|
|
|
|
|
اخبار و آراء
تیونس میں انقلاب ابوزید
کئی مسلم ممالک ہیں جن میں مغرب کے مسلط کردہ ڈکٹیٹر عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان میں کئی باقاعدہ "جمہوری " طور پر منتخب ہوتے ہیں اور مغربی ممالک میں ان کی جمہوریت پسندی کو سراہا بھی جاتا ہے۔ مصر کی طرح تیونیشیا بھی ایسا ہی ایک ملک تھا جس میں ایک ڈکٹیٹر جمہوری نظام کے تحت "منتخب" ہوتا رہا اور 1987 سے اب تک منتخب ہی ہوتا رہا۔ زین العابدین بن علی کا دور حکومت وہاں کے عوام کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ مسلمان جہاں بھی ہو، ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کے لئے اپنی دین سے ہی رہنمائی حاصل کرتا ہے اس لئے حکمران کی مخالفت توقابل گرفت تھی ہی، دین پر بھی باقاعدہ پابندی عائد رہی۔کسی کے لئے بے خوف ہو کر نماز پڑھنا تک مشکل تھا۔ کرپشن کے نتیجے میں معاشی بدحالی سے عوام پریشان تھے ہی، کہ ایک پریشان حال شخص کی خود کشی نے ضبط کے سارے بند توڑ دئے۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ سترہ دسمبر 2010 کو ایک بے روزگار نوجوان کی خودکشی کی کوشش کے نتیجے میں احتجاج پھوٹ پڑا اور کسی طرح قابو میں نہیں آیا۔ سرکاری فورسزنے نہتے عوام پر فائرنگ کی، حکومت نے نئے الیکشن کے وعدے کئے لیکن احتجاج تھا کہ رکنے کانام نہیں لے رہا تھا۔ 14 جنوری 2011 کو ڈکٹیٹر نما صدر ملک سے فرار ہو گئے۔ فرانس نے پناہ دینے سے انکار کردیا اور موصوف کو سعودی عرب کا رخ کرنا پڑا۔اسی استبدادی حکومت کے وزیر اعظم نے صدارت سنبھالی اور عوام کے لئے آزادیاں بحال کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن احتجاج اب تک جاری ہے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ پچھلی حکومت کا کوئی بھی فرد موجودہ حکومت میں شامل نہ ہو۔ آخری خبر آنے تک پتہ چلا ہے کہ احتجاج جاری ہے اور پولیس بھی عوام کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوگئی ہے۔ زین العابدین بن علی کے فرار کے ساتھ ہی ایک عرصے بعد عوام نے سکون سے نماز پڑھی۔ سابقہ صدر کے دور کو کرپشن ، بدعنوانی، اقربا پروری، ظلم اور پابندیوں کے دور سے یاد کیا جائے گا۔ موصوف کی تمام زیادتیوں کے باوجود جمہوریت اور آزادی کے علمبردار ممالک مجرمانہ غفلت کے ساتھ اس ڈکٹیٹر کی حمایت کرتے رہے۔ انہیں مسلم ممالک میں الجیریا، تیونیشیا، مصر یا سوریا جیسی جمہوریت ہی پسند ہوتی ہے تاکہ جمہوریت کے نظام کے ذریعے صرف انہی کے کٹھ پتلی حکران منتخب ہوتے رہیں۔ مغرب کی استبدادی قوتوں کے لئے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے، اس انقلاب کی باز گشت دھیرے دھیرے مصر اور الجیریا میں بھی سنائی دے رہی ہے۔اس بار بھی کچھ بڑی طاقتوں کے لئے غیر متوقع صورت حال کا سامنا ہے۔عراق اور افغانستان میں امریکی انہماک شاید مغربی قوتوں کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ جب برا وقت آتا ہے تو پھر آہی جاتا ہے اور ہر تدبیر الٹی پڑجاتی ہے۔
|
|
|
|
|
|