بہ سلسلۂ اداریہ
ترس کیسا..؟
مسلمانوں کو اپنا ”دین“
چھوڑنا ہو گا....!
ہمارے اِس مضمون کے کئی
ایک اشارات کو پانا اِس بات پر منحصر رہے گا کہ آدمی ”دین“ کے اُس مفہوم سے واقف
ہو جو مسلمانوں کے علمی وتاریخی مصادر میں صدیوں سے معلوم اور معروف رہا ہے اور جس
کا دائرہ قلبی اَعمال سے لے کر بدنی عبادات، روزمرہ معاملات، سماجی تعلقات اور
امورِ ریاست بشمول سیاست و معیشت، دیوانی و فوجداری مسائل و امورِ صلح وجنگ سب کو
محیط ہے اور اِس پورے دائرہ میں غیر اللہ کی عبادت سے کنارہ کش رہتے ہوئے اللہ کی
عبادت کرنا ”اسلام“ ہے۔ ”دین“ کے اِسی دائرہ کو واضح کرنے کیلئے اِس فصل میں آگے
چل کر آپ ایک طویل حاشیہ دیکھیں گے جس میں مسلمانوں کی حدیث اور فقہ کی ایک ایک
کتاب کی فہرست دکھائی گئی ہے تاکہ اندازہ ہو مسلمان چودہ صدیوں سے جس ”دین“ سے
واقف ہیں اس کا دائرہء نفوذ درحقیقت ہے کہاں تک، اور تاکہ یہ بھی معلوم ہو کہ
مسلمانوں کے تمام کے تمام علمی مصادر ”دین“ کا جو مفہوم بتاتے ہیں وہ زندگی کے
”روحانی“ شعبوں کو نہیں بلکہ دین کے سب کے سب شعبوں کو محیط ہے(1)۔
البتہ یہاں ایک اور
اصطلاح بھی رائج ہے جو ضرور کسی وقت ”دین“ کا ہم معنیٰ بھی استعمال ہو جاتی ہو گی
مگر اِس کا جو استعمال عمومی طور پر ذہنوں کے اندر پایا جاتا ہے وہ ”دین“ کی نسبت
بے حد محدود ہے۔ یہ اصطلاح ہے: ”مذہب“۔ ظاہر ہے یہ اصطلاح ہمارے دین کے مصادر میں
کہیں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ نہ کہیں قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ فقہ میں اور نہ
کتبِ عقیدہ میں، باوجود اِس کے کہ ”دین“ بھی عربی ہی کا لفظ ہے اور ”مذہب“ بھی
عربی ہی کا ایک لفظ! پھر بھی ہم اس بات کے قائل نہیں کہ اصطلاحوں کے مسئلے کو
خوامخواہ بڑا کیا جائے۔ ”لا مشاحۃ فی الاصطلاح“۔ تاہم چونکہ لفظِ ”مذہب“ سے عموماً
جو چیز ذہنوں میں آتی ہے وہ انگریزی کے لفظ religion کی ہم معنیٰ ہے اور جس
میں کچھ روحانیات، کچھ اخلاقیات، کچھ رسوم، نکاح طلاق کے کچھ مسئلے، کھانے پینے کے
کچھ کوڈز اور چند مذہبی تہوار آتے ہیں اور یہیں پر اس کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے..
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں سیکولر گلوبلائزیشن کے ’اردو داں‘ پیام بروں کی زبانیں ایک
غیر محسوس انداز میں لفظ ”مذہب“ کی خاصی ترویج کر رہی ہیں اور اس کے ”احترام“ کی
یقین دہانی بھی خاصے زور سے کراتی ہیں۔ البتہ کسی کسی وقت یہ اپنے اُس ”مفہوم“ سے
بھی پردہ اٹھاتی ہیں جو یہ لفظ ”مذہب“ سے مراد لیتی ہیں اور جوکہ عین وہی ہے جو کہ
یورپ میں ”ریلیجئن“ سے مراد لی جاتی ہے اور جو کہ کچھ مافوق الفطری تصورات mataphysical
dogmas اور کچھ ”مراسم“ rituals سے بڑھ کر نہیں اور جس سے کہ زندگی کے اجتماعی
شعبے مانند سیاست، معیشت، تہذیب، ثقافت، امورِ دیوانی و فوجداری، معاملات صلح وجنگ
اور اقوام عالم کے ساتھ تعامل سب کچھ باہر رکھا جاتا ہے.. اور جو کہ اسلام میں
”دین“ کے دائرہ کے اندر ہی آتا ہے اور جس کو کہ ”دین“ اور ”خدا کی اطاعت“ سے باہر
کرنا کفرِ بواح ہے۔
یہاں سے ضروری ہو جاتا ہے
کہ ہم ”دین“ کی تفصیلات ہی نہیں، ”دین“ کا تصور بھی اپنے ہی شرعی وتاریخی مصادر سے
لیں اور اس کے اُس تصور کو قبول کرنے سے جو ”مذہب“ اور ”ریلیجئن“ کے تحت اِس وقت
ہمارے ذہن نشین کرائی جا رہی ہے اور جس کے بل پر ہمارے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی
واردات ہونے جا رہی ہے، ہم صاف اِباءکریں اور قوم کو بھی اس سے خبردار کریں۔
”مسلمانوں کو اپنا دین
چھوڑنا ہو گا“!
یہ قوم بلاشبہ اپنا سب
کچھ ہاتھ سے دے چکی، کوئی اور چیز بچی ہی نہیں جو اِس کے ہاتھ سے لے لی جائے۔ دشمن
بھی جانتا ہے، اِس کے پاس صرف اِس کا دین اور اِس کا نبی بچ گیا ہے جسے اُس کے
خیال میں اِس قوم کے ہاتھ سے اب لازماً لے لیا جانا چاہیے؛ کیونکہ یہ اِس کے پاس ہے
تو گویا سب کچھ ہے؛ یہ ایک ایسی ثروت ہے جس سے کام لے کر یہ قوم جب چاہے اپنی ملت
کو از سر نو تعمیر کر سکتی ہے.. اور اپنی کھوئی ہوئی ایک ایک چیز اپنے دشمن کے
ہاتھ سے واپس لے سکتی ہے.. بلکہ اِس کی مدد سے یہ اپنی اس عمارت کو دنیا میں جس
قدر چاہے اونچا لے جا سکتی ہے اور جس قدر چاہے جہانِ انسانی کے اندر پیش قدمی کر
سکتی ہے۔
اِس کے دشمن کی بدبختی
کہئے یا کیا.... اب وہ اِس امت کے ہاتھ سے اِس کا دین چھیننے کا فیصلہ کر چکا ہے!
