تصوف میں غیبی کردار کی
جستجو
ابو زید
اس کائنات کو پیدا کرنے
کا اصل مقصد حق و باطل کی وہ کشمکش ہے جو ابلیس کی متکبرانہ بغاوت سے شروع ہوئی ،
جو آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی
با شعور مخلوق بھی پیدا کی جس میں خیر و شر دونوں کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے
کی استعداد و تحریک موجود ہے۔ اگر یہاں پر خیر ہی خیر مطلوب ہوتا اور اللہ صرف یہ
چاہتا کہ اس کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہ ہو تو اللہ کے فرشتے کچھ کم نہ تھے۔ اسی
حقیقت کو قران پاک میں تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں کی زبان سے یوں بیان کیا گیا ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ
فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ
وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ بقرۃ
:30)
اُنہوں نے کہاکہ ایسے شخص
کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیع اورپا
کیزگی بیان کرنے والے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس دنیا
میں اللہ سبحانہ وتعالی باطل کو بھی ایک حد تک پنپنے کا موقعہ دیتا ہے کہ یہ باطل
خوب پھلے پھولے پھر اللہ اس باطل کو اپنی قہاریت کی مارسے توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔
وَمَا خَلَقْنَا
السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ۔ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ
لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ۔ بَلْ نَقْذِفُ
بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ
الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ۔ (سورہ انبیاء 16۔18)
ہم نے آسمان و زمین اور
ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا
ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے۔بلکہ ہم سچ
کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نا بود
ہو جاتا ہے تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں:
باطل کو پھلنے پھولنے کا
موقعہ دے کر پھر جب اس پر حق کا کوڑا برستا ہے تو یہ اللہ کی حقانیت کی شان کا
اظہار کچھ اور ہی انداز میں ہوتا ہے بجائے اس کے کہ باطل کو ابھرنے ہی نہ دیا
جائے۔
آدم ؑ کے اس دنیا میں آنے
کے بعد سے اب تک یہی کشمکش جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی یہاں تک کہ قیامت میں
اللہ رب العزت اپنی شان قہاری کا اظہار کچھ اور ہی انداز میں کرے گا جس کے بعد
باطل کو کوئی مہلت نہیں دی جائے گی۔ دنیامیں خیر و شر کی اس کشمکش میں باطل کا
سرخیل ابلیس لعین ہے اور اس کے ساتھ اس کے تمام چیلے چانٹے ہیں جن کو شیاطین کہا
گیا ہے جس میں انسان اور جنات دونوں شامل ہیں۔اور اس کشمکش میں انبیاءعلیہم السلام
کی جماعت اور ان کے متبعین حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
ختم نبوت کے ساتھ ہی اب
یہ طے ہے کہ اس کشمکش میں حق کا پرچم رہتی دنیا تک صرف اور صرف محمد ﷺ کی اس اُمّت
کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔اسی لئے اللہ تعالی حق کی اس رہنمائی کے لئے قران پاک میں
انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر غور کیا جائے
تو پتہ چلتا ہے کہ انبیاءکے تقریبا ہر ہر واقعے میں حق و باطل کی اسی مخاصمت اور
ٹکراؤ کو نمایاں کیا گیا ہے۔حق و باطل کے اس معرکے میں حق کے علمبرداروں کی اصل
