یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
تلبیس اور تشکیک.. یہود کے دو سب سے
بڑے ہتھیار
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
ہم امتِ اسلام کو یہود کی جانب سے
”فریب“ اور ”تلبیس“ کے حملے ہی سب سے زیادہ سہنے پڑے ہیں....
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ
تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
(آل عمران: 71)
”اے اہل کتاب! سچ میں جھوٹ کیوں ملاتے
ہو اور سچ کو کیوں چھپاتے ہو، حالانکہ تم خوب جانتے ہو؟“
سچ اور حقیقت کے نام پر فریب دہی.. یہ
ان اہل کتاب کی پرانی خصلت ہے، اور اس سے چوکنا رہنا مسلمانوں کیلئے بے حد ضروری
ہے۔
تلبیس اور ملمع کاری کی خصلت!
کبھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب انہوں
نے اپنی یہ خصلت چھوڑ دی ہو اور امت محمد پر اپنی یہ پرانی مہارت آزمانا موقوف کر
دیا ہو! یہ کچھ تاریخی خصائص ہیں جو قرآن نے اِس دشمن کی بابت ہمارے لئے بیان کر
دیے ہیں۔ امتِ محمد کے معاملہ میں اہل کتاب کا یہ ایک بے حد کاری ہتھیار ہے۔ پہلے
دن سے یہود نے ہمارے خلاف یہ ہتھیار برتا اور پھر کچھ ہی دیر بعد صلیبی میدان میں
آ گئے۔
صدیوں کی محنت کے نتیجے میں وہ پہلے
بھی خال خال اِس چیز میں کامیاب ہوتے رہے کہ مسلمانوں کے علمی ورثے میں اپنا کچھ
جھاڑ جھنکاڑ گھسا دیں اور جس کی تنقیح کیلئے مسلم علمائے محققین کو صدیوں کی محنت
کرنا پڑی۔ غرض حق ہی کے اندر باطل کے پیوند لگوانا ان کا خصوصی میدان رہا ہے اور
تراثِ اسلامی کی شاید ہی کوئی چیز ان کے حملوں سے محفوظ رہی ہو، سوائے اِس کتابِ
محفوظ کے جس کا ذمہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے اور جس پر یہ
امت اللہ کا جس قدر شکر کرے کم ہے۔
مسلم تاریخ ہے تو وہ ان کی کاریگری سے
محفوظ نہیں رہی۔ سیرت کے واقعات ہیں تو اس میں اِن کا دست ہنر کام کرتا رہا۔ حدیث
اور رجالِ حدیث ہیں تو یہاں بہت کچھ زہر پھیلا دینے کیلئے یہ مصروف سعی رہے، یہاں
تک کہ اِس امت میں اللہ تعالیٰ نے وہ علم کے پہاڑ محدثین اور محققین پیدا کئے
جنہوں نے کھرے کو کھوٹے سے الگ کر دینے میں غایت درجے کی دقت نظری اور عرق ریزی کے
نمونے پیش کئے اور ان کی تحقیقی جدوجہد نے اِس رطب و یابس کی جگہ ہمیں علمی بنیادوں
پر علوم سنت کو مرتب کر کے دیا جو اب اللہ کے فضل سے آخری حد تک مستند اور قابل
اعتماد ہے، سوائے کسی اکا دکا چیز کے جو انسانی کاوش میں کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہے۔
قرآن کی تفسیر ہے تو وہ ان کی مرویات
سے محفوظ نہ رہی اور آج تک ہمارے علمائے تفسیر ان کے کھڑے کئے ہوئے اِس محاذ پر
مصروف عمل ہیں۔
غرض ہزار ہا انداز میں یہ ہمارے مابین
اپنی چیزوں کا چلن کروا دینے کیلئے مصروفِ جدوجہد رہے۔
آخر میں اُن کو یہ سوجھی کہ یہ ہمیں
قیادتیں اور لیڈرشپس تیار کر کے دیں! یعنی چلیں ہم اور راستہ ہمیں وہ دیں!
ایسے ایک دو نہیں ہزاروں کے ہزاروں
دماغ ہیں جو ہم عالم اسلام کو راہ دکھانے کیلئے اُن کے دست ہنر کی تیار کردہ
مصنوعات کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے پیدا ہونے والے ہزاروں کے ہزاروں ’دیدہ
ور‘ ایسے ہوئے جو اب خود مستشرق ہیں اور مستشرقوں کے تلامذہ ہیں اور ہمارے اِن
ملکوں میں اِن اقوام کو فکری وثقافتی راہنمائی دینے ایسے اہم ترین مناصب پر فائز
ہیں.... اور خیر سے ”مسلمان“ ہیں!
