سب سے پہلے پاکستان !
ضیغم المرتضیٰ
کچھ دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر ایک معروف مزاحیہ اینکر ایک مشہور ملی نغمے کی پیروڈی لہک لہک کر پڑھ رہے تھے۔
یہ وطن ہمارا ہے تم ہو خوامخواہ اس میں
یہ چمن ہمارا ہے تم ہو بے وجہ اس میں
اس سے پہلے ایک اور ملی نغمے کے ساتھ اس قسم کا سلوک سنا۔
نہ تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے
موبائل فون پر اور بالمشافہ قومی ترانے سمیت ملی نغموں کا یہ حشر دیکھ کر ہنسنے کی بجائے رونا آتا ہے۔ وجہ قومی نغموں کا تقدس نہیں بلکہ عوام کی زبوں حالی ہے جسکا نقشہ ان پیروڈیوں میں کھینچا گیا ہے۔ سچ پوچھیے تو حالیہ پاکستان بھی ہمیں نظریہ پاکستان کی پیروڈی ہی لگتا ہے۔
ہمارے آزاد میڈیا پر اب یہ مباحث پوری آزادی سے چل رہے ہوتے ہیں کہ بانیانِ پاکستان اس مملکت کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر! اپنے شعور کی دہائیاں ہو گئیں ہمیں یہ مباحث سنتے اور دیکھتے ہوئے مگر یہ فیصلہ آج تک نہ ہو سکا۔ دونوں اطراف کے نمائندے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوال پیش کرتے ہیں۔ فلاں تاریخ ، فلاں سن، فلاں مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فلاں نے یہ فرمایا تھا جس سے اس مملکت کو سیکولر بنانا ثابت ہوتا ہے۔ دوسرے صاحب ہماری تاریخ میں کمزوری کا مذاق اُڑاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فلاں تاریخ، فلاں سن اور فلاں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فلاں حضرت نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ رہے عوام کالانعام تو وہ کل بھی چیخ رہے تھے آج بھی چیخ رہے ہیں۔ اُن کی نہ کل سنی گئی اور نہ آج اُن کی بات درخور اعتناءٹھہری کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ۔
یہ عوامی نعرہ خواص میں کیونکر مقبول ہو سکتا ہے۔ انہیں بت خانہ ہندوستان سے لاتے وقت جانے کس نے یہ خوش فہمی تھما دی کہ تمہاری قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مملکت لا الہ الا اللہ کے دستور کے تحت کام کرے گی۔ اب یہ عقدہ کشائی کون کرے کہ لا الہ الا اللہ کی کس تعبیر کے تحت اپنے ملک میں بسنے والوں کا خون ارزاں کر دیا گیا ہے۔ ہماری بے بس اور مجبور مقننہ جو محض اشک شوئی کو ایک قرارداد پاس کر دیتی ہے کہ عوامی ردّ عمل کے جواب میں کچھ تو پیش کیا جائے ،اس کے ذہن میں لا الہ الااللہ کی کونسی تشریح ہے کہ وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں برپا ہونے والی قیامت کے ذمہ داروں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے قاصر ہیں؟ قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصّہ بنے کتنا عرصہ بیت گیا کہ مملکت کا آئین شریعت سے متصادم نہیں ہو گا ۔ شرعی قوانین پر عمل درآمد تو ایک طرف موجود قوانین کے حروف کسی بھی عملی تعبیر سے تہی نظر آتے ہیں ۔ کیا افراد اور کیا ادارے۔ حسبِ توفیق مفادات کی میراتھن میں سب دوڑ رہے ہیں۔ جو جتنا ذمہ دار ہے کرپشن اور ملکی مفادات کی فروخت میں بھی اُسی قدر نمایاں ہے۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بددیانت ملکوں کی نئی رینکنگ کے مطابق تنزلی کا یہ سفر بیالیسویں نمبر سے چونتیسویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔
قوم کے مطالبات اور قائدینِ مملکت کے مفادات میں مسلسل بُعد چلا آرہا ہے۔ ارکانِ اسمبلی کی ایک معتد بہ تعداد اپنی ترقیات سے عوام کو آگاہ کرنا ویسے ہی کسرِ شان سمجھتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ
یہاں لاکھ عذر کہ گفتنی وہاں ایک حرف کہ کُشتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
ول ڈیورانٹ جس کا تعلق ہمارے حکمرانوں کے سیاسی قبلہ سے ہے، لکھتا ہے:
جمہوریت کے نام پر اکثریت پر پانچ فیصد اقلیت حکمرانی کرتی ہے۔ جس کا سارا دارومدار اکثریتی طبقہ کے استحصال پرہوتا ہے۔ اب سوچیے تو یہ حقیقت پاکستان میں پوری سفاک برہنگی کے ساتھ موجود نہیں؟ یہ مراعات یافتہ طبقہ ہے جس کے اثاثے گذشتہ چند برسوں میں اوسطاً تین گنا بڑھے ہیں۔ حالانکہ ان میں بعض کے دس گنا بھی بڑھے ہیں۔ یہ اعداد و شمار حال ہی میں الیکشن کمیشن کو خود انہی ارکانِ اسمبلی کے دیے گئے گوشواروں سے ظاہر ہیں۔ تسلیم شدہ اثاثہ جات میں جو غریب تر ہیں وہ بھی کروڑوں کے نادہندہ ہیں۔
ہمارے مراعات یافتہ طبقہ کے لیے محض عوام کا خون ہی خوانِ نعمت نہیں بلکہ اُن پر اُن کے آقا کی مہربانیاں سوا ہیں۔ ملک میں کوئی آفت آئے زلزلہ یا سیلاب ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ ویسے تو افغانستان کی صورت میں ایک مستقل آمدن کا ذریعہ موجود ہے ہی۔
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اُسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اُسے زریں قبا
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
تعبیرات اور اصطلاحات کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کا ہنر تو کوئی ہماری قیادتوں سے سیکھے۔ جس قدرترقی میں اضافہ سنتے ہیں، بے روز گاری کے ہاتھوں خود کشیوں کی شرح اس سے بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی نظام پر تو ہمارے حکمران سدا سے مہربان رہے ہیں۔ نوبت بایں جا رسید کہ اب تمام قومی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور وائس چانسلرز طلبہ کو جلو میں سڑکوں پر نعرہ زن ہیں۔ ناگزیر ضروریات کی دہائی پر وسائل کی کمی کا رونا رونے والوں کی تعیشات پر نظر ڈالیے۔ اور ان خبروں اور تجزیوں کو بھی سوچیے جن میں اربوں روپے کی کرپشن کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ قانون بے چارہ تو موم کی ناک ہے۔ ہمارے مقتدر جس طرف چاہیں اس کو موڑ دیں۔ ایک تو اپنی مرضی کا قانون بنانے سے ان کو کوئی روک ٹوک نہیں۔ شرط صرف اکثریت کی ہے، جو اکثر باہمی مفادات کے عنوان سے حاصل ہو ہی جاتی ہے۔اور بنے ہوئے قانون کی تعبیر و تشریح؟ عدالتوں اور قانون دانوں کے واویلے ایک طرف اور حکمرانوں کے قانون دان ایک طرف۔ ”ہمیں استثناءحاصل ہے“، یہ جواز ہر دلیل پر بھاری ہے۔ لیجیے صاحب، اب چھو کر دکھائیے۔ محلات و رقوم۔۔۔استثناء کی آڑ میں وہ جواب دہی سے ہی بریٔ الذمہ ہے!! اِس سے بڑھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون کی بالادستی کی کوئی اور مثال؟؟!! قانون نام کے اس فٹبال کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے:
نظر میں ذرا لائیے جب ہمارے باوردی طاقتور صدر قوم سے خطاب فرما رہے تھے۔ قوم کو دھمکانے، مُکہ دکھلانے والے کمانڈو صدر ایک ہی دھمکی میں چت ہو کر ارشاد فرما رہے تھے کہ میں نے پاکستان بچانے کا ”فیصلہ“ کیا ہے!! تمام تر وعدے اور معاہدے ختم کرتے ہوئے افغانستان امریکہ کے حوالے اور ہم تو اپنے مفادات کے حوالے۔ اپنے مفادات کی تلوار پر ریشمی غلاف چڑھاتے ہوئے فرمایا ”سب سے پہلے پاکستان“
اور کیا خوب فرمایا کہ فوراً ہی تمام نشریاتی اداروں پر نغمے اور دھنیں گونجنے لگیں جن کا ٹیپ کا مصرعہ یہی تھا یعنی ”سب سے پہلے پاکستان“۔
سب سے پہلے پاکستان کے اس نعرے سے بظاہر کیا پھوٹتا دکھائی دیتا ہے؟ نظریاتی اور فکری مباحث سے ذرا صرف نظر کر لیجیے تو بھی شاید اُن کا مطلب ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر پاکستان کے اجتماعی مفادات کا دھیان رکھنا ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے عوام کی بہبود و خوشحالی ، شاید اُن کی مراد یہ تھی! مزید خوش فہم ہولیجیے، افغانستان کی بلی چڑھا کر ہم امریکہ بہادر سے اور نیٹو اقوام سے قرضہ جات کی معافی حاصل کر رہے تھے، یا مزید تجارتی اور مالی مفادات!! کچھ اگر ایسا ہی مطلوب تھا تو گزشتہ ایام کاکوئی سا بھی جائزہ اعداد وشمار کی روشنی میں کر لیجیے اور بتائیے کہ کیا نتیجہ رہا۔ قرضوں کا ایک طومار، معیشت کی حد درجہ زبوں حالی، ملک میں بد امنی اور وحشت کا راج، روز افزوں جرائم۔ یہ حاصل ہے اُس ”مقبول عام“ نعرہ کا؟؟!!