ذمہ داریاں یہ ہیں۔
1۔ ایمان لانا اپنے تمام
لوازمات کے ساتھ
2۔ اس ایمان کے مطابق عمل
کرکے اپنی زندگی کو اس ایمان کی عملی شکل دینا
3۔ اسی ایمان کے مطابق حق
کی شہادت دیناجس میں باطل کی زوردار انداز میں نفی بھی شامل ہے۔
4۔ شہادت حق کے نتیجے میں
جو بھی تکالیف اور آزمائشیں آئے اس کو برداشت کرنا اور ایک دوسرے کو ان آزمائشوں
پر صبر و ثبات کی تلقین کرنا۔
اللہ تعالی کلام پاک میں
ارشاد فرماتا ہے۔
وَالْعَصْرِ ۔إِنَّ
الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
زمانے کی قسم۔
بیشک(بالیقین) انسان سرا سر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور
نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت
کی۔
یہ راستہ اہل حق کا وہ
صراط مستقیم ہے جس کی گواہی قرآن پاک کے مواعظ، قرآن پاک میں موجود انبیاء علیہ
السلام کے واقعات اور ایام اللہ سے صاف ثابت ہے۔ اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک
دین مبین اور روشن راستہ جس پر چل کر ہی کامیابی مل سکتی ہے ۔ اسی راستے پر ہم کو
چلنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اسی راستے پر چلنے کی دعا بھی کرنے کا ہم کوحکم دیا
گیا ہے۔
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ
المُستَقِيمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ
ہمیں سچی اور سید ھی راہ
دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔
صحابہ اور سلف صالحین نے
بھی یہی راستہ اختیار کیااور اسی وجہ سے مختلف آزمائشوں میں ڈالے گئے اور نبی ﷺ کی
پوری نبوی زندگی اسی جدو جہد اور آزماشوں سے عبارت ہے۔ بلکہ جیسے ہی اس جدو جہد
میں نبوت کی ذمہ داری پوری ہوئی آپ ﷺ کو رفیق اعلی کی طرف اُٹھا لیا گیا۔کہ اب
رسالت کے بعد صدیقیت کو اپنا کردار ادا کرنا تھا اور اس میں صدیق اکبر نے وہ
استقامت دکھائی کہ اس کا حق ادا کردیا۔
الغرض بنی آدم کا اس دنیا
میں یہی کام ہے اور یہی کردار ہے۔ اس ستھرے اور روشن راستے سے جو بھی بچھڑا وہ گمراہی
پر پڑگیا۔
دوسری طرف شیاطین جن و
انس کا راستہ فریب اور دھوکے کا راستہ ہے۔ باطل کا داعی کبھی باطل کی دعوت لے کر
نہیں آتا بلکہ وہ باطل کو بھی حق کے قالب میں پیش کرتا ہے اور اس کے لئے دلفریب
اوردلکش االفاظ اور پر کشش تصورات کو بروئے کار لاتا ہے۔ حق کا راستہ مشکل، نفس کی
خواہشات کے خلاف ہے اور انسان سے صبر و استقامت کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ باطل اسے
اسی آزمائش میں ڈٹنے کے مقابلے اس آزمائش سے فرار اور گریز کر کے کنارہ کشی کا
راستہ دکھاتا ہے۔ اور جب یہ حق گریزی میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر یہ بھی حق کے نام
پر باطل کا پرچم ہاتھ میں لے کر باطل کا داعی بن جاتا ہے۔
چونکہ انسان اپنی فطرت
میں عمداً باطل کا علمبردار اور داعی نہیں بن سکتا اس لئے شیاطین اس کو دینی نصوص
کی اس طرح سے تاویلات کرکے دیتے ہیں کہ وہ اس کے فریب میں آجاتا ہے۔ ان شیطانی
تاویلات کا سب سے اہم نشانہ انسان کا وہ کردار ہے جس کو اسے اس دنیا میں ادا کرنا
ہے یعنی، ایمان، عمل صالح، شہادت حق اور صبر کی تلقین۔ ان ذمہ داریوں کے بدلے اس
کا نصب العین کچھ اور ہی کر کے پیش کردیا جاتا ہے جو کہ الفاظ و تصورات کی حد تک
تو بہت پر کشش ہوتے ہیں لیکن نہ اللہ نے انسان کو اس لئے بنایا ہوتا ہے اور نہ یہ
اس کے لئے قابل حصول ہوتے ہیں۔
راہ حق سے روگرادنی کرنے