اِس معنیٰ میں نہیں کہ وہ ہمارے یہاں سے ہمارے دین اور ہماری شریعت کی حکمرانی ختم
کروا دے؛ کیونکہ یہ کام تو وہ ایک صدی پہلے کامیابی کے ساتھ انجام دے چکا ہے۔ بلکہ
اِس معنیٰ میں کہ یہ امت اعتقاداً ہی اب اللہ، اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول سے
اپنا ناطہ توڑ لے اور اپنے ایمان کے اِن نازک ترین اور بنیادی ترین مقامات پر بھی
”غیرت“ اور ”حمیت“ ایسے الفاظ کو اپنی لغت سے ہمیشہ کیلئے خارج کرا دے۔ اِن کی
کتاب اور ان کے نبی کو برسرعام گالیاں پڑیں اور ان کی شریعت میں وارد ہونے والی
حدود اور شعائر کا دنیا کی بڑی بڑی سکرینوں اور فل اسکیپ کے صفحات پر مذاق اڑا لیا
جائے تو بھی عالمی دجالی شریعت پر اپنے ایک غیر متزلزل ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے
اور اِس دجالی شریعت سے وجود میں آنے والے ”بین الملل رشتوں“ کی عظمت و تقدس کا
پاس رکھتے ہوئے ان پر لازم ہو گا کہ تب بھی یہ ”مسکراہٹوں کے تبادلہ“ کی ہی ایک
ایسی نہ ختم ہونے والی استعداد سامنے لائیں جو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی موقعہ
پر اِن کی باچھوں کا ساتھ نہ چھوڑتی ہو۔
چنانچہ جنگ اب صرف ایک
بات پر ہے :
”مسلمانوں کو اپنا دین
چھوڑنا ہو گا“....
”اپنا ’مذہب‘ بے شک اسلام
رکھیں، مگر ”دین“(2) ہمارا قبول کرنا ہو گا“....
”خبردار، ہم مذہب کے کوئی
مخالف نہیں مگر اِس سے پہلے ضروری ہے آپ سیکولرزم کے معنیٰ اور مفہوم سے ذرا آگاہ
ہو لیں، جی ہاں ”سیکولرزم“ جو کہ زمانے کا دین ہے اور جس کو اِس گلوبل ولیج کے ہر
شہری پر مسلط کر نے کیلئے ہر قسم کا اِکراہ اور زبردستی بھی نہ صرف جائز بلکہ
انسانیت کی بھلائی کیلئے حد سے بڑھ کر ضروری ہو چکی ہے۔ ”دین“ کے طور پر اگر آپ
ہمارا سیکولرزم قبول کر لیں تو ”مذہب“ کے طور پر آپ اپنے اسلام کو جی بھر کر گلے
لگائیں اور جہان بھر میں نشر کریں! مسلمان اپنا ”دین“ چھوڑ کر حلقہ بگوشِ سیکولرزم
ہو جائیں تو ان کو اپنے ”مذہب“ (اسلام) پر چلنے کی نہ صرف اجازت ہو گی بلکہ
”ریاست“ اس کی باقاعدہ ضمانت دے گی کہ ان کی مسجدوں اور اذانوں اور قرآنی مصاحف کی
طباعت اور عید کی چھٹیوں (البتہ ’جمعہ‘ کی آدھی چھٹی بمقابلہ ”اتوار“ کی پوری
چھٹی، کیونکہ ریاست ”اسلام“ کا اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی!)، حج انتظامات، رمضان کے
احترام (جوکہ بھارت کے ’مسلم اکثریتی‘ علاقوں میں بھی ان کو وافر طور پر دستیاب
ہے) اور اسی قبیل کے کچھ دیگر ’مذہبی شعائر‘ کو مکمل پروٹیکشن حاصل ہو گی۔ نیز
اسلام کی جو جو بات ہمارے اِس اینگلوسیکسن دین کے مطابق نکلے اس کا ’اسلامی حوالہ‘
دینے کی بھی پوری آزادی ہو گی، بلکہ خاص حالات میں اِس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا
جائے گا۔ علاوہ ازیں، آپ ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کرنا چاہیں اور تا عمر ’مذہبِ
اسلام‘ پر عمل پیرا رہنا چاہیں یا کسی وقت اسلام چھوڑ کر ہندومت اختیار کرنا چاہیں
یا اِن دونوں کی جگہ کوئی اور ’مذہب‘ قبول کرنا چاہیں یا سب ’مذاہب‘ کو چھوڑ کر دہریہ
جا بنیں، یہ سب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی آپ کا بال بیکا کرنے کا مجاز نہیں “!
جس طرح قرآن نے کسی وقت
یہ اعلان کیا تھا کہ اللہ کے نزدیک دین ایک ہے اور وہ ہے اسلام(3)۔ البتہ ساتھ
فرمایا تھا کہ اس کے قبول کرنے پر ہرگز کوئی دھونس زبردستی نہیں ہے،(4) کیونکہ
فیصلے خدا کے ہاں قیامت کو جا کر ہونے ہیں(5)۔ اسی طرح آج کے اِس عالمی دجالی
چارٹر نے صاف صاف اور واشگاف یہ اعلان کر دیا ہے کہ ”دین“ اس کے نزدیک ایک ہے اور
وہ ہے سیکولرزم، البتہ اِس ”دین“ کے اندر رہتے ہوئے ”مذہب“ آپ جونسا مرضی اختیار
کریں۔ ہاں البتہ ”دین“ جو ایک ہے، اور سیکولرزم ہے، اس کو قبول کرنے پر ہر ہر قسم
کا اکراہ اور ہر ہر انداز کی زبردستی لازماً روا رکھی جائے گی۔ نیز یہ سب فیصلے آج
ہی اور اِسی زمین پر ہوں گے۔ اور کوئی رحم اور ترس کھانے کی اِس بار گنجائش نہیں۔
اب یہ چیز ایک اندھا بھی
