میرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں میں خبر کرو....!
‘ کالے جھنڈے’
یہود کی نیندیں حرام کرنے لگے!
تحریر: شیخ حامد العلی
استفادہ: حامد کمال الدین
کوئی بعید تو نہیں کہ دنیا عنقریب امریکا پر خدا کے غضب کا کوڑا برستا ہوا دیکھے! اللہ تعالیٰ ان کے دل اوندھے کر دے اور وہ اپنے ہی مابین ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں! کیا بعید تھوڑے ہی عرصے بعد پورا امریکہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہو اور دنیا کو وہی تماشا خود اُس کے اپنے ہاں دیکھنے کو ملے جسے وہ ہمارے ہاں دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے بلکہ جس کا وہ ہمارے یہاں پورے اہتمام اور بڑی تگ و دو کے ساتھ انعقاد کرتا پھر رہا ہے!
خدا نے کئی نشانیاں اِس فرعون کو دکھائیں مگر یہ اپنی رعونت سے باز نہ آیا۔ ’نائن الیون‘ کی کڑک آئی، پر دنیا نے دیکھا اِس کی گردن استکبار سے کچھ اور ہی تنی!عراق کے شیروں نے اِس کی ٹیکنالوجی کا زعم خاک میں ملایا اور اللہ کے فضل سے اس کے ہزاروں وردی پوش تابوتوں میں ڈال ڈال کر اِس کے گھر بجھوائے (جی ہاں! اللہ کے فضل سے ہزاروں، اگرچہ میڈیا کو اُس کا ذکر کرنے کی اجازت نہ تھی!) پھر کیٹرینا کا طوفان آیا اور اس کو مالک کی قوت کا پیغام دے کر گیا، مگر یہ اپنی خدائی کے نشے میں دھت رہا۔ پھر اقتصادی بحرانات نے اِس کو نگلنے کیلئے اپنا منہ کھولا جوکہ اس کی طرف اب بھی پوری قوت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور یہ دیکھے تو یہ برابر اُن کے جبڑوں کی زد میں آتا جا رہا ہے، پھر وہ حادثہ ہوا جس کے نتیجے میں تیل کا اتنا بڑا نقصان ہوا.... لیکن یہ سب اُس کے مقابلے میں کچھ نہیں جو اس کے ساتھ ہونے والا ہے۔ ان شاءاللہ دنیا اِس فرعون کی لاش عنقریب کسی کیچڑ میں لت پت دیکھے گی۔
البتہ.... لگتا ہے اللہ نے اِس طاغوت پر برسانے کیلئے اپنا جو اصل کوڑا بچا رکھا ہے، وہ افغانستان کے شیر ہیں! یہ خدا ہی ہے جس نے اس سرکش کو شیروں کی اِس کچھار میں جانے کی راہ دکھائی! جی ہاں، یہی کالے جھنڈے! تحریک طالبان! تحریک عزیمت! فولادی ارادوں کے مالک یہ اللہ کے شیر! نانِ جویں بھی شاید ہی میسر ہو مگر قوتِ حیدری پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے لگی ہے!!! یہ ربانی فوج جو امریکہ کے بڑے بڑے پھنے خاں جرنیلوں کو ایک ایک کر کے بھگاتی رہی ہے! تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہاں ’جرنیل‘ تبدیل کرنے کی ضرورت آ پڑتی رہی ہے، دنیا سوچتی تو ہوگی کہ کیوں! آخری جرنیل جو اِس ذمہ داری سے سبکدوش کیا گیا مک کرسٹل تھا، جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا تھا اور جس نے آخر میں اوباما پر پھبتیاں کسیں، اُس کے نائب کا مذاق اڑایا، اور وائٹ ہاؤس کے سبھی داروغوں پر خندہ زنی کی! سمجھنے والوں کیلئے مک کرسٹل کا یہ نوحہ بہت کافی تھا جو اُس نے اپنی قوم کو ورلڈ ایمپائرز کے قبرستان میں دھنستے ہوئے دیکھ کر کہا تھا!
