یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
تاریخ کا کبھی نہ بدلنے والا کردار!
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
یہودی پہلے دن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض پالنے لگے تھے۔ اِس نئے دین اور اس کی قیادت کا ”جرم“ ان کی نظر میں یہ تھا کہ اِس نے مدینہ میں آ کر اَوس و خزرج کی برسوں پرانی دشمنی اخوت میں بدل ڈالی تھی اور ان دو قبیلوں کے مابین عداوت کی وہ دراڑیں جو یہود کو ان کے مفادات کیلئے بہت سا راستہ دلواتی رہی تھیں ہمیشہ کیلئے مسدود کر ڈالی تھیں۔ محمد ﷺ کی قیادت اہل مدینہ کیلئے وہ رحمت بن کر آئی تھی کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے عرب اب شیر وشکر ہو گئے تھے اور قدم سے قدم ملا کر خدائے واحد کی پرستش کرنے لگے تھے۔ تو پھر اب ”اسلحے“ کے سودے کس کے ساتھ ہوں اور ”لڑاؤ اور راج کرو“ کی سیاست کیونکر چلے؟! متحارب قبائل اِس خدا شناس قیادت کے پرچم تلے بھائی بھائی بن کر کھڑے ہو جائیں تو جنگوں کی کمائی کھانے کے عادی طبقے کہاں سے کھائیں؟
مصر میں گزارے جانے والے دورِ غلامی اور بابل کے عہد اسیری سے لے کر سلطنتِ روما میں سہی جانے والی ذلت اور عبودیت کے اِن تمام ادوار میں آپ کو وہ پوری نفسیات نظر آتی ہے جو سازش اور مکر کی غماز ہے۔ اسلام سے پہلے کی وہ سب ملتیں جنہیں ”یہود“ پر تسلط ملا، ان کے ساتھ جو جو سلوک کرتی آئیں وہ سب پر عیاں ہے۔ اسلام آیا تو اس نے پہلی سب ملتوں اور سلطنتوں کے برعکس روزِ اول سے ان کو وہ احترام اور وہ آسودگی دی جو اس سے پہلے کسی سلطنت میں ان کو نصیب نہ ہوئی تھی۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کا وہ معاہدہ جو آپ نے ان کو مرحمت فرمایا، اس پر نہایت واضح دلیل ہے۔ لیکن انہوں نے محمد ﷺ کا یہ احسان جس انداز میں لوٹایا اور جیسے جیسے گھٹیا ہتھکنڈے آنحضور کے خلاف برتے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اِنکے ساتھ جو حسن سلوک کیا اسکا صلہ انہوں نے البتہ اس انداز میں دیا کہ یہ آپ کے خلاف پورے جزیرۂ عرب کو بھڑکانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور شرک کی سب قوتوں کو آپ کے خلاف ایک پرچم تلے صف آرا کرنے کیلئے مکر وفریب کی اپنی سب صلاحیتیں اور ڈپلومیسی کے اپنے سب گھٹیا حربے آزمانے چل پڑے۔ یہاں تک کہ اُس موقعہ پر یہ بت پرست مشرکوں کو یہ سرٹیفکیٹ دیتے پھر رہے تھے کہ:
وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً (النساء: 51)
”اور کافروں کی بابت جا کر شہادت دیتے ہیں کہ (محمد ﷺ پر) ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں“
اور جس وقت پورا جزیرۂ عرب مدینہ کی نوخیز ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے امڈ آیا تو رسول اللہ ﷺ کے خلاف اِن کا غدر کرنے کا وقت آ گیا! ’معاہدے‘ گویا ایسے ہی وقت کیلئے تو ہوتے ہیں! یعنی آدمی کو اس وقت ڈسو جب اُس کو کہیں سے پانی ملنے کا امکان تک نظر نہ آتا ہو! پھر جب اسلام نے اِن کے اِس تمام تر مکر و سازش کے علی الرغم اللہ کے فضل سے جزیرۂ عرب میں اپنے پیر گاڑ لئے، یہاں تک کہ ان کیلئے اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہونا مزید ممکن نہ رہا، تو انہوں نے اسلام کے علمی مصادر کے اندر اپنا زہر گھولنے کی کوششیں شروع کر دیں، اور واقعتا اِن کے اِس زہر سے کتاب اللہ کے سوا شاید ہی علم کا کوئی میدان محفوظ رہا ہو۔ اب اِن کی کوشش تھی کہ وہ قومیں جو نئی نئی اسلام میں داخل ہوئی ہیں کسی طرح ان کے مابین سازش کی آگ بھڑکائی جائے اور جہاں جہاں اسلام کا فہم گہرا نہیں جا سکا ہے وہاں وہاں یہ مختلف گمراہیوں اور بدعاتِ ضلالت کے بیج بو آئیں۔ علاوہ ازیں، مفتوحہ قوموں کے ہاں اسلام اور عربوں کے خلاف تاریخی عداوتیں بھڑکا کر آئیں۔ مقتل عثمانؓ سے لے کر ہر بڑے حادثے کے پیچھے آپ کو ان کا یہی تاریخی کردار نظر آئے گا۔ یہاں تک کہ اب آخری ادوار میں جا کر یہ اِس حیثیت کو پہنچے کہ اسلام کے خلاف لڑے جانے والے اس معرکہ میں یہ خود آگے لگیں اور بنفس نفیس اس جنگ کا علم اٹھائیں۔ آج صلیبیوں کو بھی یہی برت رہے ہیں اور بت پرست قوموں کو بھی۔ اور اسلام کے خلاف پورے کرۂ ارض پر ایک جنگ کھڑی کر دینے میں نہایت کامیاب جا رہے ہیں۔ پھر اسلام کے خلاف صرف بیرونی جنگ پر بس نہیں، عالم اسلام کے اندر بھی انہوں نے اپنے ہی نظام کھڑے کر رکھے ہیں۔ ہمارے اکثر و بیشتر ”ہیرو“ انہی کی فیکٹریوں سے نکلتے ہیں۔ یہ ہمیں وہ قیادتیں دیتے ہیں جو ہمارے مابین صلیبی صیہونی جنگ کے علم تھام کر کھڑی ہوں، اور اسلام کے اپنے گھر سے ہی اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے درپے رہیں۔
اللہ نے سچ ہی فرمایا تھا:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ ..