جس بات کو اب تک کی گفتگو میں ہم ٹالتے آئے، ذرا اس زاویے سے بھی صورتحال کو دیکھ لیجیے۔ مادیت پرست مغرب نے مذہب اور خدا بیزاری کے بعد ملک سے وابستگی کو اس حقیقتِ عظمٰی کی جگہ لا بٹھایا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پھر انہوں نے اس وابستگی کا ایسا حق ادا کیا کہ فی زمانہ مسلمان اکثریت اپنے معبودِبرحق کا بھی نہ کر سکی۔ یعنی اُن کے معاشرے کے تمام تر طبقات نے پورے اخلاص اور سچائی کے ساتھ اس حق کو نباہا۔ کیا رعایا اور کیا حکمران۔ حکمران تو خیر اپنی ریاستی بالا دستی کو قائم رکھنے کے لیے ایسی کسی قوتِ محرکہ کو بطورِ آلہ استعمال کرتے ہی ہیں لیکن اگر حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ اس سے سرِ مُو منحرف نظر آیا تو اُسے بھی معاف نہیں کیا گیا۔
ہمارے سیکولر اور نیشلسٹ طبقات نے سب سے پہلے پاکستان کا راگ نام لیے بغیر تو ہمیشہ ہی الاپا۔ اس لیے کہ اسلام دشمنی کو اسکے علاوہ کسی اور لبادے میں لپیٹنا کافی دشوار تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے مذہبی سیاسی گروہوں کی ہمنوائی اور پھر 11-9 کے بعد کی صورتحال میں جب اپنے یو ٹرن کو justify کرنے کے لیے یہ نعرہ لگایا گیا تو ہر ایک حصّہ بقدر جثّہ ہمنوائی کرتے پایا گیا۔ ایک مردہ سی بے جان مزاحمت جس کا پس منظر دلیل اور ایمان کی قوت سے محروم اور خالی تھا لوگوں کو اس کی زہر ناکی کا احساس دلانے میں ناکام رہا۔ ستم بالائے ستم سترھویں ترمیم کی صفائیاں دیتا جمہوریت سے بے وفائی کے طعنوں سے گھبرایا ہمارا یہ طبقہ اور اس کی قیادت اپنا سب بھرم لُٹا کے بھی ہوش میں نہ آئی۔
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
فکر کا فکر ایک لمحہ کے لیے چھوڑتے ہوئے انہی کے بتائے ہوئے حقائق سے پھر خوشہ چینی کیجیے اور دیکھیے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اور اس سوال کے جواب سے ہمیں بھی آگاہ فرمائیے کہ بعض نقصانات کا تذکرہ کرنے کے باوجود ہمارے موجودہ حکمران بھی اسی روش پر کیوں کار بند ہیں جس کے آغاز کنندہ ہمارے ممدوح سابق صدرِ پاکستان ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کا نقصان تقریباً 12 سو ارب ڈالر کا ہے۔ اب مختلف ذرائع اور ممالک سے ملنے والی امداد کو جمع فرما لیجیے اور ان شرائط جن کو ماننے کی خواری اور نہ ماننے کے طعنے ہمیں درپیش ہیں سامنے رکھیے۔ہنسنے یا رونے کا اختیار بہرحال آپکا ذاتی ہے۔بے شمار اور بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع ہمارا مسئلہ تو ہے ہی نہیں!
