لطائف
یک نہ شد، سہ شد!
شیخ سفر الحوالی
مؤلف ”اظہار الحق“ (مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ) ایک جگہ بیان کرتے ہیں: ایک عیسائی مشنری عالم ہندوستان یا افریقہ کے کسی علاقہ میں کام کرنے پر متعین تھا۔ اِسی دوران، جس کلیسا سے اِس پورے مشنری ورک کی نگرانی و سرپرستی ہو رہی تھی اور فنڈز فراہم ہوتے تھے، اس کا ایک مرکزی عہدیدار علاقہ کے دورے پر آیا۔ مشنری سکول میں متعین عیسائی عالم، کلیسا کے اِس مرکزی عہدیدار کو اپنی کارکردگی سے متاثر کرنے کیلئے نوجوانوں سے اُس کا تعارف کروا رہا تھا: ”یہ ہیں جناب وہ نوجوان جن کو میں نے مسیحیت کی روشنی میں داخل کیا ہے“۔
عہدیدار نے اُن میں سے تین نوجوانوں کو منتخب کیا، اور اُن سے سوالات کرنے لگا:
”یسوع مسیح کی بابت تم نے کیا سیکھا ہے“؟
پہلا طالبعلم بولا: ”فادر کی تعلیم سے میں نے یہ علم حاصل کیا ہے کہ خدا کی تین ہستیاں ہیں۔ اُن میں سے ایک نیچے اتر آئی، دو اوپر رہ گئیں..“۔
کلیسا کے عہدیدار نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے سرزنش کی: ”نا لائق! تم نے کیا خاک سمجھا ہے!
اِس کے بعد وہ دوسرے نوجوان سے مخاطب ہوا، تم کیا سمجھے ہو؟
”میں نے فادر سے یہ سمجھا ہے جناب کہ خدا تین ہستیوں پر مشتمل ہے، باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اب جہاں تک تو ہے روح القدس کا تعلق، توجناب میں یہ سمجھا ہوں کہ وہ پرندے کی طرح پرواز کرنے والی کوئی ہستی ہے، اور باپ اور بیٹے کے درمیان ذریعہ بننے کیلئے مامور رہی ہے۔ اِس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ رہ گیا دوسرا، تو وہ سولی پر مارا گیا۔ یہ دونوں ختم ہو گئے۔ اور ایک رہ گیا“۔
عہدیدار نے اُس کو بھی بات پوری نہ کرنے دی : ”کم بخت! یہ پڑھا ہے تم نے؟“
اب تیسرے نوجوان کی باری تھی، ”ہاں بھئی تم بتاؤ“
یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلے دونوں کے جواب غلط نکلے، نوجوان نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر نہایت سنجیدگی کے ساتھ گفتگو شروع کی:
”میں نے یہ سمجھا ہے جناب کہ خدا تین ہستیوں پر مشتمل ہے۔ ایک تین ہیں اور تین ایک۔ ان میں سے ایک سولی پر مارا گیا۔ جب ان میں سے ایک مارا گیا، اور وہ تینوں ایک ہی ہیں، تو سمجھو وہ تینوں مارے گئے۔ اب کوئی نہیں ہے..“!
”چب رہو، تم اِن دونوں سے زیادہ بد بخت ہو“، کلیسا کا مرکزی عہدیدار کبیدہ خاطر ہو کر بولا!
(از شرح عقیدہ طحاویہ، مؤلفہ شیخ سفر الحوالی۔ باب توحید، حلقہ دوم)