’مسلم ہند‘ کی بحالی کی طرف پیشقدمی
اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور
’کشمیری انتفاضہ‘ کا ظہور
محمد بن مالک
فلسطین میں دس سال قبل اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے نتیجے میں پھوٹ نکلنے والی ’عوامی‘ جہادی تحریک ’انتفاضہ‘ مسلمانانِ عالم کے حق میں نہایت مبارک اور حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص جہادی تحریکوں کے ولولے، جذبۂ ایمانی اور جوشِ جہاد میں اس فلسطینی تحریک کی اسپرٹ نے اپنے ظہور سے گویا ایک نئی رُوح پھونک ڈالی تھی۔ اور کفر کے گماشتوں کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ مسلمان بہرحال پسنے اور دبائی جانے والی قوم نہیں ہے۔ بنیادی طور پر فلسطین میں انتفاضہ کی اٹھان کی یہ ایک نئی کروٹ تھی۔ اس سے پہلے یہ 1987 سے 1993 تک اسرائیل کو ناکوں چنے چبواتی رہی تھی۔ لیکن اپنی تجدید کے بعد تو یہ لوہے کا چنا ثابت ہوئی! اب دنیا بھر میں جہاں جہاں کفار نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمانوں پر زمین تنگ کر رکھی ہے، وہاں انتفاضہ سے ملتی جلتی جہادی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ جس سے عالم ِ کفر کا ناطقہ سخت بند ہے اور انشاءاللہ زیادہ دور نہیں کہ اُس کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔ اپنے اِن اثرات کے سبب انتفاضہ اب جہادی اسپرٹ کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ یہ وہ جہادی اسپرٹ ہے جو جہادی تنظیموں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ یہ عام مسلمانوں میں پھوٹتی ہے اور قبضہ کاروں کے خلاف ایک عوامی مزاحمت یا سول بغاوت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ خود لفظ ’انتفاضہ‘ کا یہی مفہوم ہے۔
کشمیر میں بھی ہندوستانی قبضے کے بعد سے وہاں کے ساکنوں کی جانب سے آزادی کی جدو جہد جاری ہے۔ اب تک تو یہ جد و جہد جہادی تنظیموں کی کارروائیوں سے قطع نظر پر امن مذاکرات یا زیادہ سے زیادہ احتجاجوں اورہڑتالوں تک محدود تھی اور اِس عمل میں وہاں کے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حقوق کی تنظیمیں مسلمانانِ کشمیر کی نمائندگی، رہنمائی اور قیادت کرتی تھیں۔ لیکن گزشتہ کچھ مہینوں سے بھارتی سیکیورٹی فورسز کے کئی ایک جارحانہ اقدامات کے نتیجے میں وہاں کے مسلمانوں میں ایک جوابی رد عمل اور شدید مزاحمت اُبھرنے لگی ہے، جس کا دائرۂ کار عمومی ہے اور اکثر نو عمر اور کم سِن نوجوان ہی اِس بغاوتِ عام کا علم تھامے نظر آتے ہیں۔
تو کیا اب اِس خطے کی تبدیلی میں انتفاضہ کوئی کلیدی کردار ادا کرنے جارہی ہے؟؟؟!!!
