مستعار
بھارتی جمہوریت کے درخت پر تشدد کے پھل
بشکریہ: شاہنواز فاروقی۔روز نامہ جسارت
اِس سیکشن میں دیے گئے خیالات و آرااپنے لکھنے والوں کے ذہن ہی کا عکاس ہیں۔ ایقاظ کا ان آرا یا ان کے اسلوبِ نگارش سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بھارتی جمہوریت کے درخت پر لگنے والے تشدد کے پھلوں نے بھارت کے دانشوروں کو حیران اور خوف زدہ کردیا ہے۔ ان کی حیرانی اس بات پر ہے کہ جمہوریت کے درخت پر جمہوریت اور امن کے پھل لگنے کی توقع کی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھارتی جمہوریت کا درخت تشدد کے پھل دے رہا ہے۔ ان کی خوفزدگی اس حوالے سے ہے کہ تشدد کا رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ معاشیا ت کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے بھارت کے ممتاز ماہر معاشیات امرتا سین نے کولکتہ میں ٹیگور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں پھلتے ہوئے تشدد کے رجحان کے اسباب معلوم کرنے کے لئے گہرے سیاسی تجزیے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نیر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں امرتا سین کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے بھارت میں تشدد کے منظر نامے پر اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کا کوئی شہر تشدد سے پاک نہیں۔ ہمارے ملک میں بچے اور خواتین عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دیہات اور بالخصوص قبائلی علاقوں میں صورت حال اور بھی مخدوش ہے۔ ان علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے معاشرے کو ایک سمت دھکیل رہے ہیں اور ماؤ نواز تنظیمیں اور مذہبی رہنما معاشرے کو دوسری جانب دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ کلدیپ نیر کے بقول بھارتی معاشرے میں صحیح اور غلط اور اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تمیز مٹ گئی ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے میں صحیح خیال کے مطابق عمل کرنے کی "خواہش" انتہائی کم ہوگئی ہے۔ اور صحیح کے مطابق عمل کرنے کی "کوشش " خواہش سے زیادہ کمزوری کی حالت میں ہے۔ کلدیپ نیر کے مطابق پارلیمنٹ کو معاشرے کی خرابیوں اور ان کے ازالے پر گفتگو کا فورم ہونا چاہئے تھا مگر اس کے بر عکس پارلیمنٹ سیاست دانوں کی سیاست اور ان کے غلیظ ہتھکنڈوں کا اکھاڑا بن گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس منظر نامے کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی وہ اسے زندگی میں سب سے اہم محسوس ہوتی ہے۔ جس انسان کے پاس دولت نہیں ہوتی اسے لگتا ہے کہ دولت ہی سب سے اہم چیز ہے۔ جس آدمی کے پاس خوبصورتی نہیں ہوتی اسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے اہم شئے خوبصورتی ہے۔ پاکستانی قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس جمہوریت کی کمی ہے چنانچہ اسے لگتا ہے کہ اجتماعی اور قومی زندگی کی سب سے اہم ضرورت جمہوریت ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے تو اس کی وجہ جمہوریت کی کمی ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت نظر آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب جمہوری کلچر کی کمزوری ہے۔ ملک میں باربار ماشل لاءلگ جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جمہوریت کو ملک میں جڑ نہیں پکڑنے دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بری کارکردگی پیش کرتی ہیں تو اعلان ہوتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات نہیں پائی جاتیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت ہی ہر مرض کا علاج ہے تو بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا سبب کیا ہے؟ بھارت کی تاریخ ہمارے سامنے ہے وہاں جمہوریت 63 سال سے پھل پھول رہی ہے۔ بھارت میں تواتر کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں۔ بھارت میں کبھی مارشل لاءنہیں لگا۔ بھارت کی سیاست پر فوج کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں آئین کی بالا دستی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں میں داخلی انتخابات کا نظام رائج ہے اور بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوری ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھارت تشدد سے اٹ گیا ہے اور بھارتی معاشرے کی اخلاقیات جانکنی میں گرفتار نظر آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟
کلدیپ نیر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی معاشرے میں یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ اصل چیز طاقت ہے یا پیسہ یا پھر سفارش۔ جس کے پاس ان میں سے کوئی ایک چیز ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ کلدیپ نیر نے افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے تین ستون یعنی مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ عوام کے اعتماد سے محروم ہوچکے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی اُمید نہیں۔ کلدیپ نیر نے ملال کے ساتھ کہا ہے کہ جب تک ہم آزاد نہیں ہوئے تھے ہمارے سامنے آزادی کے حصول کا ہدف تھا مگر اب ہمارے سامنے کوئی ہدف نہیں۔ تو کیا بھارت کے حوالے سے کلدیپ نیر کا یہ تجزیہ مکمل ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ کلدیپ نیر کا تجزیہ اپنی نہاد میں غلاط بحث پیدا کر رہا ہے۔ کلدیب نیر کے تجزیے کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ زندگی کو جمہوری اُصولوں سے چلایا جاسکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو جمہوری اُصولوں سے نہیں صرف اخلاقی اُصولوں سے چلایا اور خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔ زندگی کو جمہوری اُصولوں سے "govern" کرنے کی کوشش پٹرول سے چلنے والی گاڑی کو پانی سے چلانے کی کوشش کے مترادف ہے اور یہ کام نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہوسکتا ہے۔چنانچہ زندگی کو جمہوری عینک سے دیکھنے کا زاویۂ نگاہ ہی غلط ہے۔ جمہوریت محظ ایک ڈھانچہ ہے اور بس۔ یہ ڈھانچہ" طرز فکر "بن سکتا ہے مگر اس کے لئے صدیوں کا سفر درکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی جمہوریت اخلاقیات کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ لیکن اخلاقیات کے حوالے سے بھارت کی کچھ محدود پہنچ ہے۔ یادش بخیر گاندھی جی سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آپ "رام راج "کی بات کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس سوال کے جواب میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ رام راج اسلام کے دو خلفاءابو بکر صدیقؓ اور عمر فاروق ؓ کے ادوار جیسا ہوگا۔ یہ جواب دے کر گاندھی جی نے تسلیم کیا کہ ہندوازم کا ساراتجربہ ماقبل تاریخ ہے اور وہ تاریخ کے صفحات سے اپنے مثالیے یا ideal کی کوئی مثال نہیں دے سکتے۔ چنانچہ انہیں مجبوراً رام راج کے سلسلے میں اسلام کی تاریخ سے مثال دینی پڑی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہندوازم کے اخلاقی ideals موجود تو ہیں مگر وہ برسرکار یا functional نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو ذہن اخلاقی تناظر سے محروم ہے۔ چنانچہ جیسے جسیے ہندوستان کی صنعتی ترقی کا عمل آگے بڑھے گا اور اس کا سیاسی ڈھانچہ کمزور پڑے گا ویسے ویسے ہندوستان کے اخلاقی مسائل کی سنگینی بڑھتی چلی جائے گی اور اندیشہ یہ ہے کہ بھارت کا معاشرہ ان مسائل کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ زیر بحث مسئلے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بھارت نے جوکچھ بویا تھا وہی کاٹ رہا ہے۔ کلدیپ نیر کو شکایت ہے کہ بھارت کا معاشرہ طاقت کو پوج رہا ہے لیکن جدید بھارت کے بانیوں نے خود طاقت کو اہل بھارت کا ideal بنایا ۔ یہ پنڈت جواہر لال نہرو تھے جنہوں نے بھارت میں چھوٹی صنعتوں کے بجائے بڑی صنعتوں کی بنیاد رکھی اور بڑے صنعتوں کی بنیاد رکھنے کا مقصد بھارت کو بڑی فوجی طاقت بنا کر اُبھارنا تھا۔ یہ پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی تھی جنہوں نے 1974 میں ایٹمی دھماکہ کر کے بھارت کی طاقت کی سیاست کو علاقائی اور عالمی تناظر عطا کیا۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ بھارت کے تعلقات اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ اچھے نہیں۔ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت جنگیں لڑ چکا ہے۔ سری لنکا اور مالدیپ میں فوجی مداخلت کر چکا ہے۔ نیپال اس کی مداخلت اور بالادستی سے عاجز ہے۔ برما کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے تعلقات صرف عوامی لیگ کے دور میں اچھے ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال اسکے سوا کیا بتاتی ہے کہ بھارت ابتداءہی سے طاقت کی دلدل میں گہرائی تک دھنسا ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی جمہوریت کے درخت پر تشدد کے پھلوں کا لگنا ناقابل فہم نہیں رہتا۔ بھارت میں ذات پات کا نظام بھی اپنی اصل میں طاقت مرتکز power centric ہے۔ بھارت نے اس نظام کی خارجی اصلاح کی مگر اس نظام کی" فلسفیانہ اساس" کو کبھی تبدیل کرنا تو دور کی بات اسے چیلنج بھی نہیں کیا۔اس سے شودروں اور دلتوں کے لئے ہی نہیں کروڑوں مسلمانوں کے لئے بھی زندگی اجیرن ہوگئی۔ بھارت کی ایک درجن سے زائد ریاستوں میں برپا نکسل باڑی تحریک اس نظام کے خلاف رد عمل کی ایک صورت ہے۔ جہاں تک دولت پوجا کا تعلق ہے تو گاندھی جی کا تصور حیات یہ تھا کہ ہمیں سادگی اور قناعت کی زندگی اختیار کرنی چاہئے لیکن بھارت اپنے روحانی باپ کے اسidealکو بھی پس پشت ڈال چکا ہے اور اس نے معاشی اور سماجی زندگی کے حوالے سے مغربی معاشروں کو اپنے لئے معراج سمجھ لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے گھر گھر میں دولت پوجا ہورہی ہے تو عام افراد کا کیا قصور ہے؟ ریاست نے جو ideal معاشرے کے سامنے رکھا ہے معاشرہ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ ایسی سفارش تو وہ بجائے خود کچھ نہیں۔ اس کی حیثیت طاقت اور دولت کے ایک ناگزیر نتیجے کی ہے۔ لیکن اس سلسلے کا حرف آخر یہ ہے کہ مغربی دنیا معاشیات کی جنت اور اخلاقیات کا جہنم ہے اور جو معاشرہ اس کی نقل کرے گا وہ معاشی جنت اور اخلاقی جہنم بن کر رہے گا۔ بھارت ہو یا چین اس سلسلے میں کسی کے لئے استثناءنہیں۔
(1) خیال رہے، یہ مضمون ڈیڑھ عشرہ پرانا ہے، جب یہاں کی ایک پارٹی نے ایک انگریزی اخبار کی لکھاری ایک بی بی کو اپنا سفیر بنا کر امریکہ بھیجا، تو اس کے بعد آنے والی دوسری پارٹی نے جھنگ سے تعلق رکھنے والی رافضی پس منظر رکھنے والی ایک بی بی کو ’امت مسلمہ‘ کی نمائندگی کیلئے واشنگٹن سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
(2) جنگ بدر میں صلح کی کوشش اور حدیبیہ میں بیعت رضوان