اور اب مک کرسٹل کا جانشین پیٹریس ”فارن پالیسی“ نامی جریدہ میں مضمون لکھتا ہے، جس میں وہ انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر قبضے کے بعد کے سالوں میں طالبان اور دیگر انتہاپسند عناصر (حالانکہ انتہاپسند وہ خبیث خود ہے) رفتہ رفتہ پاک افغان بارڈر کے علاقوں میں جڑیں بنا لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جہاں انہیں اپنی منصوبہ بندی، رابطوں اور اپنی کارروائیوں کیلئے کچھ بنیادی ضرورتیں پوری کرنے میں قابل ذکر کامیابیاں ملی ہیں اور یہ کہ یہ تنظیمیں اِن آخری سالوں کے اندر افغان عوام پر پرتشدد حملے کرنے میں کامیاب ہونے لگی ہیں (حالانکہ اُس کا جھوٹ اظہر من الشمس ہے، طالبان صرف وہاں پر بیرون سے آئی ہوئی قابض فوجوں پر حملے کرتے ہیں، افغان عوام تو طالبان کے ہم خیال اور پشت پناہ ہیں) اور یہ کہ طالبان افغانستان میں بیرونی قبضہ کاروں کی مسلط کردہ حکومت اور ایساف کی فورسز پر حملوں میں بھی کامیاب جا رہے ہیں اور اپنی صفیں منظم کرنے میں بھی کامیاب ہیں، جس سے وہ نہ صرف افغانستان اور پورے خطے کیلئے بلکہ دنیا کے کئی ایک ملکوں کیلئے خطرہ کی صورت دھار گئے ہیں!
پھر پیٹریس کے اِن بیانات کی ہوا نکالنے کیلئے انڈی پنڈنٹ کے مشرق وسطیٰ پر اتھارٹی مانے جانے والے مبصر پیٹرک کوکبیرن کا تبصرہ آتا ہے، جس میں وہ کہتا ہے کہ: دراصل جنرل پیٹریس کو ایک ایسی جنگ کی ذمہ داری نبھانی ہے جس کے بارے میں امریکہ جانتا ہے کہ وہ اُس کو فوجی سطح پر نہیں جیت سکتا، لیکن وہ کوئی بڑا نقصان کرائے بنا اُس سے پیچھے ہٹنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا کیونکہ اِس کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنا بھی اُس کے لئے وارے کا نہیں۔ کوک بیرن صاف لکھتا ہے کہ بغداد اور کابل ہر دو میں یونائٹڈ اسٹیٹس کے مفادات کچھ ایسے داؤ پر نہیں لگے ہوئے تھے کہ اس کیلئے اپنا لاؤ لشکر لے کر وہاں پہنچنا ضروری ہو گیا تھا۔ بلکہ امریکہ ان دونوں جنگوں میں صرف اِس لئے پھنس گیا کہ نائن الیون کے بعد وہ بطور سپریم پاور دنیا میں ایک بار اپنا طنطنہ قائم کر کے دکھا لے۔ کوک بیرن کہتا ہے، امریکہ نے ایک ہی وقت میں اِن ہر دو جنگوں میں پائے رکاب دینے کا فیصلہ اِس لئے کیا کہ اس کا خیال تھا ان دونوں ملکوں میں جنگ جیت آنا آخر کونسا مشکل کام ہے! لیکن اب امریکہ کے گھاگ سیاستدان اپنے آپ کو ایک ایسی جنگ میں گھرا ہوا دیکھ رہے ہیں جو دھیمی رفتار کے ساتھ اِس کا خون نچوڑ رہی ہے، اور جس میں دنیا امریکہ کے کر وفر کا مظاہرہ دیکھنے کی بجائے اُس کی کمزوری اور بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہے! یہاں تک کہ دنیا بچشم سر دیکھ رہی ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے ہیبت ناک جنگی قوت کی مالک دنیا کی ’واحد عالمی طاقت‘ دنیا کے سب سے کمزور اور سب سے نہتے علاقائی سطح کے کچھ چھوٹے چھوٹے لڑاکا ٹولوں کو قابو کرنے سے عاجز ہوئی جاتی ہے!
یہ مجاہد لے دے کر آخر کتنے ہوں گے ؟ عراق اور افغانستان ہر دو میں مجاہدین ملا جلا کر اگر تیس تیس ہزار کی تعداد کو پہنچتے ہوں تو بڑی بات ہے!کوئی دیکھے تو سہی، دنیا کی یہ سپریم پاور کس سے جنگ ہار رہی ہے!!!
