| | قارئین کے سوالات |
معاصر شخصیات کی جرح و تعدیل کا مسئلہ |
جوابات از قلم: مدیرایقاظ | | |
سوال: پچھلے شمارہ میں جناب محمد زکریا خان نے ”ڈاکٹر اسرار فی ذمۃ اللہ“ کے عنوان سے ایک مضمون میں ڈاکٹر اسرار صاحب کو خوب خوب خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ ہمارے لئے جو چیز سمجھنا دشوار ہو رہا ہے وہ یہ کہ آپ کے یہاں ایک طرف ”منہجِ سلف“ کو لے کر چلنے کا دعویٰ ہوتا ہے اور ”عقیدہ کی پختگی“ پر خوب خوب زور دیا جاتا ہے مگر دوسری طرف میاں طفیل محمد اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات فوت ہو جاتی ہیں تو اس موقع پر جس طرح دیگر جماعتیں اور گروہ ’لحاظ ملاحظہ‘ کی ایک رسمی کارروائی انجام دیتے ہیں عین اُسی انداز میں آپ بھی ان شخصیات کو ’کھلے دل کے ساتھ‘ سراہنے لگتے ہیں! ”عقیدہ کی پختگی“ ایسے موقعوں پر یکایک کہاں چلی جاتی ہے؟ رواداری اور لحاظ ملاحظہ کی یہ رسم، جو کہ ہمیں ایسے موقعوں پر ایقاظ کے ہاں بھرپور طور پر نظر آتی ہے، کیا یہ بھی ”منہجِ سلف“ کا حصہ ہے؟! امید ہے آپ سے یہ روپوش نہ ہو گا کہ ڈاکٹر موصوف وحدۃ الوجود کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے!
یا تو آپ وحدۃ الوجود کو کفریہ عقیدہ نہ سمجھتے ہوں، جبکہ متعدد مقامات پر آپ اس کو کفریہ عقیدہ ہی قرار دے چکے ہیں، یا پھر ڈاکٹر موصوف کا اِس سے رجوع کرنا ثابت کیا گیا ہوتا۔ جب دونوں باتیں نہیں تو ایسی شخصیت کو اِس تحسین آمیز انداز میں خراجِ عقیدت پیش کرنا چہ معنیٰ دارد؟ ان کی کوئی خدمات آپ کے نزدیک قابل تحسین تھیں بھی، تو کم از کم ایک متوازن انداز تو اختیار کیا جاتا؛ یعنی جہاں ان کی خوبیاں بیان کرنا ضروری سمجھا گیا وہاں ان کے اعتقاد کی خرابیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہوتی۔ مگر ان کو مطلق طور پر ایک ایسی ’اسلامی شخصیت‘ کے طور پر پیش کرنا گویا ان کے ہاں عقیدہ کی ایسی کوئی خطرناک خرابی پائی ہی نہیں گئی، کیا ایک گمراہ کن اسلوب نہیں؟
(محمدیونس سلفی، نتھیا گلی.. ع خ، امارات، ودیگر)
جواب:
اِس مضمون کے متعدد اعتراضات برادرم زکریا خان کی مذکورہ تحریر کے حوالے سے براہ راست اور بذریعہ ای میل اِس بار بھی ہمیں موصول ہوئے ہیں اور اِس سے پہلے شاہ اسماعیلؒ و سید احمد بریلویؒ کی تحریک مجاہدین، نیز مفتی شامزئیؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے بھی موصول ہو چکے ہیں۔ موخر الذکر پر ہم اپنا ایک بار کا اداریہ ”تحریکوں کی جرح و تعدیل کا معاملہ“ کے عنوان سے سپرد قلم کر چکے ہیں۔ اول الذکر پر ہمارا مضمون ”تحریک مجاہدین و تحریک طالبان“ شائع ہو چکا ہے، نیز ”مودودی صاحب سے وابستگی“ بھی اِسی سلسلہ میں تحریر ہوا ہے۔ لہٰذا اِس موضوع سے متعلق کئی ایک اصولی مباحث تو وہیں پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ چند باتیں یہاں بھی ہم قارئین کے سامنے رکھیں گے۔
سوال کا ایک حصہ اِس بات سے متعلق ہے کہ ایک شخص نے اگر ’وحدۃ الوجود‘ ایسے عقیدے کو اپنی کسی تحریر یا تقریر میں اون (own) کیا ہے، وہاں اُس نے ’وحدۃ الوجود‘ سے مراد کیا لی ہے؟ حکم جو بھی لگے گا، اُس شخص کے اُس اعتقاد پر لگے گا جو وہ ’وحدۃ الوجود‘ سے مراد لینے کے معاملے میں رکھتا ہے نہ کہ اُس اعتقاد پر جو ’وحدۃ الوجود‘ سے مراد لینے میں ہم رکھتے ہیں۔
سوال کا دوسرا حصہ اِس بات سے متعلق ہے کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک مبنی بر بدعت عبارت پائی گئی ہے، تو کیا اُس پر جھٹ سے کوئی حکم لگا دیا جائے گا؟ یا.... منہج سلف میں ایک بدعت کا محض قائل ہونا اُس بدعت کا باقاعدہ داعی ہونے کی نسبت مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے اور ہردو پر حکم لگانے میں الگ الگ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے؟
سوال کا تیسرا حصہ اِس بات سے متعلق ہے کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک بدعت پائی گئی ہے جبکہ اُس کے دامن میں بہت سی خیر بھی پائی گئی ہو اور اُس نے اسلام کیلئے بہت سے قابل تحسین امور بھی انجام دیے ہوں.... تو کیا ایک اجمالی انداز میں اُس کی تحسین کرنا حرام ہو جاتا ہے اور اُس کے لئے کچھ اچھے الفاظ بول دینا گناہ ٹھہرتا ہے تا آنکہ اُس کی بدعت کا چرچا بھی ساتھ ہی نہ کر دیا جائے؟ منہج سلف سے اِس بارے میں بھی کیا کوئی راہنمائی ملتی ہے یا نہیں؟
یہاں ہم اپنی گفتگو اِس تیسرے نکتے سے ہی شروع کریں گے اور پھر دوسرے نکتے سے ہوتے ہوئے پہلے نکتے پر آئیں گے....
