جرمن مسلمانوں کو شریعت چھوڑنی ہوگی
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
جرمن مسلمانوں کو شریعت چھوڑنی ہوگی مریم عزیز
قوموں میں مختلف خیالات کے افراد ضرور ہوتے ہیں لیکن کسی قوم کے با ثر لوگ ہی اس قوم کے بارے میں عوامی تأثر پیدا کرتے ہیں۔ اکتوبر 2010 میں جرمنی میں جرمن سنٹرل بینک کے عہدیدار کے مسلم مخالف بیان کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا تھا جس پر وہاں کے صدر نے معاملہ یہ کہہ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسلام بھی جرمنی کا حصہ ہے۔ مگر چانسلر انجلا مرکل(وزیراعظم کا عہدہ) جو کہ ایک کٹر پروٹسٹنت عیسائی پادری کی بیٹی ہیں اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں،کو پارٹی کی طرف سے ان کے کنزرویٹیو ہونے کے بارے میں تنقید اور سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ صدر مسلمانوں کو خوش کرنے کے چکر میں حد سے نکل گئے ہیں۔ انجلا مرکل نے کہا کہ مسلمانو ں کو جرمنی میں رہنے کیلئے شریعت کو چھوڑنا ہو گا۔ لیکن شریعت اپنے مزاج کے اعتبار سے ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو ایک غیر مسلم ملک میں لاگو ہوجائے۔ اسی وجہ سے آج تک کسی مسلمان فرد یا گروہ نے کبھی کسی یورپی ملک کے قانون کو چلینج نہیں کیا ہے!۔ہمارا مسئلہ پورا کا پورا نظام ہے۔ اگر شریعت پر عمل کرنے کی کوئی صورت یورپ یا امریکہ میں ہے تو وہ یہ کہ دو افراد یا پارٹیاں اپنے معاملات کو باہم رضامندی سے کسی ادارے کو بیچ میں لائے بغیرشرعی طور پر حل کریں۔اب یہ دو افراد اپنے ذاتی معاملے کوذاتی طور پر حل کر رہے ہیں تو یہ قانونی مسئلہ نہیں بلکہ انسانوں کی ذاتی آزادی کا معاملہ ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو شریعت چھوڑ دینے کا الٹی میٹم دیناان کے اپنے خود ساختہ حقوق انسانی کے خلاف ہے۔ اگر دو اشخاص معاملے کو عدالت میں گھسیٹنے کے بجائے باہر ہی تصفیہ کرلیں تو یہ ایک عمدہ بات تسلیم کی جاتی ہے ۔مگر جب دو مسلمان آپس کا معاملہ اسی طرح طے کریں تو یہ قابل سرزنش بات ہوئی، کیوں؟یہی بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ جرمنی عدالت سے باہر تصفیئے کو تبھی تسلیم کرے گا جب یہ تصفیہ شریعت کے خلاف ہوگا۔جرمن اور یورپین مسلمانوں کو اجتماعی طور پریہ سوچنا ہے کہ اس مسئلے پر وہ کہاں کھڑے ہیں۔ قارئین کرام ایک اور بات جو یہاں نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یورپی مسلمانوں نے کبھی بھی شریعت کو یورپ کے آئین کے لئے چیلنج کے طور پر نہیں پیش کیاہے۔چناچہ مغرب کا خوف شریعت کا نہیں بلکہ اسلامی ثقافت کا ہے! خوف اس بات کا کہ مغربی تہذیب ناکام ہورہی ہے اور لوگوں کو اسلامی تہذیب میں زیادہ کشش نظر آنے لگی ہے۔لیکن قارئین کرام ثقافتی و تہذیبی تصادم کو آئین کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا۔مغرب مگر اسی کوشش میں ہے کہ ثقافتی تصادم کو مغربی آئین اور شریعت کے مابین مقابلے کے طور پرپیش کردیا جائے! اس لئے آج کل تہذیبوں کے معرکے (Clash of civlization) کا شریعت بقابلہ ملکی قانون کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
|
|
|
|
|
|