دیکھ چکا ہے کہ اِس پوری جنگ کا ایجنڈا اِسی ایک نکتے پر مشتمل ہے۔ یہاں کا لاعلم
سے لاعلم شخص بھی جان گیا ہے کہ کرۂ ارض کی یہ مہنگی ترین جنگ نہ تو یہاں کے کچھ
مٹھی بھر ’دہشت گردوں‘ کی گوشمالی کی خاطر ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک خطے تک
محصور کر رکھی گئی ہے؛ بلکہ یہ جنگ صرف اور صرف ایک نکتے پر ہو رہی ہے اور پوری
دنیا کے اندر پھیلا دی گئی ہے؛ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اب اپنا ”دین“ چھوڑنا ہو
گا۔ اسلام کو رکھنا ہے تو ”مذہب“ کے طور پر رکھیں، ”دین“ البتہ صرف سیکولرزم ہے۔
اور چونکہ مسلمان چودہ سو
سال تک اسلام کو ”دین“ ہی مانتے چلے آئے ہیں اور ان کے سب علمی ذخیرے، ان کے سب
فقہاء، ان کی سب فقہیں اور ان کے سب علمی مراجع جگہ جگہ اِس ’گمراہی‘ میں الجھے
رہے ہیں جو اسلام کا تعارف معاشرے کے جملہ امور پر حاکم بن کر رہنے والے ایک ”دین“
کے طور پر کرواتی ہے، لہٰذا جب تک مسلمان اپنی اِن فقہوں، اپنے اِن علمی ذخیروں
اور اپنے اِن فنی و تکنیکی مراجع سے ہی برگشتہ نہیں کرا لئے جاتے تب تک چاہے یہ
اسلام کو نظری طور پر ”مذہب“ کے اندر محصور کر دینا قبول کر چکے ہوں اور بے شک یہ
اکیسویں صدی کے اِس عالمی دین کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال چکے ہوں، پھر بھی پیر پیر
پر یہ اُن ”گمراہیوں“ اور اُن ”مغالطوں“ کا شکار ہوں گے جو صدیوں تک اسلام کو
”دین“ کے طور پر لینے کے ہی عادی چلے آئے ہیں اور اس کے علاوہ اسلام کی کسی تعریف
سے واقف ہی نہیں رہے، لہٰذا جب تک اِن کو اُس پورے فقہی و تاریخی تسلسل سے ہی کاٹ
کر نہیں رکھ دیا جاتا اور اس سارے فقہی ورثے پر ہی ان کے بچے بچے کی زبان پر ایک
سوالیہ نشان نہیں کھڑا کروا دیا جاتا تب تک وہ اسلام کی اِس جدید ’مذہبی تعبیر‘پر
بھی یکسوئی نہ پا سکیں گے؛ اور نہ چاہتے ہوئے بھی ’اکیسویں صدی کی چیزوں‘ کو
’پرانی چیزوں‘ کے ساتھ خلط کرتے رہیں گے .... لہٰذا یوں تو کسی قوم کے ’مذہبی
امور‘ میں مداخلت صحیح نہیں اور خود ”سیکولرزم“ کے اصول بھی اس کے متحمل نہیں،
لیکن اِس خاص خدشے کے پیش نظر جوکہ اوپر ذکر ہوا، اور حفظ ما تقدم
(pre-emptive measure) کے طور پر، اور عالم اسلام میں اِس نئے دین __
”سیکولرزم“ __ کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے، یہ ضروری ہے کہ فقہ کے یہ سب مراجع
مسلمانوں کے ہاتھ سے لے کر رکھوا دیے جائیں۔ وحی کے فہم اور استنباط کے سلسلہ میں
وہ سب مسلمات اور وہ سب طے شدہ باتیں جو چودہ سو سال سے اِس امت کے تمام علمی
حلقوں کے یہاں محکّم مانی گئی ہیں، ان سے ترک کروا دی جائیں۔ یہاں تک کہ ”تواتر“
اور ”اجماع“ ایسے الفاظ اور اصطلاحات بھی ان کی زبانوں سے کھرچ کھرچ کر اتار دیے
جائیں۔ رہ گئی ”سنت“، تو اس کی تعریف ہی پر اس قدر دھول اٹھا دی جائے کہ یہاں ہر
چوراہے پر یہ دنگل ہو رہا ہو کہ وہ سنت جو اس امت کا نبی اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے
اور جس کو اِن کا نبی ”ڈاڑھوں سے پکڑ کر رکھنے“ کی نہایت زوردار تاکید کر گیا ہے
وہ ”سنت“ خیر سے ہوتی کیا ہے!؟ اور امت میں سے آج تک آیا وہ کسی کو سمجھ بھی آئی
ہے یا اِس امت کو لاحق اتنا بڑا ابہام دور کرنے کیلئے ”سنت“ کی اسٹینڈرڈ تعریف
اکیسویں صدی کے کچھ نابغاؤں کو ہی جاری کر کے دینا ہو گی؟ اور حسب ضرورت اس میں
”ترمیمات“ بھی کرتے رہنا ہو گا؟! سنت سے یوں فارغ ہوئے۔ رہ جاتی ہے کتاب اللہ، تو
وہ جانتے ہیں کہ کتاب اللہ کو سنت اور صحابہؓ کی راہ سے ہٹ کر سمجھنے والا خود ہی
کہیں ”خوارج“ کے گڑھے میں جا کر گرے گا، تو کہیں ”معتزلہ“ تو کہیں ”قدریہ“ تو کہیں
”جبریہ“ تو کہیں ”نیچرسٹ“ تو کہیں ”لبرل“ تو کہیں ”سیکولر“۔ ان گھاگ مستشرقین سے
بڑھ کر کون جانتا ہے کہ کتاب اللہ کو سنت اور صحابہؓ کی راہ سے ہٹ کر سمجھنے
سمجھانے کی ریت چلا دی جائے تو یہاں کی ہر ’ذاتی لائبریری‘ میں ایک ’نئی تحقیق‘ ہو
رہی ہو گی اور ہر گلی کے کونے میں کئی کئی ’مکتب فکر‘ پائے جائیں گے، بلکہ یہاں کا
ہر شخص ایک ’اسکول آف تھاٹ‘ ہو گا!
