فقہ السیرۃ
مقدمہ
تالیف: محمد سعید رمضان
البوطی
اردو استفادہ: محمد زکریا
خان
چالیس کی دہائی سے لے کر
تادمِ تحریر مغربی افکار کے عالمِ اسلام کی نمایاں شحصیات پر اثرات ایک افسوس ناک
المیہ رہا ہے۔ مسلمان بارہا سیاسی میدان میں شکست سے دوچار ہوئے لیکن کبھی ایسا
نہیں ہوا کہ مسلم معاشروں کو دوسرے فلسفیانہ افکار میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے
کے لیے خاک چھاننا پڑی ہو۔ البتہ استعمار کے زیرِ تسلط ہمارے ہاں بھی یہ سوچ
انٹیلکچول لیول پر پائی گئی کہ بدلتے زمانے میں افکار کی اصلاح ضروری ہے اور جس
طرح مغرب نے عقلیات کو بنیاد بنا کر ترقی کی منازل طے کی ہیں انہیں کو یہاں بھی
مسلمات کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
یہ دراصل مغرب کے شعبہ
استشراق کی چال بازی تھی۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ محمدﷺ کو بطور ایک بڑے ریفارمر
کے مان لیا جائے اور مسلمانوں کے ہاں وحی، غیبیات اور معجزات جیسے مسلمات پائے
جاتے ہیں انہیں ذہنوں سے محو کر دیا جائے۔ فی الواقع وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب
بھی ہوئے اور یہ وہی زمانہ ہے جب چھاپہ خانہ کے ذریعے افکار کو پھیلانے کا عالم
اسلام میں آغاز ہوا تھا اور ابلاغ کے میدان میں ایسی ذہنیت کے اسکالر اترے جنہیں
مغرب کی چکا چوند نے بصارت سے محروم کر دیا تھا۔
ٍٍ ساٹھ کی دہائی میں
ہمارے ہاں عرب ممالک کی طرح مغربی عقلیات اور اشتراکی نظریات کاشور زوروں پر تھا۔
ضرورت تھی کہ اِس طوفان بدتمیزی میں دوبارہ سے اسلام کے ٹھیٹھ مسلمات عوام
مسلمانوں میں راسخ کیے جاتے اور ان کی عقلی توجیہ بھی کی جاتی۔
ڈاکٹر محمد سعید رمضان
دمشق کے ایک معروف عالمِ دین ہیں، فقہ السیرۃ پر اُن کی کتاب ’فقہ السیرۃ النبویۃ‘
عالم گیر شہرت کی حامل تالیف ہے جو ساٹھ کے عشرے میں شائع ہوئی تھی۔ مسلمان فطرتاً
ایسی کسی تالیف کے منتظر تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے مصنف کی کتاب نایاب ہو گئی۔ اس کے
بعد پھر کتاب کے یکے بعد دیگرے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ اگلی سطور میں ہم اس کتاب کے
دوسرے ایڈیشن کے مقدمے کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
مستشرقین کے طریقے پر
ہمارے ہاں سیرت نویسی کا جو ڈھیر لگا ہے بیشتر مفکرین کا یہی خیال ہے کہ مغرب میں
جو ہوشربا ترقی ہوئی ہے اُس نے ہمارے ہاں بہت ساروں کی عقل مبہوت کر دی ہے۔ اس
سکول آف تھاٹ کی سرکردہ شخصیات ہمیں یقین دلاتی رہی ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی کا
انحصار اس بات پر ہے کہ جس طرح مغرب نے عیسائیت کو سمجھا ہے اُسی منہج کو اپنا کر
یہاں اسلام کو سمجھا جائے۔ ضروری ہے کہ علم غیبیات کے لیے وہی سائنسی کسوٹی
استعمال کی جائے جسے برت کر مادی ترقی ہوئی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ جو معجزہ سائنس
کے جدید پیمانے پر پورا نہ اُتر سکے وہ قبولیت کے لائق نہیں اور اگر ہم ایسی جرات
کر لیں تو ترقی یافتہ ہو جائیں گے!
