غلامی سے اللہ کی غلامی میں دے دیں، اس دنیا کی حقیر تمناؤں سے ماورا کر کے اس دنیا کی راہ دکھائیں جسکی وسعت زمینوں اور آسمانوں پر محیط ہے اور طاغوت کے شکنجے سے چھڑا کر اسلام کے عادلانہ نظام کی آغوش میں ڈال دیں!
مختصر یہ کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ صرف صراطِ مستقیم سے ہو کر جاتا ہے۔اسکا بنایا ہوا نظام ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے۔اسکی شریعت ایک ہی ہے اور باقی سب تحریفات ہیں۔دار الاسلام وہی جہاں اسکا نام سربلند رہے اور کفر سرنگوں رہے !توحید کی اساس جہالت سے نجات دلانا ،اسکا مقصددکھوں اور پریشانیوں سے نکال کر رحمت ِ خداوندی کے سائے میں دینا ہے۔آخرت کی آسائش کے بالمقابل دنیاوی آلائشوں کو خیرباد کہنا ہے۔اسلام اپنی بقا کیلئے مدافعانہ طرز عمل کا محتاج نہیں، اسکو تو غالب آکر ہی رہنا ہے اور بھٹکتی انسانیت کیلئے قندیلِ روشن کا کام انجام دینا ہے!
مغربی دنیا اور خصوصاً امریکہ کی منصوبہ بندی بڑی لاجواب اور طویل المیعاد ہوتی ہے ۔ شاید دنیا میں کوئی جگہ ہو جہاں پر ان کے مہرے نہ ہوں۔ کوئی بھی حادثہ ہو امریکہ کا بیک اپ (backup plan)پلان تیار رہتا ہے۔ہر ہر متوقع واقعے کے لئے لائن آف ایکشن بالکل واضح ہوتی ہے۔ لیکن اصل مدبر امر تو اللہ رب العالمین ہے! حالات جس رخ پر گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے پاس اس صورت حال کے لئے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں تھی۔ جب پورا کا پورا مصر یک زبان ہو کر حسنی مبارک کو جانے کے لئے کہہ رہاتھا, اسرائیل دم بخود تھا اور امریکی صدر اوباما منظم اور باضابطہ تحویل (orderly transition) کی صدا لگا رہے تھے۔ امریکہ جوکہ ہر پٹتے ہوئے مہرے تیزی کے ساتھ بدلنے کا عادی تھا اس صورت حال میں کوئی راستہ نہیں پارہا ہے اور اسی پٹے ہوئے مہروں سے کچھ مہلت تک کے لئے کام چلانا چاہتا ہے۔
بیداری کی یہ لہر یمن اور اردن تک جا پہنچی ہے۔اہلِ صنعاء نے 3 فروری کو یوم الغضب کی کال دے دی ہے۔وہ 1978 سے اپنے اوپر مسلط علی عبداللہ صالح سے نجات کا مطالبہ کر چکے ہیں جس نے مشرق وسطی میں اصحاب القلوب الرقیق کی سرزمین کو امریکی کارروائیوں کا لانچنگ پیڈ بنا دیا ہے۔اردن کے شاہ عبداللہ نے عوامی غیض و غضب کے پیشِ نظر سمیر رفاعی کی حکومت کو برطرف کر کے آزادانہ انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔یمن کے صدر علی عبد اللہ صالح نے 2013 میں کرسی چھوڑنے کی فوری یقین دہانی کرائی۔ کیا ’جمہوری طرز کے انتخابات‘ واقعتا مسائل کا’ حل ‘ہیں؟ اونٹ فوری طور پر کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ آنے والا وقت اس کا گواہ ہو گا!
ہمارا ایمان ہے کہ ظلم و ستم کے کوہ ِ گراں حد سے تجاوز کرنے لگیں توروئی کیطرح مٹنا اسکا مقدر ہو جایا کرتا ہے، پھر نہ تاج رہتا ہے نہ تخت،رہتا ہے تو صرف نام اللہ کا!
٭٭٭٭٭
اس سب کے باوجود اسلامی تحریکوں سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے باطل نظام کے ساتھ وہ نظریاتی معرکہ لڑا ہے جس کے بعد ہر خاص و عام اس کی طرف دیکھنے لگیں؟ کیا بات ہے کہ حسنی مبارک کو ایک پرانی اور ناپسندیدہ چیز قرار دے کر رد کرنے والے بھی واضح طور پر اسلام کو ایک متبادل کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں؟ باطل کے ایجنڈا بردار مہرے توکہنگی کی علامت ہیں ہی، لیکن کیا وحی کی حامل یہ اُمت پھر سے دنیا کی امامت کے لئے تیار ہے؟ یا پھر آدم کی اس ذریت کو ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے کی طرف ہی پلٹنا ہے؟
٭٭٭٭٭
ہماری اسلامی تحریکیں جو ”متبادل“ کا سوال پوچھ پوچھ کر تھکتی اور تھکاتی رہی ہیں.... جب ایسے مواقع آتے ہیں، جیسے کہ اِس وقت مصر میں، اور جن کو کہ پاکستان میں آنے کیلئے بھی ہرگز کوئی جھجک نہیں، تو ان پر واضح ہوتا ہے کہ ”عدم تیاری“ اور ”معاشرے کے اندر کوئی کام نہ ہونے“ کا مسئلہ ایک خاصا بڑا اور حقیقی مسئلہ ہے! مصر ودیگر مسلم خطوں کے یہ حالات یہاں کے عمل پسند طبقوں کیلئے کیا ایک بہت بڑی گتھی سلجھا کر نہیں دے دیتے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو! وہ وقت قریب آپہنچا ہے!
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے!
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں!
جو دریا جھوم کے نکلے ہیں ،تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے!
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت!
بڑھتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے!!