ایقاظ کا اس بار کا اداریہ ایک طرح سے گزشتہ اداریہ کا ہی تسلسل ہے۔ لہٰذا پچھلے اداریہ کے مضمون کو ذہن میں تازہ کر لیا جانا بھی مفید ہو سکتا ہے۔
پاکستان سمیت عالم اسلام کے کئی ملکوں میں اس وقت ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے۔بھونچال تو صلیبی اتحادیوں کے ایوانوں میں بھی بڑی دیر سے آگیا ہوا ہے مگر وہ ہمت ہار دینے پر فی الحال آماد نہیں، جب تک اُنہیں یہاں پر ایک زیادہ باشعور مزاحمت نہیں ملتی۔عالم اسلام پر مسلط حکمران طبقہ اپنے بیرونی آقاؤں کی سر پرستی اور نگرانی میں ہی مسلمانوں سے ٹیکس بٹور کرآئی ایم ایف کا پیٹ بھرتا ہے۔مصر، تیونس،یمن و غیرہ میں جو بے چینی دیکھی جا رہی ہے اس سے پہلے کسی ”ڈیموکریٹ“ کو عوامی اصلاحات کی طرف توجہ دلانے کا خیال نہیں آیا۔افریقی ممالک میں سب سے زیادہ امریکی امداد لینے والا ملک مصر ہے۔تیونس کی سر پرستی کرنے والا فرانس ہے اور یہی حال باقی ممالک کا ہے۔
خرانٹ عالمی میڈیا اسکی وجہ بھوک اور افلاس بتا رہا ہے! بھوک و افلاس یہاں کب نہیں تھا!چالیس کے عشرے میں بھی ہندوستانی غربت اور پس ماندگی کا شکار تھے۔۷۷ میں بھی پاکستانی مہنگائی میں پسے ہوئے تھے ۔ ایسے مسائل تو آپ جس وقت چاہیں عوام کو یاد دلوا لیں!
ہم دیکھتے ہیں، ہر بار یہاں کی دنیا میں ایک بھونچال آتا ہے اور ذرا آگے چل کر ”نامعلوم عوامل“ کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور بسا اوقات، پہلے سے ہی اسکی کوئی جہت نہیں ہوتی۔ اور اسلامی قیادتیں تو مسلمانوں کے جذبات کو کبھی منزل تک نہیں پہنچا سکی ہیں۔کسی پس پردہ قوت کو خاطر میں لائے بغیر صرف اللہ پر بھروسہ اور مسلمانوں کی طاقت کو برتنے کا سلیقہ بالعموم مفقود پایا گیا ہے۔
اب جبکہ اس وقت عالم اسلام پھر سے آتش فشاں بنا ہوا ہے تو ہم یہاں ایک ایسا رخنہ بھی دیکھ رہے ہیں جو پہلی بار پیدا ہوا ہے۔وہ رخنہ جو پہلی بار یہاں پیدا ہوا ہے وہ ہے ایک ”تیار شدہ حالت میں“ کسی سیکولر قیادت کی غیر موجودگی!پہلی بار صلیبی اتحادیوں کے اوسان خطا ہو رہے ہیں اور ان کو اس بنا پر اچھی خاصی مشکل پیش آ رہی ہے۔کیا ہماری اسلامی قیادتوں کے لیے اس سے زیادہ کوئی خوشگوار صورت حال ہو سکتی ہے؟