عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2011-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
قرآن نے یہود کی بابت اِسقدر طویل نوٹ کیوں دیا؟
:عنوان

دنیا کی کسی بھی قوم کے پاس خواہ کوئی دولت ہو خواہ وہ اخروی ہو یا دنیوی، یہودی کی نظر میں گویا وہ یہودی قوم کا مسروقہ مال ہے

:کیٹیگری
سید قطب :مصنف

یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ

قرآن نے یہود کی بابت اِسقدر طویل نوٹ کیوں دیا؟

سید قطبؒ

        

استفادہ: حامد کمال الدین    

   

قرآن ایسی بلیغ اور جامع کتاب ”یہود“ کی بابت ہمیں ناقابل یقین حد تک طویل اور عریض ”بیان“ فراہم کرتی ہے، اور ان کی شر پسند نفسیات کا ایک پورا نقشہ کھینچ کر دیتی ہے تو یہ بلا سبب ہے اور نہ معاذ اللہ کوئی اتفاق(1)۔ کوئی ایسی امت ہے ہی نہیں جس کی تاریخ میں اِس شدت اور اِس تسلسل کے ساتھ خدا کے فرستادہ داعیوں اور ہادیوں کے روبرو اِس سنگدلی اور طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔ جس کی تاریخ میں نیکوکاروں کو اِس بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہو اور آروں کے ساتھ چیرا گیا ہو۔ کسی امت نے داعیانِ حق کے ساتھ اِس سے بدتر کیا سلوک ہوگا؟ پھر اِس پر ایمان کا دعویٰ اور خدا کا چہیتا ہونے کا زعم! حق کے ساتھ آخری درجے کی جنگ اور پورے جہان میں دینداری کے چرچے!

وہ بدترین ٹولہ جو نبیوں کو مارتا اور آروں میں رکھ کر چیرتا رہا ہو، جو نبیوں کے سر کاٹ کر ”تحفے تحائف“ کے کام میں لاتا رہا ہو، عام انسانوں کے ساتھ آپ اُس سے بھلا کس سلوک کی توقع کریں گے؟ عام بنی آدم کے خون کو وہ کیسے کیسے مزے لے کر نہ بہائیں گے اور انسانیت کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے کیلئے وہ کیسے کیسے وسائل اختیار نہ کریں گے....! نبیوں کے ساتھ بغض کی یہ حالت ہے تو عام انسانیت کے ساتھ نفرت اور بغض کو باہر آنے کے کیسے کیسے راستے درکار نہ ہوں گے!

 

٭٭٭٭٭

 

قرآن ہمیں یہودکی عجیب عجیب خصلتوں کی نشان دہی کر کے دیتا ہے:

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ۔ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ (البقرۃ: 97- 98)

کہو: جو کوئی جبریل کا دشمن ہوتا ہے (وہ ہوتا رہے)، وہی ہے جو یہ اِس (قرآن) کو اتارتا رہا ہے تمہارے دل پر، اللہ کے حکم سے، اپنے سے پہلے (کلام) کی تصدیق کرنے والا، اور ہدایت اور بشارت مسلمانوں کیلئے۔ جو کوئی دشمن ہے اللہ کا، اُسکے ملائکہ اور اسکے رسولوں اور جبریل و میکائیل کا، تو اللہ بھی دشمن ہے ایسے کافروں کا“۔