پہلی بات:
آپ نے جو اعتراض کیا ہے، اُس سے ہم اگر کوئی ’قاعدہ‘ اخذ کرنا چاہیں.... تو گویا ’قاعدہ‘ یہ ٹھہرے گا کہ ایک ایسا شخص جس نے اسلام کیلئے بہت سے قابل تحسین امور انجام دیے ہوں، تاہم کسی جگہ اُس کی زبان یا قلم سے کوئی مبنی بر بدعت عبارت بھی صادر ہو گئی ہو.... تو ایک اجمالی انداز میں اُس کیلئے اچھے الفاظ بولنا ہی اب حرام ہو جائے گا!!! ”اجمالی انداز“ سے مراد ہے: ایک شخصیت کے ما لہٗ وماعلیہ کی پوری تفصیل میں جائے بغیر بات کرنا۔ آپ جانتے ہیں مضمون کا موضوع ایک معروف مسلم شخصیت کی وفات پر اظہارِ افسوس تھا اور حدیث نبوی لا تَذْکُرُوْاہَلْکَاکُمْ اِلاَّ بِخَیْرٍ(1) کے بموجب اُس کی دینی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا۔ ظاہر ہے مضمون کا موضوع نہ تو ایک شخصیت کا پورا ما لہٗ وما علیہ بیان کرنا تھا اور نہ اُس کے عقیدہ کی بابت پوری تفصیلات فراہم کرنا۔ (ایک شخصیت کی وفات کے موقع پر صورتحال عموماً اِس کی متحمل ہی نہیں ہوتی، اور جبکہ شرعاً ایسی کوئی قدغن بھی نہ ہو، جیسا کہ ابھی آگے چل کر ہم بیان کریں گے)۔ تاہم آپ کے اِس اعتراض سے یہی ’اصول‘ سامنے آتا ہے کہ ایک ایسی شخصیت کیلئے، خصوصاً اُس کی وفات پر، اجمالاً اچھے الفاظ بول دینا بھی حرام ہو جاتا ہے جب تک کہ اُس کے ہاں پائی جانے والی جملہ غلط باتوں کی بھی ساتھ ہی نشان دہی نہ کر دی جائے! یہاں ہم دریافت کریں گے: یہ آپ کے نزدیک حرام ہے تو آپ کے پاس اِس کو حرام ٹھہرانے کی دلیل کیا ہے؟؟؟ واضح رہے، دلیل اِس کے فی نفسہ حرام ہونے کی چاہیے۔ رہ گئی یہ بات، اور جو کہ اِس طرزِ فکر کے حامل طبقوں کی جانب سے عموماً کہی جاتی ہے، کہ ایسی شخصیت کیلئے اجمالی کلماتِ تحسین کہہ دینا اِس لئے ”حرام“ ہے کہ ان تحسین آمیز کلمات کو سن کر کچھ لوگ اُس سے منسوب ایک غلط اعتقاد کو بھی اختیار کر سکتے ہیں!.... تو ہم یہ عرض کریں گے کہ یہ اِس چیز کے فی نفسہ حرام ہونے کی دلیل نہیں بلکہ ان کی بیان کردہ اِس ’دلیل‘ کا تعلق مصالح اور مفاسد کے موازنہ سے ہے۔ (یعنی ان کا یہ کہنا کہ ’اس شخصیت کی اسلامی خدمات کو سراہ دینے سے لوگ اُس سے منسوب کسی غلط بات کو بھی قبول کر سکتے ہیں‘ کسی مزعومہ نقصان اور مفسدت کا ذکر ہے نہ کہ اس کی حرمت کی فی نفسہ دلیل)۔ اب جب ان کی ’دلیل‘ مصالح اور مفاسد سے متعلق ہے، تو آپ جانتے ہیں مصالح و مفاسد کا موازنہ ایک وسیع باب ہے۔ مصالح اور مفاسد کے موازنہ سے ضروری نہیں نتیجہ ہمیشہ ایک سا نکلے۔ کسی وقت ایک چیز کی مفسدت راجح ہو گی تو کسی وقت اُس کی مصلحت راجح ہو گی۔ مسئلۂ زیر بحث ہی کو لے لیجئے، آپ کے ذہن پر ایک چیز کی مفسدت غالب ہے (کہ مذکورۃ الصدر شخصیت کو محض سراہ دینے سے لوگ اُس سے منسوب کسی غلط اعتقاد کو قبول کرنے چل پڑیں گے) تو کسی دوسرے کے نزدیک ہوسکتا ہے یہ محض آپ کا وہم ہو، خصوصاً جبکہ وہ اپنے قارئین کو آپ سے بہتر جانتا ہو اور اُس کو بخوبی اندازہ ہو کہ اُس کے مخاطب کون لوگ ہیں اور اُن کا ذہنی و فکری معیار کیسا ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے، اپنے قارئین کو سامنے رکھتے ہوئے، اُس کے نزدیک اُس مفسدت کا امکان ہی سرے سے نہ پایا جاتا ہو، البتہ ایسا کرنے کے مصالح اُس کے نزدیک بے شمار ہوں۔ ایسی صورت میں ہمارے ناقدین کی یہی دلیل (کہ ایک چیز کو اُس کے ممکنہ فائدے یا نقصان سے ماپا جائے گا) اقتضاءکر رہی ہو گی کہ ایسی شخصیت کے محاسن بیان کئے جائیں اور اُس کی غلطیوں اور لغزشوں سے عمداً صرفِ نظر کر رکھا جائے۔ چنانچہ ایک چیز کے نقصان کا ’احتمال‘ ذکر کر دینا اس کے فی نفسہ حرام ہونے کی دلیل نہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے ’نفع و نقصان‘ والی اِس دلیل کا اقتضاءکسی وقت اِن حضرات کے اندیشے کے بالکل برعکس ہو۔ اور واقعتا مسئلۂ زیر بحث میں ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے، یعنی ایک ایسی شخصیت کیلئے کلماتِ خیر کہنے کے دواعی اِس کے موانع پر بے حد زیادہ بھاری ہیں۔ لہٰذا یہ اگر آپ کے نزدیک کوئی دلیل تھی تو وہ تو ”دلیل“ نہیں رہی۔ کم از کم بھی یہ کہا جائے گا کہ آپ کی یہ ”دلیل“ (جس کی رو سے ایک چیز کو اُس کے ممکنہ فوائد اور نقصانات سے ماپا جائے گا) ہمارے موقف کے حق میں بھی اتنا ہی جا سکتی ہے جتنا کہ __ آپ کے خیال میں __ یہ آپ کے موقف کی مؤید تھی۔ البتہ اِس چیز کے فی نفسہ حرام ہونے کی کوئی دلیل ہمارے یہ کرمفرما نہیں دے سکتے جو کسی وقت ہمارے تحریک مجاہدین کے حق میں اچھے کلمات کہہ دینے پر معترض ہوتے ہیں تو کسی وقت ملا عمر کی تحریک طالبان کو سراہ دینے پر تو کسی وقت مودودی صاحب کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کر دینے پر تو کسی وقت میاں طفیل محمد کے ذکر خیر پر اور اب ڈاکٹر اسرار مرحوم کیلئے اچھے الفاظ بول دینے پر ہمارے اِن قابل احترام بھائیوں کی جانب سے اچھی خاصی تنقید سامنے آئی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک طبقے یہاں کے نوآموز نوجوانوں کو ”عقیدہ“ کے نام پر باقاعدہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ سب نیک اصحاب جن کے ’قرطاسِ ابیض‘ میں کوئی نہ کوئی عقیدہ کی خرابی نشان زد کر کے دی جا سکتی ہو، وہ ازروئے شریعت نہ تو ہماری دعائے مغفرت کے مستحق رہتے ہیں، نہ اظہارِ محبت کے، اور نہ کسی قسم کے اظہارِ تحسین کے! حقیقت یہ ہے کہ اِس طرزِ فکر کا منہجِ سلف سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے قارئین جانتے ہیں، ”منہجِ سلف“کے حوالے سے پائے جانے والے ان فکری مغالطوں کے ازالہ کیلئے گاہے گاہے ہم ایقاظ میں قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ البتہ جن مواقع پر عمل سے اس کو سامنے لانا ضروری ہو اُس وقت ہم عمل سے بھی منہج اہلسنت کا اثبات اور اظہار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ امت کے بعض محسنوں کے حق میں، اُن کے ہاں عقیدہ کے بعض جھول پائے جانے کے علی الرغم، ہمارا دعائے خیر کرنا، کلماتِ تحسین کہنا، اور ان کی خدمات کو کھلے دل سے سراہنا درحقیقت منہجِ اہلسنت وسلف کی ہی تطبیق ہوتا ہے اور بفضل خدا اِس پر علمائے اہل سنت سے ہم ہزاروں شواہد پیش کر سکتے ہیں۔ ہم اِس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ کام ’رواداری‘ کی اُس ’سماجی رسم‘ کو نباہنے کیلئے کریں، جس کا مظاہرہ ہم بھی جانتے ہیں کہ یہاں عام ہوتا ہے اور جس کو ہم بھی مبغوض ہی جانتے ہیں۔ منہج اہلسنت کا یہ اپنا ہی اقتصاءنہ ہوتا تو ہم ہرگز ایسا نہ کرتے۔ اللہ رب العزت کے دین میں کسی کا کیا ’لحاظ ملاحظہ‘ ؟ البتہ وہ طرزِ فکر جو ہمارے معزز معترضین(2) کے سوالات سے عیاں ہوتا ہے، نہ تو کسی شرعی دلیل پر قائم ہے اور نہ ائمۂ اہلسنت کے تعامل سے ہی وہ اِس پر کوئی شواہد پیش کر سکتے ہیں، سوائے ائمۂ سنت کے کچھ ایسے مواقف کے جو سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کر دیے جاتے ہیں اور جن کا اگر کوئی حوالہ دے گا تو اللہ کے فضل سے ہم یقینا اُس کے پورے سیاق و سباق کو واضح کر سکتے ہیں۔
یہ تو ہوئی وضاحت اِس مسئلہ کی کہ: اسلام کے غلبہ و تمکین کیلئے سرگرم رہ چکی ایک فوت شدہ شخصیت کی اجمالی ستائش کر دینے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، اگرچہ کسی مقام پر اُسکے ہاں عقیدہ کا کوئی جھول ہی کیوں نہ پایا گیا ہو۔ قارئین جانتے ہیں ہمارے مضمون کا موضوع ایک عمومی و اجمالی تحسین ہی تھا۔ ہم ایک بار پھر دہرا دیں، اِس انداز کی اجمالی تحسین اگر شرعاً ممنوع ہے تو معترضین سے ہماری درخواست ہو گی کہ وہ اس ”ممانعت“ کی دلیل سے ہمیں آگاہ کریں۔
دوسری بات:
اصطلاحی طور پر یہ مسئلہ ”ہجر“ سے تعلق رکھتا ہے۔ ”ہجر“: یعنی مسلم معاشرے میں کسی شخص کو زجر و توبیخ کا محل ٹھہرانا۔ اُس سے دوری اور مفاصلت اختیار کر لینا اور معاشرے کے اندر اس کی قابل احترام حیثیت باقی نہ رہنے دینا۔ اصولِ اہلسنت میں ہم ہرگز یہ بات نہیں پاتے کہ ہر وہ شخص جس کی قولاً یا فعلاً کسی بدعت سے نسبت ثابت ہو جائے اُس کو فوری طور پر ہر قسم کے عزت و احترام سے فارغ اور ”ہجر“ کے قابل ٹھہرا دیا جائے اور اس کی تحسین اور ستائش کو بقیہ زمانے کیلئے ممنوع ٹھہرا دیا جائے!
