یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ
قرآن پڑھنے والی امت یہود سے مار کھائے، تعجب ہے!
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین
یہی وجہ ہے کہ ”یہود“ والے محاذ پر قرآن کی ساری ترکیز اِسی بات پر رہی کہ اِس دشمن کے ہاتھ میں پائے جانے والے اِس سب سے خطرناک اور سب سے زہرناک ہتھیار کی پوری پوری پہچان کر لینے کی استعداد ہی ہم مسلمان اپنے اندر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پیدا کریں۔ ”یہود“ والے محاذ پر قرآن نے سب سے زیادہ اِسی ہتھیار سے چوکنا رہنے پر زور دیا تھا اور یہود کے اِس ہتھیار کا توڑ کرنے پر ہی ہمیں سب سے زیادہ محنت کروائی تھی۔ یہود کی اِس تدبیر کا سد باب کرانے کیلئے ہی قرآن جماعتِ مسلمہ کو اُس ”حق“ پر ثابت قدم رہنے کی تاکیدیں کرتا رہا تھا جس پر قرآن نے اِس جماعتِ مسلمہ کو ابتدائے دعوت سے کھڑا کر رکھا تھا۔ اہل کتاب کے پیدا کردہ ایک ایک شبہہ اور ایک ایک مغالطہ کا قرآن نہایت تفصیل کے ساتھ رد کرتا چلا گیا تھا۔ ان کے اٹھائے ہوئے شکوک و شبہات کی اِس ساری گرد کے اندر سے قرآن اِس نوخیز جماعتِ مسلمہ کیلئے بڑی خوبصورتی کے ساتھ راستہ بناتا چلا گیا تھا۔ وہ حقیقتِ عظمیٰ جسے یہ دین اُن مومن نفوس کے اندر اجاگر کر چکا تھا اور جس کو چند ہی عشروں کے اندر پوری دنیا میں انسانی زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دینا تھا، قرآن اُسی حقیقت کو ان نفوس کے اندر جلی سے جلی تر کرتا چلا گیا تھا اور اِس حقیقت سے ان کو محروم کردینے کے یہودی حربوں کو اُن پر بے اثر کرتا چلا گیا تھا۔ قرآن اپنی اُن ضرباتِ حق کی بدولت جو ”یہود“ و ”اہل کتاب“ کے محاذ پر پورے تسلسل کے ساتھ برسائی جا رہی تھیں، اِس نو زائیدہ جماعتِ اسلام کو اُس آسمانی مشن پر کامل وثوق دلواتا چلا جا رہا تھا جس کیلئے درحقیقت یہ ”نئی امت“ دنیا کے اندر برپا کروائی گئی تھی۔ یہاں تک کہ اِس جماعت کو دنیا کے اندر اپنے مقصد اور مشن کی بابت کوئی اشکال باقی نہ رہا تھا اور اعدائے اسلام کی جانب سے وارد کیا جانے والا کوئی شبہہ اِس کے قدموں میں لرزش پیدا کر دینے کے قابل نہ رہ گیا تھا۔ قرآن نے اِن پاکیزہ نفوس میں یوں کوٹ کوٹ کر ایمان بھرا تھا؛ جس کے دم سے اِس امت کو جہان کے اندر اپنی پیش قدمی کیلئے آخری حد تک دلجمعی میسر آ گئی تھی۔ اِس غایتِ عظمیٰ کو جہان میں متحقق کرانے کیلئے ایسی ہی ایک یکسوئی درکار تھی اور یہ ان کو صرف اور صرف قرآن سے مل سکتی تھی! تب یوں ہوا کہ اِس امت کے راستے میں پہاڑ ایسی مہیب رکاوٹیں رائی ثابت ہوئیں اور صحرا و دریا خدا کے اِن بندوں کو راستہ دیتے چلے جانے پر مجبور ہوئے۔ ”ایمانی حقائق“ پر اِس امت کا ثابت قدم ہو جانا دنیا کے اندر ایسا ہی ایک واقعہ ہے، جس کو صدیوں تک ”تاریخ“ دم بخود ہو کر دیکھتی ہے اور حیران ہو ہو کر بیان کرتی ہے! ”قرآنی حقائق“ واقعتا ایسا ہی ایک معجزہ ہیں!