اب چونکہ وہ اسلام جو
چودہ صدیوں سے مسلمانوں کے یہاں پایا گیا ہے اور اپنے مستند فقہی مکاتب کی صورت
میں پایا گیا ہے.... چودہ سو سال سے چلا آنے والا وہ اسلام کسی ایک بھی مسلمان کے
یہاں ”مذہب“ نہیں بلکہ ”دین“ رہا ہے، اور یہ بات مسلمانوں کے یہاں ہر شک و شبہ سے
بالاتر رہی ہے... اگرچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اُس پر عمل پیرا نہ رہی ہو اور
خواہشاتِ دنیا کے پیچھے لگ کر اس سے بہت دور بھی ہو چکی ہو اور بے شک اس کی جگہ
بہت سی خلافِ شریعت چیزوں نے بھی ان کے یہاں بسیرا کر رکھا ہو، پھر بھی جہاں تک
مسلمانوں کے علمی وفقہی ذخیرے ہیں ان کے اندر آپ کو اسلام کی وہی ’پرانی‘ تصویر
دکھائی دے گی جو ”مذہب“ سے لے کر ”امورِ ریاست و سیاست“ تک معاشرے کے جملہ مسائل
کو محیط ہے.... چونکہ اسلام کی ایک تاریخی وفقہی تصویر متفقہ طور پر مسلمانوں کے
ہاں ایسی ہی ایک کامل و شامل تصویر ہے.. لہٰذا مسلمان بچوں میں بے راہ روی عام کر
دینے پر استعمار کی جو محنت ہوئی ہے اس کے اپنے فائدے ضرور ہیں، مگر اسلام کی وہ
علمی تصویر پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے جو ان کو ”واپس“ آنے کیلئے مسلسل اپنی طرف
بلاتی ہے۔ کم از کم بھی یہ کہ اسلام کی وہ علمی تصویر آج بھی مسلمانوں کو ان کے
انحرافات کی پیمائش میں مدد دیتی ہے۔ اِس گھر کا بھولا ہوا کوئی شخص واپس آنے کا
ارادہ کر لے، تو اس کا راستہ پھر بھی کھلا ہے۔ چنانچہ جب بھی اِن مسلمانوں کے بچے
اسلام کی طرف واپس آتے ہیں، اور یہ ایک ایسا ’خطرناک‘ عمل ہے جو نہ صرف تیزی کے
ساتھ شروع ہو چکا ہے بلکہ ”ایلیٹ“ کے بچوں میں بھی رواج پکڑ گیا ہے... جب بھی
مسلمانوں کے بچے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی طرف لوٹتے ہیں تو پھر وہ وہی اسلام ہوتا
ہے جو کم از کم علمی حد تک وہی چودہ سو سال پرانا ایک تسلسل ہے! لہٰذا استعمار کے
زیر اشارہ کام کرنے والے ٹی وی اور سینما اور تھیٹر اور ریڈیو اور اخبارات کی سب
کوششیں مسلمانوں میں عملی بے راہ روی لے آنے پر ہی مرکوز کروا رکھی جانا اس مسئلے
کا کوئی بہت زبردست حل نہیں ہے۔ اصل کام اب یہ ہے کہ اسلام کی اُس علمی تصویر ہی
کو بدل کر رکھ دیا جائے۔ اُن کی نظر میں، اس گھر سے اِس کے بچوں کا ایک بڑی تعداد
کے اندر بھگا لیا جانا کتنا بھی خوش آئند ہو، کافی بہرحال نہیں؛ گھر تو گھر ہے؛ سب
نہ سہی کچھ مسلمان بچے تو کسی نہ کسی وقت واپسی کی راہ لے ہی لیں گے؛ اور کیا بعید
ایسے کچھ ہی بچے اِس فرعون کے محلات مسمار کر دینے کو کافی ہوں۔ اب تو کسی طرح یہ
یقینی بنایا جائے کہ اِس گھر کے بچے جب واپس آئیں تو بھی ان کو یہ گھر نہ ملے۔ اصل
کامیابی یہ ہو گی کہ مسلمان بچے بے راہ روی چھوڑ کر اسلام کی جانب لوٹیں تو بھی ان
کو کسی اور ہی ’اسلام‘ سے واسطہ پڑے۔ ایسا ہو جائے پھر تو کیا ہی بات ہے! رہے بانس
اور نہ بجے بانسری۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پھر.... مسلمانوں کے بچے ”بے راہ رو“ ہو
لیں یا ”مذہب پسند“، سبھی راستے ”روم“ کو جا رہے ہوں گے!
چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھ
سے اسلام کی صرف عملی تصویر نہیں، بلکہ اسلام کی علمی تصویر ہی کو چھین لے جانا آج
اِس گلوبلائزیشن کے ایجنڈا پر سر فہرست ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آج کی یہ جنگ صرف اِس
ایک نقطے پر ہو رہی ہے؛ اِس کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا اس جنگ کے پیچھے ہے ہی نہیں۔
یہ ایک ہی چیز ہے جو ہمارے پاس رہ گئی تھی اور یہ ایک ہی چیز ہے جسے اِس بار وہ
ہمارے یہاں سے لینے آئے ہیں۔ اور اس کو لئے کے بغیر اِس بار وہ ہمارے یہاں سے جانے
والے نہیں۔
حق یہ ہے کہ یہ سارا
التباس جو یہ سیکولر زبانیں اِس وقت پیدا کر کے دے رہی ہیں؛ اور جس کے دم سے ’مذہب
کا احترام‘ ایسے چند الفاظ بول کر یہ ہم کو ایک بہت بڑا چقمہ دے دینے میں کامیاب
ہو جاتی ہیں اور اِس مکاری سے کام لے کر اِن گلیوں اور بازاروں کے اندر اور یہاں
کی لاکھوں کروڑوں سکرینوں پہ سامنے آکر ”دینِ محمد“ کے ساتھ کفر کی کھلم کھلا دعوت
دے کر بھی یہ محمد ﷺ پر ایمان رکھنے والے ایک معاشرے میں اپنا سر سلامت لئے پھرتی
ہیں.... یہ سارا التباس اور یہ ساری مکاری اِسی ایک حقیقت کے دم سے ہے کہ ہمارے بے
علم عوام ابھی ”دین“ اور ”الٰہ“ کے اُس جامع مفہوم سے ناواقف ہیں جو چودہ سو سال
سے امت کے اہل علم میں متفق علیہ چلا آیا ہے۔ ہمارے یہ عوام کبھی واقف ہوں کہ
فقہائے اسلام کے یہاں ”دین“ کا کیا دائرۂ کار رہا ہے، یہاں تک کہ کسی بھی فقہ کی
(جی ہاں کسی ایک نہیں بلکہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، جس بھی فقہ کی) کتاب
کھول لیں اور بیشک پوری کتاب نہ پڑھیں، محض اسکی فہرست پر ہی ایک سرسری نگاہ ڈال