کی ایک معروف جہت یہ ہے کہ دنیا کے ان ہنگاموں میں حق کی آذان دینے کے بجائے کوئی
خفیہ قسم کا روحانی کردار ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔اس کی مختلف شکلیں مروجہ تصوف
کے نام سے پائی جاتی ہیں۔ اس راستے پر پڑ کر کوئی فنا فی اللہ ہوکر عین حق بننے کی
کوشش کرتا ہے، کوئی نبی کی برابری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ اور ہیں جنہوں نے
نئے نئے عہدے بنا لئے ہیں جیسے ابدال، قطب اور غوث۔اور اس میں جو مجموعی طور پر
طریق اہل سنت کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی کم از کم روحانی اعمال کے ذریعے
سے شرف صحابیت کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ حالانکہ جن کو اللہ نے پسند کیا ان کو صحابی
بنا لیا اور اس میں مزید کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے انسان کواپنا بندہ بنانے
کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ اس سے زیادہ کچھ نہیں بن سکتا۔سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے
اور اب اللہ سے براہ راست ہدایت لینے کے بجائے ہر ہدایت کے لئے نبی سے رجوع کرنے
کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ دین کا طے شدہ امر ہے۔
اس گمراہی کے راستے پر پڑ
کر انسانوں کے لئے وہ مقام طے کئے جاتے ہیں جن کے لئے نہ انسان بنا ہے اور نہ اللہ
کے کلام میں اس کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ یہی گمراہی ہے جس میں یہ دعوی کیا جاتا
ہے کہ ابدال، قطب اور غوث اس دنیا میں رہ کر دنیا کے اوامر کے بارے میں فیصلے کرتے
ہیں بلکہ ان کو نافذ بھی کرتے ہیں ۔ حق وباطل کی کشمکش میں اللہ کے رسول اور صحابہ
کا جو معلوم و معروف کردار ہے اس کو نظر انداز کر کے ان کے کچھ خفیہ رول کی جستجو
کی جاتی ہے اور ان کے بارے میں ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہے جس کا نہ انہوں نے
دعوی کیا نہ ہی قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا۔ انکے ایسے غیبی اور باطنی کردار
متعین کئے جاتے ہیں جس میں اللہ کی بعض صفات جیسے، تدبیر امر ، تکوین ، علم غیب
وغیرہ میں وہ اللہ کے شریک بن جاتے ہیں۔ بلکہ یہی صفات نہ صرف ان کے لئے بلکہ اپنے
لئے بھی یا تو متعین کئے جاتے ہیں یا پھر ان کی جستجو کی جاتی ہے۔اس پورے سلسلے
میں ضعیف اور موضوع احادیث ان کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اتنی اہم بات چونکہ قرآن پاک
میں دور دور تک پائی نہیں جاتی اس لئے کلام اللہ جو کہ ایک روشن اور محکم کتاب ہے
اس میں کچھ چھپے ہوئے باطنی نکات جو کہ صحابہ کرام کے فہم سے مختلف ہوتے ان کی
اتباع کی جاتی ہے۔
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ
عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ
مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا
تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ
تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ
كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ۔ (آل
عمران: 7)
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے
تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ
آیتیں ہیں۔پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے
ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ،حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو
سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتااور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ
ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں،یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند
حاصل کرتے ہیں۔
ایک طرف قرآن کے ساتھ یہ
معاملہ دوسری طرف رسول ﷺ کی مکی اورمدنی زندگی کے بجائے قبل ولادت اور مابعد الموت
حیات و کردار ان کی توجہ کے خصوصی مرکز ہوتے ہیں۔ محمد ﷺ کی زندگی کا ذکر ہوگا تو
بھی حق کے عظیم ترین قائد کے بجائے اس حیثیت میں ہوگا کہ نبی کا علم واختیار کتنا
تھا، نبی نوری ہے یا خاکی، اللہ نے کائنات سے کتنے لاکھوں برس پہلے نبی کو پیدا
کیا، نبی کی موت کی بعد ان کی حیات کی کیفیت کیسی ہے، نبی کو کلی علم غیب یا
جزوی!! پھر ان نکات کو ایسے اعمال و اقوال کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن
کی کوئی اصل دین میں نظر نہیں آتی۔ کبھی اُمت کی حالت زار پر رسول سے فریاد کی
جاتی ہے، کبھی اصحاب قبر سے "استفادہ" کیا جاتا ہے ، کبھی "غوث
پاک" کی مدد طلب کی جاتی ہے، کبھی روحانی منزلوں کو سر کرنے کے لئے رسول ﷺ سے
براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔اور یہ سب کچھ کر کے یہی باور کیا
جاتا ہے کہ اصل دین یہی ہے۔
الغرض اس گمراہی میں اول
سے آخر تک اس رزم گاہ حق و باطل میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے ایک خفیہ اور
غیبی کردار و اختیار کی جستجو ان کا نصب العین ہوتی ہے۔خیر و شر کی اس جنگ میں ان
کی حیثیت بس یہی رہی کہ وہ قضا و قدر کی رسیاں ہلا ہلا کر دور سے نظارہ کرتے
رہیں۔صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ اس گمراہ کن راستے پر پڑ کر انسان کی پوری کوشش
ہوتی ہے کہ وہ ایک متبع حق امتی کے بجائے کچھ اور بن جائے، کوئی فنا کے ذریعے سے
خدا بننے کی کوشش میں ہے، کوئی براہ راست خدا سے علم حاصل کرکے نبی بننے کی جستجو
میں، کوئی خدائی اموامر کو نافذ کر کے فرشتے بننا چاہتا ہے اور کم از کم اگر کچھ
ممکن نہیں تو صحابی بننے کے فراق میں ہے۔(1)
اور تو اور اسلام کی اس
غربت ثانیہ میں اس طبقے نے "پورے خلوص" کے ساتھ اپنے لئے جو رول متعین
کیا ہے وہ باقاعدہ باطل کا علمبردار بن کر ظاہر ہوا ہے۔ حق و باطل کے اس معرکے سے
کنارہ کشی کے شوق میں صدیوں سے جو فکر پلی ہے اس میں ایک اور اضافہ یہ ہوا ہے کہ
حق و باطل کا فرق ہی سرے سے مٹادیا جائے۔ حق و باطل میں فرق کرنے والے اجزاءمیں سب
سے بنیادی عنصر توحید و شرک کا فرق ہے۔وحدۃ الوجود کے نام پر اس باطنی فکر نے
توحید کی ہی ایسی تشریح کرڈالی کہ توحید ہی شرک بن گیا اور شرک عین توحید۔ جب حق و
باطل میں فرق ہی مٹ گیا تو اس طبقے نے ایسے کسی معرکے میں اللہ اور رسول کے نام
لیواؤں کے بجائے ان کا ساتھ دینا پسند کیا جو ان کے اس تصور دین کی مخالفت نہ
کریں۔ نتیجتاً مغرب اور اسلام کے اس حقیقی معرکے میں اہل تصوف کے ایک طبقے نے مغرب
کا آلہ کار بننے میں کوئی حرج نہیں جانا۔
تصوف کا یہ سلسلہ اگرچیکہ
اہل سنت کے دعویداروں میں ہی پایا جاتا ہے بلکہ برصغیر میں ان کے اپنے زعم کے
مطابق یہی اہل سنت ہیں،لیکن اس معاملے میں روافض سے اس طبقے کو خصوصی نسبت حاصل
ہے۔شیعیت کا امامت اور تقیہ کا عقیدہ اس خفیہ رول سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔
اہل بیت کے نام نہاد شیدائیوں نے جب دیکھا کہ ان کی خواہشات کے علی الرغم علی ؓ