ایمان کی یہ دولت جو قرآن نے اِس امت کو بے حد و حساب بخش ڈالی تھی اور جس سے خلق خدا نے بعد ازاں خوب خوب حظ اٹھایا تھا.. اِس ”دولتِ ایمانی“ کے مسلمانوں سے چرائے جانے کی بابت قرآن نے ان کو جس ”نقب زن“ سے سب سے زیادہ خبردار کیا تھا کہ وہ ان کی اِس پونجی سے ان کو محروم کر دینے کیلئے اپنی واردات کر کے رہے گا، اُس کا نام ”یہود“ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوتِ توحید نے جونہی یثرب میں قدم رکھا قرآن نے اس کو ”واردات“ کے اِس قدیمی مصدر سے بہ آوازِ بلند خبردار کرنا شروع کر دیا تھا! یہ وہ جرائم پیشہ ٹولہ تھا جس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا اور آسمانی شرائع کے ساتھ طرح طرح کی وارداتیں کر رکھی تھیں۔ اِس کی آستین پر اُن نبیوں اور صدیقوں کا خون پایا گیا جو اِس کی اپنی قوم اور نسب سے برپا ہوئے تھے۔ تو پھر ”پرائی قوم“ سے برپا ہونے والے صالحین اور صدیقین کے ساتھ اب بھلا یہ کیا کچھ کر گزرنے کیلئے پر نہ تولنے لگتے! خدا، جس کو اپنا یہ نور جہانِ انسانی کے اندر پورا کر کے رہنا تھا اور پوری دنیا میں اِس سراجِ محمدی کے دم سے اجالا کر کے رہنا تھا، تاریخ کے پردے پر نمودار ہونے والی اِس ”آخری امت“ کو خطرے کے اِس قدیمی مصدر سے خبردار کرنے میں کیونکر کوئی کمی رہنے دیتا، کہ یہ دہر جس میں اُسے ”اسم محمد“ سے اجالا کرنا تھا، بہرحال اسباب اور مسببات کی دنیا ہے اور ایک غلطی یا کوتاہی، چاہے وہ مخلص ترین اہل ایمان سے سرزد کیوں نہ ہوئی ہو، اپنے ضررناک نتائج پیدا کر کے رہتی ہے اور پھر امت کا مؤثر طبقہ ہی اگر راستہ بھٹک جائے تو اس کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مدنی مرحلہ کے آغاز سے ہی ”سازشیوں“ اور ”نقب زنوں“ کے خطرے سے کچھ اِس طرح خبردار کرنا شروع کیا کہ قرآن پڑھنے والے کو بار بار اِن تنبیہات سے واسطہ پیش آتا ہے۔ قرآن نے ان کے چھپے عزائم کو اہل ایمان پر بے نقاب کر دینے میں ہرگز کوئی ابہام نہ چھوڑا تھا۔ قرآن اُن کے گھٹیا ہتھکنڈوں کا بار بار تذکرہ کرتا۔ اُن کے زہرناک اہداف سے بار بار متنبہ کرتا۔ سینوں میں چھپا ہوا وہ بغض اور کینہ جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بے حدوحساب رکھے ہوئے تھے، اُس کی بابت قرآن اہل ایمان کو شدید حد تک چوکنا رکھے ہوئے تھا اور ان کو اِس بات سے غافل چھوڑنے کا روادار نہ تھا کہ: خدا نے اپنا وہ فضل عظیم جو اس نبی اور اس کی امت کو رہتی دنیا تک کیلئے عطا کر رکھا ہے، اور اپنی اُس خصوصی رحمت کے نزول کا محل ٹھہرایا ہے جو نہ اِس سے پہلے دنیا میں کسی کو عطا ہوئی اور نہ اس کے بعد کسی کو عطا ہو گی، اہل ایمان کے ہاں پائی جانے والی یہ نعمتِ عظیم ان بغض بھرے دلوں پر نشتر لگا رہی ہے اور خدا کے فیصلے پر معترض ہونے کی پاداش میں ان کو حسد کی آگ میں جلنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ کسی زخمی سانپ کی طرح اِس نئی ابھرتی ہوئی امت کو ڈسنے کیلئے بے چین رہتے ہیں اور اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی ایک بھی موقعہ ہاتھ سے جانے دینے کے روادار نہیں۔
تاریخی دشمنیوں سے گھری اِس نوخیز امت کو قرآن گویا خود ہاتھ پکڑ کر چلا رہا تھا! ادھر یہ سعادت مند جماعت بھی قرآن سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کیلئے کسی صورت تیار نہ تھی! اِس کے اِنعام میں قرآن اِس کے راستے کی تمام تر گرد ہٹاتا چلا گیا۔ تب یہ دنیا و آخرت کے سب حقائق کو آسمانی آنکھ سے دیکھنے لگی اور اِس کو اپنا راستہ دور دور تک نظر آنے لگا! یہ جماعت دنیا جہان کے ہر مسئلے کو آسمانی میزان میں تولنے لگی تھی۔ خدا کے دشمنوں سے اِس کی وہ بے نیازی اور بیزاری ہوئی اور خدا کے ساتھ اور اُس کے رسول اور اُس کی شریعت کے ساتھ اِس کی کچھ ایسی لو لگی کہ معمولی جیت ہار تو کیا یہ دو عالم سے بیگانہ ہوئے اور سود و زیاں سے بے پروا ہو کر خدا کی جانب سے سونپا ہوا وہ مشن لے کر پورے جہان پر چھا جانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ قرآن نے اِن کو ”طاقت کے توازن“ سے متعلق جو سبق پڑھائے تھے وہ ”حق“ کے تعین سے پھوٹتے تھے اور ”حق“ سے قوت پانے کے گرد گھومتے تھے۔ قرآن نے اُن کو وہ نظر عطا کی تھی جو ”حق“ سے تہی دامن قوتوں کو ریت کا گھروندا دیکھتی ہے اور اللہ و رسول سے برسر پیکار قوتوں کو نرا بیت العنکبوت جانتی ہے۔ قرآن نے ان کو اُس ”معرکہ“ کا سراغ دے ڈالا تھا جس کے حتمی فیصلے زمین پر نہیں بلکہ میدانِ حشر میں جا کر ہونے والے ہیں، اور جہاں پر سرخروئی پانا اِس جماعتِ مسلمہ کی سب سے بڑی آرزو اور سب سے بڑی ترجیح تھی۔
٭٭٭٭٭