خدا کے فیصلوں سے ٹکر لینا کوئی یہود سے سیکھے۔ جبریل (علیہ السلام) کون ہستی ہے خدا کے اذن کے بغیر کوئی اقدام کر لینے والی۔ اور خدا کا کوئی بھی فرشتہ یا کوئی بھی رسول بھلا خدا کے فرمائے بغیر کب کوئی بات کہتا یا کرتا ہے؟ مگر یہاں تو سینہ زوری ہے خدا کے ارادوں کے ساتھ۔ بیچ میں بغض کہیں جبریلؑ کے ساتھ، کہیں محمد کے ساتھ اور کہیں محمد کی امت کے ساتھ۔ اِس مریض ذہنیت کی رو سے __ معاذ اللہ __ خدا کو یہ حق تھوڑی ہے کہ وہ جو چاہے خیر اتارے اور جس کو چاہے اپنی مرضی سے دے! جس کو جس قدر چاہے بخشے اور نوازے اور جس کو جب چاہے محروم کرے اور اپنے عذاب کا سزاوار ٹھہرائے۔ خدا کو بھی __ معاذ اللہ __ ہر کام اِن کی اھواءو خواہشات کے مطابق کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اُس کے چہیتے ہیں! محمدﷺ کے ساتھ بغض اور کینہ کہیں نہیں نکل رہا ہے، تو یہ سن کر کہ آپ پر وحی لانے والا فرشتہ جبریلؑ ہے، یہ اس کو بھی رد کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال کی رو سے یہ وہی فرشتہ ہے جو ان پر بربادی اور عذاب لے کر آتا رہا ہے۔ ہاں اِن کی فرمائش پر عمل کرتے ہوئے اگر جبریلؑ کی بجائے میکائیلؑ وحی لے کر اترتا ہے تو یہ قبول کر لیں گے کیونکہ میکائیلؑ اِنکے لئے باران اور خوشحالی اور زرخیزی لے کر آنے والا فرشتہ ہے!

کوئی حد ہے اِس تکبر اور اِس گھمنڈ کی۔ معاذ اللہ، ”خدا کی چہیتی“ اِس قوم کے مقابلے میں چاہے خدا کا کوئی فرشتہ کیوں نہ ہو، اور خد کے حکم سے کوئی فیصلہ لے کر کیوں نہ آیا ہو، اس کو بھی اب صاف رد ہونا ہے اور اس کے خلاف بھی زبانیں بے لگام ہونے لگیں گی! یہاں تو خدا کا ایک فرشتہ بھی ’بلیک لسٹ‘ ہو جاتا ہے! یہود کے سیانے جبریلؑ ایسے جلیل القدر فرشتے کے خلاف بھی بڑے آرام سے اور پورے دھڑلے کے ساتھ ’قرار داد‘ پاس کر دیں گے! جیسے جبریلؑ معاذ اللہ کوئی بشر ہے اور ان کے خلاف ”ضرر رساں سرگرمیوں“ میں ملوث رہا ہے! ”یہودی مفادپر زد پڑ کر تو دیکھے، ہر کوئی ”اینٹی سیمیٹک“ Anti-Semetic ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ جبریلؑ بھی!!! جبکہ بات صرف اتنی ہے کہ عرش کے مالک نے آپ اپنی مرضی سے، (اور اِن ظالموں سے ”پوچھے“ بغیر!) یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اُس کا وہ بے حد و حساب فضل جو رہتے زمانے تک کیلئے ہے اب محمد ﷺ اور امتِ محمد کو بخشا جاتا ہے.... جس پر یہ بغض اور حسد کی آگ میں لوٹ رہے ہیں اور خدا کے مقرب فرشتوں تک کے ساتھ دشمنی کرنے چل پڑے ہیں!

اِن کے ماسوا کسی قوم کو کوئی بھی خیر ملی ہو، اور بے شک وہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فرشتوں کے ذریعے آئی ہو، گویا وہ اِن کی چیز تھی جو اِن سے چھین کر ظلم اور ناانصافی کے ساتھ کسی اور کو دے دی گئی ہے۔ انسانوں کے مابین برابری اور منصفانہ اصولوں کی فرماں روائی اِس قوم کو کسی صورت قبول نہیں۔ اور انسانی رشتوں کی تکریم کا تو کوئی سوال ہی نہیں!

اِسی عزلت اور اِسی خود پرستی کے خول میں محصور رہ کر یہودیوں نے ہمیشہ زندگی گزاری ہے۔