کوک بیرن نے بالکل صحیح جگہ انگلی رکھی، امریکہ کو جو چیز عراق اور افغانستان میں لے کر آئی وہ اس کا تکبر اور اس کی رعونت سے تنی ہوئی گردن تھی۔ مگر اب وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کا نہتا دشمن اس کا خون پورے تسلسل کے ساتھ نچوڑ رہا ہے، اور خون کے ساتھ نہ جانے کیا کیا کچھ!
دنیا کے جباروں اور کج کلاہوں کو سبق سکھانے والی خدائی سنت عمل میں آتی ہوئی، اب بہت سوں کو نظر آنے لگی ہے۔ جو نہیں دیکھ رہے، اور شاید نہیں دیکھنا چاہتے، وہ بھی ان شاءاللہ عنقریب دیکھیں گے.... رہے نام اللہ کا!!!
امریکا نے ہمارے گھروں میں اودھم مچانے کیلئے ہمارے دو ملک چنے تھے: عراق، جوکہ خلافت کی رمز ہے، صدیوں تک خلفائے بنی عباس کا پایہ تخت اور اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے اور امت کے عظیم محدثین، فقہاء، صلحاءاور نابغۂ روزگار شخصیات کا مسکن چلا آیا ہے۔ چنانچہ ہماری عزت خاک میں ملانے کیلئے امریکہ کو یہی جگہ بہترین نظر آ رہی تھی۔ اور دوسرا، افغانستان جو پچھلے کئی عشروں سے عالم اسلام کی قوت کی رمز بنتا جا رہا تھا، اور جہاں مجاہد جذبے اور ولولے امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کیلئے نہایت خوبی اور حسن کے ساتھ اپنا ظہور کرنے لگے تھے۔
اور آج شاید دنیا کا کوئی تجزیہ نگار نہ ہو جو اِس امکان کو رد کر سکے کہ امریکہ کیلئے افغانستان ویتنام ایسی دلدل بننے جا رہا ہے۔ وہ دن تصور کرنے کا ہے جب امریکہ شکست اور ذلت سے تار تار دامن گھسیٹتا ہوا یہاں سے رخصت ہو گا!!!
یہ دن ان شاءاللہ اب بہت دور نہیں، اور ایسا کہنے کی ہم اپنے پاس کئی ایک وجوہات رکھتے ہیں:
1- افغانستان تاریخ میں ہمیشہ سے ایسا رہا ہے۔ یہ صرف اسلام کے ہاتھوں فتح ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی اس کو فتح نہیں کر سکا۔ یہ ہمیشہ سے ہی بڑے بڑے متکبروں کا قبرستان بنتا رہا ہے، جب سے اسکندرِ اعظم اس میں غرق ہوا، یہاں تک کہ برطانیہ یہاں پر برباد ہوا، پھر روس موت پانے کیلئے یہاں پہنچا.... یہاں تک کہ اب صیہونی صلیبی اتحاد اپنی موت مرنے کیلئے یہاں آ پہنچا اور اب ٹکریں مارتا پھر رہا ہے، کہ اس سے نکلے تو کیونکر!
2- دوسری بات جو افغانستان کو اِس حوالہ سے نہایت ممتاز کرتی ہے، اور اِس میں شاید ہی عالم اسلام کا کوئی اور اہم خطہ افغانستان کا ہم پلہ ہوسکتا ہے، یہ ہے کہ یہاں وہ عنصر نہایت ضعیف ہے جو مسلمانوں کی پوری تاریخ میں امت کے ساتھ غدر اور خیانت اور نفاق کیلئے جانا پہنچانا ہے، ہمارا مطلب ہے روافض، جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ رقم طراز ہیں:
فلینظر کل عاقل فیما یحدث فی زمانہ، وما یقرب من زمانہ من الفتن، والشرور، والفساد فی الاِسلام، فاِنہ یجد معظم ذلک من قِبل الرافضۃ، وتجدہم من أعظم الناس فتنا وشراً، وأنہم لا یقعدون عما یمکنہم من الفتن، والشر، و اِیقاع الفساد بین الأمۃ(1)
”ہر عقلمند کو چاہیے کہ وہ خود اپنے زمانے کے واقعات پر نظر دوڑائے، اور اپنے زمانے سے متصل زمانے کے واقعات پر نظر ڈالے، اُس کو صاف دکھائی دے گا کہ اسلام کے اندر جو بھی فتنے، جو بھی شر اور جو بھی فسادات برپا کئے جاتے رہے، ان میں سے بیشتر کے پیچھے یہی رافضہ کارفرما رہے۔ آپ دیکھیں گے کہ فتنے اور شرور برپا کرنے میں اس ٹولے کا کوئی ثانی نہیں، اور یہ کہ امت کے اندر فتنے اور شرور اور فساد پھیلانا جس قدر بھی ان کے بس میں ہو، یہ اس میں کبھی کوئی کوتاہی نہ کریں گے“۔
