عراق
“حسین” اوباما سے “علی” سیستانی کی طرف!
ابو زید
یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملے کے جو جوازات پیش کئے تھے وہ سب کے سب غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اب تک اس کے نتیجے میں چھ لاکھ سے لے کر دس لاکھ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ لیکن بات صرف جھوٹے جواز کی نہیں ہے بلکہ حملے کے نتیجے میں معاشرے میں جو بد نظمی پیدا ہوئی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی کسی مغربی ملک میں پیش آتا تواس کو مغربی ممالک ایک عظیم ترین سانحہ قرار دیتے۔
پہلے تواتنے سارے مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوگئیں۔ عراق کے تین بڑے طبقوں ، سنی، شیعہ اور سنی کردوں کے درمیان عراق کے نظم و نسق کے بارے میں لاینحل اختلاف، پھر ایک مضبوط اورایمان دار انتظامہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے جرائم کا عام ہونا۔ بین الاقوامی اخباری ایجنسیوں کے مطابق عراق بردہ فروشی، اغوا کاری اور جنسی کاروبار کا مرکز بنتا جارہا ہے۔
اس سے پہلے خبریں آچکی ہیں کہ امریکہ نے جس قسم کے کیمیائی ہتھیار خصوصاً فلوجہ میں استعمال کیے ہیں اس کے نتائج ہیروشیما میں ایٹمی حملے سے بھی بدتر ہیں۔ 2005سے عراقی ڈاکٹروں نے نومولود بچوں میں انتہائی سنجیدہ قسم کے پیدائشی نقص کے کثیر واقعات رپورٹ کئے ہیں۔عجیب الخلقت اور بد ہیئت بچوں کی پیدائش میں غیر معمولی اضافہ، کینسر کی کثیر تعداد، چودہ سال سے کم عمر کے بچوں میں کینسر کا کے تناسب میں بارہ گنا اضافہ، نوزائدہ بچوں کی موت کے تناسب میں چار سے آٹھ گنا اضافہ ۔اور یہ سب کچھ ایک ثابت شدہ جھوٹ کی بنیاد پر اور اس پر اپنی غلطی کا اعتراف اور نہ کوئی شرمندگی۔ اور پھر امن کا پرچم ابھی بھی انہیں کے ہاتھوں میں۔ نہ معلوم مستقبل کا مؤرخ نازی ازم اور امریکہ کا موازنہ کس طرح سے کر پائے گا۔
اب جبکہ امریکہ اپنی فوج عراق میں رکھ کر بھی عراق سے بزعم خود اپنی واپسی مکمل کرچکا ہے، خبریں یہ آرہی ہےں کہ عراق میں تیس ہزار سے زائد قیدی بغیر مقدمہ کے جیلوں میں بند ہیں اور ان کو اپنے دفاع کی بھی اجازت نہیں ہے۔امریکی واپسی کے سلسلے میں تاحال یہ سننے میں آرہا ہے کہ امریکہ ان مظلوم قیدیوں کو عراقی انتظامیہ کے حوالے کرنے جا رہا ہے۔عراق پر امریکی قبضے کے حوالے سے جس طرح کا امریکی شیعہ اتحاد وجود میں آیا ہے اس بنا پر یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ قیدی اہل سنت میں سے ہی ہیں اور جب یہ شیعوں کے حوالے ہونگے تو پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ بہرحال ہم امریکہ کے اپنے لائے ہوئے اطلاعاتی انقلاب"Information revolution" کے سائے میں جی رہے ہیں اور یہی اطلاعاتی نظام امریکہ کے ایک ایک جرم کو ریکارڈ بھی کرتا جارہا ہے۔ آج میڈیا پر مغرب کا غلبہ ہے اس سے اس کے جرائم کا پردہ جزوی طور پر فاش ہونے کے باوجود اس کے خلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں ہو رہی ہے۔لیکن وقت نام ہے تبدیلی کا۔ افراد کی نسبت اقوام کا فیصلہ ہونے میں ذرا وقت لگتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ امریکہ اپنے آنے والی نسلوں کے لیے وراثت میں ایک طویل چارج شیٹ چھوڑے جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ کہاں تک عراق سے نکل آیا ہے اور کہاں تک عراق میں باقی ہے؟ یہ چیز تو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہے گی، مگر ایک چیز واضح ہے۔ امریکی ’قربانیوں‘ کے طفیل صدیوں کے بعد ایسا ہوا ہے کہ عراق میں آج پھر ایک بار روافض کی حکومت ہے! جی ہاں المنصور اور الرشید کا دارِ خلافت ”بغداد“ بویہیوں کے بعد شاید پہلی بار روافض کے زیر اقتدار آیا ہے۔ واقفانِ حال جانتے ہیں، عراق کا ایک بڑا حصہ عملاً ایران کو دے دیا گیا ہے۔صاحب بصیرت علمائے سنت اپنے پیروکاروں کو شدید متنبہ کر رہے ہیں کہ پھر بھی وہ ہرگز ہرگز کسی شیعہ سنی تصادم کی صورت پیدا نہ ہونے دیں۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو عراق میں یہ استعمار کے کچھ بڑے مقاصد کو پورا کرنے کے مترادف ہو گا، مگر اِس میں بھی شک نہیں کہ خلافت کا دار السلطنت روافض کے پاس چلا جانا اور وہ بھی ”بذریعہ امریکہ“، امت کے سمجھدار طبقوں کیلئے ایک غور طلب واقعہ ہے اور اِس بات کی ایک روشن بین دلیل کہ ہمارے وہ خوش فہم طبقے جو روافض کے صرف ’اینٹی امریکہ‘ چہرے سے ہی واقف ہیں اپنی اِس سادہ لوحی سے بری طرح مار کھا رہے ہیں۔
شیخ ناصر العمر کے ویب سائٹ ”موقع المسلم“ کے ایک تحریر نگار امیر سعید اپنے ایک مضمون میں، جس کا حوالہ ذیل میں دیا جا رہا ہے، ایران کے ٹی وی چینل ”العالم“ کے حوالہ سے ایک رپورٹ ذکر کرتے ہیں جس میں خبر دی گئی تھی کہ پچھلے چند مہینے پیشتر باراک ”حسین“ اوباما کی طرف سے عراق کے آیت اللہ ”علی“ سیستانی کی طرف باقاعدہ مکتوب روانہ کیا گیا تھا کہ وہ عراق کی حالیہ صورتحال کے حل میں امریکی انتظامیہ کی ’مدد‘ کریں۔ سیستانی کے رسمی ترجمان حامد الخفاف سے جب اِس بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے اِس کے جواب میں ”تقیہ“ اختیار کرتے ہوئے اِس پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے احتراز کیا۔امیر سعید لکھتے ہیں کہ عراق میں امریکہ کے متعین کردہ سابق حکمران پال بریمر نے اپنی تحریر کردہ یادداشتوں میں لکھا تھا کہ جب اُس نے آیت اللہ سیستانی سے ملاقات اور تعاون کی درخواست پر مشتمل ایک طلب روانہ کی تھی تو اس کے جواب میں سیستانی نے کہلایا تھا کہ اُن کا پال بریمر سے براہ راست اور علی الاعلان تعاون کرنا طرفین کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے! یہ ابھی ’ابتدائے عشق‘ کا واقعہ ہے اور یقینا اِس طویل عرصے کے دوران بہت کچھ ’پیشرفت‘ ہو چکی ہے۔ یہ امر یقینا باعث تجسس ہے کہ اوباما نے سیستانی سے تعاون طلب کیا ہے تو وہ کیا چیز ہے جو اِس تعاون کے بدلے میں سیستانی کی خدمت میں پیش کی گئی تھی؟!
کہیں ایسا تو نہیں کہ عراق میں امریکہ نے بھی بالآخر ”ولایت فقیہ“ کے اندر ہی پناہ ڈھونڈ لی ہے!؟ ’آیت اللہ‘ ایران میں بھی براہِ راست تو حکومت نہیں فرماتے، اب عراق کے سب سے بڑے آیت اللہ کا رول بھی کیا ’بادشاہ گر‘ سے ملتا جلتا ہونا تو طے نہیں کر دیا گیا؟!
مذکورہ مضمون کے حوالہ کیلئے: http://almoslim.net/node/133025