اہل ایمان کی عداوت میں سب بڑھ کر لازماً تم یہود کو پاؤ گے اور اُن لوگوں کو جو شرک کرنے والے ہیں....“
وہ ٹولہ جس نے مدینہ کی نوخیز ریاستِ اسلام کے خلاف جنگ کی انجنیرنگ کی، اور پورے جزیرۂ ارب کو اسلام کے خلاف صف آرا کیا.... یہودی تھا۔
وہ ٹولہ جس نے فتنۂ مقتل عثمانؓ کے وقت جگہ جگہ عوام الناس کو بھڑکایا، ملک ملک جا کر سر پھرے گروپ کھڑے کئے، افواہوں کا بازار گرم کیا، اور سلسلہ در سلسلہ مصائب کھڑے کئے.... یہودی تھا۔
وہ ٹولہ جس نے وضعِ حدیث کی تحریک کھڑی کی اور رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گھڑنے کی کچھ بے رحم مشینیں ایجاد کروائیں، اور سیرت اور روایات کی کتب میں گھولے جانے والے زہر کا باقاعدہ بندوبست کرتا رہا .... یہودی تھا۔
پھر ہمارے اپنے زمانے میں.. خلافت کا دھڑن تختہ کروانے کیلئے سرگرم وہ ٹولہ جس نے ہمارے ہاں الاپے جانے والے نیشنلزم کے کچھ نہایت زرق برق نعرے تخلیق کروائے، جگہ جگہ قومی عصبیتوں کی آگ بھڑکائی، مسلم وحدت کو پارہ پارہ کیا اور وہ ٹولہ جو سلطان عبد الحمید کے دور سے لے کر برابر ہمارے ہاں تختے الٹواتا رہا، جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں سے ”شریعت“ کو فرماں روائی کے منصب سے سبکدوش کرایا گیا اور شریعت کی جگہ ’دستور‘ اور ’قانون‘ کو دلوائی گئی، یہاں تک کہ ”ہیرو“ اتا ترک کے ہاتھوں رہی سہی خلافت بھی ختم کروا دی گئی.... یہودی تھا۔
پھر سقوطِ خلافت کے بعد جہاں جہاں اسلامی تحریکوں کا گلا گھونٹا گیا اور ”اسلامی انقلاب“ کے ہراول دستوں کو ہر ہر ملک کے اندر خاک اور خون میں نہلایا گیا، اور یہ اسٹیج پورے کرۂ ارض پر تسلسل کے ساتھ منعقد کر کے رکھا گیا.... اس کے پیچھے یہودی تھا!
اتنا ہی نہیں، ”مادی الحاد“ کا عفریت نکلا اور جوکہ دنیا بھر میں دین اور اخلاق کے خون کا پیاسا پایا گیا تو اس کا سرغنہ یہودی تھا۔ ”مادی مذہب“ ہی نہیں، ڈارونزم اور فرائڈزم پر مبنی ”حیوانی مذہب“ آیا تو اس کا سرغنہ یہودی تھا۔ خاندانی نظام کو ختم کرنے کی تحریک چلائی گئی ا ور ماں اور بیٹی ایسے رشتے معاشروں کے اندر پامال کرائے گئے، تو اس ”سماجی مذہب“ کے پیچھے یہودی تھا۔
اسلام کے خلاف بیشک مشرک اور بت پرست قوموں نے بھی بڑی جان مار کر جنگ لڑی ہو گی۔ پرانے زمانے میں بھی اور آج بھی۔ مگر یہود کی جنگ سے ان کا کوئی میل نہیں۔ اسلام کے خلاف یہود کی جنگ میں جو ”مستقل مزاجی“ اور ”یکسوئی“ پچھلے چودہ سو سال سے دیکھنے میں آئی ہے، وہ ناقابل یقین ہے۔ زمانۂ اول میں مشرکین کے خلاف اسلام کے معرکہ نے بیس سال نہیں نکالے کہ مشرکین کی ہمت جواب دے گئی۔ فارس کے خلاف اسلام کا معرکہ کچھ ہی دیر چلا اور پھر فارس اپنے انجام کو پہنچا۔ دورِ حاضر میں ہندو بت پرست اور اسلام کے مابین جو معرکہ ہے بلا شبہ وہ ایک نہایت شدید معرکہ ہے، مگر ”عالمی صیہونیت“ اسلام کے خلاف جو جو داؤ چل رہی ہے اسکے مقابلے میں شاید وہ بہت کم ہو۔ یہاں تک کہ مارکسزم ایسا جو ایک شر شاید ہی تاریخ میں کبھی پایا گیا ہو اور جس نے نصف صدی سے زائد عرصہ اہل اسلام کا جینا حرام کر کے رکھا تھا، تو وہ صیہونیت ہی کی کوکھ سے برآمد ہونے والا ایک فتنہ تھا۔ جبکہ صیہونیت کے ترکش میں اسلام اور انسانیت کے خلاف ابھی ایسے بہت سے تیر ہیں۔
٭٭٭٭٭