ظاہر ہے تاریخ کی اِن طویل صدیوں کے دوران دوسری قوموں کو بھی خیر ملتی رہی ہے۔ کسی کو اخروی خیر تو کسی کو دنیوی۔ اور اِس ساری خیر اور ترقی اور خوش حالی کو یہ حاسد قوم اِسی انداز میں دیکھتی رہی ہے کہ در اصل یہ اِن کی چیز تھی جو اِن سے غصب کر کے دوسروں کو دی دے دی گئی، اور جوکہ اِن کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے! دنیا کی کسی بھی قوم کے پاس خواہ کوئی دولت ہو خواہ وہ اخروی ہو یا دنیوی، یہودی کی نظر میں گویا وہ یہودی قوم کا مسروقہ مال ہے اور اِن کی اِس جدی پشتی میراث کو دبا لینے کے باعث وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جانے کے لائق ہے! چنانچہ انسانی تاریخ کا تمام تر عرصہ جو بغض دنیا بھر کی اقوام کے خلاف یہ قوم پالتی رہی ہے کوئی اس کا صحیح اندازہ کر ہی نہیں سکتا جب تک کہ قرآن کی مدد سے وہ اِن کی اِس بیمار ذہنیت سے آگاہی نہیں پا لیتا۔ عالمِ انسانیت کے خلاف صدیوں تک یہ لوگ اس قدر بغض دبا کر بیٹھے رہے ہیں کہ اِن کا بس چلے تو پوری انسانیت کو نیست و نابود کر دیں۔ اقوامِ عالم کے مابین یہ جس قدر جنگوں کی آگ لگا سکیں لگا دیں، اور ان کے مابین دشمنیوں کو جس قدر بھڑکا سکیں اور اس جلتی آگ پر جس قدر تیل چھڑک سکیں، یہ اس کو کم جانیں گے۔ اور اِس بغض کا سبب یہی ایک، کہ اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو کیوں:

بَغْياً أَن يُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ (البقرۃ: 90)

محض اِس ضد کی بنا پر کہ اللہ نے اپنے فضل سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا!!!“

رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کو دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی جو خیر عطا ہوئی اس کا ظاہر ہے کوئی حد و حساب ہی نہیں۔ مگر ظاہر ہے یہ خدا کا فیصلہ تھا نہ کسی انسان کا۔ پھر کیوں نہ ہوتا کہ اِس بغض کا سب سے وافر حصہ آپ کے اور آپ کی امت کے خلاف نکلتا۔ تب سے یہ امتِ محمد زمین پر اپنے اِس منصب کی یہ قیمت دے رہی ہے کہ دنیا کی سب سے حاسد قوم اِس کو دیکھ دیکھ کر کوئلوں پر لوٹتی ہے اور اِس سے خدا کی یہ نعمت ( أنعمت علیہم) چھین لینے کیلئے اور اس کے بڑے حصے کو اِس نعمتِ ہدایت سے محروم کر دینے کیلئے پورے جہان کے اندر بھاگی پھر رہی ہے۔

ذرا دیکھئے یہ بغض کس طرح اپنے آپ سے باہر آتا ہے۔ محمد بن اسحاق اپنی اِسناد کے ساتھ متعدد راویوں سے بیان کرتے ہیں کہ:

غزوہ احزاب کے واقعات کا سلسلہ یوں ہوا کہ یہود کے کئی بڑے بڑے لیڈر جن میں سلام بن ابی الحقیق نضری، حیی بن اخطب نضری، کنانہ بن ابی الحقیق نضری، ھوذہ بن قیس وائلی، ابو عمار وائلی بنو نضیر اور بنو وائل کے کچھ دیگر اہم اہم افراد کو لے کر بصورتِ وفد تمام قبائل کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف متحد کرنے نکلے ہوئے تھے اور ایک ایک قبیلہ کے پاس جا رہے تھے۔ سب سے پہلے یہ قریش مکہ کے پاس پہنچے اور ان کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہونے پر اکسانے لگے۔ یہ (یہود) سردارانِ قریش کو کہہ رہے تھے:

اِنا سنکون معکم علیہ حتی نستأصلہ

ہم اس (محمد ﷺ) کے خلاف تمہارے ساتھی رہیں گے جب تک محمد ﷺ کا نام و نشان ختم نہ کر لیں“۔

قریش کے لوگوں نے ان سے سوال کیا:

یا معشر یہود۔۔ اِنکم أہل الکتاب الأول والعلم بما أصبحنا نختلف فیہ نحن ومحمد، أفدیننا خیر أم دینہ؟؟

اے حضراتِ یہود!.. یقینا تم اس سے پہلے کتاب رکھنے والے ہو اور یہ علم رکھنے والے ہو کہ ہمارا اور محمد (ﷺ) کا کیا اختلاف ہے۔ تو پھر بتاؤ، کیا ہمارا دین بہتر ہے یا محمد کا دین؟

علمائے یہود کا جرگہ جواب دیتا ہے:

بل دینکم خیر من دینہ، و أنتم أولیٰ بالحق منہ !!!

