خودکش حملے؛مذہب یا کوئی اور وجہ؟
خود کش حملوں کے بارے میں
یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ گویا اسلام کے اندر ہی کوئی خود کش پسندانہ رجحان پایا
جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے ماننے والوں کو خود کش حملوں پر آسانی سے آمادہ کر
لیتا ہے۔ اس طرح اسلام دشمن قوتیں خودکش حملوں اور اسلام کو ایک دوسرے سے متعلق کر
کے اسلام کو ایک منفی دین کے طور پر پیش کرتی ہیں۔لیکن امریکہ ہی میں ہوئی ایک
تحقیق کچھ اور ہی تصویر پیش کرتی ہے۔
شکاگو کے ایک پولیٹیکل
سائنٹسٹ ،جنہوں نے سن88ءمیں پی ایچ ڈی کی،رابرٹ اے پیپ نے اپنے ساتھی جیمز کے
فیلڈمین کے ساتھ مل کر اکتوبر 2010ءمیں ایک تحقیقاتی کتاب شائع کی ہے۔ اس کا نام
ہے
Cutting the Fuse: The
Explosion of Global Suicide Terrorism and How to Stop It (University of Chicago
Press, 2010),
انہوں نے اس کتاب اور
بنیادی نتیجے کو اخذ کرنے کیلئے 30 سال کا ریکارڈ عرق ریزی سے کھنگالا۔
Chicago Project on Security and Terrorism (CPOST) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے
انہوں نے 2000 واقعات کاڈیٹابیس تیار کیا۔مشترک وجوہات کو تلاش کرنے میں انہوں نے
خودکش بمباروں کے چھوڑے ہوئے بیانات، ان کی مذہبی تال میلیں،معاشرے میں مقام اور
دیگر تمام ذاتی تفصیلات پر تحقیقات کیں۔ان کی تمام گہرے مشاہدات کا نچوڑ یہ ہے کہ
دراصل بیرونی قبضہ، نا کہ مذہبی انتہا پسندی،ان حملوں کی بنیادی وجہ ہے!2003ءمیں
عراق پر قبضہ سے پہلے اس ملک میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔سب سے پہلا واقعہ
امریکی قبضے کے محض چند دنوں بعدرونما ہوا!اور 2007ءتک یہ اپنی انتہا کو پہنچا جب
یہ تعداد 256 تک ہوگئی۔ڈاکٹر رابرٹ بحث کرتے ہیں کہ اُس سال کے بعد کمی اگر آئی
بھی تو اس وجہ سے کہ وہاں پر امریکی فوج کا انخلاءکا تناسب ان کی داخل ہونے والی
تعداد سے زیادہ ہوگیاہے۔عراقی قبضے سے 24 سال پہلے دنیا کے سب سے ذیادہ خودکش حملے
تامل ٹئیگرز نامی تنظیم نے سری لنکا کے خلاف کئے۔جو کہ 1987ءسے 2001ءتک 78
ہیں!ڈاکٹر رابرٹ نے دیگر تمام مثالیں گنوائیں جن تمام میں جمہوریت والے ممالک کی
جانب سے ایسے تمام ملکوں پر فوجی قبضے کے بعد پیش آئے۔ ان میں 1982ءمیں لبنان میں
اسرائیل کے فوجی حملے کے بعد حزب اللہ کا قیام وجود میں آیا۔اور یہ حملے تب تک
نہیں رکے جب تک امریکی ، فرانسیسی اوراسرائیلی افواج نے ملک چھوڑ نہ دیا۔
ویسے ہمارے لئے یہ ایک
سامنے کی بات تھی، اس کے لئے ہمیں کسی پولیٹکل سائنٹسٹ کی تحقیق کی ضرورت نہیں
تھی۔ لیکن امریکہ بڑا ملک ہے اور انہیں ہر چیز کے لئے "تحقیق" کی ضرورت
پڑتی ہے۔ ڈاکٹررابرٹ نے دیانتداری سے تمام حوالوں کو معہ ثبوت پیش کردیا۔ دیکھتے
ہیں نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔اس" تحقیق "کی تائید اس بات سے
بھی ہوتی ہے کہ مجاہدین کے جو طبقے فدائی حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں وہ بھی اس کو
ایک مجبوری کے درجے میں ہی رکھتے ہیں۔