لیں، اِسی طرح صحاح ستہ میں سے حدیث کی کوئی ایک ہی کتاب اٹھا لیں اور زیادہ نہیں
محض اسکی فہرست ہی کو ایک نظر دیکھ لیں، تو انکو اندازہ ہو کہ ”دین“ کا دائرہ کہاں
تک ہے(6) اور کیا کیا چیز ”دین“ کے اندر شامل ہے، جسکے ذریعے انکو ”الٰہ“ کی عبادت
کرنی ہے۔
ایک ایسا دین جو چودہ
صدیوں تک معاشروں کو اپنی جاگیر منوا کر رہا ہو، اور یہاں کا بے عمل سے بے عمل اور
گناہگار سے گناہگار شخص بھی اُس کی اِس حیثیت کو تسلیم کرتا رہا ہو... ایک ایسا
دین جو معاشروں پر مطلق حکمرانی کا دعویٰ کر کے رہا ہو اور یہاں کے کسی فاسق فاجر
شخص نے بھی اُس کے اِس دعویٰ کو جھٹلانا اپنے حق میں کفر اور ابدی جہنم کا ہی موجب
جانا ہو... ایک ایسا دین اِس نئے عالمی دجالی سیٹ اَپ میں کیونکر اپنی اصل حالت پر
چھوڑا جا سکتا ہے؟ یوں بھی ”دین“ تو ایک ہی ہو سکتا ہے۔ ”مذاہب“ تو کسی ملک میں
جتنے مرضی ہوں، اور اِس کی تو اسلام بھی اجازت دیتا ہے بلکہ تاریخ شاہد ہے،
’اقلیتوں‘ کو ان کے اپنے اپنے ”مذہب“ پر چلنے کا حق دینے میں اسلام سے بڑھ کر کوئی
دین اور کوئی تہذیب ہے ہی نہیں حتیٰ کہ ’جمہوریت‘ اور ’آزادی‘ کا سمبل مانا جانے
والا آج کا ماڈرن فرانس بھی نہیں، البتہ ”دین“ تو ایک ملک میں ایک سے زیادہ نہیں
ہو سکتا۔ اسلام کی طویل صدیاں یہاں کا ”دین“ اسلام تھا، خواہ ’مذہب‘ کسی کا جو بھی
ہو۔ اب قریب قریب دنیا بھر کا ”دین“ سیکولرزم ہے، خواہ ’مذہب‘ کسی کا جو بھی ہو۔
کوئی ملک ایک سے زیادہ ”دین“ کا متحمل واقعتا نہیں ہو سکتا؛ ایک نیام میں دو
تلواریں کبھی نہیں سمائیں(7)۔ Law of the land تو ایک ہی ہو سکتا ہے، یا خدا کا فرمایا ہوا اور
یا پھر انسان کا بنایا ہوا۔ ”دین“ کسی جگہ پر دو پائے ہی نہیں جا سکتے۔ جب ایسا ہے
تو پھر شیاطین مغرب کے اِس مجوزہ جہان میں ”دینِ اسلام“ کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ اِس
کو تو آہنی ہاتھ سے ختم کیا جانا ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی چیز چھوڑی جا سکتی
ہے تو وہ ’مذہب‘ ہے!
چنانچہ اُس اسلام کے ساتھ
جو اپنا تعارف ”دین“ کے طور پر کرواتا ہے آج کھلی جنگ ہے۔ اُس کیلئے اِس پوری زمین
پر کوئی جگہ نہیں۔ عملاً تو بڑی دیر سے نہیں، مگر ذہنوں کے اندر بھی اس کیلئے اب
کوئی جگہ نہیں۔ وہ اسلام جو معاشروں میں عملاً یہ حیثیت رکھے کہ وہ حکم دے اور سر
اُس کے آگے جھک جایا کریں، وہ اِس دنیا میں آج ہے کہاں کہ اُس کے خلاف جنگ کی
جائے؟ تو پھر یہ کونسے اسلام کے ساتھ جنگ کرتے پھر رہے ہیں؟ وہ اسلام جو کسی وجہ
سے یہاں کے بعض ذہنوں کے اندر باقی رہ گیا ہے اور ابھی تک کھرچا نہیں جا سکا ہے۔
جنگ کے طبل اب اُس اسلام کے خلاف بجائے گئے ہیں جو ”دماغوں“ کے اندر پایا جاتا ہے
اور ابھی تک، جی ہاں ابھی تک اور اِس ”سیکولرزم کے اَیرا“ میں، اپنا تعارف ”دین“
کے طور پر کراتا ہے اور اس پر باقاعدہ اصرار کرتا ہے۔ آخر یہ اسلام ”دماغوں“ کے
اندر بھی کیوں پایا جاتا ہے؟؟؟! جب تک یہ ”ذہنوں“ سے ہی کھرچ نہیں دیا جاتا اُس
وقت تک دینِ اینگلو سیکسن کی بقاءو استحکام کی بابت کیونکر مطمئن ہوا جا سکتا ہے؟!
پس ایسے اسلام کو تو دماغوں کے اندر بھی رہنے نہیں دیا جا سکتا؛ اس کا تو تصور ہی
مٹا ڈالنا ضروری ہے....!!!
شیاطین جانتے ہیں، یہ امت
کتنی ہی لاغر اور بے بس اور نہتی کیوں نہ ہو گئی ہو، یہاں تک کہ اِس کے لوگ کتنے
ہی گناہگار اور بے عمل کیوں نہ ہو گئے ہوں، ایسی کوئی بھی عالمی دجالی مہم جو اِس
کے دین کو موت کا پیغام سنانے آئی ہو، اِس کی لاشوں پر سے ہی گزرے تو گزرے، ویسے
یہ کسی بھی صورت اس کو اپنے گھروں کا رخ کرنے کی اجازت دینے والی نہیں۔ تو پھر
شیاطین کے پاس کیا صورت ہے کہ وہ دینِ محمد کو صفحۂ ہستی سے ختم کر دینے کی اِس
عالمی منادی کو اِس امت کے گھروں میں اور اِس کے زیر تماشا بڑی بڑی سکرینوں کے
اوپر نشر کریں؟ شیاطینِ ابلاغ کے پاس آخر اِس کی کیا صورت ہو کہ وہ اِس امت کی
گلیوں اور چوراہوں میں دندناتے ہوئے اِس کے ”دین“ کو ختم کر دینے کی بات کریں اور
یہاں کے نمازیوں اور روزہ داروں تک سے کہیں کہ وہ بھی ساتھ مل کر اِس ’کارِ خیر‘
میں حصہ لیں؟
اِس کی ایک ہی صورت ہے:
اسلام کو ’مذہبی معاملات‘ میں قید کرو اور پھر ایسے اسلام پر اپنا ایک پکا ٹھکا
یقین ظاہر کر کے اپنے حسن نیت کا ثبوت پیش کرو۔ یعنی ”دین“ کی حیثیت میں اِس کے ساتھ
کفر کرو اور ’مذہب‘ کی حیثیت میں اِس کا بھرپور احترام کرو۔ اتنا ہی نہیں، ساتھ
میں اُن لوگوں کی عقل اور سمجھ پر اظہارِ افسوس کرو جو تمہاری نیت پر حملہ آور
ہوتے اور مسلم عوام کو یہ تاثر دے کر تمہارے خلاف بھڑکاتے ہیں کہ یہ لوگ ’مذہب‘ کے
منکر ہیں! ان سے کہو: دراصل تم لوگ ”سیکولرزم“ کو سمجھے نہیں، ہم کوئی ’مذہب‘ کا
انکار تھوڑی کرتے ہیں؛ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے معاملات، وہاں پائے جانے