بلکہ تمہارا ہی دین، محمد (ﷺ) کے دین سے بہتر ہے۔ اور تم اس کی نسبت حق سے قریب تر ہو“!!!

تب انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام اترا:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً۔أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن يَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لاَّ يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا۔أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ (النساء: 51 - 53)

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا، (مگر ان کے کرتوت یہ ہیں) کہ جبت اور طاغوت کو تسلیم کرتے ہیں اور کافروں کی بابت جا کر شہادت دیتے ہیں کہ (محمد ﷺ پر) ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے پھٹکار بھیجی ہے، اور جس پر اللہ کی پھٹکار ہو تو اس کا تم کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ کیا بادشاہی کا کوئی حصہ ان کے پاس بھی چھوڑا گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔ تو کیا یہ دوسروں سے اس لئے جلتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا ہے؟....

چنانچہ جب علمائے یہود نے قریش کے رو برو (قریش کے پیروکارانِ محمدسے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہونے کی) یہ شہادت دی تو قریش نہایت خوش ہوئے اور ان کی سفارت کا نہایت گرمجوش جواب دیا اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کیلئے خوب خوب سرگرم ہوئے۔ (ابن اسحاق کی روایت ختم ہوئی)

چنانچہ وہی یہودی بغض و کینہ، آپ دیکھتے ہیں، آج بھی جوں کا توں ہے اور دین محمد سے تنگ نظر آنے والی قوتوں کو پوری دنیا میں یکجا کرنے کیلئے بھاگا پھر رہا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں، دنیا جہان کا کوئی کفر اور کوئی ”ازم“ جو اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں کام دے سکتا ہو، قطع نظر اس کے کہ اِن کی اپنی توراتی شریعت کی اپنی رو سے بھی وہ کتنی ہی بڑی ضلالت ہو، یہ اس کفر کی پیٹھ ضرور تھپکیں گے اور دینِ محمد پر اس کو صاف ترجیح دیں گے۔ چنانچہ اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے دنیا میں مادیت کا کفر اٹھے، آپ دیکھیں گے یہودی اسکے ساتھ ہیں۔ الحادی مذاہب اسلام پر حملہ آور ہونے کیلئے کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئیں، آپ دیکھیں یہودیوں کی حمایت مطلق طور پر ان الحادی مذاہب کو حاصل ہے۔ غرض دنیا کا کوئی کفر اور کوئی شیطانی مذہب ہو، بس شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کو وجود سے ختم کر دینے کیلئے میدان میں اترا ہو، پھر دیکھئے یہودی کس طرح اس کی بلائیں لیتے ہیں اور کس طرح اسلام کے مقابلے میں اُس کو ”صحیح تر“ منواتے اور اس کے پیر مضبوط کرواتے ہیں۔

 

٭٭٭٭٭

 

اللہ نے سچ فرمایا ہے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ ..

اہل ایمان کی عداوت میں سب بڑھ کر لازماً تم یہود کو پاؤ گے اور اُن لوگوں کو جو شرک کرنے والے ہیں....“

یعنی اہل ایمان کی عداوت میں یہود، مشرکین سے بھی آگے ہیں۔اور کہا لَتَجِدَنَّ یعنی یہ عداوت اور اس عداوت کی شدت تمہیں نظر آ سکتی ہے۔ کوئی ڈھکی چھپی نہیں، ایک ظاہر باہر حقیقت ہے اور جو شخص بھی غور کرے اس کو صاف نظر آ سکتی ہے!!