اِس مسئلہ کے کئی ایک جوانب ہیں جن پر کسی اور مقام پر بات ہو سکے گی۔ تاہم یہاں جس چیز کو واضح کر نا ہم ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہجر (زجر و توبیخ، مذمت اور اسقاطِ احترام) کے معاملہ میں اہل سنت کے نزدیک ان دو اشخاص کے مابین واضح فرق کیا جاتا ہے:
- ایک وہ شخص جو ایک بدعتی قول یا اعتقاد کا محض اپنی حد تک قائل ہے
- اور دوسرا وہ شخص جو اُس بدعتی قول یا اعتقاد کی ترویج میں مصروفِ عمل ہے۔
ثانی الذکر کو ”داعیِ بدعت“ کہا جاتا ہے اور اول الذکر کو ”غیر داعیِ بدعت“۔ اب وہ شخص جو کسی فکری مغالطے کا شکار ہو جانے کے نتیجے میں کوئی ایسا قول اختیار کر بیٹھا ہے جو اپنی حقیقت میں تو واقعی بدعت اور انحراف ہے، البتہ وہ مبنی بر بدعت قول اُس شخص کا صبح شام کا اوڑھنا بچھونا نہیں، وہ اُس کی تبلیغ اور ترویج کیلئے معاشرے میں دوڑا نہیں پھرتا، لوگوں کو ا ُس کا قائل کرنے کیلئے زور نہیں لگا رہا، اُس کو اپنی دوستی و دشمنی (ولاءو براء) کی بنیاد بنا کر نہیں بیٹھا، بلکہ کوئی یہ ثابت ہی نہ کر سکتا ہو کہ اُس نے کبھی ایک بار بھی اُس کو اپنی دعوت کا حصہ بنایا ہو، جبکہ ساری دنیا جانتی ہو کہ وہ اپنے اُس مشن کو جس کو وہ واقعی اپنی ”دعوت“ کہتا ہے پھیلانے میں رات دن ایک کر چکا ہے، وہ مبنی بر بدعت قول کبھی ایک بار بھی اُس کی زبان پر ”دعوت“ کے کسی پوائنٹ کے طور پر نہ آیا ہو.... تو علمائے سنت کے اصطلاح کی رو سے اُس شخص کو ثانی الذکر صنف میں رکھا جائے گا۔ یعنی وہ ایک ایسا شخص ہے جو ہرگز کسی بدعت کا داعی نہیں، بلکہ محض اتنا ہے کہ اُس کی زبان یا اُس کی قلم سے کسی جگہ پر ایک مبنی بر بدعت عبارت صادر ہو گئی ہے، جس کے پیچھے اُس کی کچھ فکری الجھنیں ہوسکتی ہیں۔ اصولِ اہلسنت کی رو سے ہم پورے جزم اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت کو ”ہجر“ کے قابل قرار دینا اور معاشرے میں اُس کے احترام کو ساقط اور اُس کی ستائش کو ممنوع قرار دینا __ اور وہ بھی ایک ایسے وقت اور ایسے ماحول میں جہاں ایسی شخصیات کا پایا جانا بسا غنیمت ہو اور ان کا اٹھ جانا اُس ماحول کے حق میں ایک بے حد بڑا سانحہ __ اصولِ اہلسنت کی کوئی صحیح تطبیق نہیں۔ اِس کو اگر منہجِ سلف کی ترجمانی باور کیا گیا ہے تو یہ درست نہیں۔ بلکہ ہمیں یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ایسے لوگوں پر یہ بات واضح نہیں کہ اِس باب میں ائمۂ سنت کا منہج ہے کیا اور اہل سلف کا طریقۂ تعامل ایک ایسے وقت اور ماحول کیلئے تھا کیا؟
پس اِس بات کو اگر جانے بھی دیا جائے کہ وہ ماحول جس میں سنت مغلوب ہو، وہاں پر ائمۂ سنت کا طریقِ تعامل اُس ماحول کی نسبت جہاں سنت غالب و سکۂ رائج الوقت ہو، کس قدر مختلف ہوا کرتا ہے __ اور جوکہ منہج اہلسنت کی ایک نہایت اہم فصل ہے __ اگر صرف اِسی ایک بات ہی کو مد نظر رکھ لیا جائے کہ ”ہجر“ کے معاملہ میں اہلسنت کے ہاں وہ شخص جو کسی مبنی بر بدعت قول کی ترویج کر رہا ہے اور وہ شخص جو اُس قول کو محض اپنی ذات تک رکھے ہوئے ہے اور معاشرے میں اُس کی دعوت دیتا اور لوگوں سے اُس کو منواتا نہیں پھر رہا، دونوں کے مابین واضح واضح فرق کیا جاتا ہے.. صرف اِسی ایک بات کو اگر مد نظر رکھ لیا جاتا تو ’وحدۃ الوجود‘ کے عنوان سے یہاں ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم ایسی شخصیت کے خلاف تحریک(3) اٹھانے والے حضرات اپنے اِس عمل کو منہجِ سلف اور اصول اہلسنت کی فی زمانہ ترجمانی باور نہ کرتے اور ہمارے یہاں ڈاکٹر صاحب کی ایک اجمالی ستائش ہو جانے پر بھی برہم ہونا اِس قدر ضروری نہ جانتے۔
”داعیِ بدعت“ اور ”غیر داعیِ بدعت“ کے مابین تمییز کے حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اپنے ”الفتاویٰ الکبریٰ“ میں لکھتے ہیں:
والم أخذ الثانی: لما فی الدعاء اِلی البدعۃ من اِفسادِ دین الناس، ولہٰذا کان أصل ال اِمام أحمد وغیرہ من فقہاءالحدیث وعلمائہم یفرقون بین الداعی اِلی البدعۃ وغیر الداعی فی رد الشہادۃ وترک الروایۃ عنہ والصلۃ خلفہ وہجرہ، ولہٰذا ترک فی الکتب الستۃ و مسند أحمد الروایۃ عن مثل عمرو بن عبید ونحوہ ولم یترک عن القدریۃ الذین لیسوا بدعۃ۔(4) (الفتاوی الکبری ج 4 ص 603)