اہل کتاب کی ان محنتوں کے دم سے پچھلے
کچھ عرصے میں ہم عالم اسلام کو ایسے بیسیوں ”ہیرو“ میسر ہوئے جن کی تیاری عالمی صیہونیت
کی نگاہِ قدر شناس کے تلے رہ کر ہوئی تھی۔ ہمارے اِن ”ہیرؤوں“ کو عالم اسلام میں
کچھ ایسی مہمات انجام دینا تھیں جن کو دشمنانِ اسلام خود سامنے آ کر انجام دینے سے
عاجز ہیں۔
یہ تلبیس اور یہ فریب کاری اور یہ
منصوبہ سازی برابر جاری ہے۔ بلکہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آج بھی کوئی چیز اِس کو بے
اثر کر سکتی ہے تو وہ یہ کتابِ عزیز ہے جس پر باطل سامنے سے غلبہ پا سکتا ہے اور
نہ پیٹھ پیچھے سے۔اِس جنگ میں پورا اترنے کیلئے آج بھی کوئی سہارا ہے تو وہ یہی کہ
ہم اِسی قرآنی عقیدہ کا دامن تھام لیں اور صدیوں کے رکے ہوئے اِس عمل کو اُسی رخ
پر پھر سے بحال کرا لیں جہاں پر اِس امت کو عین اس کی ابتدا میں ڈالا گیا تھا اور
جس سے ہمارے غافل ہو جانے کے باعث اور اہل کتاب کا داؤ چل جانے کے باعث اس کے اندر
ایک بڑا تعطل آ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
”تلبیس“ اہل کتاب کا ایک بڑا ہتھیار ہے
تو ”تشکیک“ ان کا ایک دوسرا بڑا ہتھیار....:
وَقَالَت طَّآئِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ
الْكِتَابِ آمِنُواْ بِالَّذِيَ أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَجْهَ
النَّهَارِ وَاكْفُرُواْ آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔ وَلاَ تُؤْمِنُواْ
إِلاَّ لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ (آل عمران: 72 - 73)
”اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ
اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے
انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں۔ اور ہاں یقین نہ
لاؤ مگر اس کا جو تمہارے ہی دین کا پیرو ہو“
یہ ایک گھٹیا حربہ ہے۔ ان میں سے کچھ
لوگ پہلے اسلام ظاہر کریں گے اور اس کے بعد پھر جائیں گے، تو اس سے بعض ایسے نفوس
اور ایسے عقول جو اِس دین کے اندر ابھی گہرے نہیں گئے ہیں اور جن کو اِس دین کی
طبیعت اور مزاج سے مکمل آگاہی نہیں، ایسے نفوس اور ایسے عقول اس سے یقینا کچھ شکوک
اور اضطراب میں پڑ سکتے ہیں۔ یہود ایسے ماہرین کتاب اس دین پر ایمان لے آتے ہیں
اور تھوڑی بعد اس سے بددل ہو کر اس کو چھوڑ جاتے ہیں ، تو دیکھنے والے کو شک پڑ
سکتی ہے کہ ضرور ان کو اس دین میں کوئی خرابی اور کوئی نقص نظر آیا ہو گا۔ کم از
کم بھی دیکھنے والا اسلام کی حقیقت کی بابت متردد ہو سکتا ہے اور اس کا ساتھ دینے
میں تامل کا شکار ہو سکتا ہے!
غرض ”تشکیک“ کا یہ ہتھیار طریقوں
طریقوں سے آج تک برتا جا رہا ہے اور ہزاروں نقب خاص اِس حربہ کو اختیار کر کے
ہمارے یہاں لگائے جا رہے ہیں۔ ”استشراق“ کی سب سے بڑی کوئی کارگزاری آج ہے تو وہ
شاید یہی۔ در اصل یہ حربہ وہی پرانا ہے مگر اس کی کچھ نہایت ترقی یافتہ صورتیں اب
ان کے ہاں دریافت ہو چکی ہیں۔ اتنے سادہ انداز سے دھوکہ دینے کی ان کو اب کچھ ایسی
ضرورت بھی نہیں رہی ہے۔ ”تحقیق“ اور ”مطالعہ“ اور ”ریسرچ“ کے اتنے بھاری امکانات
آج میسر ہیں تو آخر وہ کس لئے ہیں؟ کوئی تصور تو کرے عالم اسلام سے اور عالم اسلام
کیلئے تیار کئے جانے والے ان محققوں اور مطالعہ نگاروں اور پروفیسروں اور دانشوروں
اور ڈاکٹروں اور فلسفیوں اور مفکروں کی ایک فوج ظفر موج کا! اتنا ہی نہیں بلکہ
ادیبوں، افسانہ نگاروں، شاعروں، فنکاروں، آرٹسٹوں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں پر
مبنی ایک لشکرِ عظیم کا۔ سبھی کے سبھی مسلمانوں والے نام رکھتے ہیں، کیونکہ یہ
”مسلمانوں“ کا نسلی تسلسل ہیں! بلکہ ان میں سے بعض تو آج ”علمائے اسلام“ ہیں!!!