چوتھے نمبر پر خلیفہ بنے ہیں، حسن ؓ کو مختصر سی خلافت ملی ہے اور حسین ؓ تو ان کے
روحانی آباءکے فریب کے شکار ہوکر شہید ہوگئے تو انہوں نے اپنے معصومین کے لئے وہ
کردار متعین کئے جن کی حیثیت مکمل طور پر غیبی تھی اور عملاً نہ ان کی تصدیق کی
جاسکتی تھی اور نہ تردید۔کہیں پر انکی خفیہ امامت کے دعوے کئے گئے، کہیں انہیں
تخلیق کائنات کے لئے واسطے قرار دیا گیا، کہیں انہیں مدبر امر مانا گیا تو کہیں
عالم غیب۔پھر تقیہ کے عقیدے نے ان کوپوری آزادی دے دی کہ جس سے جو چاہے منسوب
کردیں اور دعوی کریں کہ انہوں نے تقیہ کیا تھا۔یہ پورا سلسلہ جذبہ محرومی اور ایک
قسم کے فرسٹریشن (frustration) کا عملی اظہار تھا۔یہ فرسٹریشن ان گروہوں کا بھی
ہے جو ایک امتی بن کر حق کی شہادت دینے کے بجائے خدا، رسول، فرشتہ یا انہیں کے کچھ
متبادل کردار کی طلب میں مجاہدے کرتے ہیں۔جس طرح ایسے غیبی کردار کا طلب کرنا ایک
گمراہی ہے اسی طرح اس طلب میں جو مجاہدے کئے جاتے ہیں وہ بھی روح دین سے کوئی نسبت
نہیں رکھتے اگرچیکہ ان اذکار و اشغال کی حمایت میں ان کو کچھ نہ کچھ نکات غیر
مستند احادیث میں مل بھی جاتے ہیں۔
اسی غیبی نظام میں تصوف
کے وہ سلاسل بھی ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ صحابہ سے ہوتے ہوئے
رسول اللہ ﷺ تک جاملتے ہیں۔ اور اس میں تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ ایک دو کو چھوڑ
کر تقریباً سب کے سب سلسلے حضرت علی ؓ کے ذریعے ہی نبی سے جاملتے ہیں ۔ اہل سنت کی
تشفی کے لئے ان میں ایک ادھ ہی کو بواسطہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کے رسول اللہ ﷺ تک
ملایا جاتا ہے۔ باقی صحابہ کے بارے میں غالباً ان کا خیال ہے کہ وہ روحانی طور پر
نبیﷺ کے وراثت کے قابل تھے ہی نہیں۔اس ضمن میں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے
کہ شہادت حق دینے والے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے ان سلاسل کو کچھ ایسے خفیہ
رکھا کہ ثقہ راویوں کو ان کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔مستند احادیث سے ایسے کسی خفیہ
سلسلے کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ قابل غور ہے کہ روافض کی امامت اور صوفیا کی خلافت میں
کتنی مماثلت ہے۔
آخر کوئی تو بات ہے کہ
انہیں اپنی دلیل کے طور پر ضعیف اور موضوع احادیث ہی ملتی ہیں یا قرآن پاک میں
کوئی باطنی نکتہ اور خفیہ اشارہ جو سلف کے دائرۂ فہم میں نہیں آسکا! اگر موازنہ
کرنا ہی ہے تو مسیحیوں کے تثلیث کے عقیدے،روافض کے امامت کے عقیدے اور صوفیاءکے
وحدت الوجود اور فنا فی اللہ میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ سب
چیزیں دین میں غلو کے ہی نتائج ہیں۔
اللہ ہمیں سیدھی راہ
دکھائے اور شیاطین جن و انس کی فریب کاریوںسے بچائے۔
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ
قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ
أَنتَ الْوَهَّابُ
اللہم ارنا الحق حقا
وارزقنا اتباعۃ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابۃ
(1)۔بعض ایسے طبقے جو مجموعی
طور پر سنت کا التزام کرنے کے باوجود مروجہ تصوف پر بھی عمل کرتے، جب ان کو تصوف
کی اصل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ: صحابہ کرام کو تو
نبی ﷺ کی صحبت کی وجہ روحانی درجات حاصل ہو گئے تھے۔ لیکن چونکہ ہم اس روحانی
استفادے سے محروم ہیں اس لئے اذکار و اشغال کے ذریعے اس کا متبادل حاصل ہوسکتا ہے۔