اب لائیے ذرا تاریخی گواہیاں کہ فرات کے کنارے اگر کتا بھی پیاسا مر جائے تو عمرؓ اس کا بھی رب کو جواب دہ ہے۔
نہ مدعی نہ عدالت حساب صاف ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
ڈرون حملوں پر اور اب براہ راست Air Strikes پر قومی اسمبلی کے فلور پر ہماری قیادت ارشاد فرماتی ہے کہ ہم جمہوری لوگ ہیں مسائل سیاسی طریق پر حل کرتے ہیں۔ جنرل صاحب (مخاطب نیٹو کے کماندار تھے) ہم اپنی سرحدات کے تحفظ کے بارے میں کوئی Compromise نہیں کریں گے۔ ادھر دفاعی مبصّر یہ ارشاد فرمائیں کہ یہ حملے مکمل باہمی آگہی، معلومات کے تبادلے اور سہولیات کی فراہمی کے بعد کیے جاتے ہیں۔ اور اب کے اس بیان کی نوبت بھی یوں آئی کہ” دہشت گردی “ کی زد میں انہوں نے افواجِ پاکستان کو بھی دھر لیا۔
اے موجِ بلا ان کو ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی ساحل پہ طوفان کا نظارہ کرتے ہیں
اور میرے حضور ذرا اس موازنے پر بھی ایک نظر ڈالیے۔ جس پاکستان کو بچانے کے دعوے پر یہ امور سر انجام دیے گئے اک نظر اس پر زمین و آسمان سے اُترنے والے نوشتے پر بھی ڈالیے۔
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
زلزلے نے کشمیر سے لیکر اُس وقت کے سرحد اور حالیہ خیبر پختونخواہ کے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا، بستیوں اور شہروں کو ملیامیٹ کر دیا، خیمہ بستیوں کا ایک تاحال جاری سلسلہ شروع ہوا۔ عوامی سطح پر کی جانے والی اشک شوئی اپنی جگہ ہمارے مقتدر طبقات امداد کے نام پر دنیا بھر سے کاسہ گدائی میں پڑنے والی امداد کی بندر بانٹ میں مشغول نظر آئے۔
آنکھیں نہ کھلنے پر زمین کے بعد آسمان بھی خفا ہوا خشک سالی کے تبصرے سُنتے سُنتے ہم کیا سہمے ہوئے تھے کہ اب نالوں کا جواب دریاؤں کی طغیانی صورت میں ملا۔ ایک بستی ایک علاقے کو نشانِ عبرت بنانے پر بھی اپنی روش نہ چھوڑنے والی قوم کو چاروں صوبوں میں مبتلائے آزمائش کر دیا گیا۔ اور اب کے تو اقوامِ عالم حکمرانوں کی بددیانتی اور لالچ کوآڑ بنا کر ویسے ہی دست کش ہیں۔
سیلاب زدگان کی امداد کی مد میں ہمارے ولی نعمت کی سب سے زیادہ امداد کا ڈھنڈورا پیٹتے پیٹتے یہ بات بھی میڈیا میں آئی کہ امریکہ بہادر نے جتنی امداد دی اسکا دو تہائی ہیلی کاپٹروں کے پٹرول اور سروس کی مد میں کاٹ لیا گیا۔ یہ اطلاع دینے والے موصوف فرما رہے تھے کہ اگر کہیں ملازمین کی تنخواہوں کا بل حکومتِ پاکستان کو دے دیا گیا تو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
بلا تبصرہ اور تشریح: اپنے اپنے مصلحت کے گوشوں میں مراعات کی چادریں لپیٹے چال مست حال مست اور حال مست لوگوں کیلئے:
وحی الٰہی کی رہنمائی سے محروم۔ تاریک دلوں کو۔۔۔۔ عبد دینار اور عبد درہم بن کر زندگی گذارنے والوں کو کیا معلوم کہ سب سے پہلے کیا ہونا چاہیے اور سب سے پہلے حقیقتاً ہے کیا!!!
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبۃ: 24)
”کہو، اگر تمہارے باپ، تمہارے فرزند، تمہارے بھائی بند، تمہاری عورتیں، تمہارے کنبے قبیلے، تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں، تمہاری تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے مکانات جو تمہاری پسند ہیں,, تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے راستے میں جہاد سے بڑھ کر عزیز ہیں تو پھر کرو انتظار یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے۔ اللہ ایسے فاسقوں کو راہ نہیں دکھاتا“۔