ایک انسان قرآن کے اِس خدائی بیان کو سنتا ہے اور پھر تاریخی واقعے پر نظر ڈالتا ہے تو اُس وقت سے لے کر جب اسلام نے دنیائے انسان کے اندر اپنا ظہور کیا آج تک اس کو یہ دیکھنے میں ذرہ بھر دشواری پیش نہیں آتی کہ محمد ﷺ کے ساتھ ایمان رکھنے والوں کے ساتھ دشمنی میں جس قدر شدت اور سنگ دلی اور یکسوئی اور دلجمعی یہود نے دکھائی ہے وہ دنیا کی مشرک قومیں بھی نہیں دکھا سکی ہیں۔ جس تسلسل کے ساتھ یہود نے امتِ محمد کی جڑیں کاٹی ہیں، اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکی۔

چودہ صدیوں سے کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ محمد اور امت محمد کے ساتھ رکھے جانے والے بغض کی یہ چنگاری سرد پڑی ہو(2)۔

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ تشریف لاتے ہی یہود کے ساتھ ایک معاہدہ استوار کیا، جس کی رو سے ہر دو فریق کو ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنا تھا۔ ہاں آپ نے یہود کو اسلام کی طرف دعوت ضرور دی، جبکہ یہ اسلام اس چیز ہی کی تصدیق کر رہا تھا جو تورۃ کی صورت میں ان کے پاس موجود رہی تھی۔ مگر یہود کو آپ کے ساتھ کیا گیا یہ معاہدہ راس نہ آیا اور یہ اس کو توڑنے پر تل گئے۔ کیونکہ یہ اپنی کوئی ایک بھی تاریخی خصلت چھوڑنے کے روادار نہیں ہوتے۔ ایک ٹولہ جو خود اپنے قبیلہ و نسب سے آنے والے نبیوں کے ساتھ اپنا عہد پورا نہیں کرتا رہا، اور اپنے رب کے ساتھ باندھے گئے عہد کو بار بار پامال کرتا رہا، وہ کسی دوسرے کے ساتھ اپنا عہد کیونکر نبھائے گا؟

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم (البقرۃ: 100)

جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک ٹولے نے ضرور اُس کو اٹھا پھینکا“۔

معاہدے کر لینا اور وقت آنے پر آنکھیں ماتھے پر رکھ لینا اور ان معاہدوں کو پرزے پرزے کر دینا، اِس ٹولے کا قدیم وتیرہ ہے۔ حق تو یہ ہے، جو شخص قرآن پڑھتا ہے اُس کیلئے اِنکی کوئی بھی خصلت نئی نہیں۔أَوَكُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم !!!

اِن کے ساتھ امن سمجھوتوں کیلئے بے چین پھرنے والے ہمارے ہمدردانِ قوم قرآن پڑھ لیں تو بہت بڑی روشنی میں آ جائیں۔ حضرات! ”معاہدے“ اور یہ قوم؟!

 

٭٭٭٭٭

(1) اِس حوالہ سے یہاں کے کچھ جدت پسندوں کا یہ کہنا کہ ”یہود“ کی بابت قرآن کا مقصد کوئی مستقل قسم کے اشارے کرنا نہیں بلکہ قرآن میں جن ”یہود“ کو مخاطب کر کے ایک شدید انداز کی مذمت و دشنام سنائی گئی ہے وہ چند یہودی قبائل تھے جو نزولِ قرآن کے وقت مدینہ یا اس کے آس پاس آباد تھے، جس سے یہود“ کی بابت کچھ دائمی اسباق کشید کر لینا ایک بے حد غلط طرزِ عمل ہے.. ہمارے آج کے جدت پسندوں کی یہ نکتہ وری ہرگز کسی اعتناءکے لائق نہیں۔ قرآن کی یہ سب سرزنش اور مذمت اگر اُن خاص قبائل کے ساتھ خاص ہے جو مدینہ اور اس کے آس پاس پائے گئے اور یہ سب کچھ اُس محدود عرصے کے ساتھ ہی متعلق ہے جب صحابہؓ کو مدینہ میں یہود کے ساتھ ”وقتی سا“ ایک معاملہ پیش آیا تھا.. غرض یہود کے ایک مؤثر طبقہ کی کچھ مستقل خصلتوں کی بابت ہمیں خبردار کر دینا اگر قرآن کا مقصد نہیں.... تو آخر اِس کی کیا وجہ ہے کہ قرآن اُن یہود کو جو عرب کے اُس خاص خطے اور نزولِ وحی کے اُس خاص عرصے میں پائے گئے، اُس سے ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے ”طعنے“ دیتا ہے؟ بنی اسرائیل کے وہ انبیاءآخر مدینہ کے آس پاس اور نزول قرآن کے دور میں تو نہ پائے گئے تھے جن کا خون کرنے پر قرآن عرب میں آباد اُن بنی اسرائیلی قبائل کو اُن کی اصل حقیقت اور اُن کی تاریخی خصلتیں یاد دلاتا ہے! لازمی بات ہے وہ انبیاءعیسیٰ علیہ السلام سے کہیں پہلے ہی پائے گئے ہوں گے، یعنی اُن قدیم انبیاءکے اور نزول قرآن کے مابین صدیوں کا فاصلہ ہے۔ نیز وہ سب پرانے واقعات جو نزولِ قرآن سے صدیوں پہلے رونما ہوئے تھے، قرآن مجید کے اندر یہود کی مذمت کے سیاق میں اُن سب پرانے قصوں کا بار بار ذکر ہونا چہ معنیٰ دارد؟ لامحالہ یہ ایک قوم کا مستقل فائل ہے جس کی جانب قرآن نے ہماری نگاہ مبذول کروائی ہے۔ اِن میں سب لوگ برے نہیں، یہ ہم بھی مانتے ہیں، مگر یہ بات بھی ہمیں قرآن کے اُس فائل سے ہی مل جاتی ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اِن میں سب لوگ شرپسند نہیں (لعنتوں کا پے در پے ذکر کر دینے کے بعد جب یہ کہا جائے کہ لیسوا سواءً ”-آل عمران:113- یعنی ”یہ سب ایک سے نہیں“ تو اس کا یہی مطلب ہے کہ یہ سب لوگ ”ایسے“ نہیں)۔

