ملکِ عدم سے!
منجانب عبدالحمید الیٰ عمر بشیر
وفاءالدباس / محمد زکریا خان
عمر بشیر! تمہاری دنیا سے مجھے ایک نہایت دردناک خبر پہنچی ہے کہ تم نے جنوبی سوڈان میں استصوابِ رائے کے اجراءکو قبول کر لیا ہے۔ تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ اس کے نتیجے میں تمہیں سات لاکھ مربع کلو میٹر کے وسیع رقبے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ تمہیں شاید یقین دلایا گیا ہو گا کہ اس طرح تم اپنے عہدے پر برابر براجمان رہو گے۔ تم نے سوچا ہے کہ تمہاری ’کرسی‘ دست بردار ہونے والی اراضی سے بہت چھوٹی ہے۔ جس طرح آج تم مغربی ممالک کے دباؤ کا شکار ہو اُسی طرح جب میں تمہاری طرح ایک بڑے خطے کا حاکم تھا تو مجھ پر بھی یہودیوں کے لیے ایک بستی فلسطین کی اراضی میں بسانے کے لیے دباؤ تھا، حوصلہ شکن دباؤ! مجھ سے تو یہودیوں کے لیے منحنی سی ریاست کے لیے جگہ مانگی گئی تھی۔ پھر میری سلطنت تمہاری سرزمین سے کہیں وسیع تر تھی۔ میں اگر اُن کا مطالبہ مان لیتا تو میری سلطنت میں اتنا فرق پڑتا جتنا سمندر میں سوئی ڈبونے سے پانی کم ہو جاتا ہے۔ تم نے تاریخ ضرور پڑھ رکھی ہو گی۔ نہ بھی پڑھی ہو تو یہودی مسیحی گٹھ جوڑ تمہیں بتا دے گا جنہیں وہ واقعہ پوری طرح یاد ہو گا۔ بشیر! میں یہودیوں کے حق میں ایک انچ زمین سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اس انکار کے بدلے میں مجھے پوری عثمانی سلطنت سے معزول کر دیا جائے گا۔ میں نے چھوٹی سی کرسی چھوڑ دی مگر ایک طویل داستان کے بدلے!
عبدالحمید اقتدار میں رہتا اور اپنے ہاتھ سے معاہدے پر دستخط کرتا اس ذلت سے زیادہ میرے لیے اس میں عزت تھی کہ میں وہ ہاتھ ہی کاٹ ڈالوں جن سے کسی یہودی ریاست کے لیے دستخط کروائے جاتے۔
تم اپنے معاشی حالات اور سیاسی ابتری کا رونا لے بیٹھو گے۔ مجبوریاں بتلاؤ گے۔ اعصاب شکن مغربی دباؤ کی بات کرو گے مگر تاریخ سے تمہاری نا واقفیت یہاں بھی تمہیں مردانہ موقف اختیار کرنے میں مدد نہیں دے رہی ہے۔
عثمانی خلافت اُس وقت بہت مقروض تھی۔ سوڈان سے زیادہ مقروض۔ مقروض ہونا باعثِ عار نہیں مگر میں نے یہی سوچا تھا کہ یہودیوں کو مسلمانوں کی اراضی میں سے ماپ کر کوئی قطعہ دینا قیامت تک میرے لیے عار بنا رہے گا۔ میرے پاس یہودیوں کا وفد آیا تھا۔ اُن کے ایک ہاتھ میں مال و زر اور دوسرے میں میرے لیے کرسی سے دست بردار ہونے کی دھمکی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اس انکار کی صورت میں مجھے سلطنت سے ہاتھ دھو کر جلا وطن ہونا پڑے گا۔ پھر یہ تو خیر تم نے بھی سُن رکھا ہو گا کہ میں جلا وطن کر دیا گیا مگر بھلا کس لیے! اس لیے کہ میں نے اُس وفد کو بے عزت کرکے دربار سے نکال دیا تھا اور کہا تھا کہ خبردار! ارضِ فلسطین پر کسی مسلم حاکم کا حق نہیں ہے۔ یہ اراضی مسلمانوں نے بزور فتح کی تھی۔ یہ ارض اللہ ہے۔ میرے لیے اور میرے بعد آنے والے کسی بھی حاکم کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم اس میں تصرف کر سکیں۔
نہ صرف یہ بلکہ میں نے ایک فرمان جاری کیا کہ یہودیوں کا ارضِ فلسطین میں قیام ممنوع ٹھہرایا جاتا ہے۔ آج کے بعد کوئی یہودی فلسطین کی طرف نقل مکانی نہیں کرے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا بشیر کہ آج نہیں تو کل مجھے سلطنت سے ہاتھ دھونا ہوں گے اور وہ بھی بلا عوض!مگر سلطان جلا وطن ہو گیا پر ندامت دوسرے کے لیے چھوڑ گیا۔
پھر بھی میں نے جیسے تیسے کرکے تیس سال تک عثمانی سلطنت کو قائم رکھا، عزت و آبرو مندی کے ساتھ۔ درست ہے میری قلمرو سے علاقے چھینے گئے مگر بشیر یہ کسی سودا بازی کا نتیجہ نہ تھا۔ خطہ لینے کے لیے انہیں اپنا پیسہ نہیں خون دینا پڑتا تھا۔ تم یہ بھی تو سوچو کہ مجھے اقتدار ملا کس حال میں تھا۔ عالمِ اسلام میں ضعف اور کمزوری برسوں سے سرایت کیے ہوئے تھی۔ میں پکارتا ہی رہا کہ مسلمانو! متحد ہو جاؤ، صلیبیوں کے خلاف ایک مٹھی بن جاؤ۔ مگر اُس وقت کے مسلم حکمرانوں نے عزت کی بجائے کرسی سے چمگاڈر کی طرح چمٹے رہنے کو پسند کیا اور پھر کسی المیہ ڈرامے کی طرح استعمار نے جو کچھ اُن کے ساتھ کیا وہ مناظر تم نے ضرور دیکھے ہوں گے۔ نہیں دیکھ پائے تو آئندہ دیکھ لو گے!
جلا وطن
سلطان عبدالحمید