دور کیوں جائیے، جن لوگوں نے عراق کی صورتحال کو قریب سے دیکھا ہے، جن لوگوں نے عراق کے اندر صلیبی قبضہ کاروں کے پیر جمتے دیکھے ہیں، اُن میں سے کوئی ایک بھی شخص اِس بات سے اختلاف نہ کرے گا کہ عراق میں یہ منافقین اگر اِتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے (یعنی ملک کی ایک تہائی!) تو صلیبی افواج کو عراق پر قبضہ کا موقع ہی نہ ملتا۔ اہل عراق تن تنہا اِس بیرونی صلیبی یلغار سے نمٹ لیتے، بے شک ان کے پڑوس میں غدر اور خیانت کی کتنی ہی بڑی واردات کرنے والی کینہ پرور ریاست کیوں نہ ہوتی۔ اہل عراق اللہ کے فضل سے اکیلے طاقت رکھتے تھے کہ وہ صلیبی حملہ آوروں کا بھرکس نکال دیتے ۔ چنانچہ عراقی صورتحال کو قریب سے جاننے والے اِس صورتحال کا سب سے بڑا سبب آپ کو یہی بتائیں گے کہ عراق کی بدقسمتی یہ رہی کہ اِس ملک کے اندر رافضہ اِس بڑی تعداد کے اندر پائے گئے۔ غدر کے اِسی منبع کی بدولت صلیبی حملہ آوروں کو عراق میں قبضہ جمانے کا موقع ملا، اور اسی کی بدولت ان کو عراق کے اندر اپنے پیر مضبوط کرنے کا موقع ہاتھ آیا، اور اِسی سے عراق کے المیوں کا ایک سلسلۂ لا متناہی وجود میں آیا۔
3- تیسری بات یہ کہ صلیبی قبضہ کار افغانستان کے اندر وہ سیاسی ڈرامہ اسٹیج کرنے میں ناکام رہا ہے جس میں وہ عراق کے اندر کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔ آج بھی اللہ کا شکر ہے عراق میں جہاد کے پرچم سرنگوں نہیں ہوئے۔ پھر بھی ”صحوات“ کے نام سے جہاد کے خلاف ایک کھیل کسی حد تک کامیاب ضرور ہوا ہے، اور اُس میں بھی، جیسا کہ سب کو معلوم ہے، زیادہ بڑا فیکٹر روافض کا رہا ہے، جس نے صلیبی قبضہ کاروں کو وہ کام دیا ہے جو کوئی اور نہ دے سکتا تھا۔ مگر اللہ کا شکر ہے افغانستان میں صلیبیوں کے یہ ہتھکنڈے بری طرح ناکام جا رہے ہیں۔ ایک تو اِس لئے کہ عراق کے برعکس، افغانستان میں بیرونی قبضہ کاروں کے آنے سے پہلے طالبان ملک کے شرعی حکمران رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، طالبان افغان عوام کے دلوں میں بستے رہے ہیں۔ طالبان اپنی اُس تمام تر نیک سیرتی کے ساتھ اب بھی افغان عوام کی یاد داشت سے محو ہوئے ہیں اور نہ ان کے دلوں سے۔ وہ امن و امان جو افغان در و دیوار کو طالبان کے ہاتھوں میسر آیا تھا اور وہ عدل جس کا نظارہ افغان قوم نے طالبان کے دورِ اقتدار میں کیا تھا اور وہ راحت اور بے فکری جو ان کو طالبان کی وساطت میسر آئی تھی، افغانوں کے دلوں سے محو ہو ہی نہیں سکتی، خواہ ان کے خلاف پراپیگنڈے کا ہتھیار جتنا بھی برت لیا جائے۔ پھر دوسرا یہ کہ طالبان نے اپنی اِس نیک سیرتی کو جہاد کے اِن طویل سالوں کے اندر بھی کوئی ٹھیس نہیں لگنے دی۔ تیسرا یہ کہ افغان قوم اپنے طبائع کے لحاظ سے دنیا کی باقی سب قوموں سے مختلف وممتاز ہے، اور اس کے بے شمار شواہد موجود ہیں۔
