رافضہ کے توسیعی عزائم
جمع و ترتیب : محمد زکریا خان
اگلے سال رافضہ کے بین الاقوامی ادارے’عالمی اہل بیت اسمبلی‘(مجمع جہانی اہل بیت)کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں مجمع کی کار گردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔تین سال پہلے مجمع نے اپنے اجلاس منعقدہ تہران میں دوررس سفارشات مرتب کی تھیں۔اگلے سال ان سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔مجمع کے سابقہ اجلاس میں جو سفارشات پیش کی گئی تھیں تین سالوں میں اُن میں سے اکثر پر عمل کیا جا چکا ہے۔اگلی سطور میں ہم قارئین کے سامنے ان منصوبوں کا مختصر تعارف پیش کر رہے ہیں جس سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رافضہ کس قدر سنجیدگی اور مربوط پلاننگ سے اپنے توسیعی عزائم پر عمل کر رہے ہیں۔
اجلاس میں شرکاءنے دینی؛تعلیمی اور کلچرل منصوبوں کے وسیع نیٹ ورک کی سفارش کی تھی جس میں رافضہ کی مختلف ممالک میں جامع مساجد کی تعمیر کے ساتھ دینی مراکز، (حسینیات)، کلچرل سنٹر،پرائمری اور مڈل کلاس تک کے اسکول، نرسری اسکول دینی مدرسے (حوزات)، فری کلینک اور کھیل کلب شامل ہیں۔مسئلہ فلسطین یا ناموس رسالت پر رافضہ کے گرج دار بیانات تو کبھی زمینی حقائق پر اثر انداز نہیں ہوئے البتہ مجمع کی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے رافضہ نے بہت بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
بنکاک میں جامع (مسجد)’امام علی ‘تعمیر ہو چکی ہے۔چین کے صوبے سنکیانگ چن میں جامع ’امام زمان، ‘سنگا پور میں حسینیہ فاطمہ زہراءؓ، بحر ہند کے جزائر مڈگاسکرمیں جامع زہراءؓ، تیونس میں جامع اور حسینیہ زہراء، ؓ جنوبی افریقہ میں جامع مصطفیٰ، وسطی ایشاءکے ملک کرغیزستان میں جامع امام علیؓ، اسی نام سے ایک جامع افغانستان میں اور افغانستان کے شہر ہلمند میں مدرسہ ’امام باقر‘، گلگت میں جامع ’گلگت‘، کشمیر میں اقامتی مدرسہ حوزہ فاطمہ زہراءؓ اور مدرسہ ’امام باقر‘ شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مجمع کے اجلاس میں مختلف ممالک میں انجمنیں بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔
اسی طرح طلبہ کے لیے سمر کیمپ کے انعقاد کی سفارش کی گئی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے بیس سمر کیمپ میں ایک ہزار نوجوانوں کے لیے انتظامات کیے گئے تھے۔جن ممالک میں سمر کیمپ لگائے گئے وہ یہ ہیں:آذربائیجان، ملیشیا، مڈگاسکر، پاکستان، برطانیہ، بحرین، سعودی عرب، جرمنی، ہولنڈ، بلجیم، کینیا، امارات اور ترکی۔
اجلاس میں پہلے سے کام کرنے والی رافضی انجمنوں اور رافضی حقوق کی آواز اُٹھانے والے اداروں کے لیے مالی تعاون کی سفارش کی گئی تھی۔دنیا کے مختلف ممالک میں شیعہ کے حالات کا سروے کرنے کی بھی سفارش کی گئی خاص کر ان ممالک میں رہائش پزیر شیعہ عوام کے لیے: عراق، تیونس، مراکش، تنزانیا، نائیجر، مغربی افریقہ کے برکینافاسو، جزائرجزرقمر، مڈگاسکر، سوڈان، الجزائراور سیرالیون ۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کے اراکین کی شمولیت اور دوسرے حقوق انسانی پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے اراکین پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل جس میں شیعہ کی سرکردہ شخصیات شامل ہوں کی سفارش کی گئی جس کا مقصد رافضہ کے حقوق کا دفاع کرنا ہو۔
رافضہ خواتین کی تنظیموں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی نیزخواتین تنظیموں میں بچوں کی ’مناسب تربیت‘کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔
434 کتابوں کی اشاعت جنہیں چوبیس ممالک میں بلا قیمت تقسیم کیا جائے۔کل پانچ لاکھ کتابیں اس مقصد کے لیے تقسیم کی جائیں۔کتابوں میں قران مجید، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، تاریخ اسلام، آغا خمینی کی سیرت پر مبنی کتب، زیارت گاہیں، دعاؤں کی کتابیں اور نماز سکھلانے والی کتابیں شامل ہوں ۔
اس سلسلے میں اب تک 400 شیعہ لائبریریوں کا مختلف ملکوں میں افتتاح ہو چکا ہے۔صرف عراق میں جو رافضہ کا سب سے اہم ہدف ہے کل 600 لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔افغانستان اور دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں۔
ابلاغ عامہ کی سطح پر چینل’ثقلین‘ کا قیام عمل میں لایا جائے۔چینل کی تشکیل کا تخمینہ تیس ملین ڈالر لگایا گیا ہے جس کا 50 فیصد مجمع نے اپنے ذمہ لیا ہے۔