والے انسانی فریقوں کے باہمی منشا سے، اور اُن کے مابین پائے جانے والے ”کامن
گرؤنڈز“ اور ”کامن ٹرمز“ پر، چلائے جائیں گے جوکہ ’مذہب‘ کے ماسوا ہی ہو سکتے ہیں؛
کیونکہ یہاں آپ اکیلے نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیتیں بھی ہیں (گویا رسول اللہ کے قائم
کردہ معاشرہ میں ’اقلیتیں‘ نہیں تھیں، یا پھر ’اقلیتیں‘ ختم کر کے رکھ دی گئی
تھیں، یا پھر ’اقلیتوں‘ کے احترام میں ”سیکولرزم“ کو ہی law of the land ٹھہرا دیا گیا تھا اور
قرآن کی اُن تمام نصوص کو جو معاشرے کیلئے فوجداری و دیوانی احکام بیان کرنے کو
اترا کرتی تھیں محض ”تلاوت“ کیلئے مختص ٹھہرا دیا گیا تھا!)؛ اور یہ کہ سماجی علوم
اور سوشل سسٹمز میں ’مذہب‘ کو گھسیٹ لانا کوئی درست بات نہیں، رہ گیا ’مذہب‘ اپنے
خاص دائرۂ کار کے اندر (جو کہ سیکولرزم کی قاموس میں ’مسجد‘، ’مندر‘ اور
’گوردوارہ‘ وغیرہ ہو سکتا ہے)، تو اس پر تو ہم پورا ایمان رکھتے ہیںاور ہر شخص کے
اِس حق کا نہایت کھلے دل سے احترام کرتے ہیں کہ آج کی کسی بھی ’جدید ریاست‘ میں
رہتے ہوئے وہ اپنی پسند کے مذہب پر چلنے کے اِس ’یونیورسل رائٹ‘ کو پوری آزادی کے
ساتھ ’انجوائے‘ کرے! ہم تو صاف یہ کہتے ہیں کہ ’مذہب‘ کو اس کے دائرۂ کار کے اندر
پورا پورا احترام دیا جائے، اب ہماری بابت ہی یہ نشر کرتے پھرنا کہ ہم ’مذہب‘ کے
منکر ہیں کتنا بڑا جھوٹ ہے....!
اِس طریقۂ وادات سے
شیاطین نے دُہرا بلکہ تہرا فائدہ لیا: مسلم معاشروں کو اسلام سے (بطورِ ”دین“)
مرتد کروا دینے کی ایک باقاعدہ تحریک بھی عالم اسلام کی گلیوں اور بازاروں کے اندر
کھڑی کر لینے میں کامیابی پا لی گئی (اس پوائنٹ پر آگے چل کر ہم کچھ مزید بات کریں
گے)، اسلام کو ”ریاست“ اور ”معاشرے پر حکمرانی“ سے بے دخل ٹھہرا کر ’مذہب‘ کی
چاردیواری کے اندر قید کرا دینے میں بھی کمال کی کامیابی حاصل کر لی گئی، اور
اسلام پر اپنے ایمان اور ایقان کا بھرم بھی نہ ٹوٹنے دیا گیا!!!
تم قتل کرو ہو، کہ کرامات
کرو ہو!
دعائیں دیجئے یہاں کی
دینی قیادتوں اور اسلامی جماعتوں کو جنہوں نے لوگوں پر شرک اور توحید کا فرق کھول
کر رکھ دیا ہوا ہے!
٭٭٭٭٭
(1) ہاں یہ بات اپنی جگہ پر
درست ہے کہ ”دین“ کے اندر ”عبادات“ کو جس طریقے سے مصادرِ شریعت سے اخذ کیا جاتا
ہے، ”معاملات“ کو بھی لیا گو اُنہی مصادرِ شریعت سے لیا جاتا ہے مگر اِن کے اخذ
کرنے کا طریقہ ذرا مختلف ہے۔ مراد یہ کہ ”عبادات“ کے اندر اصل: توقف اور تحریم ہے
اور کوئی ایک بھی چیز ہم اپنی مرضی سے کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ جبکہ ”معاملات“ کے
اندر اصل: ”اباحت“ ہے؛ یعنی ”معاملات“ کے ہر باب میں ہمیں اصولِ شریعت دے دیے گئے
ہیں اور ان ”اصول“ کی تو ہمیں من و عن پیروی کرنا ہوتی ہے جبکہ کچھ تفصیلات میں __
حالات اور زمانہ کی رعایت سے __ ہماری عقل وتدبیر اور ہمارے اجتہاد کیلئے بھی ایک
بہت بڑا دائرہ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے شریعتِ اسلام ”التزام“ اور ”اجتہاد“
کا ایک ایسا خوبصورت متوازن دائرہ فراہم کرتی ہے کہ عقل انسانی اس پر اش اش کر
اٹھتی ہے!
(2) ”دین“ کے جہاں کئی ایک
لغوی و شرعی معانی ہیں وہاں اس کا ایک معنیٰ law of the land بھی ہے۔ قرآن کے مندرجہ
ذیل مقام پر یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے:
كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا
كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاء اللّهُ (سورۃ
یوسف: 76)
”یوں ہم نے ہی یوسف ؑ
کیلئے (یہ) چال چل دی۔ بادشاہ کے دین میں یوسف ؑ کیلئے یہ کبھی ممکن نہ تھا کہ وہ
اپنے بھائی کو حاصل کر لے، مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے“
یہاں ”بادشاہ کے دین“ سے
مراد ہے بادشاہِ مصر کا قانون۔ بنا بریں، ”دین“ کے اِس قرآنی اطلاق کی رو سے: کسی
ملک کے ریاستی معاملات میں فیصل اور حَکم مانی جانے والی چیز کو وہاں کادین کہا
جائے گا۔ مسلمانوں کا یہ ایک متفقہ اعتقاد ہے کہ اسلام ہر ہر معنیٰ میں ”دین“ ہے،
نہ ’مذہبی‘ معاملات اس سے مستثنیٰ ہیں اور نہ ’ریاستی‘ اور نہ ’بین الاقوامی‘۔
مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ کا اتارا ہوا اور رسول کا فرمایا ہوا مطلق طور
پر اور ہر ہر معاملہ کے اندر حرفِ آخر ہے۔ یعنی ”دین“ ہے۔البتہ ”سیکولرزم“ کا
عقیدہ، جس کا اس وقت میڈیا پر بے حد چرچا ہے، کہتا ہے کہ ریاستی معاملات میں تو
”اللہ کے اتارے ہوئے“ کو فیصل اور حَکم ہرگز نہیں مانا جا سکتا۔ البتہ ’روحانی‘
اور ’مذہبی‘ معاملات میں ضرور مانا جا سکتا ہے۔ یعنی دین بمعنیٰ
"Law of the land" تو اسلام نہیں ہو سکتا اور یہ حیثیت تو اس ملک میں
رہنے والے انسانوں ہی کو حاصل ہو گی، البتہ دین بمعنیٰ ”مذہب“ ضرور اسلام ہو سکتا
ہے اور اِس معنیٰ میں اسلام پر کوئی قدغن نہیں!