ان حضرات نے اپنی فکری
اپج کے لیے نام رکھا ’الاصلاح الدینی‘ ۔ کوئی پوچھے کہ دین محمد کب ایسا محتاج ہوا
ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ اس مدرسے کی طرف سے پہلی کوشش سیرت نگاری کی صورت میں
سامنے آئی۔
ٍ جدید علمیات کی کسوٹی
سے گزار کر جو تالیف سامنے آئی وہ تھی حسین ھیکل کی ’حیات محمد‘ ۔ اس کتاب کے
مطالعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وقائع کا تجزیہ کرتے ہوئے تجزیہ نگار کس قدر
انکساری، بزدلی اور مغرب سے مرعوبیت کا شکار رہا ہے۔ اس کتاب کے مقدمے میں موصوف
نے دعویٰ کیا ہے کہ محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کو ضروری ہے کہ اُس طرح سمجھا جائے جس
طرح جدید علمیات کا تقاضا ہے۔ وہ امور جو جدید علمیات کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں
از قسم معجزات اور خواقِ عادات وہ ہماری اس کتاب کا موضوع نہیں رہیں گے! اسلام میں
جب سب سے بڑا معجزہ خود قرآن کی شکل میں موجود ہے تو پھر ہمیں ایسی دُور کی کوڑی
لانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
شیخ الازہر مصطفی مراغی
نے حیاتِ محمد کی’ تقریظ ‘ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک نئی طرزِ نگارش کی طرف
سے پہلا قدم ہے۔
اسی مدرسے سے تعلق رکھنے
والے محمد فرید وجدی نے تو جدید طرزِ فکر کے مطابق فہم حاصل کرنے کے منہج کو
اپناتے ہوئے نگارشات کی لائن لگا دی تھی جس میں بنیادی طور پر فہمِ سیرت سب سے اہم
موضوع تھا۔ ان نگارشات میں جدید علمیات کو مسلمات کی طرح پیش کیا گیا۔ مصنف کے
نزدیک وہ واقعہ رُو پزیر ہی نہیں ہو سکتا جو موصوف کی عقل و دانش اور سائنسی
پیمانوں کی کڑی آزمائش پر پورا ہو کر نہیں دکھاتا خواہ وہ خبر متواتر ہی کیوں نہ
ہو اور خواہ مصنف کے الفاظ میں اس کی سائنسی توجیہ کرنے میں تکلف سے بھی کام لینا
پڑے۔
جس زمانے میں مدرسہ’
اصلاح دینی‘ اپنی نگارشات سامنے لا رہا تھا یہ مصر پر برطانوی قبضے کا زمانہ تھا۔
ظاہر ہے استعمار کے لیے ایسا اسکول آف تھاٹ ایک نعمت غیر مترقبہ تھا۔ اس سے
استعمار نے یہ بھی اندازہ لگا لیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلامی عقائد کے مسلمات
کی چولیں ہلا دی جائیں۔ اس وقت عالمِ اسلام میں کوئی بڑی مزاحمت نہیں پائی جا رہی
تھی۔ استعمار نے اور بھی ایسے رویے پروان دیے جو مسلمانوں اور ان کے ٹھیٹھ مناہج
میں دُوری پیدا کرتے چلے گئے۔ اِس خلا کو پُر کرنے کے لیے ان کے پاس جو چیز تھی وہ
تھی مغرب کی جدید علمیاتی منہاج!
جدید مدرسہ کی فکر کی تنگ
دامانی کا جلد ہی پول کھل گیا، جس تقلید سے وہ نکلنے کا دعویٰ کرتے تھے اور ذہنی
آزادی کو اصل معیار ٹھہراتے تھے تو معلوم ہوا کہ وہ تو خود مغرب کے منہاج کے غلام
ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس مدرسہ کے روبہ عمل ہونے کے باوجود وہ اس بات میں
ناکام رہے کہ ایسی شخصیات کو سامنے لا سکیں جو سائنسی ترقی کو عروج پر پہنچا سکیں۔
اس کے برعکس ہوا یہ کہ ان کے ہاتھ سے اسلامی منہاج بھی جاتا رہا اور مغربی ترقی
بھی نصیب نہ ہوئی۔
قارئینِ کرام کسی مسلمان
کے لیے یہ ہرگز روا نہیں کہ وہ محمد ﷺ کو محض ایک کامیاب ریفارمر کے دیکھے جس میں
بلا کی صلاحیتیں تھیں۔ آپ نے ایسی تالیفات ضرور دیکھی ہوں گی جس میں آپ کو ایک
بلند پایہ شخصیت اور کامیاب رہنما کے پیش کیا گیا ہو گا خواہ مغربی قلم کار ہوں یا
بدیسی۔ ہاں آپ میں تمام ہی کمالات مجتمع ہو گئے تھے مگر آپ کی شخصیت کے یہ تمام
سوتے ایک ہی صاف شفاف چشمے سے پھوٹے تھے۔ وہ یہ حقیقت کہ آپ رسول ہوئے۔ خدا کی وحی
اس کا منبع اور مصدر تھی۔
جدید تالیفات کی قدر نا
شناسی میں ہم اس لیے حق بجانب ہیں کہ اس منہاج میں اصل حقیقت کو چھوڑ کر اس کے
مظاہر کی ستائش پر ہی گل پاشی کی جاتی ہے۔ کیا یہ حق لگی بات ہے کہ آپ کی اصل
حیثیت بطور ِ رسول تو زیرِ بحث نہ لائی جائے اور آپ کے کارہائے نمایاں ہی سیرت کا
موضوع رہ جائیں۔ دنیا میں دوسرے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے
پھر آپ اور دوسروں میں فارق کون سی چیز ہے!
کسی مسلمان کے لیے کبھی
روا نہیں کہ وہ محمد ﷺ کے معجزات میں سے صرف قرآن کے معجزے پر ہی اکتفا کرے۔ اگر
قرآن آپ کا معجزہ ہے تو آپ کے اور بھی معجزات ہیں۔ جس طرح ہمیں قرآن پہنچا ہے اُسی
تواتر سے آپ کے دیگر معجزات بھی پہنچے ہیں پھر ایک کو تسلیم کرنا اور دوسرے سے صرفِ
نظر کرنا علمی دیانت یا علمی خیانت!
میں دیکھ رہا ہوں کہ
مسلمانوں میں اسلامی شعور بڑی تیزی سے پیدا ہو رہا ہے۔ میری کتاب کی پہلی اشاعت سے
اس کی ساتویں اشاعت تک معاملہ کافی حد تک جدید مدرسہ فکر کے بانیوں سے نکل چکا ہے۔
مستقبل میں اسلامی بیداری بڑھے گی اور جلد ہی وہ دن آنے والا ہے جب مسلمان دوبارہ
سے اپنے مسلمات پر شعوری ایمان لاتے ہوئے نو وارد افکار کے خلاف شدید مزاحمت پیش
کریںگے۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اب
جبکہ امت پر مشکلات آئی ہیں یہ حضرات سیرت کی نئی توجیہات میں اپنا سر کھپانے کی
بجائے امت کو مشکلات سے نکالنے میں مدد دیتے ۔الٹا میں دیکھتا ہوں کہ وہ شکوک و
شبہات کو پیدا کرنے میں بلا کی قدرت رکھتے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ سیرت
نویسی میں کسی نئی ’علمی اپروچ‘ کے قائل ہو گئے ہیں لیکن یہ کیا ہوا کہ آپ دوسروں
کو بھی اس کا پابند کریں۔ اگر وہ آپ کے دیے ہوئے منہاج کو تسلیم نہ کریں تو انہیں
احمق، علم دشمن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھیں۔ ہماری قدیم روایت رہی ہے کہ
فقہاءاسلام اصولی مباحث میں متفق ہونے کے بعد فروعات میں مختلف الآراءرہے ہیں۔
اپنی رائے کے درست ہونے پر وہ اصرار بھی کرتے ہیں لیکن دوسرے کو رائے اختیار کرنے
اور اس کو منوانے کا بھی پورا اختیار دیتے ہیں۔ کوئی فقہی دوسرے فقہی پر فوج داری
نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے سب سے زیادہ تنگ نظر روشن خیال لوگوں کو پایا ہے
اور سب سے زیادہ وسعت مجھے اسلامی ٹھیٹھ منہاج میں نظر آئی ہے۔
ہمارے ناقدین اگر فقہاءکے
منہاج کی پیروی کرتے تو اُمت آج متحد ہو کر بیرونی دشمن کا مقابلہ کررہی ہوتی۔
میں اپنے قاری کو اس بات
کی پوری اجازت دیتا ہوں کہ جمہور علماءکے منہاج کی بغیر تعصب کے پھر سے پڑتال
کرلے۔ ان کی دلیل کی قوت کو سمجھنے کی پوری کوشش کرے اگر اُس کے بعد بھی وہ یہی
سمجھے کہ سیرت نگاری میں جدید طریقہ تالیف ہی موثر ہے تو وہ اسے اختیار کرنے میں
آزاد ہے۔ اصل خرابی یہ نہیں کہ آپ دیانت داری اور سلامتی عقل کے ساتھ کس نتیجے پر
پہنچتے ہیں، اصل خرابی یہ ہے کہ آپ تعصب کا شکار ہو جائیں اور دوسروں کو احمق قرار
دیں۔
آخر میں میری دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو اپنے لیے خالص کرلے اور ہمیں ہدایت کے راستے پر قائم
رکھے۔ آمین
محمد سعید رمضان
دمشق 1968ء