بھگوڑوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ
بن علی پہلا شخص نہیں جس کا سعودی عرب میں استقبال کیا گیا ہے!
محمد زکریا خان
چھ گھنٹے کی مسلسل پرواز سے جہاز کا ایندھن ختم ہونے کو تھا۔ بشاش رہنے والا چہرہ بھیانک مستقبل کے تصور سے کملا گیا تھا۔ کینیڈا سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں۔ دبئی اور قطر میں بھگوڑے صدر نے کافی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ آج پہلی بار اُسے احساس ہو رہا تھا کہ جس دنیا سے وہ واقف رہا ہے وہ صرف مال بٹورنے کی دنیا ہے۔ ہارے جواری کو جواخانہ سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔
علمِ سیاست سے شغف رکھنے والا ہر طالبِ علم جانتا ہے کہ بن علی کی شخصیت فرانس میں تیار ہوئی تھی۔اسلام پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے مصر، لیبیا اور فرانس سب متفق تھے۔ بن علی نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے شروع میں یہ ڈرامہ کیا کہ مکہ مکرمہ سے جب اذان ہوتی تو وہ بذریعہ ٹی وی تیونس میں سنوائی جاتی۔ کا ئیاں لوگوں کو پہلے سے معلوم تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ بن علی کے نمایاں کارناموں میں تعدد ازواج کی ممانعت، زنا کاری کی حوصلہ افزائی اور جامعات میں خواتین کے حجاب اوڑھنے پر پابندی شامل ہے۔ 23 سا ل کے طویل عرصے میں اس شخص کے جتنے جرائم ہیں وہ شاید پڑوسی ممالک لیبیا اور مصر سے کہیں زیادہ ہوں۔
فوج بھی صدر کے جرائم میں برابر کی شریک کار رہی ہے لیکن تعجب ہوتا ہے کہ یکایک اس جابر فوج کے دل میں نرمی پیدا ہو گئی اور تیونس کے مظاہرین کو ٹینکوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں تیونس میں کچھ ہونے والا ہے۔ شاید سوڈان کی طرح۔
23 سال تک حقوقِ انسانی کا راگ الاپنے والے تیونس میں ظالمانہ ہتھکنڈوں پر خاموش رہے۔ اور اب بھی کس نے کہا ہے کہ ظالم کو قانون کے حوالے کیا جائے۔
مصر کو اگرچہ شاہِ ایران رضا پہلوی کی ضیافت کا اعزاز حاصل ہے مگر حسنی مبارک کی گورنمنٹ کو تیونس کے غیور عوام کی مزاحمت دیکھ کر ہول آنے لگا تھا۔ فرانس کے بعد بن علی مصر میں اپنے استقبال کی امید رکھتے تھے۔ مگر یہاں سے انہیں چند دوستانہ مشورے دے کر اُڑان بھرنے کا کہا گیا۔ مغربی ممالک سب، تو کون اور میں کون!
جب ایندھن ختم ہونے کو تھا تو بھگوڑے صدر کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ سعودی عرب نے عدی امین کو بھی تو پناہ دی تھی۔ یوگنڈا کا عدی امین دادا ایک جابر اور قاتل حکمران کے طور پر جاناجاتا ہے۔ معزول ہونے کے بعد وہ تادمِ مرگ سعودی عرب میں مقیم رہا تھا۔
یمن کے ’امام‘ کو فوجی بغاوت کے بعد سعودی عرب میں پناہ ملی تھی۔
امیرِ قطر کو نوے کی دہائی میں اپنے فرزند سے بغاوت کا سامنا ہوا تو سعودی عرب نے ہی انہیں سنبھالے رکھا۔
ہمارے ہاں سے میاں صاحب بھی وہاں رہ کرخیرسے سات عمرے کر آئے ہیں!
بن علی کا بھی اس ملک سے واسطہ رہا تھا۔ عوام النّاس کو لوٹتے رہنا اور بولنے تک نہ دینا اس سب ظالمانہ پالیسی میں سعودی ادارے بن علی کے ساتھ ہمیشہ متعاون رہے ہیں۔
ایندھن ختم ہونے کو تھا ۔ بن علی نے اپنی زوجہ لیلیٰ طرابلسی سے کہا : لیلیٰ حجاب اوڑھ لو ہم جدہ ائرپورٹ پر اتریں گے!
یہ کہتے ہوئے بن علی نے ایک زنگ خوردہ صندوقچے سے حجاب نکال کر لیلیٰ کو تھما دیا جسے اُس نے منہ بسورتے ہوئے لے لیا۔(شاہان حجاز نے جس شریعت کو نافذ کر رکھا ہے اس میں کیا شاہ کیا گدا سب برابر ہیں!)۔