4- چوتھی بات یہ کہ افغانستان میں صلیبیوں کے جتنے دم چھلے ہیں، خواہ وہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا ’صدر‘ کرزئی ہو یا اِس سے کمتر درجے کی کوئی ضمیر فروش مخلوق، پورے افغان معاشرے میں ان کو نہایت احتقار سے دیکھا جاتا ہے۔ سب ان کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ نیچ ذات اچکوں اور غدار طالع آزماؤں کا ایک بے آبرو ٹولہ ہے، جنہوں نے افغانستان کو شر اور فساد اور منشیات سے بھر رکھا ہے، بعد اِس کے کہ طالبان نے اِن سب لعنتوں سے ملک کی جان چھڑائی تھی اور بڑی محنت کے ساتھ اِن مصائب سے ملک کی تطہیر کی تھی۔ پوری افغان قوم اِس برسر اقتدار ٹولے کو اِسی نظر سے دیکھتی ہے کہ گھر کے اصل مالک کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھانے والا یہ چوروں کا ایک مافیا ہے جس کو اپنے بینک بیلنس میں ملینوں کے ملین بھرنے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں، لہٰذا وہ افغان قوم کی ہی دولت نہیں لوٹتا پھر رہا بلکہ جس مول بھی بکے وہ افغان قوم کی عزت و آبرو کا بھی سودا کرتا پھر رہا ہے۔ افغان قوم اللہ کا شکر ہے بخوبی سمجھتی ہے کہ امریکہ اور اس کی سربراہی میں چلنے والے صیہونی صلیبی اتحاد کے پاس افغانستان کو دینے کیلئے کچھ ہے تو وہ ’حامد کرزئی‘ ایسی سوغاتیں ہیں اور یہ کہ یہ ملک واقعی اگر ان صیہونی صلیبی قبضہ کاروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو اس کے انجام کا اندازہ کرنا کچھ ایسا مشکل نہیں!
5- یہی نہیں.... ، جنگوں سے کٹے پھٹے افغانستان میں مشنری ورک (عیسائیت سازی) کے جو تجربات ہوئے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال رہے ہیں!!! انجیل بردار مشنریوں کیلئے دنیا میں غربت، پسماندگی اور قدرتی مصائب کی شکار اقوام وہی حیثیت رکھتی ہیں جو چیلوں اور گِدھوں کیلئے کہیں پر پڑا ہوا بے حس و حرکت مردار! مشنریوں کا خیال تھا کہ اِس لحاظ سے افغانستان میں ان کی لاٹری کھل گئی ہے، جس کے نتیجے میں ایک مسلم ملک کی ڈیموگرافی تک بدلی جا سکتی ہے۔ مگر کیا دیکھتے ہیں ان کی سب مشنری کوششیں افغان قوم کے ایمان کی بلند وبالا چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔ انجیل بردار مشنریوں کو افغان قوم میں کوئی ایسی دراڑیں نہیں ملیں جہاں سے یہ اپنے سمانے کیلئے کچھ گنجائش پا سکیں۔ البتہ اِس کا نیتجہ الٹا یہ نکلا کہ افغان قوم پر بیرونی قبضہ کاروں کا اصل چہرہ کھل گیا۔ افغان جان چکے، ان قبضہ کاروں کا اصل ہدف ان کی زمین میں پائے جانے والے قدرتی ومعدنی ذخائر سے بڑھ کر ان کے سینوں میں پایا جانے والا ”ایمان“ ہے اور قرآن اور محمد عربی ﷺ کے ساتھ ان کی ”وابستگی“، جس کے دفاع کیلئے ان کی آنکھوں کے سامنے کوئی سرفروشی کے ساتھ اپنی جانیں قربان کر رہا ہے اور بارود کی بارش میں اور گولیوں کی بوچھاڑ کے آگے بہادری کے ساتھ اپنے سینے پیش کر رہا ہے تو وہ طالبان ہیں۔ امریکی عقوبت خانوں میں جگہ جگہ قرآن اور دیگر اسلامی مقدسات کی جو توہین ہو رہی ہے، یوں اسلام کے خلاف افغان قوم کے امریکی ’محسنوں‘ کا خبث باطن جس طرح عیاں ہو رہا ہے، وہ بھلا افغان قوم سے کیونکر روپوش رہ سکتا تھا؟! اور آج یہ حال ہے کہ امریکہ میں قرآن جلانے کی بابت کوئی شخص بکواس کرتا ہے تو اُس کے خلاف سب سے پہلا مظاہرہ کابل میں ہوتا ہے!
