رومانیہ میں ہم اسی عمر میں گھر بساتے ہیں!
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
نومبر2010ءمیں ایک خبر نے سب کو ’حیرت انگیز‘انداز میں چونکا دیا تھا۔رومانیہ کے ایک جپسی قبیلے میں دس سالہ بچی نے ایک صحتمند بچے کو جنم دیا۔بچے کا باپ تیرہ سال کی عمر کا ہے۔ یورپ کے کچھ علاقوں میں ایسے قبائل پائے جاتے ہیں جن کوgypsy کہتے ہیں (http://en.wikipedia.org/wiki/Romani_people)۔ بچی کی نانی ماں بہت خوش خرم تھی مگر اس کو دنیا کی حیرت پر حیرانگی تھی!ان کا کہنا تھا کہ رومانیہ میں تو اسی عمر میں گھر بسایا جاتا ہے! ہماری توجہ اس طرف اس خبر کہ وجہ سے گئی کہ بی بی سی اور ان جیسے مغربی اداروں میں جب یہ خبر دی گئی توایک بات عیاں تھی کہ لب و لہجہ دوستانہ، کوئی بچوں پر مظالم اور جبر کا الزام نہیں نہ ان کے مذہب پر رکیک حملے! ایک طرف یورپ کم عمری میں شادی کو ایک سماجی خرابی گرادانا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ اپنی ایک پرانی gypsiتہذیب کو بچانے کی کوشش کر رہی۔ یعنی اسے اگر اعتراض ہے تو صرف دوسروں پر۔جبکہ مسلمانوں پر خصوصا عائشہ رضی اللہ عنہ کی کم عمری میں شادی پر اعتراض ۔یہاں ہم دو نکتوں پر فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگراس خبر کے کردار میاں بیوی مسلمان ہوتے تو کیا مغربی (اور بہت حد تک یہاں کا میڈیا بھی!) یہی نرم و نازک ’ہلکا پھلکا ‘لہجہ استعمال کرتا؟دوسرا ہم نکتہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر کی شادیاں ابھی بھی کی جاتی ہیں اور چونکہ اسلام تمام جائز ثقافتی رسومات سے معاملہ کرتا ہے اس لئے کم عمر کی شادی بھی اسی جائز کاموں کے زمرے میں آتی ہے۔اور اسلامی فقہ کا حصہ ہے۔
|
|
|
|
|
|