(3) إِنَّ الدِّينَ عِندَ
اللّهِ الإِسْلاَمُ بیشک ”دین“ اللہ کے نزدیک ”اسلام“ ہے۔ (آل عمران: 19)
(4) لاَ إِكْرَاهَ فِي
الدِّينِ (البقرۃ: 256) ”دین (قبول کروانے) میں کوئی دھونس نہیں“۔
(5) كَذَلِكَ زَيَّنَّا
لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم
بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (الانعام: 108) ”ہم نے اسی طرح ہر گروہ کیلئے اس کے
عمل کو خوشنما بنا دیا ہے، پھر انہیں اپنی رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے اُس وقت وہ
ان کو بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں“
(6) مناسب معلوم ہوتا ہے،
حدیث اور فقہ کی صرف ایک ایک کتاب کی فہرست نمونے کے طور پر ہم آپ کو دکھاتے ہی
چلیں، محض اس ایک مقصد کیلئے کہ آپ کو انداز ہو، اسلام کے جملہ علماءو فقہاءو
محدثین کے یہاں ”دین“ کا دائرہ کہاں تک ہے جس کے ذریعے آپ ”الٰہ“ کی ”عبادت“ کرتے
ہیں اور اس کے ما سوا کی ”عبادت“ کا انکار کر کے ابدی جہنم سے نجات پاتے ہیں۔
فقہ حنفی کی ایک مشہور
کتاب ”فتح القدیر“ کی فہرست
(فقہ
حنفی کی تقریباً سبھی کتب کی تفصیل اِسی انداز پر ہے۔ شافعی، مالکی، حنبلی اور
ظاہری مذہب کی کتبِ فقہ کی فہرست بھی اس سے ملتی جلتی ہی ہوتی ہے)۔ طوالت کے ڈر سے
ابھی اس میں ہم ابواب اور فصول وغیرہ کی فہرست نہیں دے رہے، ورنہ آپ کو اور بھی
اندازہ ہوتا کہ مسلمانوں کے جملہ علماءکے ہاں ”دین“ کا دائرہ کیا ہے:
کتاب الطہارۃ--پاکی کا
بیان
کتاب الصلاۃ--نماز کا
بیان
کتاب الزکاۃ--زکات کا
بیان
کتاب الصوم--روزہ کا بیان
کتاب الحج--حج کا بیان
کتاب النکاح--نکاح کا
بیان
کتاب الرضاع--رضاعت کا
بیان
کتاب الطلاق--طلاق کا
بیان
کتاب العتاق--غلام کو
آزاد کرنے کا بیان
کتاب الایمان--قسموں اور
حلفوں کا بیان
یہاں تک ہوئے ’مذہبی
معاملات۔ اور اب ’دنیوی‘ اور ’ریاستی‘ معاملات شروع ہوتے ہیں:
کتاب الحدود--شریعت کی
متعین کردہ سزاؤں کا بیان
کتاب السرقۃ--چوری (سے
متعلقہ فوجداری احکام) کا بیان
کتاب السیر--رسول اللہ کے
حالات اور مغازی (غزووں اور جنگ وصلح) وغیرہ کا بیان
کتاب اللقیط--لا وارث بچہ
(سے متعلقہ قانوی احکام) کا بیان
کتاب اللقطۃ--لا وارث چیز
(سے متعلقہ قانوی احکام) کا بیان
کتاب الاِباق----غلام
بھاگ جائے، (تو اس سے متعلقہ احکام) کا بیان
کتاب المفقود--کوئی شخص
مفقود الخبر ہو جائے، تو اس کا بیان
کتاب الشرکۃ--شرکہ
(companies) سے متعلقہ احکام کا بیان
کتاب الوقف--وقف
Trusts & Endowments کا بیان
کتاب البیوع--تجارتی
احکام (transactions) کا بیان
کتاب الصرف--کرنسی لین
دین کا بیان
کتاب الکفالۃ--(مالی
وعدالتی معاملات وغیرہ میں) ایک شخص کا دوسرے کی جگہ ذمہ دار بننے کا بیان
کتاب الحوالۃ--حوالہ (نیز
ہنڈی و ڈرافٹ وغیرہ) کا بیان
کتابادب القاضی--ججوں سے
متعلقہ پروٹوکولز کا بیان
کتاب الشہادات--عدالت میں
گواہی دینے سے متعلقہ احکام کا بیان
کتاب الوکالۃ--ایک شخص کے
دوسرے کی جگہ نیابتاً تصرف کرنے کا بیان
کتاب الدعویٰ--عدالتی
دعویٰ جات کا بیان
کتاب الاِقرار--عدالت میں
اقرار کرنے کا بیان
کتاب العاریۃ--پرائی چیز
لینے سے متعلقہ احکام کا بیان
کتاب الہبۃ--ہبہ کا بیان
کتاب الاِجارات--کرائے پر
جاگیر اٹھانے اور ملازمت وغیرہ کا بیان
کتاب المکاتب--غلام اپنی
قیمت خود ادا کرنے کا ایگریمنٹ کرے، تو اس کا بیان
کتاب الولاء--آزاد شدہ
غلام کی سماجی نسبت کا بیان
کتاب الاِکراہ--اکراہ کا
بیان
کتاب الحجر--حجر
(incapable یا defaulter یا bankrupt ہو جانے) کا بیان
کتاب الماذون--تصرف میں
اجازت ملنے کا بیان
کتاب الغصب--کسی کی چیز
یا جاگیر دبا لی جائے، تو اس کا بیان
کتاب الشفعۃ--شفعہ کا
بیان
کتاب القسمۃ--سانجھ کا
بیان
کتاب المزارعۃ--مزارعت کا
بیان
کتاب المساقاۃ--آبیاری کا
بیان
کتاب الذبائح--ذبیحہ سے
متعلق احکام کا بیان
کتاب الاضحیۃ--قربانی کا
بیان
کتاب الکراہیۃ--مکروہ
اشیاءکا بیان
کتاباِحیاءالموات--بیابان
کو زیر کاشت لے آنے کا بیان
کتاب الصید--شکار سے
متعلقہ احکام کا بیان
کتاب الرہن--رہن (گروی)
سے متعلقہ احکام کا بیان
کتاب الجنایات--فوجداری