6- پھر افغان قوم کو بہت قریب سے یہ دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے بلکہ واسطہ پڑا رہا ہے کہ اِس صیہونی مغربی قبضہ کار کی نظر میں افغان سویلین لوگوں اور معصوم و بے قصور شہریوں اور دیہاتیوں کی زندگی کا مول کتنا ہے! افغان بچے، افغان بوڑھے، افغان عورتیں اِس قبضہ کار کی نظر میں کسی تنکے کے برابر بھی کوئی حیثیت رکھیں تو بڑی بات ہے۔ان امریکیوں کی نظر میں کسی دوسری قوم کے شہریوں کی حیثیت حشرات الارض جتنی بھی نہیں۔ افغان قوم بچشم سر دیکھ رہی ہے کہ یہ کافر:
لاَ يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّةً وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (التوبہ:)
”وہ کسی مومن کے معاملہ میں کسی تعلق کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا، اور وہ ہی صاف زیادتی کرنے والے ہیں“۔
اِس کے بمباروں نے افغانوں کی شادیاں چھوڑیں اور نہ مسجدیں، نہ جرگے اور نہ جنازے۔ یہ انسان مار کر کسی چیز کا روادار ہوتا ہے تو ہونٹ سکیڑ کر ’سوری‘ کہنے کا!
7- افغان قوم بخوبی دیکھ چکی ہے کہ اِس قبضہ کار کے ہاتھوں ان کا ملک کیونکر صیہونی موساد کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ صرف صیہونی موساد ہی نہیں، ازل سے صیہونیوں کی دوستی میں بے چین و سرگرم بھارت اور اُس کی گماشتہ ایجنسیاں بھی.. جوکہ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالنے کیلئے بے صبر ہیں۔افغان قوم، جس کی واحد امید اِس وقت طالبان ہیں، دیکھ چکی کہ کس طرح دنیا بھر کے بدمعاشوں کی نظریں اس کے قدرتی وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔ کس طرح یہ افغانوں کی معدنی دولت کی بندر بانٹ کیلئے ایک دوسرے کو دعوتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر افغان قوم کو کوئی ذرہ بھر شک نہیں رہا کہ دنیا بھر کے بھیڑیے، گدھ، چیلیں ، بجو اور مردار خوری کا شوق رکھنے والی سب بدبو دار مخلوقات کس طرح ان کے گھروں کے گرد ہجوم کرنے کیلئے جمع ہو رہی ہیں اور یہ کہ معاملہ ایک بار اِن مردار خوروں کے ہاتھ میں آ گیا تو یہ افغانوں کی معدنی دولت سے پل پل کر دنیا بھر میں اسلام کے مقدسات کو تباہ و برباد کرنے کیلئے کیونکر پر تولیں گے۔
یہ تمام عوامل مل کر اِس بات کا سبب بنے ہیں کہ افغان قوم آج امریکی قبضہ کار کے خلاف جاری اِس جہادی عمل کے گرد جمع ہے۔ پوری افغان قوم اِس طاغوت کو لرزانے کیلئے کسی لاوے کی طرح کھول رہی ہے۔ جہاد اس کی گھٹی میں اتر چکا ہے۔ عزت، غیرت اور اسلامی حمیت اس کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ آج افغان قوم کا کوئی ہیرو نہیں، سوائے مجاہدین کے۔ اس کا خراج عقیدت کسی کیلئے پیش نہیں ہوتا، سوائے شہداءکے۔ اس کے ہاں تفاخر کی کوئی بنیاد نہیں سوائے اس بات کے کس باپ نے جہاد فی سبیل اللہ میں اپنے کتنے بیٹے گم کئے، اور کس ماں نے اپنے کتنے لال شہادت کے خون سے رنگین کروائے۔ کس کی راہِ خدا میں جائیدادیں گئیں اور کس کا کتنی دیر تک وطن چھوٹا رہا۔
تو پھر.... کیا وہ وقت آنے والا ہے کہ خدا اس قوم کو اس کا اعزاز نصیب کرا دے؟!!!