مفکروں اور دانشوروں کی یہ فوج ظفر
موج اِسی لئے ہے کہ ہمارا وہ عقیدہ اور اس عقیدہ کی پختگی اور صلابت مسلم نفوس میں
بے حقیقت ہو کر رہ جائے جس سے کام لے کر کبھی اِس امت نے اپنے راستے کے سب پہاڑ
ہٹائے تھے اور جس کی قوت سے اِس نے کسی وقت قیصر وکسریٰ کو زیر و زبر کیا تھا اور
برسوں کے اندر بر اعظموں کے براعظم فتح کر لئے تھے! کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اِس
عقیدہ کو مسلم دماغوں سے کھرچ دینے کیلئے کیسے کیسے ”علمی“ اسلوب اپنائے جاتے ہیں! کہیں پر ”تحقیق“ ہو رہی ہے۔ کہیں پر
”علوم کی تنقیح“ ہو رہی ہے۔ کہیں پر ”ادب“ کے شہ پارے ہیں۔ کہیں پر ”آرٹ“
اپنے عروج کو پہنچا ہوا ہے۔ کہیں پر ”قلم کاری“ کے جوہر ہیں۔ کہیں پر ”صحافت“
اپنا آپ منوا رہی ہے۔ کہیں پر سماجی علوم میں ”معروضیت“ کے قصیدے ہیں۔ کیا کوئی
بتا سکتا ہے اِس ”معروضیت“ کا کیا مطلب ہے؟ جی ہاں،
مغرب کی عقل سے سوچنا اور اس سے سر مو انحراف نہ کرنا! نیز ”محققینِ اہل کتاب“ کے
دیے ہوئے فریموں میں ہی غلام دماغوں کو زیادہ سے زیادہ کس کر جکڑ لینا!
غرض مسلم معاشروں سے آسمانی عقیدہ اور
آسمانی شریعت کا وہ ”نقشِ کہن“ مٹانے کیلئے ”تشکیک“ کے ہزاروں ہتھیار میدان میں
جھونک دیے گئے ہیں اور دوسری جانب بیچاری یہ پس ماندہ ناخواندہ امتِ اسلام ہے جس
کو ”عقیدہ“ کا سبق پڑھانے والے شاید کہیں موت کی نیند سو گئے ہیں۔ ”تشکیک“ کے یہ
سب لشکر، تاریخ اسلام میں یہ نادر ترین موقعہ پا کر، اِس بے رحمی کے ساتھ حملہ آور
ہیں گویا وہ اِس ”عقیدۂ مسلم“ کی ایک ایک چول ہلا کر رکھ دیں گے اور اس کی کوئی
ایک چیز سلامت نہ رہنے دیں گے۔ اِس پوری انٹلکچول تحریک کا ہدف صرف ایک ہے: اسلام
کا عقیدہ اور اسلام کی شریعت۔ کوئی اِس شریعت کی نصوص کو مروڑنے میں لگا ہے۔ کوئی
اس کے مسلمات کو کھوکھلا کرنے کیلئے کھودتا چلا رہا ہے۔ کوئی اس کے متفقہ و اجماعی
امور کو ’خرافات‘ کے بھیس میں پیش کر رہا ہے۔ کوئی اس کے معانی کی تحریف میں لگا
ہے اور کسی کا روزگار اس کی تاویل سے وابستہ ہے۔ نصوصِ شریعت کو آج وہ وہ معانی
پہنائے جا رہے ہیں جن کی یہ نہ محتمل ہیں اور نہ اسلاف نے ان کے وہ معانی اور وہ
مفہومات کبھی لئے ہیں۔ یہ سب ”دیدہ ور“ مل کر آج شریعت سے اس کی سب ”قدامت پسندی“
نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن دعوتوں کیلئے آج یہاں کے سب لاؤڈ سپیکر کھول دیے گئے
ہیں جو ہمیں سمجھانے میں لگی ہیں کہ ”اسلامی شریعت“ کے بغیر بھی ”مسلم معاشروں“ کا
دنیا کے اندر کوئی تصور ہے! بلکہ یہ کہ ”مسلم معاشروں“ میں اُس چودہ سو سال پرانی
شریعت کا اب کام ہی کیا رہ گیا ہے! کمال شفقت اور مہربانی کے ساتھ آج ہمیں ایسے
نابغے میسر کرائے گئے ہیں جو صبح شام ہمیں یہ ناصحانہ دروس دیتے پھریں کہ ”شریعت“ کا احترام برقرار رکھنا ہے تو اس کو
”معاشرے“ میں لانے سے اجتناب کیا جائے اور ”معاشرے“ پر ترس کھانا ہے تو اس کو
”شریعت“ کی عملداری سے دور رکھا جائے!