جرائم سے متعلقہ امور کا بیان
کتاب الدیات--خون بہا کا
بیان
کتاب المعاقل--قاتل کے
ورثاءپر لاگو ہونے والے تاوان کا بیان
کتاب الوصایا--وصیت ناموں
کا بیان
کتاب الخنثیٰ--ہجڑوں سے
متعلقہ احکام کا بیان
بتائیے، کونسی چیز چھوٹی
ہے؟ مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کی فقہ کھول لیجئے، آپ کو ایسی فہرست ملے گی۔
حدیث کی مشہور کتاب صحیح
مسلم کی فہرست
(حدیث کی صرف ایک کتاب کی
فہرست محض مثال کیلئے دی گئی ہے۔ حدیث کی تقریبا سبھی جامع کتب کم و بیش ایسی ہی
فہرست پر مشتمل ہوتی ہیں - - - یہاں صرف عربی عنوانات ہی خط نسخ میں دیے
جائیں گے۔ چند جگہوں پر ہمارے اپنے جملے خط نستعلیق میں ہوں گے۔ ”ریاستی امور
بولڈ حروف میں دیے گئے ہیں)
کتاب الاِیمان۔۔کتاب
الطہارۃ۔۔کتاب الحیض۔۔۔۔کتاب الصلاۃ۔۔کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ۔۔کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا۔۔کتاب الجمعۃ۔۔کتاب صلاۃ العیدین۔۔کتاب صلاۃ الاستسقاء۔۔کتاب
الکسوف۔۔کتاب الجنائز۔۔کتاب الزکاۃ۔۔کتاب الصیام۔۔کتاب الاعتکاف۔۔کتاب الحج۔۔کتاب
النکاح۔۔کتاب الرضاع۔۔کتاب الطلاق۔۔کتاب اللعان۔۔کتاب العتق۔۔کتاب البیوع
financial transactions۔۔کتاب المساقاۃ (زرعی زمینوں اور آبیاری سے متعلقہ احکام)۔۔کتاب
الفرائض۔۔کتاب الہبات۔۔کتاب الوصیۃ۔۔کتاب النذر۔۔کتاب الایمان ۔۔کتاب القسامۃ
والمحاربین والقصاص والدیات۔۔کتاب الحدود (شرعی سزاؤں کا بیان)۔۔کتاب الاقضیۃ
(عدالتی فیصلوں سے متعلقہ احکام)۔۔کتاب اللقطۃ۔۔کتاب الجہاد والسیر۔۔کتاب الاِمارۃ
(یعنی حکمرانی اور سیاست!)۔۔کتاب الصید والذبائح وما یؤکل من الحیوان۔۔کتاب
الاضاحی۔۔کتاب الاشربۃ۔۔کتاب اللباس والزینۃ۔۔کتاب الآداب۔۔کتاب السلام۔۔کتاب
الالفاظ۔۔کتاب الشِعر۔۔کتاب الرؤیا۔۔کتاب الفضائل۔۔کتاب فضائل الصحابۃ۔۔کتاب البر
والصلۃ والآداب۔۔کتاب القدر۔۔کتاب العلم۔۔کتاب الذکر والدعاءوالتوبۃ
والاستغفار۔۔کتاب الرقاق۔۔کتاب التوبۃ۔۔کتاب صفات المنافقین واحکامہم۔۔کتاب صفۃ
القیامۃ والجنۃ والنار۔۔کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا۔۔کتاب الفتن واشراط
الساعۃ۔۔کتاب الزہد والرقائق۔۔کتاب التفسیر
(7) یہ درست ہے کہ ”دستورِ
پاکستان“ نامی ایک دستاویز باقاعدہ یہ عندیہ دیتی ہے کہ ایک نیام میں کئی کئی
تلواروں کا سمانا کوئی ایسی انہونی بات نہیں اور یہ کہ ایسا کر دینا اِس کے بائیں
ہاتھ کا کام ہے۔ اور بلا شبہ اِس دستوری صورتحال نے کئی عشروں سے کچھ بڑی بڑی
الجھنوں کو جنم دے رکھا ہے، جو نہ تو اُن طبقوں کیلئے قابل فہم ہیں جو پورے شعور
کے ساتھ اسلام کو اپنا ”دین“ مانتے ہیں اور نہ اُن طبقوں کیلئے جو صاف صاف
سیکولرزم کو اپنا ”دین“ مانتے ہیں۔ دستور کی یہ الجھنیں قابل فہم ہیں تو صرف اُن
”بیچ کے طبقوں“ کیلئے جن کو قیامت تک اِسی نظامِ مشقت کے اندر بیگار دینا ہے۔ تاہم
یہ بات طے ہے کہ اس بحران سے نکلنے کیلئے اِس اونٹ کو بہرحال کسی کروٹ بیٹھنا ہے۔
بالفاظِ دیگر، زیادہ واضح انداز میں اِس کو کسی ایک ”دین“ میں داخل ہونا ہے؛ یا
صاف اسلام یا سیدھا سیکولرزم۔ اِس ”ڈیویلپمنٹ“ کا آپ سے آپ یہ تقاضا ہو گا کہ ”بیچ
کی مخلوقات“ بھی اِس عمل کے دوران ہی کہیں روپوش ہوتی چلی جائیں، اور آپ دیکھتے
ہیں کہ واقعتا ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دوسرے کیمپ سے (یعنی سیکولرزم کی سائڈ سے)
قیادتیں میدان میں آ گئی ہیں۔ اِس کیمپ سے (یعنی اسلام کی سائڈ سے) میدان قیادتوں
کا منتظر ہے۔ اِن قیادتوں کے میدان میں آنے کو دیر لگے یا سویر، یہ البتہ طے ہے کہ
وہ اسلامی طبقے جو پچھلے کئی عشروں سے اسلام اور جاہلیت کے مابین
reconciling کے لہجوں کو فروع دینے میں لگے ہیں یہاں اپنا وقت پورا کر چکے ہیں۔
یہ نیا گھمسان جس کے آثار افق پر اِس وقت بے حد نمایاں ہیں، تاریخ انسانی کے دو سب
سے بڑے معسکروں کے مابین ایک ایسی بے رحم اور برہنہ قسم کی نظریاتی جنگ لے کر آ
رہا ہے جس کے اندر اِن ری کونسائلنگ لہجوں کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ اصولاً، ہمارے
اِن طبقوں کا کام یہاں پر ختم ہو چکا ہے۔