(بدعتی کی عقوبت کے حوالے سے) باعثِ مواخذہ دوسری بات یہ ہے کہ ”بدعت کی جانب دعوت“ دینا لوگوں کے دین میں فساد پیدا کر دینے کا موجب بنتا ہے۔ اِسی لئے امام احمد اور دیگر علماءوفقہائے حدیث کے ہاں یہ قاعدہ ٹھہرا کہ وہ بدعت کے داعی اور غیر داعی کے مابین فرق کرتے، اُس کی شہادت رد کرنے کے معاملہ میں بھی، اُس کی روایت قبول نہ کرنے کے معاملہ میں بھی، اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے معاملہ میں بھی اور اُس سے ہجر (دوری اور مفاصلت) اختیار کر لینے کے معاملہ میں بھی۔یہی وجہ ہے کہ کتب ستہ (صحاح ستہ) اور مسند احمد میں عمرو بن عبید اور اُس جیسے دیگر (داعیانِ بدعتِ قدریہ) کی روایت قبول نہیں کی گئی، جبکہ قدریہ کے اُن لوگوں کی روایت ترک نہیں کی گئی جو (اس بدعت کے) داعی نہیں“۔
غرض ایک غیر داعیِ بدعت شخصیت کے ساتھ __ خصوصاً جبکہ اسلام کیلئے اُس کی خدمات قابل تحسین ہوں __ ایک داعیِ بدعت کی نسبت مختلف برتاؤ کرنا اور بطورِ مسلم اُس کے احترام اور آبرو(5) کو ساقط نہ ٹھہرانا اہل سنت کے ہاں ایک مسلمہ امر ہے اور اہل علم و دانش کے ہاں یہ ایک معروف بات ہے۔
تیسری بات:
اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اُس قول کی سنگینی کیا ہے جو ”وحدۃ الوجود“ کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار مرحوم کے ہاں پایا گیا ہے....
قارئین جانتے ہیں، شخصیات کو موضوع بنا کر گفتگو کرنا ہمارا اسلوب نہیں۔ یہ تو ناقابل تصور ہے کہ ایسی خادمِ قرآن شخصیت کی وفات پر اُس کی زندگی بھر کی خدمات کو ہم سراہیں تک نہیں اور اُس کیلئے تحسین کے کلمات کہنے تک میں بخل سے کام لیں، اور جبکہ عمومی کلماتِ تحسین کے حوالے سے ہم پہلے پوائنٹ کے تحت پیچھے کچھ گفتگو کر آئے ہیں کہ اِس میں ہرگز کوئی حرج کی بات نہیں۔ البتہ اب اگر ہمیں اپنے اِس مضمون کی بابت کچھ سوالات اور اعتراضات موصول ہوتے ہیں تو یہ بھی ناقابل تصور ہے کہ ہم ان کا جواب دینے میں پس و پیش کریں، محض اس ڈر سے کہ اِس میں ہماری ممدوح شخصیت کے کسی اعتقاد پر گرفت ہوتی ہے! اور پھر یہ بھی ناقابل تصور ہے کہ جواب دینے کے دوران ہم کسی لاگ لپیٹ سے کام لیں اور صاف واضح بات کرنے سے پہلو بچائیں۔ اور سوال تو یہ ہے کہ کسی نیک شخصیت کی زبان یا قلم سے نکلنے والی کوئی عبارت اگر باطل ہے تو اس کو باطل کہنے میں حرج کیا ہے؟ خود ڈاکٹر صاحب مرحوم اِس معاملہ میں بے تکلفی کے ساتھ کسی بھی شخصیت کے افکار کو زیر تنقید لے آتے رہے ہیں، اور مودودی صاحب کے ساتھ شدید محبت کے باوجود مودودی صاحب کے افکار و آراءپر نہایت شدید تنقید بھی ہم نے اُن کی کئی ایک تحریروں میں بہر حال دیکھ رکھی ہے۔
یہ تمہیدی وضاحت اس لئے کہ واضح ہو، یہ موضوع ہمارا اپنا اختیار کردہ نہیں۔ ہمیں اِس پر قلم اٹھانا پڑا تو محض اس لئے کہ ڈاکٹر صاحب کی وفات پر لکھے گئے ہمارے ایک مضمون پر ہمیں پے درپے سوالات اور اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔
اِس موضوع پر ہماری معلومات کا مصدر مرحوم کی دو کتابیں ہیں: ایک ”تفسیر سورۃ الحدید“ اور دوسری ”حقیقت و اقسامِ شرک“۔ ان سب مقامات کو پڑھ کر، جو ”وحدۃ الوجود“ کے حوالے سے ان کتابوں میں بیان ہوئے، ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہاں ایک بے حد الجھا ہوا ذہن ہے اور متناقضات کو جمع کرنے کی عجیب و غریب کوشش۔ صاف بات ہے ڈاکٹر صاحب ”وحدۃ الوجود“ کو اون کرتے ہیں۔ لیکن صوفیا کے وہ طبقے جو ”وحدۃ الوجود“ کے باقاعدہ معتقد ہیں اگر آپ اُن پر ڈاکٹر صاحب کے یہ افکار پیش کریں تو ہمیں یقین ہے وہ کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب ”وحدۃ الوجود“ کے عنوان سے کچھ اور ہی بیان کر گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دو جگہ پر ابن عربی کا ہم خیال ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ”وحدۃ الوجود“ کی جو وضاحتیں کی ہیں، ہمارا نہیں خیال وہ آپ کو ابن عربی کے ہاں کہیں دیکھنے کو ملیں گی، کیونکہ ابن عربی کا کفر بے حد کھلا کفر ہے۔ خود ڈاکٹر صاحب کے قریب رہ چکی ایک صاحب علم شخصیت نے، جو کہ اب بھی اُن سے بے حد محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، ہمیں دورانِ گفتگو بتایا کہ ”ڈاکٹر صاحب ابن عربی کو بھی نہیں سمجھے ہیں اور یہ سب ڈاکٹر صاحب کی اپنی ہی فکری الجھنیں ہیں“۔ تصوف ڈاکٹر صاحب کا فیلڈ نہیں تھا مگر ڈاکٹر صاحب نے اس میں گھوڑے دوڑانے کی جو کوشش کی اس سے خود اپنے لئے کچھ پیچیدگیاں پیدا کر لیں۔ خود تصوف کے شہسوار انتہائی الجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور ہمیشہ پہیلیاں بجھواتے ہیں۔ ایک بے بنیاد عقیدہ کو دِقت اور تعین کے ساتھ بیان کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اِسی لئے جس طرح فلاسفہ میں ہر شخص اپنا ایک تصور پیش کرتا ہے اُسی طرح تصوف کے اکثر اساطین اپنا اپنا ایک تصور پیش کرتے رہے ہیں۔ ”وحدۃ الوجود“ کی تشریح اور تفہیم میں بھی آپ کو لگ بھگ اتنے ہی قول ملیں گے جتنے ”تثلیث“ کو ’ایکس پلین‘ کرنے والے طبقوں کے ہاں آپ کو مل سکتے ہیں، اور جن کی بابت امام ابن قیمؒ نے فقرہ چست کیا تھا کہ اگر آپ ایک کمرے میں تثلیث کے دس معتقدین کو ایک ایک کرکے لائیں اور ان سے کہیں کہ تثلیث کو ایکس پلین کر کے دیں، تو اگر وہ دس آدمی ہوں گے تو تثلیث کی تفسیر میں آپ کو گیارہ قول مل جائیں گے!غرض تصوف کے اساطین خود بھی الجھے ہوئے اور الجھانے والے لوگ ہوتے ہیں، تھوڑی بہت بھی فطرت سلیم ہو تو تناقضات کی بھرمار ان کے ہاں ہوتی ہے اور اس لئے ہوتی ہے کہ خدائے مالک الملک کی بابت ایک غلط بات کریں گے تو تھوڑا ہی آگے کہیں چل کر اُس کا اثر دھونے کی بھی کوشش کریں گے۔ چند قدم گمراہی کی طرف اٹھائیں گے تو خالق کی بابت اپنے اُس غلط تصور سے وحشت کھا کر چند قدم پیچھے کو بھی بھاگیں گے۔ کم ہی ہیں جو ابن عربی، تلمسانی اور ابن سبعین کی طرح ہر حد سے گزر جائیں گے اور شرک پر آخری درجے کی دلجمعی پائیں گے اور اپنی ایک واضح شرکیہ تعبیر پر یوں ڈٹ کر اور یکسو ہو کر دکھائیں گے کہ ان کی دیگر عبارتوں سے اُس پر تھوڑا بہت بھی پانی نہ پھر سکے۔ باقی اکثر پر ائمۂ سنت نے حکم نہیں لگایا تو وہ اس لئے کہ دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو رب العالمین کے وصف کی بابت تجاوزِ حد سے وحشت کھا کر ایک آدھ قدم پیچھے بھی ہٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے وہ لوگ جن میں خیر باقی ہو، ایک اضطراب اور ادھیڑ بن ان کے ہاں مسلسل رہتی ہے کیونکہ وثوق اور رسوخ صرف منہجِ سلف کا خاصہ ہے۔ نتیجتاً ان کے ہاں تناقضات کی بھر مار ہوتی ہے، اور وہ بھی ایک ہی شخص کے اپنے اقوال میں، جبکہ اشخاص مختلف ہوں پھر تو تناقضات کی حد ہی نہیں رہتی۔ پھر یہ ان تناقضات کو دور کرتے کرتے مسئلے کو ’بال سے باریک تر‘ کر لیتے ہیں، کسی کو وہ بال نظر آتا ہے اور کسی کو نہیں! البتہ دوسرا شخص جو ان کو سنتا اور پڑھتا ہے صاف دیکھتا ہے کہ یہ ’بال‘ سب سے زیادہ خود انہی پر اوجھل رہتا ہے، خصوصاً اگر کسی وقت ”وجد“ کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے، کیونکہ ”وجد“ ایک ایسی چیز دیکھی گئی ہے جس کے ساتھ اونچی اونچی فصیلیں پھلانگ جانے کا پتہ نہیں چلتا ’بال‘ کیا چیز ہے؟! خود ہی مانتے ہیں (اور یہ عبارت تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی تحریر میں بھی آئی ہے) کہ ”ہمہ اوست“ کے بدترین کافرانہ ومشرکانہ عقیدہ اور ابن عربی کے ”وحدۃ الوجود“ (جس کو یہ توحید کی معراج کہتے ہیں) دونوں کے مابین فرق بال برابر ہے!!! اف خدایا! بدترین شرک اور اعلیٰ ترین توحید میں فرق، بال برابر!!!!!؟ سبحانک ھٰذا بہتانٌ عظیم۔ جب تصوف کے بڑے بڑے شہسوار پہیلیاں بجھوانے والے دیکھے گئے ہیں اور ہمالیہ سے بلند تناقضات کو آنکھیں بند کر کے اور محض ’قوتِ یقین‘ سے پھلانگ جانے پر یقین رکھتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب اِس کوچے میں کسی کی کیا خدمت کر سکتے تھے؟! اساطینِ تصوف کو یہ سہولت رہتی ہے کہ وہ اپنے اصحاب کو خاص مراحل سے گزار کر تصوف کی منازل طے کراتے ہیں اور ہر ہر مرحلے پر ایسے لوگوں کو جو مزید آگے جانے کے قابل نہیں ’ڈراپ‘ کرتے جاتے ہیں۔ اِس لئے تناقضات کو حل کرنا ان کا مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ جہاں ایک تناقض حل نہ ہوا وہاں ’سوال‘ کی جرأت کرنے والا خود ’ڈراپ‘ ہو جاتا ہے! جب تک آدمی ’مجاز‘ نہ ہو تصوف کی چیزوں کو ہاتھ لگا ہی نہیں سکتا۔ ایک ’غیر مجاز‘ آدمی ہماری طرح تصوف پر نقد کر سکتا ہے اور اُس کو اُس کے سب تناقضات سمیت مسترد کر سکتا ہے البتہ تصوف کو اون کرتے ہوئے ”مسائل تصوف“ کو ”بیان“ کرنے اور اِس پر مرجع بننے کیلئے باقاعدہ ”اجازت“ کی ضرورت ہے۔ ”مسائل“ تو پھر بھی حل نہیں ہوتے البتہ تصوف میں آپ کا اپنا ایک سلسلہ سامنے آ جاتا ہے! چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی عبارتوں کو ہم نے بغور پڑھا ہے اور اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک غیر متصوف شخص کی ”مسائل تصوف“ میں دخل اندازی ہے جس کو سب سے پہلے شاید اہل تصوف ہی رد کر دیں۔ دیانت داری کے ساتھ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اِس موضوع پر الجھنوں اور پیچیدگیوں کا ایک پلندہ رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں چند نہایت خطرناک عبارتیں بھی پائی گئی ہیں جو کہ اپنی افتاد میں شرک ہی ہیں لیکن اصل سوال یہی ہے کہ ان عبارتوں کے مفہوم اور مضمرات کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب دوٹوک اور یکسو کس حد تک ہیں؟ مراد یہ کہ آدمی کو ایک عبارت کے الفاظ ہی نہیں اُس کے مفہوم پر بھی قائم رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ معاً ایسی تعبیرات بھی آگے پیچھے لا رہا ہو جو اُس کا وہ صاف شرکیہ مفہوم باقی نہ رہنے دیں بلکہ اُن دیگر تعبیرات کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہو کہ اِس مسئلہ سے متعلق وہ پورا تصور جو اُس کے ذہن میں ہے اُس کی نسبت کچھ اور ہے جو ہم نے اگر اُس کی محض اُن خطرناک عبارتوں ہی کو سامنے رکھا ہوتا تو یقینا نکل آتا.... تو اِس صورت میں معاملہ خاصا مختلف ہو جاتا ہے اور اُس شخص کو شرک کی فردِ جرم سے بچانے کی صورت بھی نکل آتی ہے۔ یہاں اگر ہم اُس کی اُن خطرناک عبارتوں ہی کو لے لیں گے تو یقینا اُس کا شرک ثابت کر ڈالنے میں ’کامیاب‘ ہو جائیں گے، کیونکہ اِس میں کچھ شک ہی نہیں کہ وہ کچھ نہایت خطرناک عبارتیں ہیں اور اُن کی سنگینی کو کم کرنا خود ہماری نظر میں بے حد غلط ہے، لیکن اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ اِس موضوع پر اُس شخص کا پورا تصور کیا ہے اور جو کہ اُس کے پورے بیان سے بڑی حد تک واضح ہو جاتا ہے، تو اُس کی چھوٹ کے کئی ایک امکانات بھی بہرحال سامنے آ جاتے ہیں۔ اِس صورت میں یہ تو پھر بھی کہا جائے گا کہ اِس موضوع پر اُس کے ہاں فکری الجھنوں کا ایک انبار ہے اور لا ینحل تناقضات کا پورا ایک ڈھیر ہے، اور رہیں وہ خطرناک عبارتیں تو اُن کو تو بر ملا رد کیا جائے گا اور اُس شخص کے حق میں اُس کو عقیدہ کا ایک بے حد بڑا جھول بھی مانا جائے گا.. البتہ اُس شخص کو شرک سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ اور جب شرک سے منسوب نہیں کیا جائے گا تو اُس کی نیکیوں کی قدر ہو گی، امت کیلئے اُس کی خدمات کا کھلا اعتراف کیا جائے گا اور اُن خدمات پر اُس کا شکر گزار ہوا جائے گا، اُس کی لغزشوں کیلئے خدا سے بخشش بھی مانگی جائے گی اور بطور ایک نامور مسلم شخصیت معاشرے میں اُس کا احترام بھی برقرار رکھا جائے گا۔ اُس کی حسنات کا چرچا کیا جائے گا اور سیئات سے خاموشی اختیار کر رکھی جائے گی اور یہ خاموشی صرف وہیں پر اور صرف اُسی حد تک توڑی جائے گی جہاں اُس خاموشی کا نقصان دین کے حق میں اس کے فائدہ سے زیادہ ہو۔
اختصار کے ساتھ ہم یہی عرض کر سکتے تھے، کیونکہ تفصیل میں جانے کیلئے ہمیں اُن سب عبارتوں کو ایک ایک کر کے دیکھنا پڑتا جو مرحوم کے ہاں اِس باب میں پائی گئیں۔
واللہ أعلم، و اِلیہ الأمر ، نسأل اللہَ أن یغفر لنا ولہ۔
(1) ”اپنے فوت شدگان کا ذکر مت کیا کرو مگر خیر کے ساتھ“۔ سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب النہی عن ذکر الہلکیٰ اِلا بخیر ”اس بات کا بیان کہ فوت شدگان کا ذکر خیر کے سوا ذکر نہ کیا جائے“۔ البانی نے اِس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
یہاں ہم نے ترمذی کی مشہور و زبان زد عام حدیث } اذکروا محاسن موتاکم ولا تذکروا مساوئہم”اپنے فوت شدگان کی خوبیان بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان نہ کرو“ { ذکر نہیں کی کیونکہ محدثین کی ایک تعداد بشمول البانیؒ نے اُس کو ضعیف کہا ہے، گو معنیٰ کے اعتبار سے یہ بھی اس کے قریب قریب مفہوم رکھتی ہے۔ تاہم نسائی کی مذکورہ بالا حدیث ان محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔
نسائی کی اِس حدیث کی شرح میں سیوطیؒ، امام نوویؒ کے حوالہ سے اس بات کا بھی جواب دیتے ہیں کہ کیوں ایک دوسری حدیث میں، جہاں لوگوں نے کسی فوت شدہ کا ذکرِ بد کیا تو آپ نے فرمایا: اُس کیلئے جہنم لازم ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اُس کا برا تذکرہ کرنے دیا؟ سیوطیؒ لکھتے ہیں:
