بسم اللہ نحمد ہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
متعصب، بدخُو؟ہدایت کا بہرحال حقدار پھر بھی ہے!
سلمان العودۃ: اردو استفادہ: مریم عزیز
اللہ سبحانہ و تعالیٰ دلوں کوالٹنے اورپھیرنے والا ہے۔ایک مسلمان داعی کا واسطہ کتنے ہی اکھڑ مزاج اورمتعصب فرد سے ہو، صبراور قرار کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہ چاہیئے۔کہ کچھ بعید نہیں کسی دم اس کو شرح صدر کا لمحہ عطا ہوجائے اور وہ بارگاہ الٰہی میں ماتھا ٹیک دے۔کبھی کبھی اس لمحے تک پہنچنے میں سال لگ جاتے ہیں،مگریہ ثمر ایسا ہے کہ خوب جی لگا کہ اس رستے میں آئی ہر سختی کو سہا جائے اوردل شکنی آڑے نہ آئے۔
جو کوئی مسلمان اللہ کے دین کی طرف بلانے کا کام سنبھالے اس کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اس کا سامنا ایسے ایسے لوگوں سے ہونے کو ہے جوڈھیٹ، بدزبان حتیٰ کہ اسلام اور اس کے پیغام کی طرف باقاعدہ متعصب اور بد معاشانہ رویہ اختیار کریں گے۔یہی ویہ ہے کہ صبر اور برداشت ایک مسلمان داعی کی صفت میں رچ جانی چاہیئے۔
استقامت بھی ان ہی مطلوبہ صفات میں سے ایک ہے۔کوئی غیرمسلم آپ کا پیغام سن کر چاہے کتنی عداوت اورترش روی اختیار کرے ،اس کو ہدایت کے قابل نہ سمجھنا صریح غلطی ہے۔اورحقیقت تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ دلوں کو بدلنے والا ہے۔پتھر سے سخت دل رکھنے والے کو بھی ایسا فرمادیتا ہے کہ وہ اسلام کے پیغام سننے اور قبول کرنے پر مائل ہوجاتا ہے۔ایسا ہمیں تاریخ میں جابجا نظر آتا ہے خاص طور پر انبیاءعلیہم السلام کی مثالوں میں۔نبی اکرم ﷺکے زمانے میں ایسی کئی امثال ملتی ہیں۔ طفیل بن عمرو الدوسی اپنے کانوں میں روئی رکھ لیا کرتے تھے کہ کہیں محمدﷺکے الفاظ کانوں میں نہ پڑ جائیں۔پھر ایک دن خود سے کہنے لگے :”میں ایک سمجھ بوجھ والا آدمی ہوں،غلط اور صحیح میں فرق بتا سکتا ہوں۔واللہ میں محمد ﷺ کی بات ضرور سنوں گا،اگر وہ حق ہوا تو مان لوں گا اور اگر نہیں تو جھٹلادوں گا۔ “چناچہ پہلی ہی بار جب انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کی بات سنی تو اس پر ایمان لائے اوراسلام قبول کرلیا۔
پھر عمر بن خطاب ؓ تھے جو ایک مضبوط مگر انتہائی غصیلے آدمی تھے۔اسلام کے اوائل میں وہ مومنوں کے ساتھ بدتر سلوک کیا کرتے تھے۔آخرکار ٹھان لی کہ محمدﷺ کو قتل کرکے چھوڑوں گا۔اس قبیح ارادے کو عملی جامہ پہنانے جارہے تھے کہ راستے میں معلوم ہوا اپنی بہن اسلام قبول کرچکی ہے۔شدید غصے میں وہیں سے راستہ بدلااوران کے گھر کا رخ کیا۔جھگڑے کے دوران بہن کو مارا تو خون بہنے لگا جس پر یکدم ندامت محسوس کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ان کی بہن نے قرآن سنانے پر اصرار کیا اور وہ سننے لگے۔ پھر واپس محمدﷺ کی تلاش میں ارقم بن ابی الارقم کا دروازہ کھٹکھٹایا،جہاں نبیﷺ ٹہرے ہوئے تھے۔لیکن اس بار نیت اپنے اسلام لانے کی تھی۔عمرؓ نے اپنے اسلام کا کھل کا اعلان کیا۔اس دن کے بعد سے آخر تک وہ اپنے ایمان میں اولول العزم رہے۔اپنی نماز پر قائم اور اپنے رب کے آگے عاجزی کرتے رہے۔
اسی طرح بہت سے لوگ اسلام لائے۔ابوجہل کا بیٹا فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ سے بھاگ گیا تھا۔مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے اس سفر کو ہی ہدایت کا ذریعہ بنا ڈالا اور وہ ایمان کے ساتھ مکہ پلٹ آیا۔اسلامی معاشرے کے ایک نمایاں فرد بنے اور اپنی بہادری اور قربانیوں کے سبب عزت و توقیر پائی اور آخر کار شہادت کا رتبہ بھی پالیا۔
ایسی مثالیں آج کے دور تک پائی جاتی ہیں۔ جو شخص جتنابڑا اسلام دشمن اور گنہگار رہا ہو، اللہ کے دل کھول دینے کے سبب سب سے مضبوط مومن میں بدل جاتا ہے۔کئی تو ایسے اعلیٰ درجوں کو پالیتے ہیں کہ ہم ان جیسا ہونے کی صرف آرزو ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
تمام تعریف اور شکر اس اللہ کا کہ جو لوگوں کے دلوں کو بہتری کی طرف بدل دیتا ہے!