فلسطین میں اب تک انتفاضہ کے ظہور کے بعد حالات کئی ایک اہم موڑ لے چکے ہیں۔ جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ باوجود اسرائیلی آبادکاروں اور فوجیوں کی بڑھتی جارحیت کے، پہلے کی نسبت بحیثیت مجموعی مسلمانانِ فلسطین کے حق میں جاتے ہیں۔ اور اِس کا زیادہ تر سہرا وہاں اُبھر آنے والی عوامی مزاحمت اور بغاوت یعنی انتفاضہ کے سر جاتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کا قیام اور بقا یہودیوں اور صہیونیوں کی لیے زندگی اور موت کے مسئلہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس میں وہ بظاہر کسی صورت پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہو سکتے، اِس کے باوجود انتفاضہ نے ان کی پیشقدمی کو کافی حد تک معطل کیا ہے اور عالمی ضمیر کے سامنے اُن کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
بھارت بھی اسی طرح کشمیر کو اپنی شہ رَگ اور اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ یہ اس کے لیے وہ حیثیت تو نہیں رکھتا جو یہودیوں کے لیے اسرائیل و فلسطین کی ہے، نہ ہی اِس پر اِس کی بقا کا سارا انحصار ہے۔ تاہم یہ بھی کسی صورت اس پر کسی تصفیہ کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ کشمیر کا خاص جغرافیائی محل وقوع ہے، جس کے سبب انڈیا کو خطے میں اپنے حریفوں پر ایک نفسیاتی اور اسٹریٹجک برتری حاصل ہے، اور مستقبل میں کئی ایک روشن امکانات بھی اس کے لیے کشمیر کے دَم سے وابستہ ہے، جن میں سے ایک ’اکھنڈ بھارت‘ کا خواب ہے!!
تاہم دوسری طرف انڈیا کے اپنے اندر ایک صد سے زائد علیحدگی پسندی کی مختلف تحریکیں چل رہی ہیں جنہوں نے اُس کے وسیع وعریض جُثے کو ہلا کے رکھا ہوا ہے۔
اندریں صورت، کشمیر کی اِس انتفاضہ کو انڈیا کب تک اور کس حد تک برداشت کرپائے گا؟ بلکہ کب تک اُس کا راستہ روک پائے گا؟!!
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کشمیر کی اِس انتفاضہ کا آغاز اِس سال کے جون میں ”کشمیر چھوڑدو تحریک“ سے ہوا جو مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر سے بھارتی فوج کے مکمل انخلاءکے مطالبے پر مبنی تھی۔ اس تحریک کی قیادت اگرچہ مختلف حریت پسند کشمیری رہنما کر رہے تھے، لیکن عوام بھی اِس احتجاج و مزاحمت میں جان ہتھیلی پر رکھے نظر آتے تھے۔ احتجاج کا سبب کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوج کے بڑھتے مظالم اور اس کے لیے اُنہیں دستیاب لامحدود اختیارات تھے جو 11 ستمبر 1958 کو انڈین پارلیمنٹ میں پاس کردہ ”آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ“ (اے ایف ایس پی اے) انہیں کشمیر و دیگر مقبوضہ علاقوں کے اندر عطا کرتا ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں پرُ تشدد کارروائیوں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد باربار باقاعدہ تصادم اور ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں مختلف جھڑپوں میں سو سے زائد مسلمان نوجوانوں کو شہید کردیا گیا۔ صوبے میں کرفیو نافذ کردیا گیا لیکن مسلم علیحدگی پسندوں نے اُس کی تعمیل سے انکار کر دیا۔ کشمیری نوجوانوں نے گروہوں کی شکل میں سخت کشیدہ صورتحال میں بھی بھارتی فوج اور پولیس چوکیوں پر پتھراؤ کے ذریعے اپنا احتجاج جاری رکھا اور بھاری جانی نقصان بھی انہیں مزاحمت اور مظاہروں سے باز نہیں رکھ سکا۔ کشمیری نوجوان نعرے لگاتے اور پتھراؤ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اُن پر شیلنگ، اور گولیوں کی براہِ راست بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ ایک طرف اولادِ ابراہیم ہے، اور ایک طرف آگ اور نمرود!!!
بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں جاری مزاحمت اور بغاوت کی ایسی کوئی مثال اِس سے پہلے نہیں ملتی۔ اور مزاحمت جتنا دبائی جاتی ہے اسی قدر اُبھرتی نظرآتی ہے۔
اس دین نے مسلمانوں کی فطرت کو کچھ ایسی ہی جِلا بخشی ہے!!