مجمع کے زیر غور اور بھی بہت سے منصوبے ہیں اور اس سلسلے میں کویت اور بحرین میں ایرانی سفارت خانے کی سر پرستی میں ایران کے مختلف تعلیمی اور ثقافتی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔خلیجی ممالک ایران کی بڑھتی سرگرمیوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں جو علاقے کے امن کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔کویت کے مقامی اخبارات میں خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ حکومت نے ایسے عناصر کو گرفتار کر لیا ہے جو بحرین کے ایک وزیر کے توسط سے علاقے میں تخریبی کارروائیاں کرنا چاہتے تھے۔ نیز یہ کہ اس نیٹ ورک کا ’پاسداران انقلاب‘کے ساتھ تعلق تھا۔اس خبر کو عام نہیں ہونے دیا گیا۔ یہاں ہم قارئین کو بتاتے چلیں کہ ثقافتی پروگراموں کی آڑ میں ایران بحرین پر بہت زیادہ اثرانداز ہو چکا ہے۔
خلیج کی چھوٹی چھوٹی مملکتیں باہم مختلف ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر رافضہ توسیعی منصوبوں پر کامیابی سے عمل کر رہے ہیں۔سرکاری محکمے تو اس بارے میں خاموش ہیں تاہم ڈاکٹر ھادف شمری کی کتاب میں رافضہ کے منصوبوں سے خبردار کیا گیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ خلیجی مملکتوں میں سنی حکومتوں کا تختہ الٹنا رافضہ کی پہلی ترجیح ہے۔بحرین میں ھادی مدرسی کے زیر قیادت تنظیم ’جبھۃ اسلامیہ‘ ’آزادیٔ بحرین کے‘ منصوبے پر کام کرتی ہے ۔تنظیم کا صدر دفتر تہران میں ہے۔تنظیم جبھۃ اسلامیہ سنی حکومت ’ آل خلیفہ‘ کا ایک مرتبہ تختہ الٹنے کی کوشش کر چکی ہے۔ایران کے ایک سرکردہ رہنما صادق روحانی1979ء میں بحرین کو ایران میں ضم کرنے کی تجویز دے چکے ہیں۔اس تجویز کے بعد بحرین کے حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور دار الحکومت منامہ تک اس کے اثرات پڑے تھے۔
تنظیم کا ایک عسکری ونگ ’حزب اللہ بحرینی‘بحرین میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث پایا جاتاہے۔میڈیا تو صرف مغرب کی زبان بولتا ہے اور دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات اور چینل صرف القاعدہ کا نام لیتے ہیں جبکہ رافضہ کی دہشت گرد تنظیمیں اسی کی دہائی سے سنی ریاستوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہیں۔سنی اکثریتی علاقوں میں شیعہ حکومتیں بنانا امریکہ کے مفاد میں ہے۔عراق اس کی تازہ مثال ہے۔
بحرین کی تو یہ صورت حال ہے کہ ہر شہر اور قریے میں شیعہ مراکز پائے جاتے ہیں۔جو تجربہ بحرین میں کامیاب ہو جاتا ہے ویسا منصوبہ کویت میں شروع کر دیا جاتا ہے۔بحرین میں سنہ 2007ء تک سرکار نے 1122’ عزاداری‘ کے جلوس کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔بحرین ایک چھوٹا سا سنی آبادی والاملک ہے اور وہاں کی یہ صورت حال ہے۔ڈاکٹر شمری لکھتے ہیں کہ بحرین میں سنی مساجد 500 ہیں جبکہ ماتم و عزاداری کے ہزار سے اوپر جلوس! محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کو سرکاری اجازت سے صرف شیعہ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شمری لکھتے ہیں کہ ساحلی علاقوں میں آباد شیعہ بستیاں اسلحہ کے ڈپو ہیں۔ایرانی کشتیوں سے یہاں اسلحہ پہنچایا جاتا ہے۔سنہ 2006ء میں بحرین کی حکومت نے ایک منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا۔شیعہ آبادی کی بحرین میں منتقلی کے لیے مال دار شیعہ بحرین کے شہر’محرق‘ میں ایک سے زیادہ رہائشی علاقے(ٹاؤن)مکمل طور پر خرید کر انہیں صرف اہل تشیع کے لیے مخصوص کرنا چاہ رہے تھے۔مؤلف کتاب لکھتے ہیں کہ سرکاری کارروائی بہت تاخیر سے عمل میں آئی کیونکہ اس طرح کے منصوبے اس سے پہلے بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔بحرین کے شہر محرق کے رہائشی علاقے بنعلی اورابو ماھر میں شیعہ آبادیاں کامیابی کے ساتھ قائم ہو چکی ہیں۔منامہ کے رہائشی علاقے حورہ، قضیبیہ اور ذواودہ میں شیعہ بسائے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کو قانون سازی کرنی پڑی کہ مزید اراضی مقامی شہریوں کے علاوہ کسی کو فروخت نہیں کی جا سکے گی۔
مؤلف لکھتے ہیں کہ سعودی سرکار نے بھی ایک ایسے منصوبے کو ناکام بنایا ہے۔سرکاری محکموں میں بھی با اثر شیعہ اپنے ہم مسلک امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہر طریقہ اور حربہ اختیار کرتے ہیں۔رافضی آبادی میں اضافے کے لیے رافضی قائدین نکاحِ متعہ کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں بالخصوص اور سنی علاقوں میں بالعموم رافضہ کے تعلیمی اور ثقافتی پروگرام اور کتب میلے رافضہ کے توسیعی عزائم کے لیے کام کرتے ہیں۔سنی ممالک کو اس کے سد باب کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