” نوویؒ نے اسکا یہ جواب دیا ہے کہ ذکرِ بد کی ممانعت کا حکم اُن فوت شدگان کے حق میں ہے جو منافق یا کافر نہیں، یا جو فسق یا بدعت کو عام کرنے والے نہیں۔ رہ گئیں یہ اصناف (یعنی منافق یا کافر یا فسق اور بدعت کو عام کرنے والے) تو ان کا ذکرِ بد کرنا منع نہیں۔ تاکہ ان کے راستے سے لوگوں کو خبردار کیا جا سکے، اور ان کے چھوڑے ہوئے آثار اور ان کے اختیار کردہ اخلاق سے بھی مخلوق کو متنبہ کیا جا سکے۔ لہٰذا اُس دوسری حدیث کو اِس بات پر محمول کیا جائے گا کہ جس شخص کا صحابہؓ نے برا تذکرہ کیا تھا وہ نفاق وغیرہ کی شہرت رکھتا ہو گا“۔
نوویؒ نے جو الفاظ بولے ہیں وہ ہیں المتظاہر بالبدعۃ۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جس کی وجہِ شہرت ہی بدعتی ہونا ہو۔
(2) یہاں ہم صرف اُن ”معترضین“ کا ذکر کر رہے ہیں جو ڈاکٹر اسرار مرحوم ایسی کسی نیک شخصیت کی ”اجمالی تحسین“ پر معترض ہوتے ہیں، یعنی انکا کہنا ہے کہ خوبیاں بیان کیں تو ساتھ خامیاں کیوں ذکر نہیں کیں! ورنہ خیر سے ایسے طبقے بھی کم نہیں جو صرف اور صرف ’خامیاں‘ بیان کرنے کے ہی روادار نظر آئیں گے! بلکہ اِسی کو ”منہجِ سلف“ بھی قرار دیں گے!!! یقینا یہاں آپ کچھ ایسے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو ’صرف خوبیاں‘ بیان ہوتی دیکھیں تو اس کو ’غیر متوازن طرزِ عمل‘ قرار دیں گے، کیونکہ ان کے خیال میں ’برائیاں‘ بھی ساتھ بیان ہونی چاہئیں تھیں تاکہ ایک ’متوازن‘ تصویر سامنے آتی! البتہ اگر کہیں پر ایسا پائیں کہ اس شخصیت کی ’صرف برائیاں‘ بیان ہو رہی ہیں اور اسکی غلطیوں کی نشاندہی پر ہی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا گیا ہے تو چہک اٹھیں گے! یعنی ’صرف برائیاں‘ بیان ہوں تو ہرگز معترض نہ ہوں گے نیز اس کو ’توازن‘ کے منافی بھی ہرگز قرار نہ دیں گے بلکہ’بیانِ حق‘ پر ہی محمول کریں گے! صرف یہی نہیں، بلکہ جتنی کوئی شخصیت سنت کے زیادہ قریب ہو اتنا ہی اُس کے اندر کیڑے نکالنے کی ضرورت ان لوگوں کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہو گی۔ اِس وقت برصغیر کی جو شخصیت سب سے زیادہ اِن لوگوں کی مشق ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور جس کا ’زندہ گوشت‘ کھانا ان کا من پسند مشغلہ ہے وہ ہے ذاکر نائیک۔ یہ وہ شخصیت ہے جس سے دنیا بھر کے ہندو اور عیسائی اُس قدر آزردہ نہ ہوں گے جتنا کہ ’سنت‘ اور ’سلف‘ کے نام لیوا یہ طبقے! انٹرنیٹ کی دنیا سے واقف اصحاب، ایسے ویب سائٹوں سے یقینا آگاہ ہوں گے۔ اسلام کی نصرت کیلئے کسی شخصیت کا جتنا بڑا کردار، اتنا ہی وہ جرح وتعدیل کے ان شہسواروں کے ہاں مبغوض!!! صبح شام اِن لوگوں پر آپ ایک ہی لگن طاری دیکھیں گے؛ یہاں کے تحریکی و جہادی حلقوں اور ان کی قیادتوں کی غلطیوں پر کسی شکاری کی طرح جھپٹنا، ان کی ساکھ اور آبرو کو نہایت بے رحمی کے ساتھ بھنبھوڑنا، ان کی لغزشوں کو پورے جہان میں نشر کرنااور ان کی خطاؤں کی جس قدر طویل ہو سکے ایک فہرست دستیاب رکھنا اور ہر لحظہ اس کو ’اپ ڈیٹ‘ کرنے کی فکر سے سرشار رہنا!!! سنی شخصیات کی جرح وتعدیل (جس کو صرف ’جرح‘ کہا جائے تو صحیح تر ہو گا) کا یہ بھی ایک اسلوب ہے جس کی بابت پورے زور و شور کے ساتھ دعویٰ ہو رہا ہے کہ یہی ’اصلی اہلسنت‘ منہج ہے! فحسبنا اللہ ونعم الوکیل۔
(3) ہاں کسی علمی حلقہ یا کسی علمی مجلے میں اِس موضوع پر کوئی سرسری گفتگو ہو جانا باعث حرج نہیں۔ کیونکہ علمی مجلسوں میں ہر شخصیت کے افکار ہی کو موضوعِ بحث بنایا جا سکتا ہے۔ خود ہمارے یہاں اِس پر گفتگو ہونا اِسی باب سے ہے۔
(4) انٹر نیٹ پر الفتاویٰ الکبریٰ مؤلفہ امام ابن تیمیہ کی مذکورہ عبارت ملاحظہ کرنے کیلئے:
http://arabic.islamicweb.com/Books/taimiya.asp?book=1003&id=2205
(5) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعِرْضُہ
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)
”مسلمانوں پر حرام ہے ایک دوسرے کا خون، ایک دوسرے کا مال اور ایک دوسرے کی آبرو“
اِس حدیث کی رو سے: اصل یہی ہے کہ ایک مسلمان کی آبرو پر اعتداءحرام ہے۔ جہاں آپ کسی مسلمان کا احترام ساقط ٹھہرائیں گے، وہاں اُس کیلئے آپ کے پاس الگ سے دلیل ہونی چاہیے۔