ہمارے یہ جدت پسند جو یہاں کے لوگوں کو اپنی عربی دانی سے مرعوب کرنے کی کوشش میں ہیں اور محض کچھ ”ضمائر“ کا چقمہ دے کر قرآن کے کچھ وسیع مطالب کو زمان اور مکان میں قید کرنے کی مار پر رہتے ہیں بلکہ قرآن کے بہت سے احکام و شرائع کو مستقل طور پر کچھ ”تاریخی ادوار“ میں دفن کروا دینے کے مشن پر ہیں، خصوصاً جبکہ یہ اسلام کے وہ احکام اور شرائع ہیں (مانند جہاد و قتال وسزائے ارتداد اور عقوبتِ شاتم رسول وغیرہ وغیرہ) کہ جن کو کالعدم کروانا آج یہودی استشراق کے مقاصد میں سرفہرست ہے.. غرض یہ اپنے اسی زبالۂ افکار کو دین کے ”قطعیات“ و ”حتمیاتکے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر اپنی یہ سب فکری مصنوعات سیدھا عوام الناس میں جا کر بیچتے ہیں بغیر اس کے کہ علمائے امت نے اِن کے مزعومہ تصورات کی کبھی کوئی توثیق کی ہو.. اور اب تو چینلز پر کمرشلز کے ساتھ ساتھ اِن افکار کی بھی سیلز لگی ہیں.... آج یہ جاننے کیلئے کسی لمبے چوڑے تجزیے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے یہ جدت پسند رجحانات دانستہ یا نادانستہ اُسی عمل کا حصہ ہیں جو عالم اسلام کو اس کی اصل بنیادوں سے ہٹا دینے کیلئے ایک عرصہ سے جاری ہے اور جس میں بلا شبہ ذہین دماغوں کی بہت بڑی کھپت ہے، اور بلکہ صلائے عام ہے!

مترجم

(2) محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہود کا بغض آج بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندے بیان کرتے ہیں کہ 1967ءمیں جب یہود نے بیت المقدس پر قبضہ کیا اور وہ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت وہ ملعون یہ نعرے لگا رہے تھے: مُحَمَّد مَات، وَخلَّف بنات یعنی (خاکم بدہن) ”محمد مر گیا اور پیچھے صرف بیٹیاں چھوڑ گیا ہے“۔ مراد یہ کہ محمد کی یہ امت بزدل زنانیوں پر مشتمل ہے اور یہودی گماشتے آج ان پر فتح پا چکے ہیں۔ خدا اِن کو غارت کرے اور امت محمد کے جواں مردوں کو توفیق دے کہ اِن ناپاک زبانوں سے یہ اپنے نبی کا اور اس کی امت کا اور امت کی ایک ایک بیٹی کا انتقام لیں۔

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز