تقسیم سوڈان کے بعد عالم عرب
صہیونی رافضی سازشیں
محمد زکریا خان
یہ بات تقریباً طے ہے کہ جنوبی سوڈان استصوابِ رائے کے بعد سوڈان سے الگ ہو جائے گا۔ مغربی طاقتوں نے سوڈان کی تقسیم کے لیے جس تیزی سے کام کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کشمیر میں استصوابِ رائے کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے باوجود سو سال ہونے کو ہیں منعقد نہیں ہو سکا اور نہ اس کا امکان ہے۔ سوڈان کا اندرونی مسئلہ تو کسی بین الاقوامی فورم پر ووٹنگ کے لیے پیش ہی نہیں ہوا ،اس کے لیے اقوامِ متحدہ نے نہ کوئی قرارداد منظور کی مگر اس کے باوجود بین الاقوامی قوانین بے بسی سے سوڈان میں استصواب کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سارے سیناریو میں اقوامِ متحدہ کا کردار محض ایک NGO کے برابر رہ گیا ہے!
جسے تیسری دنیا کہا جاتا ہے اور جہاں کے سارے حکمران مغرب کی اشیرواد سے مسلط یا انتخابی ڈرامے سے مغربی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اِن ممالک کے ٹیکس دہندہ عوام میں کسی ایک صوبے میں یا کسی تحصیل میں بھی استصواب کرایا جائے تو 99 فیصد ووٹ علیحدگی میں پڑیں گے۔ علمِ سیاست کا عام طالب علم بھی اسے جانتا ہے۔ کسی خطے میں استصواب کا منعقد ہونا ہی اس کی علیحدگی کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے تو صدی ہونے کو ہے کشمیر میں استصواب نہیں ہو رہا۔
کیا سوڈان میں حقوقِ انسانی کا المیہ چین سے بڑھ کر ہے۔ سنکیان کے عوام کیا قابض ملک چین سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتے۔ سوڈان کے غریب سیاہ فام اس دولتِ غیر مترقبہ ’استصوابِ رائے‘ کے مستحق ٹھہرے ہیں تو یہاں سفید فام حکمران طبقے کا کوئی مفاد ڈھونڈنا ہو گا۔
سوڈان نہ صرف عرب، افریقی ممالک میں بلکہ عالم اسلام میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ پانچ لاکھ مربع کلو میٹر کے اس وسیع و عریض خطے کو عربی بولنے والے مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا صہیونی مسیحی، رافضی اکھنڈ کے لیے نا قابلِ برداشت ہو رہا تھا۔ سوڈانی مسلمان جس تیزی سے اسلامی شریعت کی مکمل پابندی سرکاری سطح پر اپنے اوپر لاگو کرنا چاہتے ہیں، روشن خیال ڈیمو کریٹس، سیاہ فام عرب کی یہ خوشی دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ایک مرتبہ جب مسلمانوں اینگلو سیکسن قوانین کی تنگنائیوں سے نکل کر شریعت کی وسعت میں آگئے تو آزاد ہو جائیں گے اور پھر آزاد کو غلام بنانا خون کے دریا سے گزرنے کے مترادف ہے۔
سوڈان جغرافیائی لحاظ سے بھی افریقہ کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے، سوڈان کی سرحدیں افریقہ اور عرب ممالک کے دس ملکوں کے ساتھ لگتی ہیں۔ سوڈان میں خشکی کے راستے اس سرزمین کی طرح بہت وسیع ہیں، سوڈان سے ابھی تک زمین دوز معدنیات نہیں نکالی گئی ہیں۔ سفید فام قابض اقلیت صرف زمین کے اوپر موجود ذرائع پر قناعت نہیں کرتی، زمین کے اندر کے خزانے بھی انہیں مشینی آنکھ سے نظر آجاتے ہیں۔ زمین کا اوپر اور پاتال دونوں ہی مغربی ممالک کا مرغوب کھاجا ہے۔ سوڈان میں خیال کیا جا رہا ہے کہ معدنی تیل کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔
بحیرہ احمر قدیم تاریخ سے تادمِ تحریر تہذیبوں کا اور تجارتی منڈیوں کا مرکز رہا ہے۔ سمندری راستوں کے ملانے ایک پٹا ہوا راستہ جسے ہر جابر اپنے بحری بیڑوں کے ذریعے تسخیر کرکے قذاقی کا مزہ لینا چاہتا ہے۔
اس بد’ قسمت‘ ملک کی سرحدیں بحرِ احمر سے بھی لگتی ہیں یہاں سے برِّ اعظم ایشیا کے ساتھ ساتھ سمندری راستے سے پورے سمندروں پر قذاقی کی جاسکتی ہے۔
افریقہ کے دوسرے وسیع رقبہ اور فوج والے ملک مصر پر یہاں سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ مصر نے کچھ عرصہ پہلے تک صہیونی ریاست کو للکارا تھا، فلسطینی بھائیوں کی مظلومیت دیکھ کر مصر ایک سے زائد مرتبہ صہیونی ریاست سے ٹکرا کر اپنے گھبرو مروا چکا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ کی سزا کے علاوہ ابھی مصر سے اور حساب چکانا بھی باقی ہے۔
جنگ 1967ء(مصر، اسرائیل) کے بعد سوڈان کی سرزمین مصری جنگی تجربات کے لیے مناسب رہی ہے۔ فضائی ٹیکنالوجی پر بھی مصر کے لیے یہاں تجربات کرنا ممکن رہا تھا۔علاوہ ازیں مصر کی اسرائیل کے ساتھ طویل جھڑپوں میں سوڈان کی طرف سے مصر کو امداد بھی جاتی رہی تھی۔ وہ قومیں جو تاریخی طور پر ’کنعانیوں‘ (عربوں) سے ہزاروں سالوں کا بیر پالے ہوئے ہیں وہ سوڈان کی اس حرکت کا بدلہ کیسے نہ لیتیں۔
مصر صرف ایک دریا دریائے نیل کی گزرگاہ ہے۔ پاکستان کی طرح وہاں دریاؤں کا جال نہیں ہے کہ ایوب خان کی طرح وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی دریاؤں سے دست بردار ہو سکے۔ مصر میں پانی سوڈان سے گزر کر پہنچتا ہے ۔ سوڈان نے پانیوں کے معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی حالانکہ جس وقت پانی کا معاہدہ ہوا تھا تو اُس وقت برطانیہ کا مصر پر قبضہ تھا۔ برطانیہ ’قانع‘ ملک نہیں ہے۔ اس کا مصر کی ’خدمت‘ کرنے کا طویل پروگرام تھا اس لیے پانی کی تقسیم کا معاہدہ بھی برطانیہ کی پیاس کو سامنے رکھ کر مرتب ہوا تھا۔ اس کے باوجود سوڈان مصر کے پانی میں کمی نہیں آنے دیتا۔ کم زور سوڈان بہرالحال اگلے سالوں میں تقسیمِ آب کے کسی اور ظالمانہ معاہدے میں رکاوٹ ثابت نہیں ہوگا۔
اسرائیل اور ساسانی ریاست کے افریقی عربی ممالک میں مفادات کے لیے ’پانی‘ کا پتّا (card ) عربی ممالک کا پتا مارنے کے لیے بہت کارآمد ہوگا۔
افریقہ میں عیسائی مزعوم اکثریت والے ممالک میں اسرائیل نے ایتھوپیا اور یوگنڈا کے علاوہ دوسرے افریقی ممالک میں کمیونیکیشن کے نام پر علیحدگی پسندوں کے لیے جاسوسی کا پورا نظام بنا رکھا ہے۔
علیحدگی پسندوں کو اسرائیل کی طرف سے 1972ءتک برابر اسلحہ ملتا رہا ہے۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی سوڈان میں عصبیت پیدا کرنے والا مواد میسر کرنا۔
جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کے لیے غذائی ضرورت اور طبی مواد کی فراہمی کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنا۔ کیا دنیا کے باشعور انسان کو یہ بات سمجھانا آسان ہو گا کہ جو ظالم غزہ میں شیر خوار بچوں کو دودھ نہیں پہنچنے دے رہا ۔ زندگی بچانے والی ہنگامی دوائیں جسے دنیا کی پُرامن ترین سماجی شخصیات غزہ لے جانا چاہتی ہیں انہیں بندوق کا نشانہ بناتاہے اُسے سوڈان کی وسیع ترین زرعی اراضی کے بھوکے ستانے لگ جاتے ہیں!
اسرائیل پڑوسی ملکوں میں جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کے لیے فوجی تربیت کے کیمپ لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان پر جب بھی یہ الزام لگا کہ یہاں کشمیریوں کی مدد کے لیے کیمپ موجود ہیں تو اس کے جواب میں ہمارے ہاں سے کبھی سننے کو نہیں ملا کہ اسرائیل جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کے لیے فوجی تربیتی کیمپ بند کرے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل علیحدگی پسندوں سے یہ معاہدہ بھی کر چکا ہے کہ جنوبی سوڈان کا پہلا سفارت خانہ تل ابیب میں کھلے گا۔
گزشتہ ایک عرصے سے علیحدگی پسندوں کی جس طرح پہلے تخریب کاری کے لیے تربیت کی جاتی تھی اس کی بجائے اب ان کی تربیت اس طرح کی جا رہی ہے کہ استصواب کے بعد وہ ایک باقاعدہ فوج کی صورت اختیار کر سکیں اور ان کے پاس اس قدر اسلحہ ہونا چاہیے کہ جو کسی ہمسائیہ اسلامی ملک کی ’مہم جُوئی‘ کا منہ توڑ جواب دے سکے۔
مسئلہ صرف سوڈان کی تقسیم پر ختم نہیں ہو رہا بلکہ یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔
جتنے اسلامی ملک جو وسیع رقبے کے حامل ہیں سوائے ایران کے جسے وسیع کرنا ہے سب ہی طوعاً یا کرہاً تقسیم کیے جانا ہیں۔ سوڈان کی تقسیم اسی صہیونی مسیحی سازش کا ایک حصّہ ہے۔ مصر کے شہر اسکندریہ میں دھماکے اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مصر کی محدود اقلیت قبطی النسل کے حقوق آجکل بین الاقوامی میڈیا کے بھونپو سے کانوں میں پڑنے لگے ہیں۔ مصر میں نصاریٰ بھی پائے جاتے ہیں۔ بیشتر عرب ملک جہاں عیسائی آبادی ہے نصاریٰ کو ہاتھ کے چھالے کی طرح رکھتے ہیں۔ عرب ممالک میں عام پابندِ صوم و صلوٰة مسلمان کا جینا جتنا دوبھر ہے اس کے برعکس نائجیریا ہو یا مصر، لبنان ہو یا شام ،عیسائی آبادی دھڑلے سے اپنی دینی شعارات لیے مارکیٹوں اور شاہ راہوں پر دیکھے جاتے ہیں۔ پھر بھی مصر میں نصاریٰ کے لیے علیحدہ خطہ صہیونی مسیحی منصوبے کا حصّہ ہے۔
دوسری طرف رافضہ مختلف اسلامی ممالک میں علیحدگی کی راہ ہموار کرنے میں مذکورہ بالا منصوبے کا ایک بڑا کھلاڑی ہِیں۔ صعدہ (یمن) کے حوثیوں کو سعودی عرب کے خلاف مشتعل کرنے میں رافضہ کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
عراق میں شیعہ کا وجود حکومتی سطح پر جس طرح لایا گیا ہے اور ایرانی اثر ونفوذ میں جس طرح اضافہ ہوا ہے وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ لبنان میں شیعہ اور نصاریٰ دونوں بہت مراعات یافتہ ہیں۔ سوڈان جیسا تجربہ لبنان میں ہونا قرینِ قیاس ہے۔ پہلے مرحلے میں حکمران طبقے ہی پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ اگر دستوری طور پر علیحدگی نہیں ہوتی تو پھر دوسرے حربے استعمال کیے جائیں گے۔
خلیجی مملکتیں پہلے ہی چھوٹے چھوٹے بستی نما علاقے کو ملک کہہ کر نہ صرف راضی بہ رضا ہیں بلکہ ٹھاٹ سے بیٹھ کر بانسری بھی بجاتی ہیں، شاید ان کا تجربہ انہیں یہی سکھاتا ہو کہ بڑا رقبہ سنبھالنا آسان نہیں۔ چھوٹے رقبہ میں جاسوسی کا نیٹ ورک آسانی اور کم لاگت سے کھڑا ہو جاتا ہے پھر سوڈان ہے بھی تو بنجر!
کیا یہ ممکن ہے کہ نقشے میں یہ عبارت بھی کندہ کر دی جائے۔
كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
انّا للہ و انّا الیہ راجعون