لگتا ہے کہ تنگ آئے ہوئے کشمیری عوام خطے کے مستقل اور پائیدار حل تک کسی چارہ گر سے امیدیں لگائے بغیر خود ہی تہیۂ طوفاں کیے بیٹھے ہیں! اور یہی وہ چیز ہے جو انتفاضہ کا جوہر ہوا کرتی ہے۔
حتی کہ مقبوضہ کشمیر کا کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ ”باپ دادا کے نقش ِ قدم“ سے ہٹ کر، بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں پر بر سرِ پارلیمنٹ سراپا احتجاج بنتا دیکھا گیا۔ دیگر غیر معمولی بیانات کے ساتھ ساتھ اُس کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے، اِس کو سیاسی طریقۂ کار کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہیے۔ دوسری تمام تدبیریں رائیگاں ثابت ہوں گی، خواہ بظاہر کتنا ہی کشمیریوں کے حق میں ہوں۔ اُس نے ہندوستانی حکومت کے اس پرانے راگ کہ ”کشمیر اُس کا اٹوٹ انگ ہے“ کے بار بار الاپے رہتے جانے پر سخت جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا۔ اُس کے بیانات سے کشمیر اسمبلی میں ایک زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔
اللہ کی شان! کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کی گفتگو میں بھی ”بغاوت کی بو“ صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ کشمیر کی سلگتی کوکھ سے جنم لینے والی انتفاضہ کا ہی اثر ہے کہ ہندوستانی حکومت کے نمک خوار وزیر اعلیٰ نے گویا وادی میں نئی رُتوں کا نقشہ مرتب ہوتے دیکھ لیا۔پھر اس آئندہ نقشہ کے مطابق اپنا رُخ متعین کر لینا تو وقت کا تقاضا ہی تھا!
٭٭٭٭٭
نیا دور اپنی جس خصوصیت کی بناءپر تاریخ کے تمام ادوار سے مختلف و ممیّز ہے اور جس کی بدولت آج کے سامراج کے لیے گھر بیٹھے دنیا بھر میں اپنا سکہ چلائے رکھنا ممکن ہے، وہ ہے: گلوبلائزیشن۔ دنیا کے کسی ایک خطے میں کوئی تبدیلی آتی ہے، آن کی آن میں تمام دنیا اُس تبدیلی کے اثرات کو محسوس کر رہی ہوتی ہے۔ ابھی تک تو اِس دور کی تمام تبدیلیاں نئے دور کے جھوٹے خداؤں کی مرضی کے مطابق لائی جارہی تھیں، اور باقی تمام دنیا خود کو اُن کے مطابق ڈھالتی جارہی تھی۔اور اُس پر ایک گونہ فخر بھی کرتی تھی۔ لیکن گلوبلائزیشن کے ”خالقوں“ کو کیا پتہ تھا کہ کبھی یہ اُلٹا اُنہی کے خلاف پڑنا شروع ہو جائیگی۔
کفر کے سر غنوں کو اُن کے قبضہ کردہ مسلم ممالک میں مار کیا پڑنا شروع ہوئی ،اور ان کی معیشت کو زوال کیا آنا شروع ہوا کہ تمام دنیا میں ایک ہلچل سی مچنے لگی۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وقت کے فرعون کو بھی کبھی اِس طرح اپنے لالے پڑ سکتے ہیں۔ وقت کے خداؤں کا یوں ذلیل و رُسوا ہونا کوئی معمولی واقعہ تو نہ تھا۔ چنانچہ ہر کوئی نئے سرے سے اپنی پالیسیاں مرتب کرنے پر غور کرنے لگا۔ دوسری طرف ڈیڑھ دو صدی کی مجبور و محکوم مسلمان قوم کو اپنی خاکستر میں چھپی چنگاریوں کی شعلہ فشانی آشکار ہونا شروع ہوئی۔ جو دشمن کے وسیع و عریض وجود کے لیے اُسی طرح کافی ہو سکتی ہیں جس طرح بھوسے کے ایک بڑے ڈھیر کو راکھ کردینے کے لیے ایک چنگاری ۔ چنانچہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا مورال بلند ہونے کی صورت نظر آنے لگی۔بدی کے محور تین ممالک میں سے دو یعنی امریکہ اور اسرائیل کے گلے میں تو یہ مسلم قوم پھنسی ہوئی ہی تھی جو اُن سے اُگلے جا رہی تھی نہ نگلے جانے پر ہی تیا ر تھی۔یوں دنیا بھر کے امن وآشتی کی سب سے بڑی علم بردار، انسانیت کی ہمدرد، منصف مزاج اور معصوم قوم ان کے اقدام کی وجہ سے اب اُنہی کے گلے پڑی ہوئی تھی! اس صورت حال سے حوصلہ پا کر تیسرے ملک انڈیا کے سامنے بھی اب اُس کے مظلوم اور مقہور مسلمان عوام کشمیر کے اندر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ کسے خبر تھی کہ گلوبلائزیشن بھی اِس پسی ہوئی اُمت کے فلسطین تا عراق اور افغانستان تا کشمیر یک جہت و یک آواز ہو جانے اور مل کر اُٹھ کھڑے ہونے کا سبب بن جائے گی!!
اب صورت حال یہ ہے کہ محض اِس گلوبلائزیشن کی بدولت بدی کے محور اِن تین ممالک میں سے کوئی بھی ایک، مسلم قوم کے ساتھ کوئی معاملہ کرتا ہے، اُس کے اثرات بدی کے محور بقیہ دو ممالک کے ساتھ جاری مسلم کشمکش پہ بھی پڑتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ مسلمانوں کے خلاف ہو تو بقیہ حصوں میں بھی مسلمانوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے خطوں میں جدو جہد اور تیز کر دیتے ہیں۔ اور اگر یہ معاملہ مسلمانوں کے حق میں ہو تو مسلمانوں کی ہمت اور حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور اُن کی کارروائیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ چنانچہ کشمکش ہے کہ بہر صورت تینوں کے ساتھ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ تینوں ممالک مل کر اپنے طور پر ایک ہی تصویر کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید تینوں ہی کی نئی صورت گری اِس مسلم قوم کے ہاتھوں عنقریب ہونے جارہی ہے۔ آغاز بہر حال ہوچکا ہے۔ عاقبت کی خبر خدا جانے!
سب سے اہم بات مسلم ”عوام الناس“ بالخصوص عام نوجوانوں کا تمام خطروں سے بے نیاز ہو کر بغاوت پر اُتر آنا ہے۔مسلم تنظیمیں اور تحریکیں خواہ کفار کے قبضے کے خلاف جدو جہد کر رہی ہوں یا مسلمان ملکوں کی سیکولر حکومتوں کے خلاف، اُن کے لیے عوام الناس کے اُٹھ کھڑے ہونے سے بڑھ کر کوئی اور مدد و نصرت نہیں ہوتی۔ اِس کے بعد عوام کی کوششوں کو تیز تر کیے رکھنا، ان کی قربانیوں کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں کروانا اور اُن کا پھل حاصل کرنے کی تمام تر کوششیں کرنا پھر اِن کے ذمہ ہوتا ہے۔لوگ سب کے سب مل جُل ایک چیز پر تیار ہی ہو جائیں، تو پھر کوئی طاقت انہیں اپنے مقصد کے حصول سے باز نہیں رکھ سکتی۔البتہ لوگوں کی کوششوں کے جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ مفید نتائج برآمد کروانا اُن کے رہنماؤں اور قیادتوں کے سر ہوتا ہے،اِس اَمر سے ہوشیار رہتے ہوئے کہ اُن کو کہیں عارضی اور کم تر فوائد کی حامل کسی فریب کُن شے سے بہلا نہ دیا جائے۔ اگر کوئی بڑا فائدہ متوقع ہو اور نگاہِ بصیرت سے دیکھ بھی لیا گیا ہو ، لیکن اُس کے حصول میں دیر اور کچھ صبر آزما مراحل درمیان میں حائل نظر آتے ہوں، تو بھی کسی جلد حاصل ہوجانے والے تھوڑے فائدے پر اکتفا کر لینے کی بجائے صبر اور انتظار ہی بہتر ہوتا ہے۔ لیکن آہ، ابھی اُمتِ مسلمہ کو وہ قیادتیں ہی کہاں نصیب ہیں جو دور تک دیکھ لینے کی اہلیت سے مالامال ہوں۔ اِس کے علاوہ اُمت کا سب سے بڑا رونا ہی کیا ہے؟! نظر جہاں تک کام کرسکتی ہو، مقاصد اور پلاننگ بھی اس حد تک ہی طے کی جا سکتی ہے۔ لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہر حال بہتر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کشمیر کی حریت کے رہنما کشمیر کی انتفاضہ کی صورت میں اُٹھنے والی آزادی کی اِس نئی اور توانا لہر کو کس طرح تازہ رکھتے ہیں اور کس طرح اِس تحریک کو زیادہ سے زیادہ بارآور کرنے اور اپنی قوم کے حق میں کیش کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ویسے تو کشمیر کے مسلمانوں کی یہ جد و جہد جو کہ ہندوستانی قبضہ کے خلاف ہے، یقینی طور پر جہاد ہی کے زُمرے میں آتی ہے۔ دنیا میں مسلمان کفار کے قبضے یاظلم وستم یا جارحیت کے خلاف جہاں کہیں بھی مزاحمت کر رہے ہوں ، وہ بلا شبہ جہاد ہے، اور اُسے جہاد قرار دینے کے لیے یہ پیشگی معلوم کر رکھنا قطعاً کوئی شرط نہیں ہے کہ اُس جہاد کے کامیاب ہو جانے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے اگلے اقدامات کیا ہوں گے! شرط صرف یہی ہے کہ وہ مسلمان ہوں۔ باقی اُن کی ”جنگ“ کا اُن کے جائز حقوق کے لیے ہونا تو سبھی کو تسلیم ہے۔
تاہم فلسطین اور افغانستان میں ہونے والی جنگ کا اپنا ہی ایک رنگ ہے۔ بالخصوص افغانستان میں ہونے والی لڑائی سے یہ صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ محض” حقوق کی جنگ“ نہیں ہے بلکہ دو ملتوں کے درمیان حق و باطل کی کوئی کشمکش ہے۔ اور خیر و شر کا کوئی اَزلی کارزار ہے جس کا راگ یہاں الاپا جا رہا ہے۔ (اگرچہ ”محض حقوق کی جنگ“ ہونے کی صورت میں بھی یہ جہاد ہی ہوتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی کفریہ شعار نتھی نہ کیے گئے ہوں) اِسی وجہ سے فلسطین اور افغانستان کے جہاد کو تمام دنیا کے مسلمانوں کی ایک خاص ہی تائید اور مدد حاصل ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کی تائید سے تو کشمیر کا جہاد بھی محروم نہیں ہے۔ لیکن اگر وہاں کے مسلمان اور آزادی کے رہنما اسے زیادہ وا شگاف اور واضح انداز میں اسلام اور کفر کے معرکے کے طور پر عالم ِ اسلام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور اِسے اپنے طرزِ عمل سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ یہ جد وجہد ایک نہایت زبردست مومینٹم حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے بلکہ کشمیر ہی نہیں تمام ”مسلم ہندوستان“ کی آزادی کا پیش خیمہ اور مقدمہ ثابت ہو سکتی ہے وہ مسلم ہند جس کے سب پانیوں پر صدیوں تک صرف مسلم سلاطین کا تصرف تھا !!!
٭٭٭٭٭