آج پوری افغان قوم اللہ کے فضل سے طالبان کے پیچھے کھڑی ہے۔ طالبان کا جہاد پوری قوت، پورے اعتماد اور پورے حوصلے کے ساتھ اپنے دشمن کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ یہ جہاد اللہ کی مدد اور توفیق سے وہ بے قابو طوفان بننے جا رہا ہے جس کے راستے میں دنیا کی کوئی چیز کھڑی نہ رہ سکے گی۔ اس کا دشمن ایک عالمی دشمن ہے۔ سب جانتے ہیں اِس افعیٰ کا سر کہاں ہے۔ یہ سانپ جو پوری دنیا پر کنڈلی مار کر بیٹھا ہے، سب کے علم میں ہے، اس کی چھپی ہوئی سری تل ابیب میں ہی ہے۔ سبھی کو معلوم ہے، اس کا پھن وہیں پر ہے۔ دیکھنے کو یہ متعدد محاذ ہیں جو مسلمانوں کو آج مختلف خطوں میں لڑنے پڑ رہے ہیں، مگر حقیقت میں یہ ایک ہی جنگ ہے۔ جیسے ہی اس جنگ کا فیصلہ افغانستان کے میدانوں اور پہاڑوں میں ہوتا ہے، آپ دیکھیں گے اس سے اگلے ہی لمحے یہ اپنے طبعی انجام کو پہنچنے کیلئے ارضِ مقدس میں اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہونے لگی ہے۔ وہ دن بھی ذرا تصور کرنے کا ہے! ہمارے بیت المقدس اور ہماری مسجد اقصیٰ پر قابض یہود آج کسی چیز سے سب سے بڑھ کر خائف ہیں تو وہ یہی ”کالے جھنڈے“ ہیں جو پشتون شیروں کے دم سے اب بہت اونچا ہو کر لہرانے لگے ہیں۔ ”کالے جھنڈوں“ کی لہراہٹ ارضِ بیت المقدس پر براجمان صیہونی قبضہ کار کا خون خشک کر ر ہی ہے۔ مجاہد پشتونوں کی سرزمین کو ان شاءاللہ وہ اعزاز ملنے والا ہے کہ پوری امت کا سر فخر سے اونچا کر دینے کا سہرا اِسی کے سر بندھے۔ ایک جہادِ فلسطین ہی کیا، دنیا کے ہر خطے میں ہونے والا جہاد آج افغان بازؤوں کی قوت پر انحصار کرنے لگا ہے۔ پوری امت کی آبرو کا سوال شاید یہیں پر آ رکا ہے۔ کیا امت کے دردمند جو عشروں سے اس امت کا سر اونچا دیکھنا چاہتے ہیں، اِس لحظہ کی نزاکت سے واقف ہیں؟ دامے درمے سخنے قدمے مدد کا وقت اب نہیں تو کب ہے؟
خبردار! یہ لحظہ جو کوئی صدی بھر کا کلائمکس ہے، ہماری کسی کوتاہی یا کسی بے احتیاطی کی نذر نہ ہو جائے!
خدایا! اِن ”کالے جھنڈوں“ کی لاج رکھ! خدایا! ان جھنڈوں کے لہرانے کیلئے وہ خوش گوار ہوائیں بھیج جن کی مہک پانے کیلئے امت عشروں سے اپنے بیٹے قربان کروا رہی ہے!خدایا! صیہونی صلیبی پھریرے افغانستان سے تار تار ہو کر یوں واپس ہوں کہ آئندہ وہ کسی ایسے دیس کی جانب میلی آنکھ کے ساتھ دیکھنے کی جراُت نہ کریں جس کی محرابوں میں تجھ کو سجدے ہوتے ہیں اور جس کے میناروں سے تیری تکبیریں اور اذانیں بلند ہوتی ہیں۔
خدایا! مجاہدین کو سرخرو کر!!!
(1) انٹر نیٹ پر منہاج السنۃ مؤلفہ امام ابن تیمیہ کی مذکورہ عبارت ملاحظہ کرنے کیلئے:
http://arabic.islamicweb.com/Books/taimiya.asp?book=365&id=3204